Wednesday, June 6, 2018

بھارت: زنا بالجبر کی شکار مسلم بچی سے کسی کو ہمدردی نہیں

بھارت: زنا بالجبر کی شکار مسلم بچی سے کسی کو ہمدردی نہیں

جیفری جیٹلمین

آٹھ سالہ بچی سے کسی کو ہمدردی نہیں تھی۔ یہ ایسے تھا جیسے اسے انسان ہی نہ سمجھا جا رہا ہو، جیسے اس کی زندگی سوائے ایک شکار کے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہو۔ پولیس کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ہندو نوجوانوں کے ایک ٹولے نے اس کا انتخاب بطورِ خاص ایسا پیغام بھیجنے کے لیے کیا تھا جو اس بچی کی مسلمان خانہ بدوش قوم میں دہشت پھیلا دے۔ انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بنا کر اسے ایک چراگاہ سے اغوا کیا تھا، نشہ طاری کر دینے والی چیزیں اس کے حلق میں ٹھونسی تھیں اور اسے ایک مندر میں تین دن مقید رکھا تھا، جہاں انھوں نے اسے مارا پیٹا، اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا اور آخرِ کار اس کا گلا دبا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس کا قد محض ساڑھے تین فٹ تھا اور وہ اپنا دفاع کرنے کے قابل بالکل نہیں تھی۔ جہاں بھارت کے مختلف شہروں اور بین الاقوامی سطح پر غصہ بھرے احتجاجی مظاہرے ہوئے وہاں جموں و کشمیر کی اس بستی رسانا میں، جہاں اس بچی کو قتل کیا گیا تھا، موڈ مختلف ہے۔ رسانا ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ اس میں کُل بیس گھر ہیں اور اس کے ایک سِرے سے دوسرے تک پیدل جانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔ خشک، خراشیں ڈالنے والی گندم کے کھیتوں سے، جن سے گائے کے گوبر کی بو آ رہی ہے،اور نیچی بیرونی دیواروں والے چھوٹی اینٹوں کے مکانات سے آگے جائیں تو آخرِ کار آپ ایک گلابی رنگ کے مندر تک پہنچ جاتے ہیں، جس پر اب قفل پڑا ہے۔ یہاں نہ تو شرمندگی ہے اور نہ ہی ہمدردی۔ ہندو اکثریت والی اس بستی کے چند لوگ ہی اس غیر انسانی جرم یا اس حقیقت کے بارے میں بات کر رہے ہیں کہ صدمے کے شکار لڑکی کے ماں باپ بستی سے بھاگ چکے ہیں۔ انھیں اپنی بیٹی کی لاش اپنے گھر کے نزدیک دفنانے سے روک دیا گیا تھا، اس لیے اِس گھرانے کو اُس کی لاش اپنے ساتھ لے جانا پڑی۔
اس کی بجائے آپ ایسی باتیں سنیں گے: ہماری زمین اور ان کی زمین۔ ہم اور وہ۔
نزدیکی بستی کے ایک بھاگ مَل نامی بوڑھے نے کہا، ’’یہ ہندووں کی ہمت توڑنے کی بڑی سازش ہے۔‘‘ بھاگ مل کو اصرار تھا کہ بچی کی ہلاکت کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے آٹھ آدمیوں کو بلاوجہ پکڑا گیا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ اس سازش کے پیچھے کون ہے؟ تو اس نے غصہ بھری آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ’’علیٰحدگی پسند۔‘‘ اس کا اشارہ ریاست جموں و کشمیر کے دوسرے حصے کے مسلمانوں کی طرف تھا جو بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ بہت سے بھارتیوں کو امید تھی کہ 2012ء میں دہلی میں ایک بس میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ اجتماعی زنا بالجبر کے واقعے کے بعد صورتِ حال تبدیل ہو جائے گی لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ چند قوانین سخت بنا دیے گئے تھے اور اب بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ چھوٹی بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے لیکن زنا بالجبر کے مقدمات میں سزا دینے کی شرح بہت کم ہے جب کہ درجنوں بھارتی سیاست دان جنسی جرائم کے الزامات کے باوجود منتخب ہو چکے ہیں۔
بھارت مذہب، نسل اور سیاسی خطوط پر اتنا زیادہ منقسم ملک ہے کہ اس قدر ہول ناک جرم کو بھی فوراًسیاست کے رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔بہت سے ہندو اہلِ علم انتہا پسندی کے عروج کو اس کا الزام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں مسلمانوں کے خلاف کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کتنے کم عمر ہی کیوں نہ ہوں۔ بچی کی ہلاکت کے بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی پر، جن کی جماعت کی جڑیں ہندو قوم پرستی میں ہیں، اس جرم کی مذمت فوراً نہ کرنے پر سخت تنقید کی گئی۔ انھوں نے اس واقعے اور زنا بالجبر کے ایک اور حالیہ واقعے پر تب بات کی جب ہر طرف احتجاج برپا ہوا۔ انھوں نے کہا، ’’ہماری بیٹیوں کو انصاف ضرور ملے گا۔‘‘ ان کی جماعت کے عہدے داروں نے اس بات سے انکار کیا کہ انھوں نے دونوں واقعات کے حوالے سے غلط طرزِ عمل اپنایا تھا۔ انھوں نے یہ بات بھی تسلیم نہیں کی کہ ان کی سیاست نے بھارت کو ایک دوسرے کے شدید مخالف دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچی کی ہلاکت کے بعد وہ تو صرف ’’لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے۔‘‘ بہرحال مودی کی جماعت کے بعض اعلیٰ عہدے دار بچی کے قتل کے معاملے میں ملوث افراد کا شدومد سے دفاع کر رہے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کئی سال سے بی جے پی کا رویہ ایسا ہی چلا آ رہا ہے۔ تیروواننتا پورم کے سینٹر فار ڈیویلپمنٹ سٹڈیز سے تعلق رکھنے والی تاریخ داں جے دِیویکانے کہا، ’’نوجوانوں کو پڑھایا گیا ہے کہ مسلمان اس قوم پر دھبہ ہیں ۔۔۔ ان کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو، کرو۔‘‘ انھوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ان کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ انھوں نے ’’ہندو مذہب کو ہتھیار بنا لیا ہے۔‘‘ انھوں نے ایک اور واقعے کا بھی ذکر کیا جس میں ایک ہندو جنونی نے کلہاڑی کے وار کر کے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا۔ قاتل نے اس کی دہشت ناک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی، جو بہت بڑی تعدا میں شیئر کی گئی۔قاتل ہندو انتہا پسندوں میں راتوں رات مشہور ہو گیا۔ جہاں بہت سے بھارتیوں کو اس واقعے پر افسوس ہوا، وہاں بے شمار بھارتی اس پر خوش ہوئے۔ ہندو انتہا پسندوں کے ہول ناک جرائم کی فہرست طویل ہے۔ گائے لے جانے والے مسلمانوں کو ہندووں کے ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کر ڈالا۔ ایک مسلمان لڑکے کو ٹرین میں خنجر گھونپ دیا گیا۔ ابھی پچھلے ہی ہفتے پولیس نے کہا کہ نریندر مودی کی سیاسی جماعت کے ایک نوجوان راہنما نے شیخی بگھارتے ہوئے بتایا کہ اس نے روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کے سینکڑوں مکانات جلا کر خاکستر کر ڈالے۔ ایک حالیہ تجزیے کے مطابق نریندر مودی کی آنکھوں کے سامنے نفرت کی وجہ سے کیے جانے والے جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ بچی کا قتل اسی عام ہو جانے والی نفرت کا ہی نتیجہ ہے۔ زیادہ تر مسلمان اور نچلی ذات کے ہندو نفرت کا نشانہ بنتے ہیں۔ رسانا میں موجود سرکاری اہل کاردونوں طرف کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
بھارت کے بیش تر علاقوں میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ اس علاقے میں بھی مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور عموماً ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ انداز اپنائے رکھتے ہیں تا وقتے کہ کوئی انھیں اکسا نہ دے۔ آٹھ سالہ بچی سے زنا اور اسے قتل کرنے کے مقدمے میں عدالت میں سب سے پہلے ہندو وکیلوں نے پولیس کے سپاہیوں کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔ اس کے بعد احتجاج در احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نریندر مودی کی جماعت کے کارکنوں اور عہدہ داروں نے جلوس نکالے اور توڑ پھوڑ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتبہ افراد کو اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے اور وہ بے قصور ہیں۔ درجنوں ہندو عورتیں بھی ان کے احتجاجی جلوس میں شریک ہوئی تھیں۔ ان ہندو عورتوں نے بھوک ہڑتال کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کریں گی۔ ان میں سے کئی ہندو عورتوں نے ایسا ہی کیا اور قریب المرگ ہونے پر انھیں ہسپتالوں میں داخل کروایا گیا۔ احتجاج کرنے والے ہندو ایک سی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ ریاستی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ریاستی پولیس کی بجائے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) تفتیش کرے۔ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) ایک وفاقی ایجنسی ہے جس کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ وہ نریندر مودی کی جماعت کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ دوسری طرف ریاست کے دوسرے حصوں میں مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالے۔ پولیس نے انھیں روکا تو ان کا پولیس کے ساتھ تصادم ہو گیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مشتبہ افراد کو پھانسی دی جائے۔ اگرچہ ریاستِ جموں و کشمیر کا زیادہ تر انتظام بھارت کے ہاتھ میں ہے لیکن یہ پاکستان کے ساتھ عشروں سے جاری خوں ریز تنازع کا باعث چلی آ رہی ہے۔ ریاست کی حکومت پہلے ہی حالات و واقعات سے گھبرائی ہوئی ہے۔ اسے وادئ کشمیر کے عوام کی لامختتم شورش اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے شدید ترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ یہ حکومت محض سیاسی مقاصد سے بنائے گئے ایک عجیب و غریب اتحاد کی حکومت ہے جس میں خودمختاری کے لیے کام کرنے والی مسلمانوں کی ایک جماعت اور نریندر مودی کی دائیں بازو کی ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، جسے بی جے پی کہا جاتاہے، شامل ہیں (دونوں جماعتوں نے اتنے ووٹ حاصل نہیں کیے تھے جو حکومت بنانے کے لیے کافی ہوتے۔) اپریل کے وسط میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اُن دو وزیروں کو استعفے دینے پر مجبور کر دیا گیا جنھوں نے آٹھ سالہ بچی سے زنا اور قتل کرنے میں ملوث ملزمان کے حق میں نکالے جانے والے احتجاجی جلوسوں میں شرکت کی تھی۔ اس اقدام کا مقصد کمزور سیاسی اتحاد کو بچانا تھا۔ اب بھی وہ دونوں سابق وزیر ملزموں کے حق میں نکالے جانے والے وکیلوں کے احتجاجی جلوسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ پورے بھارت میں، خصوصاً بڑے شہروں میں، ہر مذہب کے لوگوں نے اس جرم اور اس کے بعد ابھرنے والی تفریق کے خلاف غصے کا اظہار کیا لیکن اکسانے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کے کئی اخبارات اور نیوز چینلوں کے مطابق ایک ہندو وکیل نے اس جرم کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر کی تذلیل کی۔ اگرچہ فردِ جرم کسی ڈراؤنی فلم کے سکرپٹ کی طرح رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے لیکن مقامی سطح پر اس دہشت انگیز جرم کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بچی کے باپ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 10جنوری کی شام کو گڑبڑ کے پہلے آثار نظر آئے تھے، جب پانچ گھوڑے اپنی آٹھ سالہ مالکن کے بغیر واپس آئے تھے۔ بچی کو گھوڑوں سے بہت پیار تھا۔ وہ اپنے دوپٹے کو لگام کی جگہ استعمال کرتے ہوئے ان پر لگاموں کے بغیر سواری کیا کرتی تھی۔ اسے بہت تلاش کیا گیا لیکن وہ کہیں نہ مل سکی۔ اس کے باپ نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس نے جلدی سے ٹارچ اٹھائی اور ہر گڑھے، کھائی، نالے اور کھیتوں میں اسے ڈھونڈا۔ وہ کہیں نہیں ملی۔ انھوں نے اسے گھر گھر تلاش کیا۔ وہ کسی بھی گھر میں نہیں ملی۔ ان کی پریشانی بڑھتی گئی۔ بہت سے دوسرے خانہ بدوش بھی ان کے ساتھ تلاش میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے نزدیکی جنگل میں تلاش کیا اور ایک چھوٹے سے مندر تک پہنچ گئے۔ خانہ بدوشوں نے بتایا کہ مندر کے نگران نے انھیں ڈرا یا دھمکایا۔ وہ ایک سابق ریوینیو افسر ہے، جو دست شناسی، علمِ نجوم اور مستقبل بینی کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس نے تحکم آمیز لہجے میں لڑکی کے والدین کو تسلی دی کہ فکر نہ کرو، تمھاری بچی خیریت سے ہے۔ کوئی اس کی حفاظت کر رہا ہے۔ پولیس کے مطابق ٹھیک اسی وقت اسی مندر کے نگران کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نوجوان مرد مندر کے اندر بچی کے ساتھ زنا بالجبر کر رہے تھے۔ تین دن بعد انھوں نے بچی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ تفتیش کار کہتے ہیں کہ جرم کا مقصد نسلی صفایا کے سوا کچھ نہیں تھا۔
تفتیش کاروں نے کہا کہ مندر کا نگران سانجی رام اپنے علاقے میں خانہ بدوشوں کے آنے کے باعث ان سے نفرت کرتا تھا اور اس نے انھیں وہاں سے بھگانے کی نیت سے اس جرم کا منصوبہ بنایا تھا۔ خانہ بدوشوں کا تعلق بکروال کہلائے جانے والے ایک نسلی گروپ سے ہے، جس کے اکثر لوگ مسلمان ہیں۔ وہ لوگ کئی نسلوں سے بھیڑبکریوں کے گلّوں اور گھوڑوں اور کتوں کے ساتھ پورے جموں و کشمیر کے اونچے نیچے پہاڑوں ، وادیوں میں اور سڑکوں کے کنارے کنارے پھرتے رہتے ہیں۔ وہ ہائی ویز کے نزدیک لگائے گئے اپنے رنگ برنگے خیموں اور اپنی چمک دار آنکھوں کی وجہ سے دوسروں سے الگ دکھائی دیتے ہیں۔ بکروال بزرگ کہتے ہیں کہ انھیں اپنی برادری کے لوگوں کی تعداد کا علم نہیں، شاید ان کی تعداد 200,000ہو۔اسی طرح انھیں اپنی اصل کا بھی ٹھیک سے علم نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ کوہِ قاف سے آئے تھے اور بعض کہتے ہیں وہ افغانستان سے آئے تھے۔ ایک بکروال بزرگ طالب حسین نے کہا، ’’ہماری تاریخ کسی نے نہیں لکھی۔‘‘ بہرحال بکروال خانہ بدوشوں کے لیے زندگی بدل رہی ہے۔چند گھرانوں نے رسانا کے علاقے میں ہندو کاشت کاروں سے زمین خرید کر وہاں آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے پکی اینٹوں سے مکان تعمیر کروائے اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا سوچا۔ یہ ان کے لیے آگے کی طرف ایک بہت بڑا قدم تھا۔ مقتول بچی کا گھرانا بھی ان گھرانوں میں شامل تھا۔ مشتعل سانجی رام کے بارے میں بستی والے کہتے ہیں کہ وہ راسخ العقیدہ ہندو اور نریندر مودی کا جوشیلا مداح تھا۔بستی کے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ سانجی رام ہندو خانہ بدوشوں کو تو اپنی زمین کاشت کاری کے لیے بخوشی دے دیتا تھا لیکن مسلمانوں کو بالکل نہیں دیتا تھا۔ تفتیش کارکہتے ہیں کہ سانجی رام نے آٹھ سالہ بچی کو اغوا کرنے کے لیے اپنے بیٹے، بھانجے اور چند دوسرے نوجوانوں کو تیار کیا تھا۔ (بچی کا نام اس باعث لکھا نہیں جا رہا کیوں کہ ایک بھارتی عدالت نے صحافیوں کو دھمکی دی ہے کہ بچی یا اس کے گھرانے کے افراد کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات افشا کیں تو انھیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ عدالت کہتی ہے کہ اس گھرانے کی عزت محفوظ رکھنے کی غرض سے ایسا کرنا ضروری ہے حالاں کہ پولیس پہلے ہی بچی کا نام بتا چکی ہے اور سوشل میڈیا پر اس کا نام عام ہو چکا ہے۔) بچی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش ایک کھائی میں پھینک دی گئی تھی۔ تفتیش کاروں نے بتایا کہ دو پولیس والوں نے، جو ہندو تھے، ثبوت و شواہد مٹا دیے۔ انھوں نے بچی کا لباس کرائم لیبارٹری بھیجے جانے سے پہلے صاف کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بہانہ بنایا کہ وہ تو ڈی این اے ثبوت ڈھونڈ رہے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آٹھوں مشتبہ افراد نے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ رسانا کے ہندووں کو اس بات پر یقین نہیں۔ ایک دن چند ہندو بوڑھے مجھے جنگل کے سِرے پر واقع گلابی رنگ کی عمارت والے مندر میں لے گئے۔ کنکریٹ کا فرش دھو کر صاف کر دیا گیا تھا، دیواریں ہندو دیوی، دیوتاؤں کے شوخ رنگوں والے پرانے پوسٹروں سے سجائی گئی تھیں۔ مندر میں سانجی رام کے ایک معاون سریش شرما نے کہا، ’’دیکھیں، بچی کو یہاں قید نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہاں لوگ ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘ لیکن اس کی بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ صرف چند ہی گھروں کے لوگ اس مندر میں آتے ہیں جب کہ بہت سے گھر ویران پڑے ہیں۔

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ انتخاب: دنیا ریسرچ سیل؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...