تازہ پانی کا سب سے بڑا قدرتی ذخیرہ فنا کے خطرے سے دوچار
کینڈرا پیئری لوئیس
دنیا کا 60 سے 90فی صد تک تازہ پانی برِ اعظم انٹارکٹیکا کی برفانی تہوں میں منجمد ہے۔ برِ اعظم انٹارکٹیکا کا رقبہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور میکسیکو کے مجموعی رقبے کے برابر ہے۔ اگر یہاں موجود ساری برف پگھل جائے تو دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح 200 فٹ اونچی ہو جائے گی۔ انٹارکٹیکا کی برف شب بھر میں نہیں پگھلے گی لیکن بلاشبہ وہ پگھل رہی ہے اور جریدہ ’’نیچر‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2007ء سے انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی شرح میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔سائنس دان کہتے ہیں اب اس برِ اعظم کی برف اس قدر تیزی سے پگھل رہی ہے کہ 2100ء تک دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح پندرہ سینٹی میٹر (چھ انچ) اونچی ہو جائے گی۔ ’’انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج‘‘ کے تخمینے کے مطابق اس صدی کے اختتام تک صرف انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے سے دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں ہونے والا یہ سب سے زیادہ امکانی اضافہ ہے۔ یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر آف ارتھ آبزرویشن ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’بروکلین میں سال میں ایک دفعہ سیلاب آتا ہے۔ اگر سمندروں کے پانی کی سطح 15سینٹی میٹر اونچی ہو گئی تو یہاں سال میں 20دفعہ سیلاب آیا کرے گا۔‘‘ اب تو صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ معمول کے حالات میں بھی انٹارکٹیکا کا منظر مسلسل تبدیل ہو رہا ہے کیوں کہ گلیشیئر ٹوٹ رہے ہیں، برف باری کے بعد سطح پر پڑی ہوئی برف فوراً ہی پگھل رہی ہے اور گلیشیئروں میں گہرے گڑھے بن رہے ہیں، جنھیں ’’مولین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت تشویش انگیز امر ہے لیکن جو چیز سائنس دانوں کو زیادہ تشویش میں مبتلا کر رہی ہے، وہ ہر سال جمع ہونے والی برف اور پگھل جانے والی برف کے توازن کا بگڑنا ہے۔ 1992ء سے 2017ء تک کے عرصے میں انٹارکٹیکا کی تیس کھرب ٹن برف پگھل چکی ہے۔ اس کے باعث دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح تقریباً 0.12انچ اونچی ہو چکی ہے۔ یہ اضافہ زیادہ نہیں لگتا لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس اضافے کا 40فی صد 2012ء سے 2017ء کے صرف پانچ برسوں کے دوران واقع ہوا ہے۔ صرف انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے سے سمندروں کے پانی کی سطح اونچی نہیں ہو رہی بلکہ گرین لینڈ کا بھی اس میں حصہ ہے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2011ء سے 2014ء کے درمیانی عرصے میں گرین لینڈ کی تقریباً 10کھرب ٹن برف پگھلی۔ چوں کہ سمندر بھی گرم ہو رہے ہیں، اس لیے پانی کی سطح میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ زیادہ رقبہ بھی گھیر رہے ہیں۔ برف پگھلنے اور سمندروں کے گرم ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان مختلف طریقوں سے ایسی گیسیں فضا میں شامل کر رہے ہیں، جن کی وجہ سے کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی گیسوں کو اصطلاحاً ’’گرین ہاؤس گیسز‘‘ کہا جاتا ہے۔ محولہ بالا تحقیقی رپورٹ انٹارکٹیکا کے مختلف خِطوں کی برف پگھلنے میں پائے جانے والے فرق کے باعث پیدا ہونے والا غیر یقینی پن بھی دور کرتی ہے۔ یہ بات تو کچھ عرصے سے سب کو معلوم ہے کہ مغربی انٹارکٹیکا اور جزیرہ نمائے انٹارکٹیکا، جو جنوبی امریکا تک پہنچتا ہے، اپنی برف کھو رہے ہیں، تاہم مشرقی انٹارکٹیکا کی صورتِ حال قدرے دھندلی ہے کیوں کہ اس کے بعض حصوں میں برف کی تہیں پگھل رہی ہیں جب کہ بعض حصوں میں برف کی تہیں مزید موٹی ہوتی جا رہی ہیں۔
مشرقی انٹارکٹیکا کچھ عرصہ اُن لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا، جو کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے کی سائنس کو نہیں مانتے۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ایک جیالوجسٹ ڈاکٹر مائیکل کوپس کہتے ہیں، ’’بہت سے ایسے لوگ جو آب و ہوا کی تبدیلی میں دل چسپی نہیں رکھتے، ان کا کہنا ہے کہ مشرقی انٹارکٹیکا کی برف کی تہ حقیقت میں موٹی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ڈاکٹر مائیکل کوپس نے کہا کہ مشرقی انٹارکٹیکا برِ اعظم انٹارکٹیکا کے دو تہائی حصے پر مشتمل ہے اور دنیا کے اِس دور افتادہ ترین علاقے کا بھی دور افتادہ حصہ ہے، جہاں اعداد و شمار بہت کم دستیاب ہیں کیوں کہ اس علاقے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی پیمائش کرنے والے مراکز بہت کم ہیں۔ محققین کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کے رقبے کے برابر رقبے والے اس علاقے میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہت تھوڑے اعداد و شمار کے ذریعے ہی اندازے لگانا پڑتے ہیں، جس کے باعث ٹھیک ٹھیک تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ محولہ تحقیق کے دوران ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے اسّی (80) سے زیادہ محققین نے 1990ء کے عشرے سے لے کر تحقیق کے وقت تک سیٹلائٹس سے کی جانے والی درجن بھر مختلف پیمائشوں کا ڈیٹا استعمال کیا۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’ہم نے مختلف سیٹلائٹس اور تیکنیکیں استعمال کر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافے کی مقدار کا تعین کیا کیوں کہ مختلف طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں تھیں۔ ہم نے یہ جانا کہ ہم تمام دستیاب پیمائشوں کو ملا کر انفرادی تیکنیکوں کے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔‘‘ محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مشرقی انٹارکٹیکا کی برف اتنی تیزی سے نہیں پگھل رہی جتنی تیزی سے مغربی انٹارکٹیکا اور جزیرہ نمائے انٹارکٹیکا کی برف پگھل رہی ہے۔ بہر حال برِ اعظم انٹارکٹیکا کی برف کی تہیں پگھل رہی ہیں اور دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ اور ان کی ٹیم نے پانچ سال پہلے بھی پچھلے بیس برسوں کے اعداد و شمار استعمال کرتے ہوئے اسی طرح تجزیہ کیا تھا لیکن اس کے سوا کچھ کہنے سے قاصر رہے تھے کہ انٹارکٹیکا تیزی سے اپنی برف سے محروم ہو رہا ہے۔ انھوں نے انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی شرح تب دریافت کی، جب انھوں نے دوسری مرتبہ تجزیہ کرتے ہوئے مزید پانچ برس کے اعداد و شمار سے بھی استفادہ کیا۔ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’ اب ہم دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں تو واقعی دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے پہلے جو کچھ دیکھا تھا، اشارے اُس سے مختلف ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کے باعث سمندروں کے پانی کی سطح میں ہونے والے اضافے کی شرح 2012ء سے تین گنازیادہ ہو چکی ہے۔
کرۂ ارض کا مشاہدہ کرنے والے سیٹلائٹس میں بہتری کے باعث محققین قطبی خِطوں کو زیادہ بہتر سمجھنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ بہت سے محققین کا خیال تھا کہ کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے سے قطبی خِطوں کی برف میں اضافہ ہو گا کیوں کہ زیادہ درجۂ حرارت فضا میں نمی کے بڑھنے کا باعث بنتا ہے، جس کی وجہ سے بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور ان کا خیال تھا کہ اسی طرح قطبین میں برف باری بھی زیادہ ہو گی۔ سیٹلائٹس سے کیے جانے والے براہِ راست مشاہدے نے ان کا خیال غلط ثابت کر دیا۔ بہر حال ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ جیسے محققین اس خدشے کے شکار ہیں کہ مستقبل میں سیٹلائٹس سے معلومات کا حصول مشکل ہو گا کیوں کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے بجٹ میں کرۂ ارض کے مشاہدے کے بعض پروگراموں میں تخفیف کر دی ہے۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ نے کہا، ’’ہم نا صرف برف کی تہوں کے پگھلنے بلکہ اس کے باعث سمندروں کی سطح میں ہونے والے اضافے کی پیمائش کے لیے بھی سیٹلائٹس سے حاصل شدہ اعداد و شمار سے استفادہ کرتے ہیں۔‘‘ سیٹلائٹس سے کیے گئے مشاہدے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کے اسباب کیا ہیں۔ ڈاکٹر مائیکل کوپس نے بتایا، ’’یہ تحقیق واضح کرتی ہے کہ برف کی تہ کے کنارے زیادہ پگھل رہے ہیں۔ اس جگہ برف کی تہ اور سمندر آپس میں ملتے ہیں۔ گرم سمندر برف پگھلا رہے ہیں۔ سمندر برف کو اتنی تیزی سے پگھلا رہے ہیں کہ ہوا میں بھی کوئی چیز اتنی تیزی سے تبدیلی نہیں لا رہی۔ یہ ایسی قوتیں ہیں جنھیں روکنا آسان نہیں۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
کینڈرا پیئری لوئیس
دنیا کا 60 سے 90فی صد تک تازہ پانی برِ اعظم انٹارکٹیکا کی برفانی تہوں میں منجمد ہے۔ برِ اعظم انٹارکٹیکا کا رقبہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور میکسیکو کے مجموعی رقبے کے برابر ہے۔ اگر یہاں موجود ساری برف پگھل جائے تو دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح 200 فٹ اونچی ہو جائے گی۔ انٹارکٹیکا کی برف شب بھر میں نہیں پگھلے گی لیکن بلاشبہ وہ پگھل رہی ہے اور جریدہ ’’نیچر‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2007ء سے انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی شرح میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔سائنس دان کہتے ہیں اب اس برِ اعظم کی برف اس قدر تیزی سے پگھل رہی ہے کہ 2100ء تک دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح پندرہ سینٹی میٹر (چھ انچ) اونچی ہو جائے گی۔ ’’انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج‘‘ کے تخمینے کے مطابق اس صدی کے اختتام تک صرف انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے سے دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں ہونے والا یہ سب سے زیادہ امکانی اضافہ ہے۔ یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر آف ارتھ آبزرویشن ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’بروکلین میں سال میں ایک دفعہ سیلاب آتا ہے۔ اگر سمندروں کے پانی کی سطح 15سینٹی میٹر اونچی ہو گئی تو یہاں سال میں 20دفعہ سیلاب آیا کرے گا۔‘‘ اب تو صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ معمول کے حالات میں بھی انٹارکٹیکا کا منظر مسلسل تبدیل ہو رہا ہے کیوں کہ گلیشیئر ٹوٹ رہے ہیں، برف باری کے بعد سطح پر پڑی ہوئی برف فوراً ہی پگھل رہی ہے اور گلیشیئروں میں گہرے گڑھے بن رہے ہیں، جنھیں ’’مولین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت تشویش انگیز امر ہے لیکن جو چیز سائنس دانوں کو زیادہ تشویش میں مبتلا کر رہی ہے، وہ ہر سال جمع ہونے والی برف اور پگھل جانے والی برف کے توازن کا بگڑنا ہے۔ 1992ء سے 2017ء تک کے عرصے میں انٹارکٹیکا کی تیس کھرب ٹن برف پگھل چکی ہے۔ اس کے باعث دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح تقریباً 0.12انچ اونچی ہو چکی ہے۔ یہ اضافہ زیادہ نہیں لگتا لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس اضافے کا 40فی صد 2012ء سے 2017ء کے صرف پانچ برسوں کے دوران واقع ہوا ہے۔ صرف انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے سے سمندروں کے پانی کی سطح اونچی نہیں ہو رہی بلکہ گرین لینڈ کا بھی اس میں حصہ ہے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2011ء سے 2014ء کے درمیانی عرصے میں گرین لینڈ کی تقریباً 10کھرب ٹن برف پگھلی۔ چوں کہ سمندر بھی گرم ہو رہے ہیں، اس لیے پانی کی سطح میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ زیادہ رقبہ بھی گھیر رہے ہیں۔ برف پگھلنے اور سمندروں کے گرم ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان مختلف طریقوں سے ایسی گیسیں فضا میں شامل کر رہے ہیں، جن کی وجہ سے کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی گیسوں کو اصطلاحاً ’’گرین ہاؤس گیسز‘‘ کہا جاتا ہے۔ محولہ بالا تحقیقی رپورٹ انٹارکٹیکا کے مختلف خِطوں کی برف پگھلنے میں پائے جانے والے فرق کے باعث پیدا ہونے والا غیر یقینی پن بھی دور کرتی ہے۔ یہ بات تو کچھ عرصے سے سب کو معلوم ہے کہ مغربی انٹارکٹیکا اور جزیرہ نمائے انٹارکٹیکا، جو جنوبی امریکا تک پہنچتا ہے، اپنی برف کھو رہے ہیں، تاہم مشرقی انٹارکٹیکا کی صورتِ حال قدرے دھندلی ہے کیوں کہ اس کے بعض حصوں میں برف کی تہیں پگھل رہی ہیں جب کہ بعض حصوں میں برف کی تہیں مزید موٹی ہوتی جا رہی ہیں۔
مشرقی انٹارکٹیکا کچھ عرصہ اُن لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا، جو کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے کی سائنس کو نہیں مانتے۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ایک جیالوجسٹ ڈاکٹر مائیکل کوپس کہتے ہیں، ’’بہت سے ایسے لوگ جو آب و ہوا کی تبدیلی میں دل چسپی نہیں رکھتے، ان کا کہنا ہے کہ مشرقی انٹارکٹیکا کی برف کی تہ حقیقت میں موٹی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ڈاکٹر مائیکل کوپس نے کہا کہ مشرقی انٹارکٹیکا برِ اعظم انٹارکٹیکا کے دو تہائی حصے پر مشتمل ہے اور دنیا کے اِس دور افتادہ ترین علاقے کا بھی دور افتادہ حصہ ہے، جہاں اعداد و شمار بہت کم دستیاب ہیں کیوں کہ اس علاقے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی پیمائش کرنے والے مراکز بہت کم ہیں۔ محققین کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کے رقبے کے برابر رقبے والے اس علاقے میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہت تھوڑے اعداد و شمار کے ذریعے ہی اندازے لگانا پڑتے ہیں، جس کے باعث ٹھیک ٹھیک تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ محولہ تحقیق کے دوران ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے اسّی (80) سے زیادہ محققین نے 1990ء کے عشرے سے لے کر تحقیق کے وقت تک سیٹلائٹس سے کی جانے والی درجن بھر مختلف پیمائشوں کا ڈیٹا استعمال کیا۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’ہم نے مختلف سیٹلائٹس اور تیکنیکیں استعمال کر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافے کی مقدار کا تعین کیا کیوں کہ مختلف طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں تھیں۔ ہم نے یہ جانا کہ ہم تمام دستیاب پیمائشوں کو ملا کر انفرادی تیکنیکوں کے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔‘‘ محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مشرقی انٹارکٹیکا کی برف اتنی تیزی سے نہیں پگھل رہی جتنی تیزی سے مغربی انٹارکٹیکا اور جزیرہ نمائے انٹارکٹیکا کی برف پگھل رہی ہے۔ بہر حال برِ اعظم انٹارکٹیکا کی برف کی تہیں پگھل رہی ہیں اور دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ اور ان کی ٹیم نے پانچ سال پہلے بھی پچھلے بیس برسوں کے اعداد و شمار استعمال کرتے ہوئے اسی طرح تجزیہ کیا تھا لیکن اس کے سوا کچھ کہنے سے قاصر رہے تھے کہ انٹارکٹیکا تیزی سے اپنی برف سے محروم ہو رہا ہے۔ انھوں نے انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی شرح تب دریافت کی، جب انھوں نے دوسری مرتبہ تجزیہ کرتے ہوئے مزید پانچ برس کے اعداد و شمار سے بھی استفادہ کیا۔ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’ اب ہم دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں تو واقعی دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے پہلے جو کچھ دیکھا تھا، اشارے اُس سے مختلف ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کے باعث سمندروں کے پانی کی سطح میں ہونے والے اضافے کی شرح 2012ء سے تین گنازیادہ ہو چکی ہے۔
کرۂ ارض کا مشاہدہ کرنے والے سیٹلائٹس میں بہتری کے باعث محققین قطبی خِطوں کو زیادہ بہتر سمجھنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ بہت سے محققین کا خیال تھا کہ کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے سے قطبی خِطوں کی برف میں اضافہ ہو گا کیوں کہ زیادہ درجۂ حرارت فضا میں نمی کے بڑھنے کا باعث بنتا ہے، جس کی وجہ سے بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور ان کا خیال تھا کہ اسی طرح قطبین میں برف باری بھی زیادہ ہو گی۔ سیٹلائٹس سے کیے جانے والے براہِ راست مشاہدے نے ان کا خیال غلط ثابت کر دیا۔ بہر حال ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ جیسے محققین اس خدشے کے شکار ہیں کہ مستقبل میں سیٹلائٹس سے معلومات کا حصول مشکل ہو گا کیوں کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے بجٹ میں کرۂ ارض کے مشاہدے کے بعض پروگراموں میں تخفیف کر دی ہے۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ نے کہا، ’’ہم نا صرف برف کی تہوں کے پگھلنے بلکہ اس کے باعث سمندروں کی سطح میں ہونے والے اضافے کی پیمائش کے لیے بھی سیٹلائٹس سے حاصل شدہ اعداد و شمار سے استفادہ کرتے ہیں۔‘‘ سیٹلائٹس سے کیے گئے مشاہدے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کے اسباب کیا ہیں۔ ڈاکٹر مائیکل کوپس نے بتایا، ’’یہ تحقیق واضح کرتی ہے کہ برف کی تہ کے کنارے زیادہ پگھل رہے ہیں۔ اس جگہ برف کی تہ اور سمندر آپس میں ملتے ہیں۔ گرم سمندر برف پگھلا رہے ہیں۔ سمندر برف کو اتنی تیزی سے پگھلا رہے ہیں کہ ہوا میں بھی کوئی چیز اتنی تیزی سے تبدیلی نہیں لا رہی۔ یہ ایسی قوتیں ہیں جنھیں روکنا آسان نہیں۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)