امریکا کی سیاست میں امریکا کی فوج اور خفیہ اداروں کا
مرکزی کردار
اردو کے معروف شاعر اور پنجاب کی سیاست و زرعی معیشت کے ایک
اہم خاندان کے چشم و چراغ محمد ندیم بھابھا صاحب نے پاکستان کی تازہ سیاسی صورتِ
حال کے حوالے سے فیس بک پر اپنی ٹائم لائن پر ایک پوسٹ پبلش کی۔ محمد ندیم بھابھا
صاحب کی اس پوسٹ اور اس پر کیے جانے والے بعض احباب کے کومینٹس کے
تناظر میں اس عاجز کے کومینٹ ایک "مضمونچے" کی صورت احباب کی خدمت میں پیش ہیں:
برطانیہ کو سِوِل ڈیموکریسی کی جنم بھومی اور دوسری عالمی
جنگ کے بعد سے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو جمہوریت کا پاسبان مانا جاتا ہے۔ میں نہایت بےوسیلہ اور حاسدوں کی مہربانی سے تمام زندگی نیم بےروزگار رہنے والا حقیر طالبِ
علم اپنے محدود مطالعے سے یہ جان پایا ہوں کہ امریکا کے بیش تر صدور اور مجموعی طور
سے بیش تر امریکی سیاست دان سیاست میں آنے سے پہلے فوج میں ملازمت کر چکے تھے۔
امریکا میں ڈیپ سٹیٹ حقیقی حکمران ہے۔
معاصر عالمی سٹیٹ کرافٹ کے بارے میں جاننے
والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں۔ میں تو ایک حقیر طالب علم کی حیثیت
سے عرض کر رہا ہوں۔ یہ عاجز اکثر اوقات رہائش کا کرایہ ادا نہ کر پانے کے باعث مستقل
قیام گاہ سے محرومی کے سبب لائبریری نہیں بنا سکا ورنہ یہاں حوالے/ ریفرنس پیش کرتا۔ جو حوالے/ ریفرنس آن لائن دستیاب ہیں، وہ نذر کر رہا ہوں تاکہ پڑھنا چاہیں تو پڑھ
لیں۔
For some Presidents of the United States, the title
“Commander-in-Chief” was their first association with the military, but a
majority of our country’s leaders came to office as Veterans.
یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ امریکا کی ایک سرکاری ویب سائٹ کے ایک مضمون کا پہلا جملہ
ہے۔ مضمون کا عنوان ہے: Military Roots: Presidents who were Veterans
امریکا کی برطانیہ سے آزادی کے بعد اس کے پہلے صدر جارج واشنگٹن
اس وقت کی امریکی فوج کے سربراہ تھے۔ انھوں نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے فوج کے
سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔
امریکا کی محولہ بالا سرکاری ویب سائٹ کے مذکورہ مضمون کا ایک
اور اہم ترین جملہ:
Partisanship soon became the norm in American politics,
but the value of military service remained an important quality that citizens
sought in their President.
دنیا کی حقیقی ناظم سپر پاور امریکا کے متعلق نہایت اہم حقیقت،
اس کی اپنی سرکاری ویب سائٹ سے:
Twenty-six
of our 44 Presidents served in the military.
ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سیاست میں فوج کو اتنی اہمیت
حاصل ہے کہ اس کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر لگائے جانے والے اہم ترین الزامات میں
سے ایک الزام یہ ہے کہ انھوں نے یونی ورسٹی میں پڑھنے کے دوران ویت نام میں جنگ کے
لیے فوج میں بھرتی سے گریز کیا تھا۔
موجودہ دور میں کسی بھی ملک کے وزیرِ خارجہ کی اہمیت سے سب آگاہ ہیں۔ امریکا کا
وزیرِ خارجہ تو دنیا میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ امریکا کے موجودہ وزیرِ خارجہ کے فوج سے
تعلق کے حوالے سے امریکا کی وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ پر یہ لکھا ہے:
Mr. Pompeo graduated first in his class at the United
States Military Academy at West Point in 1986 and served as a cavalry officer
patrolling the Iron Curtain before the fall of the Berlin Wall. He also served
with the 2nd Squadron, 7th Cavalry in the US Army’s Fourth Infantry Division.
After leaving active duty, Mr. Pompeo graduated from
Harvard Law School, having been an editor of the Harvard Law Review.
افسوس میرے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ورنہ ایسے اہم موضوعات
پر تفصیل سے لکھتا، جن کے بارے میں ہمارا میڈیا (کالم نویس، اینکر، اینالسٹ)، انٹیلی
جینشیا (دانشور مرد و خواتین)، ایکیڈیمیا (یونی ورسٹیوں، کالجوں میں پڑھانے والے مرد
و خواتین) وغیرہ شعوری طور سے مغالطے پھیلا رہے ہیں اور عشروں سے عوام کو گم راہ کر
رہے ہیں۔
امریکا
کے ایک سابق صدر جمی کارٹر نے اپنی کتاب Our Endangered Values: America's Moral Crisis میں امریکا کے نظامِ سیاست و ریاست کے اہم ترین گوشے عیاں کیے تھے۔ یہ کتاب اردو میں بھی دستیاب ہے۔
امریکا کی سیاست میں ریاستی اداروں خصوصاً خفیہ اداروں کا بنیادی
کردار واٹر گیٹ سکینڈل سے عیاں ہے، جس پر ہالی وُڈ میں فلم بنائی گئی تھی "آل دا پریزیڈینٹس
مین"۔ اس فلم کو جیو ٹی وی نے اردو میں ڈب کروا کر نشر کیا تھا۔ یہ حقیر بلاگر بھی ایک معمولی ورکر (ٹرانسلیٹر/ ٹرانسلیشن ایڈیٹر) کی حیثیت سے اس اہم پروجیکٹ میں شامل تھا۔
واٹر گیٹ سکینڈل میں امریکا کے صدر کے خلاف بنیادی کردار امریکا
کے اہم ترین خفیہ ادارے ایف بی آئی کے اس وقت کے نائب سربراہ نے ادا کیا تھا۔ اس کا
اعتراف انھوں نے چند سال پہلے فوت ہونے سے قبل کیا تھا۔
امریکا
کے سب سے اہم خفیہ ادارے سی آئی اے کا امریکا کے نظامِ سیاست و حکومت میں بنیادی کردار جاننا ہو تو اردو میں دستیاب ایک کتاب "سی آئی اے اور دہشت گردی؟"
پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ سی آئی اے کے ایک سابق سربراہ جارج ٹینیٹ کی آپ بیتی ہے۔
anglx miN as ktab ka enwan oy: At the Center of the
Storm: My Years at the CIA
کاش
میرے پاس وسائل ہوتے تو ایسے اہم موضوعات پر باقاعدہ لکھا کرتا۔