اردو، انگریزی کا ہر کالم جہل، مغالطوں، جھوٹ وغیرہ کا بد ترین آمیزہ ہوتا ہے۔
آج ایک معروف ترین کالم نویس اینکر کا کالم پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔
میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور "نئی دنیا" میں تو میڈیا پہلے سے زیادہ اہم ہو چکا ہے۔
ایک ویب سائٹ کے مطابق اس کالم نویس اینکر کی ماہانہ تنخواہ اٹھائیس لاکھ روپے ہے۔ اس ویب سائٹ پر دس اینکروں کی ماہانہ تنخواہ بتائی گئی ہے۔ خدا جانے یہ سچ ہے یا گپ۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ بعض اینکروں، کالم نویسوں (اور ایڈیٹروں) کو ان کی اہلیت اور مارکیٹ ویلیو سے انتہائی زیادہ تنخواہ دی جا رہی ہے (مراعات الگ ہیں جب کہ وہ معاشرے کے طاقت ور ترین افراد بھی بن چکے ہیں)۔
کالم کا عنوان ہے "عزّت کے متلاشی بھکاری".
کالم نویس نے اپنے مخصوص چونکا دینے والے اسلوب میں او آئی سی، ایک پڑوسی مگر دشمن ملک، اپنے وطن پاکستان اور موجودہ وزیرِ اعظم کے بارے میں لکھتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ یقیناً بے شمار پڑھنے والوں کو پسند آئے گا لیکن یہ کالم ثبوت ہے کہ ملیئنز آف رُپیز تنخواہ لینے والے یہ محترم کالم نویس اینکر بھی سارے کالم نویس اینکروں اور ایڈیٹروں کی طرح چالاک تو حد سے زیادہ ہیں لیکن کالم نویس اینکر بننے کے لیے لازمی اہلیت سے بالکل ہی محروم ہیں۔
خدا جانے کب میڈیا ایسے جعلی کالم نویسوں، اینکروں اور ایڈیٹروں کے پنجوں سے نجات پائے گا۔
جو اِن جعلی کالم نویسوں، اینکروں اور ایڈیٹروں کی سرپرستی کرتے اور ان سے کام لیتے ہیں، انھیں بھی سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اہل لوگوں کو کالم نویس اور اینکر بناتے اور انھیں ملیئنز نہ سہی محض ضروریاتِ زندگی کے مطابق تنخواہ دیتے تو ان کا کام ہزاروں گنا زیادہ بہتر انداز سے انجام پاتا اور ہزاروں گنا بہتر نتائج حاصل ہوتے۔
مانا کہ "انفارمیش وار" کے اِس زمانے میں شور مچانے والی چالاک مگر اجہل کٹھ پتلیاں ضروری ہوتی ہیں لیکن میڈیا، (نیز پبلشنگ بزنس اور تعلیمی اداروں) میں باعلم، اہل اور جینوئن لوگوں کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ عالمی میڈیا حتیٰ کہ تھنک ٹینک تک اس کی مثال ہیں جہاں انفارمیشن کے نام پر بے معنی تحریریں اور کچرا پھیلانے والے سرگرم ہیں لیکن باعلم اور جینوئن لوگ بھی موجود ہیں جو فلسفہ، سائنس، ادب و شاعری اور دوسرے علوم کی کتابیں پڑھتے ہیں اور حاصل شدہ علم و شعور اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے عوام تک پہنچا کر قومی خدمت انجام دیتے ہیں۔