یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ دنیا کے ںہت سے ملک اور افراد سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ کو منفی انداز سے استعمال کر رہے ہیں۔
اس کی سب سے مشہور مثال امریکا کے صدر ٹرمپ پر یہ الزام ہے کہ امریکا کے دشمن ملک روس نے انھیں صدر منتخب کروانے کے لیے فیس بک کے ذریعے امریکا میں لوگوں کی آراء پر اثر ڈالا تھا۔
اس الزام کا جواب دینے کے لیے مارک زکربرگ کو بھی امریکا کی پارلیمنٹ کانگریس میں پیش ہو کر تفتیش کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد فیس بک پر مزید احتیاطی اقدامات کیے گئے تھے۔
اصطلاحاً اسے انفارمیشن وار کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح آپ نے بھی سنی پڑھی ہو گی۔
جس طرح ہر شہری ہتھیار استعمال کرنا نہیں جانتا اسی طرح تقریباً سارے سوشل میڈیا یوزر ان "ہتھیاروں" کے استعمال سے واقف نہیں جنھیں انفارمیشن وار میں استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہاں یہ بات ہم سب جانتے ہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی تحریریں، تصویریں اور ویڈیو کلپس اس انفارمیشن وار کے "ہتھیار" ہیں۔
چناں چہ اگر ہم اپنے معاشرے، اپنے ملک اور اپنے آپ کو نقصان سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان پوسٹوں سے ویسے ہی بچنا چاہیے جیسے عام جنگ کی صورت میں بندوق کی گولیوں اور توپوں کے گولوں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔