تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہو جائیں وہ پیڑوں پر نہیں رہتے
تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے
اسے جس دھوپ میں جبری مشقت کھینچ لائی ہے
گھروں سے سائے بھی اس دھوپ میں باہر نہیں رہتے
جھکا دے گا تری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے
وہ میرا ہم سفر ہوتا تو اس کو بھی خبر ہوتی
جو گزریں آگ کی بستی سے ان کے پر نہیں رہتے
یقیناً یہ رعایا بادشہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے
شاعر: اسلم وڑائچ، سرگودھا