امریکا کی نئی ویزا پالیسی اور غیر ملکی طلبا
ایریکا ایل گرین
ٹرمپ ایڈمنسٹریشن ان طلبا اور سیاحوں کو پکڑنے کے لیے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کرنے والی ہے جو اپنے ویزوں کی مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ اس سے ہائر ایجوکیشن کے ادارے اس خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ امیگریشن پالیسیاں یونیورسٹیوں کی ان کوششوں میں رکاوٹ ڈالیں گی جو وہ دوسرے ملکوں کے ذہین طلبا کو مائل کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ ’’یونائیٹڈ سٹیٹس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘نے اسی مہینے اپنے ایک پالیسی میمورنڈم میں اعلان کیا ہے کہ اس نے سٹوڈنٹ ویزا اور ایکسچینج پروگرام کے تحت معینہ مدت سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد امریکا میں ’’غیر قانونی طور سے موجود‘‘ غیر ملکیوں کو شمار کرنے کے طریقے میں تبدیلی لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ’’یونائیٹڈ سٹیٹس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ان طلبا کو زیادہ سخت سزائیں بھی دے گی، جو اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں مقیم ہیں ۔۔۔ امریکا میں داخلے پر دس سالہ پابندی لگانا بھی ان سزاؤں میں شامل ہے۔ اس پالیسی کا نفاذ اگست سے ہو رہا ہے۔ امریکا کے ہائر ایجوکیشن کے اداروں اور طلبا کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم افراد اور تنظیموں نے اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس تبدیلی سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’امریکا فرسٹ‘‘ پالیسی کی غیر منصفانہ نوعیت عیاں ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن کے حوالے سے جارحانہ پالیسی قوم کے ان ممتاز اہلِ علم کی راہیں مسدود کر رہی ہے جن سے امریکا کی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو رہا ہے، جو اس کے صفِ اوّل کے تحقیقی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، انتہائی اعلیٰ مہارتوں کے متقاضی مناصب پر فائز ہیں اور خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکنالوجی، ریاضی، انجنیئرنگ اور سائنس سے متعلقہ ملازمتوں کو فروغ دینے کے مقصد کی آب یاری کر رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ایجوکیٹرز نافسا کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فار پبلک پالیسی جل ویلش کہتی ہیں، ’’یہ امر واضح ہے کہ حکومت ’عوام کا زیادہ تحفظ‘ کرتے ہوئے تعلیمی ٹیلنٹ کے لیے دروازے مزید بند کر رہی ہے۔ یہ ایک اور پالیسی ہے جو امریکا کو دوسرے ملکوں کے باصلاحیت طلبا کے لیے کم پُرکشش بنا رہی ہے۔‘‘ اب تک تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے ملک کی سرحدوں پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی اور ان کی سخت الفاظ پر مشتمل تقریروں نے مجرم گروہوں پر گھبراہٹ طاری کی ہوئی تھی لیکن جنوری 2017ء میں انھوں نے ایک انتظامی حکم جاری کیا جس سے یہ واضح ہو گیا کہ ویزا کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں مقیم طلبا اور دوسرے لوگوں کی شامت آنے والی ہے۔ مذکورہ انتظامی حکم میں کہا گیا ہے کہ ’’غیر قانونی طریقوں سے امریکا میں داخل ہونے والے بہت سے غیر ملکی اور ایسے لوگ جو اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں یا وہ لوگ جو اپنے ویزوں کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، وہ قومی سلامتی اور تحفظِ عامہ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔‘‘ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ امریکا میں جتنے بھی غیر ملکی متعلقہ حکومتی اداروں میں اندراج کروائے بغیر مقیم ہیں، ان میں سے نصف ایسے غیر ملکی ہیں جن کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہیں لیکن وہ اس کے باوجود واپس نہیں گئے اور امریکا ہی میں رہ رہے ہیں۔
امریکا کے داخلی سلامتی کے محکمے نے حال ہی میں جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ان سے عیاں ہوتا ہے کہ عارضی قیام کے ویزے پر امریکا آنے والے افراد میں سے جو لوگ اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں، ان میں طلبا اور ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا آنے والوں کی شرح زیادہ ہے ، جو 2.8فی صد ہے۔ امیگریشن حکام کہتے ہیں کہ نئی پالیسی محولہ بالا انتظامی حکم سے ہم آہنگ ہے۔ ’’سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘ کے ڈائریکٹر ایل فرانسس سِسنا نے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ویزا کے حامل افراد کو ’’کسی نہ کسی خاص مقصد کے تحت امریکا میں آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اگر وہ اپنے قیام کا مقصد پورا ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں تو ہم انھیں ڈی پورٹ کر سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ قانونی طریقے سے امیگریشن سٹیٹَس حاصل کریں۔‘‘ مجوزہ ضوابط ایف اور ایم ویزا کو نشانہ بنائیں گے، جو دوسرے ملکوں کے ایسے طلبا ستعمال کرتے ہیں جنھیں امریکا کے ہائر ایجوکیشن کے تعلیمی یا تیکنیکی تربیت کے اداروں میں داخلہ لینا ہوتا ہے۔ اسی طرح جے ۔ 1 ویزا بھی متاثر ہو گا، جو غیر ملکی طلبا، پروفیسروں اور سیاحوں کو مختصر مدت کے ثقافتی تبادلے کے پروگراموں میں شرکت کرنے کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت حکومت امریکا میں ’’غیر قانونی موجودگی‘‘ اس تاریخ سے شمار کرے گی جس تاریخ کو غیر ملکی افراد کا امریکا آنے کا مقصد پورا ہو گیا تھا جیسے کہ کسی طالبِ علم کی تعلیم کا مکمل ہو جانا۔ موجودہ پالیسی بیس سال پہلے نافذ کی گئی تھی۔ اس کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی امریکا میں مقیم شخص جب پکڑا جاتا ہے، اس کی غیر قانونی موجودگی اس کے پکڑے جانے کے دن سے شمار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نئی پالیسی میں معافی کا امکان بھی بہت کم رکھا گیا ہے۔ جو افراد اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہونے کے بعد امریکا میں 180دن سے مقیم ہوں گے، ان کے امریکا میں دوبارہ داخل ہونے پر تین سے دس سال تک کے لیے پابندی عائد کر دی جائے گی۔ کوئی شخص اپنے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد جتنے زیادہ دن امریکا میں غیر قانونی طور سے رہ رہا ہو گا اس کو اتنی ہی زیادہ سخت سزا دی جائے گی۔ امریکا کی موجودہ پالیسی طلبا کو عموماً اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے ویزے کی میعاد ختم ہو جانے پر اپنے ملک واپس جائیں اور دوبارہ ویزے کے حصول یا اپنے موجودہ ویزے کو اپ ڈیٹ کرنے کی درخواست دے دیں۔یہ عمل مکمل ہونے کے بعد وہ امریکا واپس آ سکتے ہیں۔
لاس اینجلس کی ایک لیگل فرم ’’سیفرتھ شا‘‘کے لیے خدمات انجام دینے والے وکیل اینجلو اے پیپاریلی کہتے ہیں کہ نئی پالیسی میں اعلان کردہ سخت سزائیں بالخصوص تھرتھری طاری کر دینے والی ہیں کیوں کہ چھوٹی سی غلطی پر بہت بڑی سزا دی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اگر کسی پر تین یا دس سال کی پابندی عائد کر دی گئی ہو تو کوئی امیگریشن اٹارنی اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘انھوں نے مزید کہا کہ ایسے طلبا کے لیے اِس قانون کے مطابق عمل کرنا ممکن نہیں ہو گا جو نئے ویزے کے حصول یا پرانے ویزے کی تجدید کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ جو طلبا تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد مزید تعلیم کے حصول یا ملازمت کرنے کے لیے اپنا ویزا استعمال کرتے ہیں، وہ بالخصوص اس نئی پالیسی کی سخت شرائط کا نشانہ بنیں گے۔ یہ طے کرنا ایک داخلی معاملہ ہے کہ ان کی ملازمتیں امریکا میں ان کے قیام کے مخصوص تقاضے پورے کرتی ہیں یا نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خلاف ورزی کریں گے تو ان کا یہ عمل ان پر خودکار طریقے سے پابندی عائد ہونے کا باعث بن جائے گا۔غیر ملکی طلبا کے ساتھ مل کر کام کرنے والے منتظمین پریشان ہیں کہ انھیں زندگی کی ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر سزا دی جائے گی جن سے ملکی طلبا کو فائدہ ہوتا ہے۔ بہت سے طلبا اس وجہ سے اپنے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی رہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ذہنی صحت کے مسائل کی وجہ سے یا خاندان کے کسی مسئلے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے یا اپنے خاندان کی مدد کے لیے جز وقتی ملازمت کرنے کے نتیجے میں اپنا کورس مکمل نہیں کر پاتے۔ ریاستِ نیو یارک کی یونیورسٹی کے غیر ملکی طلبا کی خدمات کے شعبے کی ڈائریکٹر کیٹی ٹوڈینی کہتی ہیں، ’’جب طلبا بحران میں ہوتے ہیں تو بہت سی چیزیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں وہ ویزے کی میعاد ختم ہونے کا خیال نہیں رکھ پاتے۔‘‘ بون، این سی کی اپالاچیان سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل سٹوڈنٹس اینڈ سکالر سروسز اینڈ آؤٹ ریچ کے ڈائریکٹر ایڈم جولیان نے کہا کہ امریکا کے امیگریشن کے نظام میں غیر ملکی طلبا کی جانچ پڑتال سب سے زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ ان کو ویزے لینے کے لیے اپنے داخلوں کی معلومات مسلسل مہیا کرنا ہوتی ہیں جیسا کہ پتا اور کالج یا یونیورسٹی میں کل وقتی حیثیت۔ اب کالج یا یونیورسٹی کے اہل کار چھوٹی سی غلطی پر بھی طلبا کو ویزے کی میعاد کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار دے سکیں گے۔ انھوں نے کہا، ’’بہرحال ہم پوری تن دہی سے طلبا کو آگاہ کر رہے ہیں کہ یہ نئی حقیقت ہے یعنی یہ کہ آخرِ کار امریکا ایک ایسا ملک بننے والا ہے جو غیر ملکی اہلِ علم کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
ایریکا ایل گرین
ٹرمپ ایڈمنسٹریشن ان طلبا اور سیاحوں کو پکڑنے کے لیے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کرنے والی ہے جو اپنے ویزوں کی مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ اس سے ہائر ایجوکیشن کے ادارے اس خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ امیگریشن پالیسیاں یونیورسٹیوں کی ان کوششوں میں رکاوٹ ڈالیں گی جو وہ دوسرے ملکوں کے ذہین طلبا کو مائل کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ ’’یونائیٹڈ سٹیٹس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘نے اسی مہینے اپنے ایک پالیسی میمورنڈم میں اعلان کیا ہے کہ اس نے سٹوڈنٹ ویزا اور ایکسچینج پروگرام کے تحت معینہ مدت سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد امریکا میں ’’غیر قانونی طور سے موجود‘‘ غیر ملکیوں کو شمار کرنے کے طریقے میں تبدیلی لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ’’یونائیٹڈ سٹیٹس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ان طلبا کو زیادہ سخت سزائیں بھی دے گی، جو اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں مقیم ہیں ۔۔۔ امریکا میں داخلے پر دس سالہ پابندی لگانا بھی ان سزاؤں میں شامل ہے۔ اس پالیسی کا نفاذ اگست سے ہو رہا ہے۔ امریکا کے ہائر ایجوکیشن کے اداروں اور طلبا کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم افراد اور تنظیموں نے اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس تبدیلی سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’امریکا فرسٹ‘‘ پالیسی کی غیر منصفانہ نوعیت عیاں ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن کے حوالے سے جارحانہ پالیسی قوم کے ان ممتاز اہلِ علم کی راہیں مسدود کر رہی ہے جن سے امریکا کی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو رہا ہے، جو اس کے صفِ اوّل کے تحقیقی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، انتہائی اعلیٰ مہارتوں کے متقاضی مناصب پر فائز ہیں اور خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکنالوجی، ریاضی، انجنیئرنگ اور سائنس سے متعلقہ ملازمتوں کو فروغ دینے کے مقصد کی آب یاری کر رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ایجوکیٹرز نافسا کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فار پبلک پالیسی جل ویلش کہتی ہیں، ’’یہ امر واضح ہے کہ حکومت ’عوام کا زیادہ تحفظ‘ کرتے ہوئے تعلیمی ٹیلنٹ کے لیے دروازے مزید بند کر رہی ہے۔ یہ ایک اور پالیسی ہے جو امریکا کو دوسرے ملکوں کے باصلاحیت طلبا کے لیے کم پُرکشش بنا رہی ہے۔‘‘ اب تک تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے ملک کی سرحدوں پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی اور ان کی سخت الفاظ پر مشتمل تقریروں نے مجرم گروہوں پر گھبراہٹ طاری کی ہوئی تھی لیکن جنوری 2017ء میں انھوں نے ایک انتظامی حکم جاری کیا جس سے یہ واضح ہو گیا کہ ویزا کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں مقیم طلبا اور دوسرے لوگوں کی شامت آنے والی ہے۔ مذکورہ انتظامی حکم میں کہا گیا ہے کہ ’’غیر قانونی طریقوں سے امریکا میں داخل ہونے والے بہت سے غیر ملکی اور ایسے لوگ جو اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں یا وہ لوگ جو اپنے ویزوں کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، وہ قومی سلامتی اور تحفظِ عامہ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔‘‘ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ امریکا میں جتنے بھی غیر ملکی متعلقہ حکومتی اداروں میں اندراج کروائے بغیر مقیم ہیں، ان میں سے نصف ایسے غیر ملکی ہیں جن کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہیں لیکن وہ اس کے باوجود واپس نہیں گئے اور امریکا ہی میں رہ رہے ہیں۔
امریکا کے داخلی سلامتی کے محکمے نے حال ہی میں جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ان سے عیاں ہوتا ہے کہ عارضی قیام کے ویزے پر امریکا آنے والے افراد میں سے جو لوگ اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں، ان میں طلبا اور ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا آنے والوں کی شرح زیادہ ہے ، جو 2.8فی صد ہے۔ امیگریشن حکام کہتے ہیں کہ نئی پالیسی محولہ بالا انتظامی حکم سے ہم آہنگ ہے۔ ’’سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘ کے ڈائریکٹر ایل فرانسس سِسنا نے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ویزا کے حامل افراد کو ’’کسی نہ کسی خاص مقصد کے تحت امریکا میں آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اگر وہ اپنے قیام کا مقصد پورا ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں تو ہم انھیں ڈی پورٹ کر سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ قانونی طریقے سے امیگریشن سٹیٹَس حاصل کریں۔‘‘ مجوزہ ضوابط ایف اور ایم ویزا کو نشانہ بنائیں گے، جو دوسرے ملکوں کے ایسے طلبا ستعمال کرتے ہیں جنھیں امریکا کے ہائر ایجوکیشن کے تعلیمی یا تیکنیکی تربیت کے اداروں میں داخلہ لینا ہوتا ہے۔ اسی طرح جے ۔ 1 ویزا بھی متاثر ہو گا، جو غیر ملکی طلبا، پروفیسروں اور سیاحوں کو مختصر مدت کے ثقافتی تبادلے کے پروگراموں میں شرکت کرنے کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت حکومت امریکا میں ’’غیر قانونی موجودگی‘‘ اس تاریخ سے شمار کرے گی جس تاریخ کو غیر ملکی افراد کا امریکا آنے کا مقصد پورا ہو گیا تھا جیسے کہ کسی طالبِ علم کی تعلیم کا مکمل ہو جانا۔ موجودہ پالیسی بیس سال پہلے نافذ کی گئی تھی۔ اس کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی امریکا میں مقیم شخص جب پکڑا جاتا ہے، اس کی غیر قانونی موجودگی اس کے پکڑے جانے کے دن سے شمار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نئی پالیسی میں معافی کا امکان بھی بہت کم رکھا گیا ہے۔ جو افراد اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہونے کے بعد امریکا میں 180دن سے مقیم ہوں گے، ان کے امریکا میں دوبارہ داخل ہونے پر تین سے دس سال تک کے لیے پابندی عائد کر دی جائے گی۔ کوئی شخص اپنے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد جتنے زیادہ دن امریکا میں غیر قانونی طور سے رہ رہا ہو گا اس کو اتنی ہی زیادہ سخت سزا دی جائے گی۔ امریکا کی موجودہ پالیسی طلبا کو عموماً اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے ویزے کی میعاد ختم ہو جانے پر اپنے ملک واپس جائیں اور دوبارہ ویزے کے حصول یا اپنے موجودہ ویزے کو اپ ڈیٹ کرنے کی درخواست دے دیں۔یہ عمل مکمل ہونے کے بعد وہ امریکا واپس آ سکتے ہیں۔
لاس اینجلس کی ایک لیگل فرم ’’سیفرتھ شا‘‘کے لیے خدمات انجام دینے والے وکیل اینجلو اے پیپاریلی کہتے ہیں کہ نئی پالیسی میں اعلان کردہ سخت سزائیں بالخصوص تھرتھری طاری کر دینے والی ہیں کیوں کہ چھوٹی سی غلطی پر بہت بڑی سزا دی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اگر کسی پر تین یا دس سال کی پابندی عائد کر دی گئی ہو تو کوئی امیگریشن اٹارنی اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘انھوں نے مزید کہا کہ ایسے طلبا کے لیے اِس قانون کے مطابق عمل کرنا ممکن نہیں ہو گا جو نئے ویزے کے حصول یا پرانے ویزے کی تجدید کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ جو طلبا تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد مزید تعلیم کے حصول یا ملازمت کرنے کے لیے اپنا ویزا استعمال کرتے ہیں، وہ بالخصوص اس نئی پالیسی کی سخت شرائط کا نشانہ بنیں گے۔ یہ طے کرنا ایک داخلی معاملہ ہے کہ ان کی ملازمتیں امریکا میں ان کے قیام کے مخصوص تقاضے پورے کرتی ہیں یا نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خلاف ورزی کریں گے تو ان کا یہ عمل ان پر خودکار طریقے سے پابندی عائد ہونے کا باعث بن جائے گا۔غیر ملکی طلبا کے ساتھ مل کر کام کرنے والے منتظمین پریشان ہیں کہ انھیں زندگی کی ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر سزا دی جائے گی جن سے ملکی طلبا کو فائدہ ہوتا ہے۔ بہت سے طلبا اس وجہ سے اپنے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی رہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ذہنی صحت کے مسائل کی وجہ سے یا خاندان کے کسی مسئلے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے یا اپنے خاندان کی مدد کے لیے جز وقتی ملازمت کرنے کے نتیجے میں اپنا کورس مکمل نہیں کر پاتے۔ ریاستِ نیو یارک کی یونیورسٹی کے غیر ملکی طلبا کی خدمات کے شعبے کی ڈائریکٹر کیٹی ٹوڈینی کہتی ہیں، ’’جب طلبا بحران میں ہوتے ہیں تو بہت سی چیزیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں وہ ویزے کی میعاد ختم ہونے کا خیال نہیں رکھ پاتے۔‘‘ بون، این سی کی اپالاچیان سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل سٹوڈنٹس اینڈ سکالر سروسز اینڈ آؤٹ ریچ کے ڈائریکٹر ایڈم جولیان نے کہا کہ امریکا کے امیگریشن کے نظام میں غیر ملکی طلبا کی جانچ پڑتال سب سے زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ ان کو ویزے لینے کے لیے اپنے داخلوں کی معلومات مسلسل مہیا کرنا ہوتی ہیں جیسا کہ پتا اور کالج یا یونیورسٹی میں کل وقتی حیثیت۔ اب کالج یا یونیورسٹی کے اہل کار چھوٹی سی غلطی پر بھی طلبا کو ویزے کی میعاد کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار دے سکیں گے۔ انھوں نے کہا، ’’بہرحال ہم پوری تن دہی سے طلبا کو آگاہ کر رہے ہیں کہ یہ نئی حقیقت ہے یعنی یہ کہ آخرِ کار امریکا ایک ایسا ملک بننے والا ہے جو غیر ملکی اہلِ علم کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)