Wednesday, June 6, 2018

دنیا پر امریکا کے غلبے کی تاریخ

دنیا پر امریکا کے غلبے کی تاریخ

عبدالرحمان عمر

1776ء میں اعلانِ آزادی سے تھوڑا پہلے کانگریس نے امریکا کی تمام بندرگاہیں دنیا کے ہراُس علاقے سے تجارت کے کھول دی تھیں جس پر برطانیہ کا اقتدار قائم نہیں تھا۔امریکی اپنے اثر و رسوخ کو توسیع دینے اور بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینے کے مشتاق تھے۔ صرف بیس سال کے عرصے میں امریکہ کی تجارت بین الاقوامی سطح پر خوب فروغ پا چکی تھی۔ بہرکیف شمالی افریقا میں بحیرۂ روم کے ساحلوں پر صدیوں سے غارت گری مچانے والے بربر قزاقوں نے امریکی بحری جہازوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ 1801ء میں تھامس جیفرسن نے عہدۂ صدارت سنبھالا ہی تھا کہ طرابلس کے پاشا یوسف کرمانلی نے نئی امریکی حکومت سے خراج طلب کیا، جو 2017ء کی شرحِ مبادلہ کے مطابق تینتیس لاکھ امریکی ڈالر کے مساوی تھا۔ اس سے پہلے امریکا اپنے بحری جہازوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کی غرض سے الجزائر کے حکمران کو اسی طرح خراج ادا کر چکا تھا لیکن تھامس جیفرسن نے دیکھا کہ خراج کا یہ نظام امریکا کی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے، اس لیے اس نے خراج ادا کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ پاشا یوسف کرمانلی نے خراج ادا کیے جانے کا مطالبہ امریکا کے صدر کی طرف سے مسترد کیے جانے پر اعلانِ جنگ کے روایتی قاعدے کے مطابق طرابلس میں امریکی قونصلیٹ کے سامنے ایک کھمبے پر لہراتا امریکی پرچم کاٹ کر پھنکوا دیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں فریقوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ کئی سال جاری رہا۔ آخر 1805ء میں پاشا یوسف کرمانلی نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کر دیے اور امریکا اس جنگ میں فتح یاب قرار پایا۔ بربری جنگوں کے ذریعے امریکا کا بین الاقوامی سٹیج پر نمودار ہونا اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی غلبے کے لیے اس کا کوشش کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
بربری جنگوں کا تجزیہ اس تناظر میں کیا جانا ضروری ہے کہ ان میں شامل ہونے سے تھوڑا عرصہ پہلے ہی امریکا نے طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی تھی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیوں نے برطانیہ کے بادشاہ جارج سوم کی بادشاہت سے آزادی کا اعلان 1776ء میں کیا تھا اور اس کے محض پچیس سال بعد اس کے بحری جہاز بحرِ اوقیانوس کے پار شمالی افریقا کے ساحلوں پر نیم خود مختار عثمانی ریاستوں کے ساتھ براہِ راست تصادم کے لیے آمادہ و تیار تھا۔ جب پاشا یوسف کرمانلی نے چیلنج کیا تو ’’نوجوان‘‘ امریکی ریاست نے اپنے بحری تجارتی راستوں کے تحفظ کے لیے تجربہ کار قزاقوں کے خلاف میدانِ جنگ میں اترنے میں ذرا بھی تأمل نہیں کیا تھا حالاں کہ اُس زمانے میں برطانیہ اور دوسری مغربی طاقتوں کے غلبے والی دنیا میں امریکا ایک چھوٹا کھلاڑی تھا۔ بربری جنگوں سے عیاں ہوتاہے کہ امریکا ابتدا ہی سے طاقت کی بین الاقوامی کش مکش میں شامل ہو گیا تھا اور اکثر اوقات اس کا رویہ جارحانہ ہوتا تھا۔ اس زمانے کی انارکی سے بھری دنیا میں امریکا نے آغاز ہی میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہر جگہ جائے گا اور جہاں بھی جائے گا اپنی خود مختاری ہر قیمت پر یقینی بنائے گا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک بین الاقوامی سٹیج پر اپنے مفادات کے لیے عمل کرتے ہوئے امریکا کے پاس کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہوتا تھا۔ اسے کہیں بھی حملے کرنے اور تباہی مچانے کی آزادی حاصل تھی بشرطے کہ کسی غالب یورپی کھلاڑی کی سرحدوں کو عبور نہ کرے اور اس کے مفادات کو زک نہ پہنچائے۔
1941ء میں یعنی دوسری عالمی جنگ شروع ہونے کے دو سال بعد امریکادوسری عالمی جنگ میں اس وقت باقاعدہ شامل ہواجب پرل ہاربر پر حملہ کیا گیا۔اگرچہ پرل ہاربرپر حملہ کیے جانے تک اس نے اپنی رسمی غیر جانب داری برقرار رکھی تھی، تاہم وہ اتحادیوں کو مدد فراہم کر کے جنگ میں پہلے ہی سے شامل تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ جنگ اس کی سلامتی اور تجارتی راستوں کے لیے خطرہ ہے۔ جب برطانیہ کے دوش بدوش امریکا میدانِ جنگ میں اترا تو اس اقدام کے حوالے سے یوں پروپیگنڈا کیا گیا جیسے یہ ایک نظریاتی جنگ ہے اور برطانیہ و امریکا دنیا میں ’’جمہوریت کے دفاع‘‘ کے لیے جنگ میں شامل ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک انتہائی سادہ بیانیہ تھا۔ جنگ میں شامل ہونا امریکا کے ذاتی مفادات کا سوال تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر جرمنی جنگ میں فتح یاب ہوا اور پورے یورپ پر اس کا غلبہ قائم ہو گیا تو امریکا کی تجارت طویل عرصے کے لیے متاثر ہو گی۔
جب آخرِ کار اتحادی جنگ میں فتح یاب ہوئے تو بین الاقوامی سٹیج پر غالب بیانیہ میں نازیوں اور جاپان کے ظلم و ستم کی داستانوں کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہوا جس میں فوجی مداخلت کے قانونی ہونے کے علاوہ ’’اخلاقیات‘‘ کا سوال پہلی مرتبہ اٹھایا گیا اور ڈریسڈن کے جرمن شہریوں پر اتحادیوں کی بم باری یا جاپانی شہریوں پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں کو جنگ ختم کرنے کے لیے’’ضروری اقدامات‘‘ قرار دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ اس امید کے ساتھ قائم کی گئی کہ وہ مستقبل میں مفادات کی ایسی ہول ناک جنگ نہیں ہونے دے گی۔
دوسری عالمی جنگ کے ختم ہوتے ہی اس عالمی نظام کا بھی خاتمہ ہو گیا جس میں یورپ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یورپی طاقتوں کے پسپا ہونے سے امریکا خود بخود دنیا کی غالب فوجی طاقت بن گیا۔ چوں کہ پوری جنگ کے دوران امریکا نے اپنے آپ کو فاشسٹ جارحیت کے خلاف آزادی کے محافظ کی حیثیت سے پیش کیا تھا اس لیے تاریخ کے اس موڑ پر وہ دنیا کی اوّلین ’’اخلاقی سپر پاور‘‘ بھی بن گیا۔اس نے دنیا میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داری سنبھال لی لیکن اپنے اس نئے کردار کو طاقت کی جارحانہ کش مکش میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اس کی بجائے وہ بربری جنگوں تک جو کچھ کرتا آیا تھا وہی کچھ یعنی اپنے قومی مفادات کا تحفظ اور معاشی و فوجی غلبہ قائم کرنے کے لیے اس نئی ’’اخلاقی‘‘ حرکیات کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پوری سرد جنگ کے دوران امریکا ’’کمیونسٹ خطرے‘‘ کے خلاف اپنے آپ کو ایک اخلاقی قوت کی حیثیت سے پیش کرتا رہا۔ اس عرصے کے دوران پروپیگنڈا کے سراب سے باہر جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر لاطینی امریکا تک پوری دنیا میں امریکا کے اخلاقی اعتبار سے واقعتاً ابہام زدہ اقدامات سے عیاں ہوتا ہے کہ اس نے اپنے اقدامات کے لیے جو جو اخلاقی جواز پیش کیے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں تھے۔ سوویت یونین کو تازہ تازہ قائم ہونے والے عالمی نظام کے لیے خطرے کی حیثیت سے پیش کر کے امریکا نے اپنے اتحادیوں کو قائل کر لیا کہ تمام تر جارحانہ و غیراخلاقی اقدامات کے باوجود وہ خیر کے لیے سرگرمِ عمل قوت ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا بین الاقوامی تعلقات میں کارفرما قوانین اور ضوابط کے حوالے سے صرف دکھاوے کے اقدمات کرتے ہوئے اپنے مفادات کے لیے جارحانہ انداز سے عمل کرتا رہا۔ صرف اس مرتبہ ایسا تھا کہ کوئی بڑا حریف سامنے نہیں تھا۔ اکیسویں صدی میں امریکا کی منافقانہ اخلاقی برتری اس وقت کھل کرسامنے آ گئی جب مارچ 2003ء میں صدر جارج ڈبلیو بش نے ’’آپریشن عراقی فریڈم‘‘ کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں، جس کے لیے اب اچھے خیالات کا اظہار نہیں کیا جاتا، عراقیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’ان کی آزادی کا دن نزدیک ہے۔‘‘ بش حکومت نے اس اقدام کو منصفانہ اقدام ثابت کرنے کی غرض سے کہا کہ عراق کے حکمرانوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا لیے ہیں اور انھیں استعمال بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ عراقی حکومت پر انسانی حقوق پامال کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ بش حکومت نے اپنے اقدامات کے لیے یہ جواز پیش کیا کہ عراقی عوام کو امریکا کے جمہوریت اور آزادی کے مثالیوں کی ضرورت ہے۔ بہرحال دنیا کو بعد میں پتا چلا کہ عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جو دعوے کیے گئے تھے، وہ سراسر جھوٹ تھے اور اس حملے کا نتیجہ ویسا یوٹوپیائی نہیں تھا جیسا کہ آغاز میں کہا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ امر واضح ہوتا گیا کہ امریکا نے ایک خود مختار ملک پر حملہ آزادی اور جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کے لیے کیا تھا۔ لاکھوں معصوم انسان مارے گئے جب کہ موت سے بچ جانے والے لاکھوں ہی انسانوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے برباد ہو گئیں۔ پندرہ سال گزر جانے کے بعد بھی عراقی ریاست انتشار کی شکار ہے۔ امریکا بہت طویل عرصے سے آزادی اور جمہوریت جیسے مجرد تصورات استعمال کر کے بین الاقوامی برادری کو یقین دلا رہا ہے کہ وہ اخلاقی اور مبنی بر انصاف مقاصد کے لیے جنگیں لڑ رہا ہے لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے اخلاقیات کا جو بھاری لبادہ پہنا تھا، وہ آخرِ کار اترنے لگا ہے۔ شمالی و جنوبی کوریا، ویت نام، عراق اور افغانستان کی عسکری دلدلوں میں دھنسنے کے بعد امریکا کا تاثر بری طرح خراب ہوا ہے۔ ممکن ہے آج امریکی فوج دنیا کی بہترین ..... اور مؤثر ترین .....فوج ہو لیکن امریکا اخلاقی برتری سے محروم ہو چکا ہے۔ بربری جنگوں کے ذریعے امریکا نے عالمی سٹیج کے قوانین طے کیے تھے اور اپنے غلبے کو چیلنج کرنے والوں کو مٹا ڈالا تھا۔ امریکا ابتدا ہی سے اپنے آپ کو دنیا میں جس انداز سے پیش کرتا آیا ہے، اس میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ وہ کچھ عرصہ تو دنیا پر اپنا غلبہ قائم کرنے کے اپنے جارحانہ اقدامات کو اخلاقیات کے جھوٹے جوازوں کے پردے میں چھپانے میں کامیاب ہوا لیکن اب اس کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔

(بشکریہ الجزیرہ ٹی وی؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...