بھارت کے انتخابات اور سوشل میڈیا
وِندو گوئل
پچھلے ہفتے بھارت کے گرم و مرطوب جنوب مغربی ساحلی شہر منگلور میں پرنو بھٹ بہت بڑا زعفرانی جھنڈا لہراتے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے جلسے میں شریک ہوئے۔ اٹھارہ سالہ پرنو بھٹ اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ ایک وسیع و عریض میدان میں گھوم پھر رہے تھے۔ وہ نریندر مودی اور ہندو سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اس ریاست کا کنٹرول نسبتاً سیکولر سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس سے چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔ بہرحال زیادہ زوردار سیاسی مہم سڑکوں اور گلیوں بازاروں کی بجائے واٹس ایپ پر زیادہ زور شور سے مہم چلائی جا رہی تھی۔ واٹس ایپ ایک میسجنگ سروس ہے جس کی مالک فیس بک ہے اور بھارت میں واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً پچیس کروڑ ہے۔ پرنو بھٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نوجوان راہنما ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ واٹس ایپ پر اُن ساٹھ ووٹروں کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے ہیں، جن کے ساتھ رابطہ رکھنے کی ذمہ داری پارٹی کی طرف سے انھیں سونپی گئی ہے۔ وہ انھیں واٹس ایپ کے ذریعے کرناٹک کی ریاستی حکومت پر تنقید، مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہندووں کے حوالے سے خبریں اور ایسے لطیفے بھیجتے ہیں جن میں کانگریس کے راہنماؤں کا مذاق اڑایا گیا ہوتا ہے۔ انھی میں وہ جھوٹی خبر بھی شامل تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جہادیوں نے 23کارکنوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ ان کی اپنی واٹس ایپ سٹریم انتخابات سے متعلقہ اپ ڈیٹس، بی جے پی کی حمایت میں بنائی جانے والی ویڈیوز اور جعلی خبروں سے بھری ہوئی تھی۔ ان جعلی خبروں میں وہ جعلی سروے بھی شامل تھا جسے بی بی سی سے منسوب کیا گیا تھا اور جس میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ بی جے پی انتخابات میں صفایا کر دے گی۔ کالج کے طالبِ علم پرنو بھٹ نے مجھے بتایا، ’’ہر منٹ میں مجھے کوئی نہ کوئی میسیج ملتا ہے۔‘‘ فیس بک کی مقبول میسجنگ ایپ ’’واٹس ایپ‘‘ ترقی پذیر ملکوں کے انتخابات میں مرکزی کردار حاصل کرتی جا رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں بھارت کی سیاسی جماعتوں، مذہبی کارکنوں اور دیگرافراد نے دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ یا میسجنگ ایپس کی نسبت واٹس ایپ کو زیادہ استعمال کیا اور کرناٹک کے چار کروڑ نوے لاکھ ووٹروں تک پیغامات بھیجے۔ بہت سے پیغامات انتخابی مہم کے عام پیغامات تھے لیکن بعض پیغامات مذہبی منافرت کو ہوا دینے کی نیت سے بھی بھیجے گئے تھے جب کہ بعض پیغامات سراسر جھوٹے اور غلط تھے، جن کے بارے میں پتا لگانا دشوار تھا کہ انھیں سب سے پہلے کس نے بھیجا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس نے دعویٰ کیا کہ 12مئی کو ہونے والے ریاستی انتخابات سے پہلے انھوں نے اپنے اپنے پیغامات پھیلانے کی غرض سے واٹس ایپ پر 50,000گروپ بنائے تھے۔ ان پچاس ہزار گروپوں کے ساتھ ساتھ ایسے گروپ بھی سرگرمِ عمل تھے جن کے بنانے والوں کا کوئی پتا نہیں تھا اور جو ریاست کے ہندووں اور مسلمانوں میں تفرقہ بڑھانے اور دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں اشتعال پیدا کرنے والی ویڈیوز، آڈیو کلپس، پوسٹس اور جھوٹی خبریں پھیلا رہے تھے۔ بی بی سی سے منسوب ایک قبل از انتخاب جعلی سروے بڑے پیمانے پر واٹس ایپ پر پھیلایا گیا۔ اس سروے میں، جس کے اوّلین بھیجنے والے کا کسی کو پتا نہیں، پیش گوئی کی گئی تھی کہ کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جو اُس وقت ریاستی اسمبلی میں بہت تھوڑی نشستوں کی حامل تھی، زبردست کامیابی حاصل کرے گی۔ ایک اور جعلی سروے نئی دہلی میں قائم امریکا کے سفارت خانے سے منسوب کیا گیا تھا۔ ایسے جعلی سروے واٹس ایپ پر لڑی جانے والی سیاسی جنگ میں عام استعمال کیے گئے۔دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے ایک ویڈیو کثرت سے بھیجی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ہجوم نے ایک عورت کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ عورت ہندو اور ہجوم مسلمانوں کا تھا حالاں کہ وہ ویڈیو گوئٹے مالا کے ایک واقعے کی تھی۔ کسی نامعلوم شخص کی بھیجی ہوئی ایک آڈیو ریکارڈنگ میں زور دیا گیا تھا کہ ریاست کرناٹک کے سارے مسلمان ’’اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے‘‘ کانگریس پارٹی کو ووٹ دیں۔ ایک اور واٹس ایپ پیغام میں ہندووں کو مشوہ دیا گیا تھا کہ بی جے پی کو ووٹ دیں کیوں کہ ’’یہ محض انتخاب نہیں، مذاہب کی جنگ ہے۔‘‘
بھارت کی ساری ریاستوں کی طرح کرناٹک میں بھی ہندو اکثریت میں ہیں۔ بھارت کی ہر ریاست کی انتخابی سیاست کا سب سے عام حربہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور ہنددوں کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا جاتا ہے جب کہ ہندووں کی مختلف ذاتوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل صف آرا کر دیا جاتا ہے۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی کی دو سو چوبیس نشستوں میں سے اٹھائیس نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ عام آدمی پارٹی کے چوٹی کے حکمت کار انکیت لال نے کہا کہ واٹس ایپ ڈیجیٹل انتخابی مہم میں سب سے اہم بن گئی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم ٹوئٹر پر گتھم گتھا ہیں۔ ہم فیس بک پر معرکہ آرا ہیں۔ ہم واٹس ایپ پر جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘ ووٹروں کو متاثر کرنے میں واٹس ایپ نے جو کردار ادا کیا، اسے اُس کی ’’سسٹر سروسز‘‘ فیس بک اور اس کے فوٹو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹا گرام کے مقابلے میں کم توجہ دی گئی۔ 2016ء کے امریکا کے صدر کے انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران روسی ایجنٹوں نے جس طرح فیس بک اور انسٹا گرام استعمال کرنے والوں کی رائے پر اثر ڈالا، اس کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں ان دونوں سروسز کی سختی سے جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ واٹس ایپ اس باعث اس سخت جانچ پڑتال سے بچ گئی کہ اسے زیادہ تر امریکا کے باہر استعمال کیا جاتا ہے ۔ بھارت، برازیل اور انڈونیشیا جیسے ملکوں کے لوگ واٹس ایپ پر روزانہ 60ارب پیغامات بھیجتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام پر تو لوگوں کی سرگرمیاں بڑی حد تک آن لائن سب کے سامنے ہوتی ہیں لیکن واٹس ایپ پر لوگوں کی سرگرمیاں عموماً چھپی رہتی ہیں کیوں کہ یہ افراد کے مابین ذاتی گفت و شنید کے لیے ایجاد کی گئی تھی۔ واٹس ایپ کے بہت سی فیچر ایسے ہیں کہ یہ غلط خبریں پھیلانے اور غلط کام کرنے والوں کے لیے سازگار بن گئی ہے۔ لوگ اپنا نام ظاہر کیے بغیر صرف ایک فون نمبر کو اپنی شناخت بنا کر اس پر سرگرم رہ سکتے ہیں۔واٹس ایپ پر ایک گروپ میں دو سو چھپن افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ واٹس ایپ پر گروپ بنانا بہت آسان ہے۔ واٹس ایپ گروپ بنانے والے لوگ اپنے پاس موجود دوسرے لوگوں کے فون نمبروں کے ذریعے انھیں اپنے گروپوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں میں یہ رجحان بھی پایا گیا ہے کہ وہ ایک وقت میں بہت سارے گروپوں کے رکن بن جاتے ہیں، اس لیے ایک ہی پیغام انھیں بار بار ملتا ہے۔ جب کوئی پیغام موصول ہونے کے بعد مزید لوگوں کو بھیجا جاتا ہے تو سب سے پہلے پیغام بھیجنے والے اصل شخص کے بارے میں کوئی اشارہ تک اس میں شامل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ واٹس ایپ پر ہر چیز کو مرموز بنا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار حتیٰ کہ خود واٹس ایپ بھی اُس وقت تک کسی پیغام کو دیکھ نہیں سکتی جب تک کہ استعمال کنندہ کے فون کی سکرین سامنے نہ ہو۔ گووند راج اتھیراج بھارت میں سیاسی جماعتوں اور حکومت کے دعووں کی حقیقت جانچنے والی دو ویب سائٹوں ’’بوم‘‘ اور ’’انڈیا سپینڈ‘‘ کے بانی ہیں۔ کرناٹک کے ریاستی انتخابات کے دوران ان کی ویب سائٹ ’’بوم‘‘ نے فیس بک کے ساتھ مل کر فیس بک پر نمودار ہونے والی جعلی خبریں شناخت کرنے کا کام کیا۔ گووند راج اتھیراج جعلی خبریں پھیلائے جانے میں واٹس ایپ کے کردار کے باعث اسے ’’موذی ایپ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے انھوں نے دل چسپ الفاظ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کا سامنا بھوتوں سے ہے۔‘‘ اگرچہ فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکر برگ نے وعدہ کیا ہے کہ انتخابات پر خفیہ طور سے اثر انداز ہونے والے لوگوں کو آئندہ فیس بک اور انسٹا گرام استعمال نہیں کرنے دی جائیں گی لیکن انھوں نے واٹس ایپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ یاد رہے واٹس ایپ کو فیس بک نے 2014ء میں 19ارب ڈالر کے عوض خرید لیا تھا۔جہاں تک واٹس ایپ چلانے والے افراد کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ وہ واٹس ایپ کے غلط استعمال پر فکر مند ہیں۔ واٹس ایپ کی شرائطِ استعمال کے مطابق نفرت پھیلانے والے پیغامات بھیجنا، تشدد کی دھمکیاں دینا اور جھوٹے بیانات دینا منع ہے۔ چند ہفتے پہلے واٹس ایپ کے سسٹمز نے سراغ لگایا کہ کرناٹک میں کوئی آٹومیشن کے استعمال سے واٹس ایپ پر درجنوں گروپ بہت تیزی سے بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کئی لوگوں نے ایسے گروپوں کی جانب سے ’’سپیم‘‘ بھیجے جانے کی شکایت کی تو کمپنی نے ایسے سارے گروپ بلاک کر دیے۔ واٹس ایپ نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ ان گروپوں کے بنانے کے حوالے سے اسے کس پر شبہ ہے۔ واٹس ایپ نے ایک بیان میں کہا، ’’ہم لوگوں کو گروپوں پر مزید کنٹرول دینے کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں اور خودکار طریقے سے بنائے گئے مواد کو بلاک کرنے کے لیے ٹولز بنا رہے ہیں۔‘‘ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو واٹس ایپ کے حفاظتی فیچر کا استعمال سکھانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور لوگوں کو یہ بھی سکھا رہے ہیں کہ وہ جعلی خبروں اور فریب کاری کو کس طرح پہچان سکتے ہیں۔ بھارت کی کانگریس پارٹی، جس نے اس کی آزادی کے بعد کا زیادہ عرصہ اس پر حکومت کی ہے، مرکزی حکومت اور کئی کلیدی ریاستوں کی حکومت کھو چکی ہے لیکن کرناٹک میں وہ اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ کرناٹک کے حالیہ انتخابات کے نتائج پر واٹس ایپ نے کیا اثر ڈالا، یہ کبھی واضح نہیں ہو سکے گا۔ اگرچہ واٹس ایپ نے ٹیکسٹ میسجز اور ای میل کی جگہ لے لی ہے لیکن انتخابی مہم کے پرانے حربے مثلاً جلسے جلوس، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اشتہارات، گھر گھر جا کر ووٹروں کو قائل کرنا اور ووٹ خریدنا آج بھی غالب ہیں۔
نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے لیے عوام کے انتخابی رویے کا جائزہ لینے کی غرض سے کرناٹک کا دورہ کرنے والے نیلنجن سرکار کہتے ہیں کہ واٹس ایپ کے پیغامات کے سیلاب نے ووٹروں کی سیاسی رائے تو تبدیل نہیں کی لیکن انھوں نے جذبات کو مہمیز ضرور دی اور اُن علاقوں میں ووٹ زیادہ تعداد میں ڈالے جانے کا سبب بنے جہاں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تفریق زیادہ پائی جاتی ہے۔ نیلنجن سرکار کہتے ہیں، ’’واٹس ایپ نے یہ ضرور کیا ہے کہ وہ لوگوں کو گھروں سے باہر نکال لائی ہے۔‘‘ریاست کرناٹک کے حکام نے بتایا ہے کہ اس مرتبہ 72فی صد ووٹروں نے ووٹ ڈالے، جو 1952ء کے بعد سے ریاست میں ووٹ ڈالے جانے کی تاریخ کی سب سے اونچی شرح ہے۔ جب چار سال پہلے نریندر مودی نے اقتدار حاصل کیا تھاتو اس وقت ووٹروں کو ان کی طرف مائل کرنے میں فیس بک نے سب سے اہم ڈیجیٹل ذریعے کا کردار ادا کیا تھا لیکن پچھلے ڈیڑھ برسوں کے دوران بھارت میں سمارٹ فون کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جانے سے واٹس ایپ بھارت میں رابطے کا بنیادی ذریعہ بن چکی ہے اور انتخابی مہم کے پیغامات پھیلانے کے لیے اسے ترجیح دی جا رہی ہے۔ مثال کے طور سے 2017ء کے اوائل میں ہونے والے اتر پردیش کے ریاستی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کے پیغامات ہر ضلع اور ہر بستی تک پہنچانے کے لیے 6,000سے زیادہ واٹس ایپ گروپ بنائے تھے۔وہاں اس کی بھرپور کامیابی نے کانگریس کو تحریک دی کہ وہ بھی اپنی ’’واٹس ایپ آرمی‘‘ کو حرکت میں لائے۔ چناں چہ جب کرناٹک کے ریاستی انتخابات کے لیے سرگرمِ کار ہونے کا وقت آیا تو دونوں جماعتوں نے واٹس ایپ سے بھرپور استفادہ کیا۔ کانگریس پارٹی کے مرکزی ترجمان رَن دیپ سنگھ سرجی والا کہتے ہیں، ’’واٹس ایپ نیوکلیئر چین ری ایکشن کی طرح کام کرتی ہے۔‘‘ کرناٹک کی پچھلی قانون ساز اسمبلی کے رکن یو ٹی کھادر نے پہلی بار انتخابات میں واٹس ایپ کا اثر دیکھا۔ وہ کانگریس پارٹی کے مسلمان رکن ہیں اور حالیہ ریاستی انتخابات کے دوران منگلور پولیس کے بقول ایک نئی طرز کے واٹس ایپ حملے کا ہدف تھے۔ انھیں اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار بنائے جانے کے حوالے سے واٹس ایپ پر ہندووں اور مسلمانوں کے مابین گالم گلوچ اور دھمکیوں سے بھرے آڈیو پیغامات کثرت سے پھیلائے گئے تھے۔ ایسے ایک آڈیو میسیج میں، جو ایک لمبی فون کال کی ریکارڈنگ ہے، ایک شخص دوسرے شخص کو ڈراتے دھمکاتے ہوئے کہتا ہے کہ زعفرانی رنگ کی شال یو ٹی کھادر پر ڈال دو۔ یاد رہے بی جے پی زعفرانی رنگ کو ہندو مذہب کی علامت ہونے کے ناتے بہت اہمیت دیتی ہے۔اس آڈیو میسیج میں ایک شخص کہتا ہے، ’’تم نے کھادر پر زعفرانی شال کیوں نہیں ڈالی؟ تمھیں اپنی جان پیاری نہیں ہے کیا؟ اگر میں تمھیں خنجر گھونپ دوں تو کیا کھادر تمھیں بچانے آئے گا؟‘‘ ایسا لگتا ہے دوسرا میسیج کسی مسلمان کا تھا، جو پہلے میسیج کے جواب میں جاری کیا گیا تھا۔ اس میں گالی دیتے ہوئے کہا گیا تھا، ’’۔۔۔ کے بچے، میں تمھیں وارننگ دیتا ہوں۔ میں تمھیں باہر نکال لاؤں گا۔‘‘ یہ میسیج بہت سارے واٹس ایپ گروپوں میں بھیجا گیا تھا، اس لیے اسے بہت سارے لوگوں نے سنا تھا۔ یو ٹی کھادر تقریباً دس سال سے اس علاقے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور پچھلی مرتبہ وہ اپنے مدِ مقابل امیدوار کی نسبت بہت زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ گفتگوئیں جعلی ہیں اور سٹوڈیو میں تیار کی گئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ واٹس ایپ کی سماجی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے نفرت پر مبنی پیغامات کو روکے۔ تاہم انھیں یہ بھی یقین تھا کہ منفی پیغامات کا الٹ اثر ہو رہا ہے اور انھیں اپنے حلقے کے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے جن میں سے نصف مسلمان اور نصف ہندو ہیں۔ یوں واٹس ایپ دوسرے انداز سے ان کی انتخابی مہم میں فائدہ بخش ثابت ہوئی۔ یو ٹی کھادر نے کہا، ’’ٹی وی چینل اور اخبارات عمومی طور سے مجھے نظر انداز کر رہے ہیں۔ ایسے میں واٹس ایپ نے مجھے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کی مدد کے بغیر اپنے سپورٹروں تک پہنچنے میں مدد دی۔‘‘
کالج کے طالبِ علم اور بی جے پی کے نوجوان راہنما پرنو بھٹ کہتے ہیں کہ واٹس ایپ ان کے لیے بھی فائدہ بخش ثابت ہوئی ہے۔ ہفتے کے روز ووٹنگ مکمل ہو جانے کے بعد انھوں نے کہا کہ انھیں جن ساٹھ افراد کو قائل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، ان میں سینتالیس افراد ان کے واٹس ایپ پیغامات کی وجہ سے بی جے پی کو ووٹ دینے پر آمادہ ہو گئے، جن میں سے تیرہ افراد ایسے تھے جنھوں نے پہلے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تھا۔پرنو بھٹ نے کہا، ’’میں انھیں بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
وِندو گوئل
پچھلے ہفتے بھارت کے گرم و مرطوب جنوب مغربی ساحلی شہر منگلور میں پرنو بھٹ بہت بڑا زعفرانی جھنڈا لہراتے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے جلسے میں شریک ہوئے۔ اٹھارہ سالہ پرنو بھٹ اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ ایک وسیع و عریض میدان میں گھوم پھر رہے تھے۔ وہ نریندر مودی اور ہندو سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اس ریاست کا کنٹرول نسبتاً سیکولر سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس سے چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔ بہرحال زیادہ زوردار سیاسی مہم سڑکوں اور گلیوں بازاروں کی بجائے واٹس ایپ پر زیادہ زور شور سے مہم چلائی جا رہی تھی۔ واٹس ایپ ایک میسجنگ سروس ہے جس کی مالک فیس بک ہے اور بھارت میں واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً پچیس کروڑ ہے۔ پرنو بھٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نوجوان راہنما ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ واٹس ایپ پر اُن ساٹھ ووٹروں کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے ہیں، جن کے ساتھ رابطہ رکھنے کی ذمہ داری پارٹی کی طرف سے انھیں سونپی گئی ہے۔ وہ انھیں واٹس ایپ کے ذریعے کرناٹک کی ریاستی حکومت پر تنقید، مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہندووں کے حوالے سے خبریں اور ایسے لطیفے بھیجتے ہیں جن میں کانگریس کے راہنماؤں کا مذاق اڑایا گیا ہوتا ہے۔ انھی میں وہ جھوٹی خبر بھی شامل تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جہادیوں نے 23کارکنوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ ان کی اپنی واٹس ایپ سٹریم انتخابات سے متعلقہ اپ ڈیٹس، بی جے پی کی حمایت میں بنائی جانے والی ویڈیوز اور جعلی خبروں سے بھری ہوئی تھی۔ ان جعلی خبروں میں وہ جعلی سروے بھی شامل تھا جسے بی بی سی سے منسوب کیا گیا تھا اور جس میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ بی جے پی انتخابات میں صفایا کر دے گی۔ کالج کے طالبِ علم پرنو بھٹ نے مجھے بتایا، ’’ہر منٹ میں مجھے کوئی نہ کوئی میسیج ملتا ہے۔‘‘ فیس بک کی مقبول میسجنگ ایپ ’’واٹس ایپ‘‘ ترقی پذیر ملکوں کے انتخابات میں مرکزی کردار حاصل کرتی جا رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں بھارت کی سیاسی جماعتوں، مذہبی کارکنوں اور دیگرافراد نے دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ یا میسجنگ ایپس کی نسبت واٹس ایپ کو زیادہ استعمال کیا اور کرناٹک کے چار کروڑ نوے لاکھ ووٹروں تک پیغامات بھیجے۔ بہت سے پیغامات انتخابی مہم کے عام پیغامات تھے لیکن بعض پیغامات مذہبی منافرت کو ہوا دینے کی نیت سے بھی بھیجے گئے تھے جب کہ بعض پیغامات سراسر جھوٹے اور غلط تھے، جن کے بارے میں پتا لگانا دشوار تھا کہ انھیں سب سے پہلے کس نے بھیجا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس نے دعویٰ کیا کہ 12مئی کو ہونے والے ریاستی انتخابات سے پہلے انھوں نے اپنے اپنے پیغامات پھیلانے کی غرض سے واٹس ایپ پر 50,000گروپ بنائے تھے۔ ان پچاس ہزار گروپوں کے ساتھ ساتھ ایسے گروپ بھی سرگرمِ عمل تھے جن کے بنانے والوں کا کوئی پتا نہیں تھا اور جو ریاست کے ہندووں اور مسلمانوں میں تفرقہ بڑھانے اور دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں اشتعال پیدا کرنے والی ویڈیوز، آڈیو کلپس، پوسٹس اور جھوٹی خبریں پھیلا رہے تھے۔ بی بی سی سے منسوب ایک قبل از انتخاب جعلی سروے بڑے پیمانے پر واٹس ایپ پر پھیلایا گیا۔ اس سروے میں، جس کے اوّلین بھیجنے والے کا کسی کو پتا نہیں، پیش گوئی کی گئی تھی کہ کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جو اُس وقت ریاستی اسمبلی میں بہت تھوڑی نشستوں کی حامل تھی، زبردست کامیابی حاصل کرے گی۔ ایک اور جعلی سروے نئی دہلی میں قائم امریکا کے سفارت خانے سے منسوب کیا گیا تھا۔ ایسے جعلی سروے واٹس ایپ پر لڑی جانے والی سیاسی جنگ میں عام استعمال کیے گئے۔دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے ایک ویڈیو کثرت سے بھیجی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ہجوم نے ایک عورت کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ عورت ہندو اور ہجوم مسلمانوں کا تھا حالاں کہ وہ ویڈیو گوئٹے مالا کے ایک واقعے کی تھی۔ کسی نامعلوم شخص کی بھیجی ہوئی ایک آڈیو ریکارڈنگ میں زور دیا گیا تھا کہ ریاست کرناٹک کے سارے مسلمان ’’اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے‘‘ کانگریس پارٹی کو ووٹ دیں۔ ایک اور واٹس ایپ پیغام میں ہندووں کو مشوہ دیا گیا تھا کہ بی جے پی کو ووٹ دیں کیوں کہ ’’یہ محض انتخاب نہیں، مذاہب کی جنگ ہے۔‘‘
بھارت کی ساری ریاستوں کی طرح کرناٹک میں بھی ہندو اکثریت میں ہیں۔ بھارت کی ہر ریاست کی انتخابی سیاست کا سب سے عام حربہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور ہنددوں کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا جاتا ہے جب کہ ہندووں کی مختلف ذاتوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل صف آرا کر دیا جاتا ہے۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی کی دو سو چوبیس نشستوں میں سے اٹھائیس نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ عام آدمی پارٹی کے چوٹی کے حکمت کار انکیت لال نے کہا کہ واٹس ایپ ڈیجیٹل انتخابی مہم میں سب سے اہم بن گئی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم ٹوئٹر پر گتھم گتھا ہیں۔ ہم فیس بک پر معرکہ آرا ہیں۔ ہم واٹس ایپ پر جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘ ووٹروں کو متاثر کرنے میں واٹس ایپ نے جو کردار ادا کیا، اسے اُس کی ’’سسٹر سروسز‘‘ فیس بک اور اس کے فوٹو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹا گرام کے مقابلے میں کم توجہ دی گئی۔ 2016ء کے امریکا کے صدر کے انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران روسی ایجنٹوں نے جس طرح فیس بک اور انسٹا گرام استعمال کرنے والوں کی رائے پر اثر ڈالا، اس کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں ان دونوں سروسز کی سختی سے جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ واٹس ایپ اس باعث اس سخت جانچ پڑتال سے بچ گئی کہ اسے زیادہ تر امریکا کے باہر استعمال کیا جاتا ہے ۔ بھارت، برازیل اور انڈونیشیا جیسے ملکوں کے لوگ واٹس ایپ پر روزانہ 60ارب پیغامات بھیجتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام پر تو لوگوں کی سرگرمیاں بڑی حد تک آن لائن سب کے سامنے ہوتی ہیں لیکن واٹس ایپ پر لوگوں کی سرگرمیاں عموماً چھپی رہتی ہیں کیوں کہ یہ افراد کے مابین ذاتی گفت و شنید کے لیے ایجاد کی گئی تھی۔ واٹس ایپ کے بہت سی فیچر ایسے ہیں کہ یہ غلط خبریں پھیلانے اور غلط کام کرنے والوں کے لیے سازگار بن گئی ہے۔ لوگ اپنا نام ظاہر کیے بغیر صرف ایک فون نمبر کو اپنی شناخت بنا کر اس پر سرگرم رہ سکتے ہیں۔واٹس ایپ پر ایک گروپ میں دو سو چھپن افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ واٹس ایپ پر گروپ بنانا بہت آسان ہے۔ واٹس ایپ گروپ بنانے والے لوگ اپنے پاس موجود دوسرے لوگوں کے فون نمبروں کے ذریعے انھیں اپنے گروپوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں میں یہ رجحان بھی پایا گیا ہے کہ وہ ایک وقت میں بہت سارے گروپوں کے رکن بن جاتے ہیں، اس لیے ایک ہی پیغام انھیں بار بار ملتا ہے۔ جب کوئی پیغام موصول ہونے کے بعد مزید لوگوں کو بھیجا جاتا ہے تو سب سے پہلے پیغام بھیجنے والے اصل شخص کے بارے میں کوئی اشارہ تک اس میں شامل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ واٹس ایپ پر ہر چیز کو مرموز بنا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار حتیٰ کہ خود واٹس ایپ بھی اُس وقت تک کسی پیغام کو دیکھ نہیں سکتی جب تک کہ استعمال کنندہ کے فون کی سکرین سامنے نہ ہو۔ گووند راج اتھیراج بھارت میں سیاسی جماعتوں اور حکومت کے دعووں کی حقیقت جانچنے والی دو ویب سائٹوں ’’بوم‘‘ اور ’’انڈیا سپینڈ‘‘ کے بانی ہیں۔ کرناٹک کے ریاستی انتخابات کے دوران ان کی ویب سائٹ ’’بوم‘‘ نے فیس بک کے ساتھ مل کر فیس بک پر نمودار ہونے والی جعلی خبریں شناخت کرنے کا کام کیا۔ گووند راج اتھیراج جعلی خبریں پھیلائے جانے میں واٹس ایپ کے کردار کے باعث اسے ’’موذی ایپ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے انھوں نے دل چسپ الفاظ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کا سامنا بھوتوں سے ہے۔‘‘ اگرچہ فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکر برگ نے وعدہ کیا ہے کہ انتخابات پر خفیہ طور سے اثر انداز ہونے والے لوگوں کو آئندہ فیس بک اور انسٹا گرام استعمال نہیں کرنے دی جائیں گی لیکن انھوں نے واٹس ایپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ یاد رہے واٹس ایپ کو فیس بک نے 2014ء میں 19ارب ڈالر کے عوض خرید لیا تھا۔جہاں تک واٹس ایپ چلانے والے افراد کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ وہ واٹس ایپ کے غلط استعمال پر فکر مند ہیں۔ واٹس ایپ کی شرائطِ استعمال کے مطابق نفرت پھیلانے والے پیغامات بھیجنا، تشدد کی دھمکیاں دینا اور جھوٹے بیانات دینا منع ہے۔ چند ہفتے پہلے واٹس ایپ کے سسٹمز نے سراغ لگایا کہ کرناٹک میں کوئی آٹومیشن کے استعمال سے واٹس ایپ پر درجنوں گروپ بہت تیزی سے بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کئی لوگوں نے ایسے گروپوں کی جانب سے ’’سپیم‘‘ بھیجے جانے کی شکایت کی تو کمپنی نے ایسے سارے گروپ بلاک کر دیے۔ واٹس ایپ نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ ان گروپوں کے بنانے کے حوالے سے اسے کس پر شبہ ہے۔ واٹس ایپ نے ایک بیان میں کہا، ’’ہم لوگوں کو گروپوں پر مزید کنٹرول دینے کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں اور خودکار طریقے سے بنائے گئے مواد کو بلاک کرنے کے لیے ٹولز بنا رہے ہیں۔‘‘ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو واٹس ایپ کے حفاظتی فیچر کا استعمال سکھانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور لوگوں کو یہ بھی سکھا رہے ہیں کہ وہ جعلی خبروں اور فریب کاری کو کس طرح پہچان سکتے ہیں۔ بھارت کی کانگریس پارٹی، جس نے اس کی آزادی کے بعد کا زیادہ عرصہ اس پر حکومت کی ہے، مرکزی حکومت اور کئی کلیدی ریاستوں کی حکومت کھو چکی ہے لیکن کرناٹک میں وہ اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ کرناٹک کے حالیہ انتخابات کے نتائج پر واٹس ایپ نے کیا اثر ڈالا، یہ کبھی واضح نہیں ہو سکے گا۔ اگرچہ واٹس ایپ نے ٹیکسٹ میسجز اور ای میل کی جگہ لے لی ہے لیکن انتخابی مہم کے پرانے حربے مثلاً جلسے جلوس، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اشتہارات، گھر گھر جا کر ووٹروں کو قائل کرنا اور ووٹ خریدنا آج بھی غالب ہیں۔
نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے لیے عوام کے انتخابی رویے کا جائزہ لینے کی غرض سے کرناٹک کا دورہ کرنے والے نیلنجن سرکار کہتے ہیں کہ واٹس ایپ کے پیغامات کے سیلاب نے ووٹروں کی سیاسی رائے تو تبدیل نہیں کی لیکن انھوں نے جذبات کو مہمیز ضرور دی اور اُن علاقوں میں ووٹ زیادہ تعداد میں ڈالے جانے کا سبب بنے جہاں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تفریق زیادہ پائی جاتی ہے۔ نیلنجن سرکار کہتے ہیں، ’’واٹس ایپ نے یہ ضرور کیا ہے کہ وہ لوگوں کو گھروں سے باہر نکال لائی ہے۔‘‘ریاست کرناٹک کے حکام نے بتایا ہے کہ اس مرتبہ 72فی صد ووٹروں نے ووٹ ڈالے، جو 1952ء کے بعد سے ریاست میں ووٹ ڈالے جانے کی تاریخ کی سب سے اونچی شرح ہے۔ جب چار سال پہلے نریندر مودی نے اقتدار حاصل کیا تھاتو اس وقت ووٹروں کو ان کی طرف مائل کرنے میں فیس بک نے سب سے اہم ڈیجیٹل ذریعے کا کردار ادا کیا تھا لیکن پچھلے ڈیڑھ برسوں کے دوران بھارت میں سمارٹ فون کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جانے سے واٹس ایپ بھارت میں رابطے کا بنیادی ذریعہ بن چکی ہے اور انتخابی مہم کے پیغامات پھیلانے کے لیے اسے ترجیح دی جا رہی ہے۔ مثال کے طور سے 2017ء کے اوائل میں ہونے والے اتر پردیش کے ریاستی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کے پیغامات ہر ضلع اور ہر بستی تک پہنچانے کے لیے 6,000سے زیادہ واٹس ایپ گروپ بنائے تھے۔وہاں اس کی بھرپور کامیابی نے کانگریس کو تحریک دی کہ وہ بھی اپنی ’’واٹس ایپ آرمی‘‘ کو حرکت میں لائے۔ چناں چہ جب کرناٹک کے ریاستی انتخابات کے لیے سرگرمِ کار ہونے کا وقت آیا تو دونوں جماعتوں نے واٹس ایپ سے بھرپور استفادہ کیا۔ کانگریس پارٹی کے مرکزی ترجمان رَن دیپ سنگھ سرجی والا کہتے ہیں، ’’واٹس ایپ نیوکلیئر چین ری ایکشن کی طرح کام کرتی ہے۔‘‘ کرناٹک کی پچھلی قانون ساز اسمبلی کے رکن یو ٹی کھادر نے پہلی بار انتخابات میں واٹس ایپ کا اثر دیکھا۔ وہ کانگریس پارٹی کے مسلمان رکن ہیں اور حالیہ ریاستی انتخابات کے دوران منگلور پولیس کے بقول ایک نئی طرز کے واٹس ایپ حملے کا ہدف تھے۔ انھیں اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار بنائے جانے کے حوالے سے واٹس ایپ پر ہندووں اور مسلمانوں کے مابین گالم گلوچ اور دھمکیوں سے بھرے آڈیو پیغامات کثرت سے پھیلائے گئے تھے۔ ایسے ایک آڈیو میسیج میں، جو ایک لمبی فون کال کی ریکارڈنگ ہے، ایک شخص دوسرے شخص کو ڈراتے دھمکاتے ہوئے کہتا ہے کہ زعفرانی رنگ کی شال یو ٹی کھادر پر ڈال دو۔ یاد رہے بی جے پی زعفرانی رنگ کو ہندو مذہب کی علامت ہونے کے ناتے بہت اہمیت دیتی ہے۔اس آڈیو میسیج میں ایک شخص کہتا ہے، ’’تم نے کھادر پر زعفرانی شال کیوں نہیں ڈالی؟ تمھیں اپنی جان پیاری نہیں ہے کیا؟ اگر میں تمھیں خنجر گھونپ دوں تو کیا کھادر تمھیں بچانے آئے گا؟‘‘ ایسا لگتا ہے دوسرا میسیج کسی مسلمان کا تھا، جو پہلے میسیج کے جواب میں جاری کیا گیا تھا۔ اس میں گالی دیتے ہوئے کہا گیا تھا، ’’۔۔۔ کے بچے، میں تمھیں وارننگ دیتا ہوں۔ میں تمھیں باہر نکال لاؤں گا۔‘‘ یہ میسیج بہت سارے واٹس ایپ گروپوں میں بھیجا گیا تھا، اس لیے اسے بہت سارے لوگوں نے سنا تھا۔ یو ٹی کھادر تقریباً دس سال سے اس علاقے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور پچھلی مرتبہ وہ اپنے مدِ مقابل امیدوار کی نسبت بہت زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ گفتگوئیں جعلی ہیں اور سٹوڈیو میں تیار کی گئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ واٹس ایپ کی سماجی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے نفرت پر مبنی پیغامات کو روکے۔ تاہم انھیں یہ بھی یقین تھا کہ منفی پیغامات کا الٹ اثر ہو رہا ہے اور انھیں اپنے حلقے کے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے جن میں سے نصف مسلمان اور نصف ہندو ہیں۔ یوں واٹس ایپ دوسرے انداز سے ان کی انتخابی مہم میں فائدہ بخش ثابت ہوئی۔ یو ٹی کھادر نے کہا، ’’ٹی وی چینل اور اخبارات عمومی طور سے مجھے نظر انداز کر رہے ہیں۔ ایسے میں واٹس ایپ نے مجھے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کی مدد کے بغیر اپنے سپورٹروں تک پہنچنے میں مدد دی۔‘‘
کالج کے طالبِ علم اور بی جے پی کے نوجوان راہنما پرنو بھٹ کہتے ہیں کہ واٹس ایپ ان کے لیے بھی فائدہ بخش ثابت ہوئی ہے۔ ہفتے کے روز ووٹنگ مکمل ہو جانے کے بعد انھوں نے کہا کہ انھیں جن ساٹھ افراد کو قائل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، ان میں سینتالیس افراد ان کے واٹس ایپ پیغامات کی وجہ سے بی جے پی کو ووٹ دینے پر آمادہ ہو گئے، جن میں سے تیرہ افراد ایسے تھے جنھوں نے پہلے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تھا۔پرنو بھٹ نے کہا، ’’میں انھیں بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)