کراچی: شدید گرمی کی لہر المیہ بن گئی
مہر احمد
پاکستان کے عظیم ساحلی شہر کراچی میں سال کے اس حصے میں گرمی کی لہریں معمول بن چکی ہیں۔اس سال بھی گرمی کی تازہ ترین لہر نے اس شہر کے دو کروڑ باسیوں کو نشانہ بنایا ہے جب کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ جب پچھلے ہفتے درجۂ حرارت 44درجہ سیلسیئس تک پہنچ گیا اور لوگوں کو سایے میں بھی یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ بخار میں مبتلا ہوں، تب اس گرمی سے بچنے سے قاصر لوگ اپنے دن سستی سے گزارتے ہوئے اسی طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ سڑکوں اور سیمنٹ سے تعمیر کردہ عمارتوں سے رات کے وقت بھی خارج ہوتی گرمی کو شہر کے سبزے کے فقدان نے مزید اذیت دہ بنا دیا۔ جو لوگ اپنے گھروں اور دکانوں میں ائیرکنڈیشنر لگوانے کی استطاعت رکھتے تھے، انھوں نے ایئرکنڈیشنر چلا لیے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کے پاس انتہا کی گرمی سے بچنے کے چند ایک ہی راستے ہیں۔ ان میں شامل ہیں پانی سے بھگوئے ہوئے تولیے اور بجلی سے چلنے والے پنکھے۔ بجلی سے چلنے والے پنکھے صرف اُن چند گھنٹوں ہی کے دوران کام کرتے ہیں جن میں بجلی ہوتی ہے۔ سڑکوں پر عموماً ٹریفک بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن دوپہر کے وقت سڑکیں بھی ویران ہو جاتی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے سپاہی اپنی چھتریوں کے نیچے سے نکل کر کاروں کی طرف عدم دل چسپی اور توانائی سے محرومی کی کیفیت میں آتے ہیں جب کہ لوگ انھیں کھڑا کر کے کسی عمارت کے اندر چلے گئے ہوتے ہیں یا چند لمحوں کے لیے شہر کے بہت سارے کنکریٹ کے میناروں کے سایے میں چھپ جاتے ہیں ۔۔۔ کوئی بھی جگہ جہاں تھوڑا بہت سکون و آرام مل سکے۔ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے آغاز کے چند دن بعد 18مئی کو گرمی انتہا کو پہنچ گئی ۔۔۔ اس مہینے کے دوران تمام جسمانی اعتبار سے اہل مسلمانوں پر فرض ہے کہ سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک کچھ بھی نہ کھائیں پئیں۔ اس دورانیے نے خوف انگیز درجۂ حرارت کے اثرات بڑھا دیے ہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ تعداد میں ایمبولینسوں اور مرکزی مردہ خانے کے حامل امدادی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پینسٹھ تک پہنچ چکی ہے۔ سرکاری افسران اس تعداد سے اختلاف کرتے ہیں۔ چار دن بعد انتہا کی گرمی میں تھوڑی کمی آئی۔۔۔ درجۂ حرارت گھٹ کر تینتیس درجے سیلسیئس ہو گیا ۔ گرمی کی شدت کے باعث جان کھو دینے والوں میں تیس سالہ طیبہ فیروز بھی شامل تھیں۔ ان کے خاوند محمد شیراز نے بتایا کہ وہ 20مئی کی شام اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے لگیں تو انھیں بہت گرمی لگ رہی تھی لیکن ان کی طبیعت خراب نہیں تھی۔ اس روز طیبہ فیروز کا روزہ نہیں تھا کیوں کہ وہ حمل سے تھیں اور حاملہ عورتوں کو اس مذہبی فریضے سے استثنا حاصل ہے۔ ان کے محلے میں بجلی روزانہ تقریباً چھ گھنٹے نہیں ہوتی تھی۔ یہ محلہ شہر کے شمالی حصے کا انتہائی غریب اور بے سروسامان لوگوں کا کثیر آبادی والا محلہ ہے۔ اس محلے کے باسی بجلی کے آنے کے وقت کے حساب سے اپنے کام کاج کرتے ہیں۔ طیبہ فیروز کے خاوند نے بتایا کہ بجلی دوبارہ چلی گئی تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے اصرار کیا کہ وہ گھر والوں کے لیے کھانا پکائیں گی۔ ان کے خاوند محمد شیراز نے بتایا کہ کھانا پکانے کے لیے چولہے کی طرف جانے سے پہلے وہ اپنے تین سالہ بیٹے کے ساتھ ہنس کھیل رہی تھیں۔ چند ہی منٹ بعد وہ گر یں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اس کے ایک ہفتے بعد ان کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کرنے والے محمد شیرازابھی تک اپنی بیوی کی اچانک وفات پر صدمے سے نڈھال تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ پانی کی کمی اور چولھے سے نکلنے والی حرارت کے باعث ہلاک ہوئی تھیں۔انھوں نے کہا کہ انھیں احساسِ خطا بھی ہے کیوں کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایک ایمبولینس کا ڈرائیور ہونے کے ناتے انھیں گرمی لگنے کی علامات کا علم ہے۔ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے محمد شیراز نے کہا پچھلے تیس برسوں کے دوران وہ کم از کم دو درجن افراد کو گرمی لگنے سے ہلاک ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں جون 2015ء میں ہوئی تھیں، جب کراچی تاریخ کی مہلک ترین گرمی کی لہر کی لپیٹ میں آیا تھا۔ اُس سال دو ہفتوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہسپتالوں میں جگہ نہیں رہی تھی جب کہ ایمرجینسی میں امدادی کارروائیاں کرنے والے نڈھال ہو کر رہ گئے تھے۔
محمد شیراز نے بتایا ، ’’میں نے لوگوں کو سڑکوں پر چلتے چلتے گرتے اور اللہ کو پیارے ہوتے دیکھا ہے۔ ہماری ایمبولینسوں کے پیچھے لوگ مر جاتے تھے۔ اموات نان سٹاپ ہو رہی تھیں۔‘‘ فیصل ایدھی نے، جن کے خاندان نے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کیا تھا، بتایا کہ انھیں یقین ہے 2015ء میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بیشتر ہلاکتوں کی خبریں کسی کو ملی ہی نہیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ادارے نے اِس سال پینسٹھ افراد کے گرمی سے ہلاک ہونے کی اطلاع دی ہے۔ یہ وہ ہلاکتیں ہیں، جو کراچی میں ہوئی ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔‘‘انھوں نے کہا، ’’امکان ہے کہ شہر کے باہر درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہوں گے لیکن ہمارے پاس اِن ہلاکتوں کا ریکارڈ نہیں ہے۔‘‘ فیصل ایدھی نے کہا کہ گرمی کی لہر کے دوران مردے خانے میں لاشیں معمول کی تعداد سے دگنی زیادہ تعداد میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مقامی حکومت کو گرمی سے نبرد آزما ہونے میں لوگوں کی زیادہ مدد کرنا چاہیے۔ شہر کی انتظامیہ نے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں اب تک کچھ نہیں بتایا اور شہر کے حاکمِ اعلیٰ کہتے ہیں کہ گرمی لگنے سے کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا بلکہ گرمی سے متعلقہ مسائل جیسے کہ پانی کی کمی وغیرہ سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ کراچی کے ایک سب سے بڑے ہسپتال جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمیں جمالی نے کہا کہ شہر نے 2015ء کے تجربات سے سبق سیکھا ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اب صورتِ حال ہمارے قابو میں ہے۔‘‘اُس وقت سے گرمی کی لہریں تواتر سے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں لیکن اُس گرمی کی لہر کے بعد گرمی کی موجودہ لہر بدترین نوعیت کی ہے۔ رمضان کے دوران پاکستان میں سرِ عام کھانے پینے پر امتناع عائد کر دیا جاتا ہے۔ جو کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا پایا جائے اسے تین ماہ تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ کراچی کے سب سے بڑے مذہبی ادارے کے سربراہ مفتی محمد نعیم نے کہا کہ اسلامی فقہ موسمِ گرما میں روزے رکھنے کے باب میں واضح ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اگر آپ قریب المرگ ہوں تو روزہ توڑا جا سکتا ہے لیکن ڈاکٹر ان دنوں تھوڑے سے گرم موسم میں بھی پانی پینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ شرع کے خلاف ہے۔‘‘ شہر میں ان کی باتوں کو کافی مانا جاتا ہے، جس سے مذہبی احکام پر سختی سے عمل کرنے والے لوگوں کے لیے درمیانی راستا مہیا ہوتا ہے کہ جب شہر کا درجۂ حرارت بڑھے تو وہ تھکن اور گرمی لگنے کے خطرے اور مذہبی تقاضوں میں توازن سے کام لیں۔ ایک تخمینے کے مطابق کراچی کی 61فی صد آبادی شہر کے مضافات میں جھونپڑ پٹیوں میں کنکریٹ سے تعمیر کیے جانے والے بے ہنگم مکانوں میں رہتی ہے۔ ان محلوں کے لوگوں کو گرمی کے علاوہ بہت سے دوسرے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ شہر کا پانی کا محکمہ کہتا ہے کہ اس کی 42فی صد سپلائی، جو تقریباً دو کروڑ افراد کے لیے کافی ہے، چرا لی جاتی ہے یا ’’کھو‘‘ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پہلے سے بارانی آب و ہوا میں پانی کی انتہائی قلت واقع ہو چکی ہے۔شہر کے غریب لوگ بہت اونچی قیمت پر ملنے والا پانی خریدنے سے قاصر ہیں۔ گرمی سے ہلاک ہونے والی محولہ بالا طیبہ فیروز کے خاوند محمد شیراز نے کہا کہ وہ ایک مجرم گروہ سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں حالاں کہ ان کے گھر میں پانی کا کنکشن لگا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا، ’’ہماری ٹوٹیوں میں پانی کبھی نہیں آتا۔ پانی وہیں چرا لیا جاتاہے، جہاں سے وہ فراہم کیا جاتا ہے چناں چہ ہمیں ان مجرموں سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔‘‘ شہری حکام اور پولیس نے مجرم گروپوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں اور حالیہ برسوں میں بجلی کے تعطل پر بھی تھوڑا بہت قابو پا لیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اپریل میں کراچی میں بجلی کی فراہمی میں تعطل آ گیا تھا کیوں کہ شہر کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے اور اسے گیس فراہم کرنے والے محکمے کے مابین جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانی اور بجلی کی متواتر فراہمی سے محروم شہر کے غریب ترین لوگ گرمی کا مقابلہ کرنے سے بے بس ہو گئے۔ فیصل ایدھی نے اموات سے متعلق اپنا ریکارڈ دیکھتے ہوئے بتایا کہ پچھلے ہفتے ہلاک ہونے والے تقریباً تمام افراد کا تعلق جھونپڑ پٹیوں سے تھا، جہاں زیادہ تر شہر کا مزدور طبقہ آباد ہے۔ محمد شیراز اپنی بیوی کی وفات کے بعد دس دن سوگ میں گزارنے کے بعد ایمبولینس پر اپنی ڈیوٹی انجام دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’’بلا شبہ میں روزے رکھ رہا ہوں۔ میں صبح اپنی بیوی کی قبر پر فاتحہ پڑھوں گا اور ایدھی فاؤنڈیشن میں اپنی ڈیوٹی ادا کرنے پہنچ جاؤں گا۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
مہر احمد
پاکستان کے عظیم ساحلی شہر کراچی میں سال کے اس حصے میں گرمی کی لہریں معمول بن چکی ہیں۔اس سال بھی گرمی کی تازہ ترین لہر نے اس شہر کے دو کروڑ باسیوں کو نشانہ بنایا ہے جب کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ جب پچھلے ہفتے درجۂ حرارت 44درجہ سیلسیئس تک پہنچ گیا اور لوگوں کو سایے میں بھی یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ بخار میں مبتلا ہوں، تب اس گرمی سے بچنے سے قاصر لوگ اپنے دن سستی سے گزارتے ہوئے اسی طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ سڑکوں اور سیمنٹ سے تعمیر کردہ عمارتوں سے رات کے وقت بھی خارج ہوتی گرمی کو شہر کے سبزے کے فقدان نے مزید اذیت دہ بنا دیا۔ جو لوگ اپنے گھروں اور دکانوں میں ائیرکنڈیشنر لگوانے کی استطاعت رکھتے تھے، انھوں نے ایئرکنڈیشنر چلا لیے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کے پاس انتہا کی گرمی سے بچنے کے چند ایک ہی راستے ہیں۔ ان میں شامل ہیں پانی سے بھگوئے ہوئے تولیے اور بجلی سے چلنے والے پنکھے۔ بجلی سے چلنے والے پنکھے صرف اُن چند گھنٹوں ہی کے دوران کام کرتے ہیں جن میں بجلی ہوتی ہے۔ سڑکوں پر عموماً ٹریفک بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن دوپہر کے وقت سڑکیں بھی ویران ہو جاتی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے سپاہی اپنی چھتریوں کے نیچے سے نکل کر کاروں کی طرف عدم دل چسپی اور توانائی سے محرومی کی کیفیت میں آتے ہیں جب کہ لوگ انھیں کھڑا کر کے کسی عمارت کے اندر چلے گئے ہوتے ہیں یا چند لمحوں کے لیے شہر کے بہت سارے کنکریٹ کے میناروں کے سایے میں چھپ جاتے ہیں ۔۔۔ کوئی بھی جگہ جہاں تھوڑا بہت سکون و آرام مل سکے۔ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے آغاز کے چند دن بعد 18مئی کو گرمی انتہا کو پہنچ گئی ۔۔۔ اس مہینے کے دوران تمام جسمانی اعتبار سے اہل مسلمانوں پر فرض ہے کہ سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک کچھ بھی نہ کھائیں پئیں۔ اس دورانیے نے خوف انگیز درجۂ حرارت کے اثرات بڑھا دیے ہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ تعداد میں ایمبولینسوں اور مرکزی مردہ خانے کے حامل امدادی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پینسٹھ تک پہنچ چکی ہے۔ سرکاری افسران اس تعداد سے اختلاف کرتے ہیں۔ چار دن بعد انتہا کی گرمی میں تھوڑی کمی آئی۔۔۔ درجۂ حرارت گھٹ کر تینتیس درجے سیلسیئس ہو گیا ۔ گرمی کی شدت کے باعث جان کھو دینے والوں میں تیس سالہ طیبہ فیروز بھی شامل تھیں۔ ان کے خاوند محمد شیراز نے بتایا کہ وہ 20مئی کی شام اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے لگیں تو انھیں بہت گرمی لگ رہی تھی لیکن ان کی طبیعت خراب نہیں تھی۔ اس روز طیبہ فیروز کا روزہ نہیں تھا کیوں کہ وہ حمل سے تھیں اور حاملہ عورتوں کو اس مذہبی فریضے سے استثنا حاصل ہے۔ ان کے محلے میں بجلی روزانہ تقریباً چھ گھنٹے نہیں ہوتی تھی۔ یہ محلہ شہر کے شمالی حصے کا انتہائی غریب اور بے سروسامان لوگوں کا کثیر آبادی والا محلہ ہے۔ اس محلے کے باسی بجلی کے آنے کے وقت کے حساب سے اپنے کام کاج کرتے ہیں۔ طیبہ فیروز کے خاوند نے بتایا کہ بجلی دوبارہ چلی گئی تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے اصرار کیا کہ وہ گھر والوں کے لیے کھانا پکائیں گی۔ ان کے خاوند محمد شیراز نے بتایا کہ کھانا پکانے کے لیے چولہے کی طرف جانے سے پہلے وہ اپنے تین سالہ بیٹے کے ساتھ ہنس کھیل رہی تھیں۔ چند ہی منٹ بعد وہ گر یں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اس کے ایک ہفتے بعد ان کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کرنے والے محمد شیرازابھی تک اپنی بیوی کی اچانک وفات پر صدمے سے نڈھال تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ پانی کی کمی اور چولھے سے نکلنے والی حرارت کے باعث ہلاک ہوئی تھیں۔انھوں نے کہا کہ انھیں احساسِ خطا بھی ہے کیوں کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایک ایمبولینس کا ڈرائیور ہونے کے ناتے انھیں گرمی لگنے کی علامات کا علم ہے۔ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے محمد شیراز نے کہا پچھلے تیس برسوں کے دوران وہ کم از کم دو درجن افراد کو گرمی لگنے سے ہلاک ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں جون 2015ء میں ہوئی تھیں، جب کراچی تاریخ کی مہلک ترین گرمی کی لہر کی لپیٹ میں آیا تھا۔ اُس سال دو ہفتوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہسپتالوں میں جگہ نہیں رہی تھی جب کہ ایمرجینسی میں امدادی کارروائیاں کرنے والے نڈھال ہو کر رہ گئے تھے۔
محمد شیراز نے بتایا ، ’’میں نے لوگوں کو سڑکوں پر چلتے چلتے گرتے اور اللہ کو پیارے ہوتے دیکھا ہے۔ ہماری ایمبولینسوں کے پیچھے لوگ مر جاتے تھے۔ اموات نان سٹاپ ہو رہی تھیں۔‘‘ فیصل ایدھی نے، جن کے خاندان نے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کیا تھا، بتایا کہ انھیں یقین ہے 2015ء میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بیشتر ہلاکتوں کی خبریں کسی کو ملی ہی نہیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ادارے نے اِس سال پینسٹھ افراد کے گرمی سے ہلاک ہونے کی اطلاع دی ہے۔ یہ وہ ہلاکتیں ہیں، جو کراچی میں ہوئی ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔‘‘انھوں نے کہا، ’’امکان ہے کہ شہر کے باہر درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہوں گے لیکن ہمارے پاس اِن ہلاکتوں کا ریکارڈ نہیں ہے۔‘‘ فیصل ایدھی نے کہا کہ گرمی کی لہر کے دوران مردے خانے میں لاشیں معمول کی تعداد سے دگنی زیادہ تعداد میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مقامی حکومت کو گرمی سے نبرد آزما ہونے میں لوگوں کی زیادہ مدد کرنا چاہیے۔ شہر کی انتظامیہ نے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں اب تک کچھ نہیں بتایا اور شہر کے حاکمِ اعلیٰ کہتے ہیں کہ گرمی لگنے سے کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا بلکہ گرمی سے متعلقہ مسائل جیسے کہ پانی کی کمی وغیرہ سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ کراچی کے ایک سب سے بڑے ہسپتال جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمیں جمالی نے کہا کہ شہر نے 2015ء کے تجربات سے سبق سیکھا ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اب صورتِ حال ہمارے قابو میں ہے۔‘‘اُس وقت سے گرمی کی لہریں تواتر سے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں لیکن اُس گرمی کی لہر کے بعد گرمی کی موجودہ لہر بدترین نوعیت کی ہے۔ رمضان کے دوران پاکستان میں سرِ عام کھانے پینے پر امتناع عائد کر دیا جاتا ہے۔ جو کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا پایا جائے اسے تین ماہ تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ کراچی کے سب سے بڑے مذہبی ادارے کے سربراہ مفتی محمد نعیم نے کہا کہ اسلامی فقہ موسمِ گرما میں روزے رکھنے کے باب میں واضح ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اگر آپ قریب المرگ ہوں تو روزہ توڑا جا سکتا ہے لیکن ڈاکٹر ان دنوں تھوڑے سے گرم موسم میں بھی پانی پینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ شرع کے خلاف ہے۔‘‘ شہر میں ان کی باتوں کو کافی مانا جاتا ہے، جس سے مذہبی احکام پر سختی سے عمل کرنے والے لوگوں کے لیے درمیانی راستا مہیا ہوتا ہے کہ جب شہر کا درجۂ حرارت بڑھے تو وہ تھکن اور گرمی لگنے کے خطرے اور مذہبی تقاضوں میں توازن سے کام لیں۔ ایک تخمینے کے مطابق کراچی کی 61فی صد آبادی شہر کے مضافات میں جھونپڑ پٹیوں میں کنکریٹ سے تعمیر کیے جانے والے بے ہنگم مکانوں میں رہتی ہے۔ ان محلوں کے لوگوں کو گرمی کے علاوہ بہت سے دوسرے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ شہر کا پانی کا محکمہ کہتا ہے کہ اس کی 42فی صد سپلائی، جو تقریباً دو کروڑ افراد کے لیے کافی ہے، چرا لی جاتی ہے یا ’’کھو‘‘ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پہلے سے بارانی آب و ہوا میں پانی کی انتہائی قلت واقع ہو چکی ہے۔شہر کے غریب لوگ بہت اونچی قیمت پر ملنے والا پانی خریدنے سے قاصر ہیں۔ گرمی سے ہلاک ہونے والی محولہ بالا طیبہ فیروز کے خاوند محمد شیراز نے کہا کہ وہ ایک مجرم گروہ سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں حالاں کہ ان کے گھر میں پانی کا کنکشن لگا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا، ’’ہماری ٹوٹیوں میں پانی کبھی نہیں آتا۔ پانی وہیں چرا لیا جاتاہے، جہاں سے وہ فراہم کیا جاتا ہے چناں چہ ہمیں ان مجرموں سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔‘‘ شہری حکام اور پولیس نے مجرم گروپوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں اور حالیہ برسوں میں بجلی کے تعطل پر بھی تھوڑا بہت قابو پا لیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اپریل میں کراچی میں بجلی کی فراہمی میں تعطل آ گیا تھا کیوں کہ شہر کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے اور اسے گیس فراہم کرنے والے محکمے کے مابین جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانی اور بجلی کی متواتر فراہمی سے محروم شہر کے غریب ترین لوگ گرمی کا مقابلہ کرنے سے بے بس ہو گئے۔ فیصل ایدھی نے اموات سے متعلق اپنا ریکارڈ دیکھتے ہوئے بتایا کہ پچھلے ہفتے ہلاک ہونے والے تقریباً تمام افراد کا تعلق جھونپڑ پٹیوں سے تھا، جہاں زیادہ تر شہر کا مزدور طبقہ آباد ہے۔ محمد شیراز اپنی بیوی کی وفات کے بعد دس دن سوگ میں گزارنے کے بعد ایمبولینس پر اپنی ڈیوٹی انجام دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’’بلا شبہ میں روزے رکھ رہا ہوں۔ میں صبح اپنی بیوی کی قبر پر فاتحہ پڑھوں گا اور ایدھی فاؤنڈیشن میں اپنی ڈیوٹی ادا کرنے پہنچ جاؤں گا۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)