Wednesday, May 22, 2019

تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے

تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہو جائیں وہ پیڑوں پر نہیں رہتے

تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے

اسے جس دھوپ میں جبری مشقت کھینچ لائی ہے
گھروں سے سائے بھی اس دھوپ میں باہر نہیں رہتے

جھکا دے گا تری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے

وہ میرا ہم سفر ہوتا تو اس کو بھی خبر ہوتی
جو گزریں آگ کی بستی سے ان کے پر نہیں رہتے

یقیناً یہ رعایا بادشہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے

شاعر: اسلم وڑائچ، سرگودھا

چوتھے صنعتی انقلاب کا زمانہ، میگا سٹی، یوٹوپیا اور ڈائریا

اپنے لایعنی خیالوں کی دنیا میں جینے والوں کی یوٹوپیا، میگا سِٹی، عظیم تاریخی شہر وغیرہ وغیرہ کی اس چوتھے صنعتی انقلاب کے زمانے میں، اکیسویں ...