Monday, June 4, 2018

کیا امریکااپنی انسانیت کھو رہا ہے؟

کیا امریکااپنی انسانیت کھو رہا ہے؟


این سی رچرڈ (سابق امریکی نائب وزیر برائے آبادی، پناہ گزیناں اور ترکِ وطن)


صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آبادی، پناہ گزیناں اور تارکینِ وطن کی وزارت کے لیے ایک ایسے شخص کو نام زد کیا ہے، جو تارکینِ وطن کی انتہائی شدت سے مخالفت کرنے والے فرد ہیں۔ میں صدر بارک اوباما کے دور میں اسی بیورو کی نائب وزیر تھی۔ اس نام زدگی کا اعلان پچھلے ہفتے کیا گیا ہے۔ یہ امریکا کو دنیا کے چوٹی کے انسان دوست ملک کے مقامِ بلند سے مزید گرانے والا فیصلہ ہے۔ نام زد وزیر رونلڈ مورٹینسن ’’سینٹر فار امیگریشن‘‘ کے فیلو کی حیثیت سے ترکِ وطن سے متعلقہ امور و معاملات کے بارے میں اپنا مؤقف کھل کر بیان کر چکے ہیں۔ مثال کے طور سے ان کا اصرار رہا ہے کہ بیش تر ’’ڈریمر‘‘ تشدد آمیز جرائم کا ارتکاب کر چکے ہیں ۔۔۔امریکا میں ’’ڈریمر‘‘ ایسے غیر ملکیوں کو کہا جاتا ہے، جنھیں بچپن میں تارکینِ وطن کی حیثیت سے امریکا لایا گیا تھا اور جن کا اندراج متعلقہ محکموں میں اب تک نہیں کروایا گیا۔ وہ تارکینِ وطن کے بیورو کے مشن سے معاندت رکھنے والے واحد فرد نہیں ہیں۔ اس سے پہلے بھی انتظامیہ تارکینِ وطن کے حوالے سے سخت موقف رکھنے والے افراد کو کلیدی مناصب کے لیے نام زد کر چکی ہے۔ رونلڈ مورٹینسن کی نام زدگی کو پناہ گزنیوں اور تارکینِ وطن کا خیر مقدم کرنے اور عتاب زدہ افراد کوجائے پناہ مہیا کرنے کی امریکا کی پرانی روایت کو تبدیل کرنے کی مہم کا حصہ سمجھا جانا چاہیے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا حلف اٹھانے کے تھوڑا عرصہ بعد ہی مسلمانوں کے سفر پر پابندی لگا دی تھی۔ یہ اقدام مذکورہ مہم کا پہلا حملہ تھا۔ اگرچہ عدالتیں مذکورہ پابندی کی کئی صورتوں کو کالعدم قرار دے چکی ہیں لیکن وائٹ ہاؤس امریکا آنے والے تارکینِ وطن کی تعداد پچھلے برسوں کے مقابلے میں سب سے کم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ بارک اوباما کے دورِ صدارت کے آخری سال میں 85,000تارکینِ وطن امریکا آئے تھے جب کہ اِس سال صرف 20,000تارکینِ وطن امریکا آ سکے ہیں۔ امریکا میں تارکینِ وطن خاندانوں کو نئی زندگی شروع کرنے میں مدد دینے والی مذہبی اور غیر مذہبی خیراتی تنظیموں کا نیٹ ورک بکھر رہا ہے۔ جہاں تارکینِ وطن کی اتنی تھوڑی تعداد کو امریکا میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی ہے، وہاں وزارتِ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ تارکینِ وطن کو مزید مالی امداد نہیں دی جائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بہت کم شہر تارکینِ وطن کو امریکا میں بسانے کے پروگراموں میں حصہ لیں گے، تارکینِ وطن کی مدد کرنے والا عملہ اور رضاکار بکھر جائیں گے اور ہم حکومت اور نجی شعبے کی ایک انتہائی کامیاب رفاقتِ کار سے محروم ہو جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی مزید پناہ گزینوں نے جو ثابت شدہ معاشی اور ثقافتی فوائد اپنے ساتھ لانا تھے، وہ بھی کھو جائیں گے نیز انھیں زندگی نئے سرے سے شروع کرنے کا جو موقع ملنا تھا، وہ بھی ضائع ہو جائے گا۔
دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزیناں کے ذریعے دوسرے ملکوں میں موجود پناہ گزینوں کے لیے بہت زیادہ مدد فراہم کر رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کانگریس میں دونوں جماعتوں کے ارکانِ پارلیمان اس امر سے کامل اتفاق رکھتے ہیں۔ بہر حال اقوامِ متحدہ کے دوسرے اداروں کے لیے امریکا نے اپنی امداد میں کٹوتی کر دی ہے۔ وائٹ ہاؤس نے یہ کہتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کو مالی امداد دینا بند کر دیا ہے کہ یہ ادارہ جبری اسقاطِ حمل اور بانجھ کاری میں ملوث ہے۔ اقوامِ متحدہ کا پاپولیشن فنڈ ان الزامات کو درست تسلیم نہیں کرتا۔ اقوامِ متحدہ کا پاپولیشن فنڈ کسی بھی وجہ سے اپنی جائے قیام چھوڑ کر کسی دوسرے مقام پر رہنے والی عورتوں کی تولیدی صحت اور ماؤں اور بچوں کے زندہ رہنے کی فی صد شرح میں بہتری لانے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ میں نے 2016ء میں اس وقت جشن منایا تھا، جب لبنان کے زاتری ریفیوجی کیمپ میں اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے ایک کلینک میں پانچ ہزارواں بچہ زندہ اور صحت مند پیدا ہوا تھا۔ اب اقوامِ متحدہ کے پاپولیشن فنڈکی رپورٹ کے مطابق 64,000روہنگیا حاملہ خواتین بنگلہ دیش کے انتہائی گندے ریفیوجی کیمپوں میں موجود ہیں اور انھیں اپنے بچے بحفاظت پیدا کرنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے اقوامِ متحدہ کے اُس ادارے کی80فی صد مالی مدد بھی بند کر دی ہے، جو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے سکول چلاتا ہے اور ان کو حفظانِ صحت کی سہولیات مہیا کرتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے یہ فیصلہ تب کیا تھا، جب فلسطین اور اقوامِ متحدہ کی رکن دوسری ریاستوں نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کے امریکا کے اقدام پر تنقید کی تھی۔ امریکا کے مالی امداد بند کرنے کے فیصلے سے جو صورتِ حال رونما ہوئی، اسے اقوامِ متحدہ کے ایک نمائندے نے ’’ایسا مالی بحران‘‘ قراردیا جس کی ’’مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔‘‘ یہ امر واضح نہیں کہ پہلے سے کشیدہ صورتِ حال میں غریب ترین فلسطینیوں کے لیے مدد کا بند ہو جانا کس قدر عذاب ناک ہو گا۔
پناہ گزینوں کے لیے فراہم کی جانے والی امداد بیش تر پناہ گزینوں کی صرف بنیادی ضروریات ہی پوری کرتی ہے مثلاً خوراک، پانی، نکاسئ آب اور سر چھپانے کی جگہ۔ دوسرے ملکوں کو مزید مدد فراہم کرنے اور پناہ گزینوں کے اپنے گھروں کو واپس جا سکنے کے قابل بنانے کے لیے بحرانوں کو حل کرنے پر قائل کرنے کی غرض سے بھی سفارت کاری ضروری ہے لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ محکمۂ خارجہ کو کمزور اور امریکا کے سفارت کاروں کوحوصلے سے محروم کرنے کے علاوہ دوسرے ملکوں میں ترقی کو فروغ دینے والے پروگراموں اور امن و استحکام کے تحفظ کا کام بھی روک چکی ہے۔ شامیوں کو انسانی ہمدردی کے تحت امداد فراہم کرنے کے لیے منعقد کی جانے والی ’’برسلز پلیج‘‘ کی ایک حالیہ کانفرنس کے موقع پر امریکا کے مندوب نے، جس نے پہلے ایک دفعہ مدد کا بڑا اعلان کر کے دوسروں کو بھی امداد دینے کی تحریک دی تھی، تقریر تک نہیں کی۔ میں نائب وزیر کی حیثیت سے ترکِ وطن سے متعلقہ کانفرنسوں میں اقوامِ متحدہ کے وفود کی قیادت کیا کرتی تھی اور دوسروں کو قائل کیا کرتی تھی کہ سرحد عبور کرنے والے سیاسی پناہ کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں، تارکینِ وطن محنت کشوں کو استحصال اور بد سلوکی سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور یہ کہ ہر صورت میں لوگوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔ ہمارا ملک اچھے نظریات و خیالات کی ترویج میں قائدانہ کردار ادا کیا کرتا تھا۔ اس کی ایک مثال ’’مائیگرینٹ اِن کنٹریز اِن کرائسس   اِنیشی ایٹو‘‘ ہے، جس نے وہ رضاکارانہ راہنما خطوط تشکیل دیے تھے، جن پر تب عمل کیا جاتا تھا، جب پناہ گزین گھر سے دور ابتلا و مصیبت میں گرفتار ہو جاتے تھے۔ اب انتظامیہ اس لایعنی جواز کے تحت پناہ گزینوں کی رضاکارانہ مدد کے موضوع پر منعقد کیے جانے والے اجلاسوں کا بائیکاٹ کر رہی ہے کہ اس سے امریکا کی خود مختاری کو نقصان ہو گا۔ انتظامیہ نے ’’انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن‘‘ کی سربراہی کے لیے ایک ایسے شخص کو نام زد کیا ہے، جو مسلمانوں کے خلاف ٹویٹس کرنے کے ریکارڈ کا حامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی مشیر، ترکِ وطن کے مخالف سٹیفن ملر وائٹ ہاؤس اور محکمۂ داخلی سلامتی کی اس ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں، جو ایسی پالیسیوں کے لیے سرگرمِ کار ہے، جنھیں انسان دوست کے سوا سب کچھ کہا جا سکتا ہے ۔ تارکینِ وطن بچوں کو سرحد پر ان کے ماں باپ سے جدا کرنا تازہ ترین بے رحمانہ اقدام ہے جیسا کہ پچھلے نومبر میں اس وقت ہوا، جب کیلی فورنیا میں سیاسی پناہ کے خواہش مند کانگو کے ایک تارکِ وطن کی سات سالہ بچی کو اس سے چھین کر دور کر دیا گیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اچھے کاموں کی فہرست بہت مختصر ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے وہ معاہدہ برقرار رکھا ہے، جو میں نے آسٹریلیا کے ساتھ کیا تھا اور جس کے تحت امریکا نے جزیرۂ مینس اور نورو میں رہ جانے والے پناہ گزینوں کو قبول کرنا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ بارک اوباما انتظامیہ کے اُس انتظام کی تائید بھی کر رہی ہے، جو کوسٹا ریکا کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اس انتظام کے تحت کوسٹا ریکا پناہ گزینوں کو اپنے ہاں اس وقت تک عارضی قیام کی سہولت دے گا، جب تک انھیں دوبارہ بسایا نہ جا سکے۔ اس کے علاوہ ٹرمپ انتظامیہ اس نئے علاقائی فریم ورک کی تائید بھی کر رہی ہے، جو کئی لاطینی امریکی ملک پناہ گزینوں کو مدد دینے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے لیے نام زد کیے گئے افراد ہر اعتبار سے اہل اور تجربہ کار ہیں۔ بد قسمتی سے ٹرمپ انتظامیہ کے منفی نوعیت کے اقدامات اتنے زیادہ ہیں کہ مثبت نوعیت کے کام ان کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ امریکا میں اور امریکا کی سرحدوں کے باہر موجود پناہ گزینوں اور تارکینِ وطن کی فوری ضرورتوں کو نظر انداز کر کے بری مثالیں قائم کر رہی ہے اور ایک ایسی انسان دوست سوچ کو فنا کر رہی ہے، جس کی پوری دنیا کے دسیوں لاکھ لوگوں نے ناصرف ستائش کی ہے بلکہ جس پر دسیوں لاکھ افراد انحصار بھی کرتے تھے۔

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...