یہ ناچیز بھی کروڑوں پاکستانیوں کی طرح غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور میڈیا اور پبلشنگ کے منفی ذہن کے لوگوں کی "مہربانی" سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔
چناں چہ غریبوں اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں سے روز ملنا جلنا ہوتا ہے۔ ان میں سے 90 فی صد لوگ تعلیم کے انتہائی زیادہ چرچے کے زیرِ اثر کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں، بچیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں یا یہ کہ ہم اپنے بچوں، بچیوں کو پڑھا رہے ہیں۔
میں ناچیز ان سب سے کہتا ہوں کہ اپنے بچوں، بچیوں کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سکھاؤ۔
غربت کی لکیر سے نیچے اور غربت میں زندگی بسر کرنے والے بعض لوگ باشعور بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے بڑوں اور اپنی زندگی سے سبق سیکھا ہے کہ صرف تعلیم سے منفی ذہن کے لوگوں کی اکثریت والے معاشرے اور دہشت انگیز حد تک منفی معاشی نظام میں جینا ناممکن ہے، اس لیے وہ اپنے بچوں کو کم سِنی ہی میں کسی نہ کسی ہنرمند کا شاگرد بنا دیتے ہیں۔ پندرہ سولہ سال کی عمر تک یہ بچے خود ہنرمند بن جاتے ہیں اور ان میں سے بہت سارے اپنی دکان بنا کر اپنے ہنر سے معقول رقم ماہانہ کماتے ہیں۔
حقیقتاً یہ غریب اور غربت لی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانی عظیم انسان ہیں۔
کاش لوگ ان عظیم پاکستانیوں سے سبق سیکھیں اور اپنی اولاد کو اپنے اور معاشرے کے لیے واقعتاً کار آمد انسان بنائیں۔