Friday, June 15, 2018

بھارت میں زنا بالجبر کی وارداتیں: مودی کے نام 50سابق کلیدی بیوروکریٹس کا کھلا خط

 بھارت میں زنا بالجبر کی وارداتیں: مودی کے نام 50سابق کلیدی بیوروکریٹس کا کھلا خط

یہ اُس کھلے خط کا متن ہے جو ہم 50ریٹائرڈ سِول سروینٹ میڈیا کے ذریعے عزت مآب وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بھیج رہے ہیں۔
ہم ریٹائرڈ سِوِل سروینٹس نے اپنے ملک کے آئین میں محفوظ تقدس کی حامل جمہوری، سیکولر اور لبرل اقدار کے زوال پر اپنی فکر و تشویش کے اظہار کے لیے پچھلے سال یہ گروپ تشکیل دیا تھا۔ موجودہ حکومت نے بڑی عیاری سے بتدریج بھارت میں نفرت،خوف اور شیطانیت کا جو ماحول طاری کر دیا ہے، اس کے خلاف بلند کی جانے والی دوسری احتجاجی آوازوں میں اپنی آواز ملانے کے لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ ہم نے اُس وقت بھی آواز اٹھائی تھی اور ہم آج بھی آواز اٹھا رہے ہیں ۔۔۔ ایسے شہریوں کی حیثیت سے جن کا تعلق نہ تو کسی سیاسی جماعت سے ہے اور نہ ہی جو کسی سیاسی نظریے کے ماننے والے ہیں۔ ہمارا سروکار صرف اُن اقدار سے ہے جنھیں ہمارے آئین میں تقدس دیا گیا ہے۔
ہمیں امید تھی کہ آپ (نریندر مودی) نے آئین پر عمل کرنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے اس لیے حکومت، جس کے آپ سربراہ ہیں اور وہ جماعت، جس سے آپ کا تعلق ہے، خطرناک زوال پر خوابِ غفلت سے جاگ اٹھیں گے، برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور سب کو، بالخصوص اقلیتوں اور معاشرے کے کم زور طبقات کو یقین دلائیں گے کہ انھیں اپنی جان اور آزادی کے کھو جانے کے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ افسوس یہ امید خاک میں ملا دی گئی۔ اس کی بجائے کٹھوعہ اور اُنّاؤ میں ہونے والے واقعات کی دہشت نے ہمیں دم بخود کر ڈالا۔ ان واقعات سے عیاں ہوا کہ حکومت وہ بنیادی ذمہ داریوں ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جو عوام نے اسے سونپی تھیں۔ دوسری طرف اپنے اخلاقی، روحانی اور ثقافتی ورثے پر فخر کرنے والی قوم اور تحمل و برداشت، مظلوموں کے لیے دردمندی اور بھائی چارے جیسی مہذبانہ اقدار کو اپنا تہذیبی اثاثہ سمجھنے والے معاشرے کی حیثیت سے ہم بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ ہندووں کے نام پر ایک انسان کی دوسرے انسان کے خلاف بربریت و درندگی کو برقرار رکھ کر ہم انسان ہونے کی حیثیت میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
ایک آٹھ سالہ بچی کو جس وحشت اور درندگی سے زنا بالجبر کے بعد قتل کیا گیا، اس سے عیاں ہوا کہ ہم اخلاقی زوال کی عمیق ترین کھائی میں گر چکے ہیں۔ بھارت کی آزادی کے بعد یہ اِس کی تاریخ کا تاریک ترین وقت ہے اور اس اخلاقی زوال پر ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کا ردِ عمل ناکافی اورکمزور ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہمیں سرنگ کے آخری سِرے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی اور شرم سے ہمارے سر جھکے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس باعث بھی انتہائی شرم محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے نوجوان رفقائے کار، جو اس وقت بھی ملازمت کر رہے ہیں خصوصاً ان اضلاع میں جہاں یہ خوف ناک واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ کم زور اور بے بس افراد کا خیال رکھیں اور ان کا تحفظ کریں، وہ بھی اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
محترم وزیرِ اعظم! ہم نے صرف اجتماعی شرم کے اظہار کے لیے اور تہذیبی اقدار کو فنا کر دیے جانے پر اپنے کرب اور درد و غم کے اظہار کرنے اور سوگ منانے کے لیے ہی آپ کو خط نہیں لکھا بلکہ ہم نے یہ خط اپنے شدید غصے اور اشتعال کے اظہار کے لیے لکھا ہے۔ ہمیں آپ کی جماعت اور اس کی بے شمار شاخوں کے تقسیم و تفریق اور نفرت کے ایجنڈے پر شدید غصہ ہے۔ آپ کی جماعت کی وقتا فوقتاً ابھر آنے والی اکثر شاخیں خفیہ ہوتی ہیں۔ آپ کی جماعت اور اس کی ان گنت شاخوں نے تقسیم و تفریق اور نفرت کا یہ ایجنڈا ہماری سیاست کی گرامر، ہماری سماجی و ثقافتی زندگی اور حد تو یہ ہے کہ ہمارے روزمرہ کے بیانیے میں بڑی عیاری سے بتدریج متعارف کروایا ہے۔ اسی باعث کٹھوعہ اور اناؤ جیسے شرم ناک واقعات کو سماجی قبولیت اور جواز ملا ہے۔
جموں کے شہر کٹھوعہ میں سَنگھ پری وار (راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ کے ارکان کی قائم کردہ انتہا پسند ہندو تنظیموں) نے ہندو اکثریت کی جنگجویانہ اور جارحانہ ثقافت کو فروغ دیا ہے جس نے ہندو اکثریت کے جنونی فرقہ پرست عناصر کو اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر عمل کرنے کی جرأت دی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی اعتبار سے طاقتور افراد اور ہندووں اور مسلمانوں میں شدید ترین نفرت و عداوت پیدا کر کے حکومت حاصل کرنے والے لوگ ان کی تائید و حمایت کریں گے۔ اتر پردیش کے قصبے اُنّاؤ میں ووٹ اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کی غرض سے بدترین پدرسری جاگیردار مافیا ڈانوں پر انحصار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنی شخصی طاقت دکھانے کے لیے زنا بالجبر اور قتل اور بھتہ خوری کی آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ طاقت اور اختیار و اقتدار کے اس گھناؤنے استعمال سے بھی بدتر امر یہ ہے کہ ریاستی حکومت زنا بالجبر اور قتل کے مبینہ ملزموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی بجائے زنا بالجبر کا نشانہ بننے والی بچی اور اس کے مظلوم خاندان کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ حکومت کس قدر بے راہ روی اور کج روی کی شکار ہو چکی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اتر پردیش کی حکومت تب جا کر حرکت میں آئی جب ہائی کورٹ نے اسے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا حکم دیا۔ اس سے حکومت کی منافقت اور ملزموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اس کی نیم دلی عیاں ہے ۔
محترم وزیرِ اعظم! یہ دونوں واقعات جن ریاستوں میں رونما ہوئے وہاں آپ کی جماعت برسرِ اقتدار ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری نیز جماعت پر آپ اور جماعت کے صدر کے کنٹرول کے تناظر میں اس دہشت انگیز اور ہول ناک صورتِ حال کے سب سے زیادہ ذمہ دار آپ قرار پاتے ہیں۔ آپ نے اپنی ذمہ داری نبھانے اور تلافی کرنے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی اور اپنے ہونٹوں پر لگا چپ کا تالا صرف اس وقت توڑاجب بھارتی عوام اور بین الاقوامی برادری کا غصہ اس سطح تک پہنچ گیا کہ آپ اسے مزید نظر انداز کرنے کے قابل ہی نہیں رہے تھے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ آپ نے واقعے کی مذمت تو کی اور شرم کا اظہار تو کیا لیکن ایسے دہشت انگیز واقعات کا سبب بننے والی ہندو انتہا پسندی کی مذمت بالکل نہیں کی اور نہ ہی نفرت کو پروان چڑھانے والے سماجی، سیاسی اور انتظامی حالات تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اب ہم اس طرح تاخیر سے پیش کی جانے والی تاویلوں اور انصاف کرنے کے جھوٹے وعدوں کو مزید برداشت نہیں کر سکتے جب کہ سَنگھ پری وار کی پروردہ طاقتیں مذہبی انتہا پسندی کی بھٹی مسلسل بھڑکا رہی ہیں۔
محترم وزیرِ اعظم! یہ دو واقعات عام جرائم نہیں جن کے باعث ہمارے معاشرے کے سماجی اور اخلاقی وجود پر لگنے والے زخم وقت گزرنے کے ساتھ بھر جائیں گے اور گلشن کا کاروبار ایک بار پھر معمول کے مطابق چلنے لگے گا۔ ایسا نہیں ہونے والا۔ یہ وجودی بحران کی گھڑی ہے، ایک ہم ترین موڑ ہے ۔۔۔ اب حکومت جس انداز سے ردِ عمل کرے گی وہ اس امر کا تعین کرے گا کہ ہم ایک قوم اور ایک جمہوریہ کی حیثیت سے آئینی اقدار، حکمرانی اور اپنے اخلاقی نظام کے بحران پر قابو پانے کے اہل ہیں کہ نہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم آپ سے درجِ ذیل اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں:
* اناؤ اور کٹھوعہ میں مظلوموں کے اہلِ خانہ سے جا کر ملیں اور ہم سب کی طرف سے ان سے معافی مانگیں۔
* کٹھوعہ والے واقعے کے ملزموں کو جلد از جلد سزا دلوائیں اور اناؤ والے واقعے میں مزید تاویلات پیش کرنے کی بجائے عدالت کے ذریعے خصوصی تفتیشی ٹیم بنوائیں۔
* ان معصوم بچیوں اور نفرت کے جذبے کے زیرِ اثر کیے جانے والے جرائم کے شکار بننے والے تمام لوگوں کی یاد میں اس عہد کا احیا کریں کہ مسلمانوں، دلتوں، دوسری اقلیتوں، خواتین اور بچوں کو خصوصی تحفظ دیا جائے گا تاکہ انھیں اپنی جان اور آزادی کے حوالے سے مزید خوف نہ رہے نیز یہ عہد کریں کہ انھیں لاحق ہر خطرہ ریاست کی پوری طاقت استعمال کر کے مٹا ڈالا جائے گا۔
* نفرت کے جذبے کے تحت کیے جانے والے جرائم اور نفرت آمیز تقریریں کرنے والے ہر شخص کو حکومتی عہدوں سے ہٹا دیں۔
* نفرت کے جذبے کے زیرِ اثر کیے جانے والے جرائم کو سماجی، سیاسی اور انتظامی اعتبار سے ختم کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کے لیے ایک کُل جماعتی اجلاس بلائیں۔
اگرچہ بہت تاخیر سے کیے جانے والے ان اقدامات کا فائدہ بہت کم ہو گا لیکن اس سے یہ احساس تھوڑا بہت بحال ہو گا کہ ملک کا نظام کسی حد تک اب بھی قائم ہے اور امید پیدا ہو گی کہ انارکی ختم کی جا سکتی ہے۔ ہم امید میں جی رہے ہیں۔

(بشکریہ دی ہندو؛  ترجمہ: محمد احسن بٹ)

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...