برطانوی اثرورسوخ کا خاتمہ
جیسمین ایڈمووِچ
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے دو ستونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے یہ دو ستون ہیں، امریکا کے ساتھ برطانیہ کا خصوصی تعلق اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے یورپ پر برطانیہ کا اثرورسوخ۔ برطانیہ نے 1980ء سے اپنی طاقت کا جو تاثر قائم کر رکھا تھا، اسے برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو 4مارچ 2018ء کو زہر دیے جانے کے واقعے نیز روس پر مزید پابندیاں عائد کروانے کی کوششوں میں اس کی ناکامی اور اکیلے پن نے پاش پاش کر دیا ہے۔ مارگریٹ تھیچر نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں دو بنیادی اجزا پر مبنی برطانوی خارجہ پالیسی تشکیل د ی تھی۔ مارگریٹ تھیچر کی وضع کردہ برطانوی خارجہ پالیسی کے پہلے بنیادی اصول کے مطابق امریکا کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کیے گئے۔ یوں لندن واشنگٹن کا ایک ناگزیر اتحادی بن گیا۔ برطانیہ واشنگٹن اور بحرِ اوقیانوس کے پار یورپ کے دارالحکومتوں کے مابین ایک پل بن گیا۔ مارگریٹ تھیچر نے اپنی وضع کردہ برطانوی خارجہ پالیسی کے دوسرے بنیادی جزو کے مطابق اپنے زمانہ ہائے وزارتِ عظمیٰ کے دوران یورپی یکجہتی کو فروغ دیا اور ’’ایک منڈی‘‘ کے قیام کے ذریعے برطانیہ کا اثرورسوخ بڑھانے اور اسے فیصلہ سازی میں مرکزی حیثیت دلوانے کی کامیاب کوششیں کی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 1992ء کا ’’ماسترخت معاہدہ‘‘ عمل میں آیا اور یورپی یونین کے قیام کے علاہ یورو کرنسی کا اجرا بھی کیا گیا۔ اب جب کہ برطانیہ یورپی یونین کی رکنیت سے دست بردار ہونے کے لیے مذکرات کر رہا ہے تو وہ اپنی خارجہ پالیسی کے مذکورہ دو ستونوں کو ممکن حد تک قائم و برقرار رکھنے کی کوشش بھی کر رہا ہے
ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے بھاگی بھاگی امریکا پہنچ گئی تھیں۔ ان کے اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ امریکا کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جائیں، دونوں ملکوں کی حکومتوں کا باہمی اعتماد پختہ کیا جائے اور برطانیۂ عظمیٰ پر واشنگٹن کا اعتبار قائم رکھا جائے۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے تو تھریسا مے نے واضح کر دیا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کی رکنیت سے دست بردار ہونے کے بعد بھی یورپی امور و معاملات میں شامل رہے گا۔ انھوں نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے معاملات کے حوالے سے فیصلہ سازی میں برطانیہ کا زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی غرض سے یورپ کی سلامتی سے ’’غیر مشروط وابستگی‘‘ کی پیش کش بھی کی تھی۔ لندن اپنی طاقتیں ..... سفارتی نیٹ ورک، انٹیلی جینس سروسز، فوج اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور ناٹو میں موجودگی ..... استعمال کرتے ہوئے یورپ کی پالیسی پر اپنا اثرورسوخ اور اپنی شان و شوکت قائم و برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا (جرمنی اور فرانس کی قیمت پر) نیز امریکا اور یورپ ہر دو کے لیے اپنی افادیت برقرار رکھنے کی کوشش بھی کرے گا۔
بہرحال روس کی پالیسی بالخصوص برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس سرگی سکریپل کو زہر دیے جانے کا واقعہ رونما ہونے کے بعد برطانیہ کی طاقت اور اس کے اثرورسوخ کا تاثر ملیامیٹ ہو چکا ہے۔ حالیہ برسوں میں برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی سٹریٹجی کے مذکورہ دو بنیادی اجزا برقرار رکھنے کی غرض سے روس کو مرکزِ نگاہ بنا لیا تھا۔ اس طرح وہ امریکا کے لیے اپنی افادیت ثابت کرنا اور یورپی یونین پر اپنا اثر قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اوباما کے دورِ صدارت میں برطانیہ اور امریکا کے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی برقرار نہیں رہی تھی۔ ہلیری کلنٹن کے وزارتِ خارجہ سے جانے کے بعد توبالخصوص ایسی صورتِ حال رونما ہوئی تھی کہ ڈاؤننگ سٹریٹ اور ایف سی او بے قراری سے ہلیری کلنٹن کے صدر منتخب ہونے کی آرزو کرنے لگے تھے۔ 2015ء اور2016ء میں برطانیہ یورپی یونین اور ناٹو کو قائل کرنے کی کوششیں کرتا رہا کہ روس کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون روسی معیشت اور ولادی میر پیوٹن کے داخلی حلقے پر پابندیاں عائد کروانے کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرتے رہے تھے۔ انھوں نے فرانس کی تائید و حمایت سے ماسکو کے ساتھ سیاسی اور معاشی روابط رکھنے والے یورپی یونین کے ارکان ..... اٹلی ، یونان، بلغاریہ، ہنگری، سلواکیہ اور آسٹریا ..... پر دباؤ ڈالا تاکہ 2017ء میں بھی روس پر پابندیاں جاری رکھی جا سکیں۔ یوکرین اور کرائیمیا میں تناؤ بڑھنے کے زمانے میں اگست 2016ء میں برطانیہ کے دفاعی تجزیے پر مبنی ایک رپورٹ افشا ہونے سے عیاں ہوا تھا کہ روس عسکری استعداد کے اعتبار سے برطانیہ سے آگے نکل چکا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں روس کی جنگی استعداد جیسا کہ مسلسل طاقتور بنائے جانے والے فضائی دفاع کے نظام، راکٹ لانچر، سائبر جنگ کی صلاحیت اور الیکٹرانک جنگ کی صلاحیت کو بالخصوص باعثِ تشویش قرار دیا گیا تھا۔اس رپورٹ کے افشا کیے جانے کے دو واضح مقاصد تھے۔ ایک مقصد یہ تھا کہ روس پر پابندیوں کی ضرورت نیز یورپ اور ناٹو کے مابین تعاون کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ بریگزٹ کے بعد فوجی اخراجات میں اضافے اور آٹھ ارب پونڈ مالیت کی اگلی نسل کی ویپن ٹیکنولوجیز کا جواز پیش کیا جائے۔ 2017ء میں پورا سال جعلی خبروں، بلقان، مشرقی یورپ اور شام میں روس کے کردار کے حوالے سے الزامات لگاتے ہوئے برطانوی عسکری شخصیات نے روس کی طرف سے پیدا ہونے والے خطرے سے نبرد آزما ہونے کی غرض سے دفاعی اخراجات میں اضافے کے لیے لابنگ جاری رکھی۔ اس کے علاوہ برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے شام میں روس کی بم باری پر اس کے خلاف جنگی جرائم کی تفتیش کا مطالبہ کیا۔ فرانس کے اس زمانے کے صدر فرانسس اولاند نے اس معاملے میں ان کی تائید کی تھی، جو روس کمے صدر پیوٹن اور فرانس کے صدر اولاند کے مابین ہونے والی ملاقات کے التوا کا باعث بنی تھی۔
حلب پر روس کی بم باری کے معاملے پر برطانیہ نے فرانس اور جرمنی کی تائید سے کوشش کی کہ روس پر مزید پابندیاں لگائی جائیں۔ یہ کوشش اٹلی کے معاشی مفادات کے باعث ناکامی سے دوچار ہو گئی تھی۔معاشی خدشات ایک بار پھر جولائی 2017ء میں اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب امریکی کانگریس نے نورڈ سٹریم پروجیکٹ کو ہدف بناتے ہوئے پابندیاں عائد کیں۔ جہاں تک برطانوی خارجہ پالیسی کے مستقبل کا تعلق ہے تو بریگزٹ کے باعث پیش آنے والی دشواریوں کے باوجود لندن پورے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں روسی اقدامات اور کارروائیوں پر نظر رکھنا جاری رکھے گا۔ بہرحال برطانیہ 2021ء تک یورپی ملکوں کو اپنی روس مخالف سٹریٹجی سے متفق کرنے یا اپنی اس سٹریٹجی سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے گا۔ صرف ایک استثنائی صورت ہے، جو تقریباً ناممکن ہے۔ وہ یہ کہ وائٹ ہاؤس میں تبدیلی آ جائے۔ برطانیہ روس پر دباؤ تو ڈال سکتا ہے لیکن امریکا، فرانس اور جرمنی سے عوامی تائید و حمایت حاصل ہونے کے باوجودماسکو کے خلاف مزید پابندیاں لگوانا برطانیہ کے لیے مشکل ہو گا۔ برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو مارچ 2018ء میں زہر دیے جانے کا واقعہ اس حوالے سے برطانیہ کو درپیش مشکلات عیاں کرتا ہے۔ اگرچہ امریکا، فرانس اور جرمنی نے آخرِ کار رشین فیڈریشن کے خلاف ویسٹ منسٹر کے دعووں کی تائید کی ہے، تاہم ماسکو کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام اٹھائے جانے اور پابندیاں لگانے کا امکان بہت کم ہے۔
اگرچہ یورپی یونین نے روس میں متعین اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور یورپی یونین کی تمام اٹھائیس رکن ریاستوں نے برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو زہر دینے کے واقعے کی ذمہ داری ماسکو پر عائد کی ہے، تاہم یورپی یونین کی تنقید اور اظہارِ یکجہتی سفارتی فتح نہیں ہے، جیسے کہ برطانیہ ظاہرکر رہا ہے۔تائید و حمایت سے مراد یہ نہیں کہ حقیقی اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے۔ اس حوالے سے مذاکرات بعد میں ہوں گے، تب دوسرے عوامل ڈاؤننگ سٹریٹ کو مایوس کر دیں گے۔ روس کے کرائیمیا کا اپنے ساتھ الحاق کرنے کے بعد 2014ء میں روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی تجدید کے لیے ہر سال یورپی یونین کے ارکان کا متفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس مرتبہ یہ امر اٹلی، یونان اور آسٹریا کی معاشی مشکلات کے باعث بہت دشوار لگتا ہے۔ اٹلی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج، یوکرین کے حوالے سے منسک II مذاکرات شروع کرنے کی اینجلا مرکل کی خواہش اور فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کی یورپی یونین میں اصلاحات کا عمل تیز کرنے کی کوششوں سے عیاں ہے کہ سیاسی سرمایہ روس پر صَرف نہیں کیا جائے گا۔
برطانیہ کی تصادم کی پالیسی اور یورپی یونین کی عدم تصادم کی پالیسی اپنی اپنی جگہ برقرار رہیں گی۔ برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ سلامتی کا ایک ایسا معاہدہ کرنے کی کوشش بھی کرے گا جو اس کے لیے سودمند ہو۔ یورپی یونین کی رکن ریاستیں سمجھتی ہیں کہ برطانیہ یورپ کے سفارتی، عسکری اور سلامتی کے امور و معاملات پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے اس قسم کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ناٹو میں ترکی کے موجود ہونے کا مطلب ہے کہ ناٹو کوئی بھی متفقہ اقدام نہیں اٹھا سکے گی۔ بہرحال برطانیہ نے فرانس کے ساتھ ایک دو طرفہ معاہدہ کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین طویل عرصے سے قائم سلامتی سے متعلق اور فوجی رفاقتِ کار آئندہ بھی جاری رہے۔ حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ برطانیہ اس وقت کس قدر کمزور اور اکیلا ہے۔ برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو زہر دیے جانے والے واقعے یا یورپی یونین کی کانفرنسوں اور ایف سی او کی قیادت میں روس کو نشانہ بنانے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ روس پر پابندیاں عائد کرنے یا ایسے بیانات دیے جانے سے، جیسا کہ برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے روس کو نازی جرمنی سے تشبیہ دی ہے، کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ایسے بیانات کا مقصد صرف ملک کے اندر اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ ہی ہوا کرتا ہے۔
(بشکریہ جیوپولیٹیکل مانیٹر؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
جیسمین ایڈمووِچ
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے دو ستونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے یہ دو ستون ہیں، امریکا کے ساتھ برطانیہ کا خصوصی تعلق اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے یورپ پر برطانیہ کا اثرورسوخ۔ برطانیہ نے 1980ء سے اپنی طاقت کا جو تاثر قائم کر رکھا تھا، اسے برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو 4مارچ 2018ء کو زہر دیے جانے کے واقعے نیز روس پر مزید پابندیاں عائد کروانے کی کوششوں میں اس کی ناکامی اور اکیلے پن نے پاش پاش کر دیا ہے۔ مارگریٹ تھیچر نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں دو بنیادی اجزا پر مبنی برطانوی خارجہ پالیسی تشکیل د ی تھی۔ مارگریٹ تھیچر کی وضع کردہ برطانوی خارجہ پالیسی کے پہلے بنیادی اصول کے مطابق امریکا کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کیے گئے۔ یوں لندن واشنگٹن کا ایک ناگزیر اتحادی بن گیا۔ برطانیہ واشنگٹن اور بحرِ اوقیانوس کے پار یورپ کے دارالحکومتوں کے مابین ایک پل بن گیا۔ مارگریٹ تھیچر نے اپنی وضع کردہ برطانوی خارجہ پالیسی کے دوسرے بنیادی جزو کے مطابق اپنے زمانہ ہائے وزارتِ عظمیٰ کے دوران یورپی یکجہتی کو فروغ دیا اور ’’ایک منڈی‘‘ کے قیام کے ذریعے برطانیہ کا اثرورسوخ بڑھانے اور اسے فیصلہ سازی میں مرکزی حیثیت دلوانے کی کامیاب کوششیں کی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 1992ء کا ’’ماسترخت معاہدہ‘‘ عمل میں آیا اور یورپی یونین کے قیام کے علاہ یورو کرنسی کا اجرا بھی کیا گیا۔ اب جب کہ برطانیہ یورپی یونین کی رکنیت سے دست بردار ہونے کے لیے مذکرات کر رہا ہے تو وہ اپنی خارجہ پالیسی کے مذکورہ دو ستونوں کو ممکن حد تک قائم و برقرار رکھنے کی کوشش بھی کر رہا ہے
ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے بھاگی بھاگی امریکا پہنچ گئی تھیں۔ ان کے اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ امریکا کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جائیں، دونوں ملکوں کی حکومتوں کا باہمی اعتماد پختہ کیا جائے اور برطانیۂ عظمیٰ پر واشنگٹن کا اعتبار قائم رکھا جائے۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے تو تھریسا مے نے واضح کر دیا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کی رکنیت سے دست بردار ہونے کے بعد بھی یورپی امور و معاملات میں شامل رہے گا۔ انھوں نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے معاملات کے حوالے سے فیصلہ سازی میں برطانیہ کا زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی غرض سے یورپ کی سلامتی سے ’’غیر مشروط وابستگی‘‘ کی پیش کش بھی کی تھی۔ لندن اپنی طاقتیں ..... سفارتی نیٹ ورک، انٹیلی جینس سروسز، فوج اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور ناٹو میں موجودگی ..... استعمال کرتے ہوئے یورپ کی پالیسی پر اپنا اثرورسوخ اور اپنی شان و شوکت قائم و برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا (جرمنی اور فرانس کی قیمت پر) نیز امریکا اور یورپ ہر دو کے لیے اپنی افادیت برقرار رکھنے کی کوشش بھی کرے گا۔
بہرحال روس کی پالیسی بالخصوص برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس سرگی سکریپل کو زہر دیے جانے کا واقعہ رونما ہونے کے بعد برطانیہ کی طاقت اور اس کے اثرورسوخ کا تاثر ملیامیٹ ہو چکا ہے۔ حالیہ برسوں میں برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی سٹریٹجی کے مذکورہ دو بنیادی اجزا برقرار رکھنے کی غرض سے روس کو مرکزِ نگاہ بنا لیا تھا۔ اس طرح وہ امریکا کے لیے اپنی افادیت ثابت کرنا اور یورپی یونین پر اپنا اثر قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اوباما کے دورِ صدارت میں برطانیہ اور امریکا کے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی برقرار نہیں رہی تھی۔ ہلیری کلنٹن کے وزارتِ خارجہ سے جانے کے بعد توبالخصوص ایسی صورتِ حال رونما ہوئی تھی کہ ڈاؤننگ سٹریٹ اور ایف سی او بے قراری سے ہلیری کلنٹن کے صدر منتخب ہونے کی آرزو کرنے لگے تھے۔ 2015ء اور2016ء میں برطانیہ یورپی یونین اور ناٹو کو قائل کرنے کی کوششیں کرتا رہا کہ روس کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون روسی معیشت اور ولادی میر پیوٹن کے داخلی حلقے پر پابندیاں عائد کروانے کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرتے رہے تھے۔ انھوں نے فرانس کی تائید و حمایت سے ماسکو کے ساتھ سیاسی اور معاشی روابط رکھنے والے یورپی یونین کے ارکان ..... اٹلی ، یونان، بلغاریہ، ہنگری، سلواکیہ اور آسٹریا ..... پر دباؤ ڈالا تاکہ 2017ء میں بھی روس پر پابندیاں جاری رکھی جا سکیں۔ یوکرین اور کرائیمیا میں تناؤ بڑھنے کے زمانے میں اگست 2016ء میں برطانیہ کے دفاعی تجزیے پر مبنی ایک رپورٹ افشا ہونے سے عیاں ہوا تھا کہ روس عسکری استعداد کے اعتبار سے برطانیہ سے آگے نکل چکا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں روس کی جنگی استعداد جیسا کہ مسلسل طاقتور بنائے جانے والے فضائی دفاع کے نظام، راکٹ لانچر، سائبر جنگ کی صلاحیت اور الیکٹرانک جنگ کی صلاحیت کو بالخصوص باعثِ تشویش قرار دیا گیا تھا۔اس رپورٹ کے افشا کیے جانے کے دو واضح مقاصد تھے۔ ایک مقصد یہ تھا کہ روس پر پابندیوں کی ضرورت نیز یورپ اور ناٹو کے مابین تعاون کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ بریگزٹ کے بعد فوجی اخراجات میں اضافے اور آٹھ ارب پونڈ مالیت کی اگلی نسل کی ویپن ٹیکنولوجیز کا جواز پیش کیا جائے۔ 2017ء میں پورا سال جعلی خبروں، بلقان، مشرقی یورپ اور شام میں روس کے کردار کے حوالے سے الزامات لگاتے ہوئے برطانوی عسکری شخصیات نے روس کی طرف سے پیدا ہونے والے خطرے سے نبرد آزما ہونے کی غرض سے دفاعی اخراجات میں اضافے کے لیے لابنگ جاری رکھی۔ اس کے علاوہ برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے شام میں روس کی بم باری پر اس کے خلاف جنگی جرائم کی تفتیش کا مطالبہ کیا۔ فرانس کے اس زمانے کے صدر فرانسس اولاند نے اس معاملے میں ان کی تائید کی تھی، جو روس کمے صدر پیوٹن اور فرانس کے صدر اولاند کے مابین ہونے والی ملاقات کے التوا کا باعث بنی تھی۔
حلب پر روس کی بم باری کے معاملے پر برطانیہ نے فرانس اور جرمنی کی تائید سے کوشش کی کہ روس پر مزید پابندیاں لگائی جائیں۔ یہ کوشش اٹلی کے معاشی مفادات کے باعث ناکامی سے دوچار ہو گئی تھی۔معاشی خدشات ایک بار پھر جولائی 2017ء میں اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب امریکی کانگریس نے نورڈ سٹریم پروجیکٹ کو ہدف بناتے ہوئے پابندیاں عائد کیں۔ جہاں تک برطانوی خارجہ پالیسی کے مستقبل کا تعلق ہے تو بریگزٹ کے باعث پیش آنے والی دشواریوں کے باوجود لندن پورے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں روسی اقدامات اور کارروائیوں پر نظر رکھنا جاری رکھے گا۔ بہرحال برطانیہ 2021ء تک یورپی ملکوں کو اپنی روس مخالف سٹریٹجی سے متفق کرنے یا اپنی اس سٹریٹجی سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے گا۔ صرف ایک استثنائی صورت ہے، جو تقریباً ناممکن ہے۔ وہ یہ کہ وائٹ ہاؤس میں تبدیلی آ جائے۔ برطانیہ روس پر دباؤ تو ڈال سکتا ہے لیکن امریکا، فرانس اور جرمنی سے عوامی تائید و حمایت حاصل ہونے کے باوجودماسکو کے خلاف مزید پابندیاں لگوانا برطانیہ کے لیے مشکل ہو گا۔ برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو مارچ 2018ء میں زہر دیے جانے کا واقعہ اس حوالے سے برطانیہ کو درپیش مشکلات عیاں کرتا ہے۔ اگرچہ امریکا، فرانس اور جرمنی نے آخرِ کار رشین فیڈریشن کے خلاف ویسٹ منسٹر کے دعووں کی تائید کی ہے، تاہم ماسکو کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام اٹھائے جانے اور پابندیاں لگانے کا امکان بہت کم ہے۔
اگرچہ یورپی یونین نے روس میں متعین اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور یورپی یونین کی تمام اٹھائیس رکن ریاستوں نے برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو زہر دینے کے واقعے کی ذمہ داری ماسکو پر عائد کی ہے، تاہم یورپی یونین کی تنقید اور اظہارِ یکجہتی سفارتی فتح نہیں ہے، جیسے کہ برطانیہ ظاہرکر رہا ہے۔تائید و حمایت سے مراد یہ نہیں کہ حقیقی اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے۔ اس حوالے سے مذاکرات بعد میں ہوں گے، تب دوسرے عوامل ڈاؤننگ سٹریٹ کو مایوس کر دیں گے۔ روس کے کرائیمیا کا اپنے ساتھ الحاق کرنے کے بعد 2014ء میں روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی تجدید کے لیے ہر سال یورپی یونین کے ارکان کا متفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس مرتبہ یہ امر اٹلی، یونان اور آسٹریا کی معاشی مشکلات کے باعث بہت دشوار لگتا ہے۔ اٹلی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج، یوکرین کے حوالے سے منسک II مذاکرات شروع کرنے کی اینجلا مرکل کی خواہش اور فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کی یورپی یونین میں اصلاحات کا عمل تیز کرنے کی کوششوں سے عیاں ہے کہ سیاسی سرمایہ روس پر صَرف نہیں کیا جائے گا۔
برطانیہ کی تصادم کی پالیسی اور یورپی یونین کی عدم تصادم کی پالیسی اپنی اپنی جگہ برقرار رہیں گی۔ برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ سلامتی کا ایک ایسا معاہدہ کرنے کی کوشش بھی کرے گا جو اس کے لیے سودمند ہو۔ یورپی یونین کی رکن ریاستیں سمجھتی ہیں کہ برطانیہ یورپ کے سفارتی، عسکری اور سلامتی کے امور و معاملات پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے اس قسم کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ناٹو میں ترکی کے موجود ہونے کا مطلب ہے کہ ناٹو کوئی بھی متفقہ اقدام نہیں اٹھا سکے گی۔ بہرحال برطانیہ نے فرانس کے ساتھ ایک دو طرفہ معاہدہ کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین طویل عرصے سے قائم سلامتی سے متعلق اور فوجی رفاقتِ کار آئندہ بھی جاری رہے۔ حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ برطانیہ اس وقت کس قدر کمزور اور اکیلا ہے۔ برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو زہر دیے جانے والے واقعے یا یورپی یونین کی کانفرنسوں اور ایف سی او کی قیادت میں روس کو نشانہ بنانے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ روس پر پابندیاں عائد کرنے یا ایسے بیانات دیے جانے سے، جیسا کہ برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے روس کو نازی جرمنی سے تشبیہ دی ہے، کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ایسے بیانات کا مقصد صرف ملک کے اندر اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ ہی ہوا کرتا ہے۔
(بشکریہ جیوپولیٹیکل مانیٹر؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)