افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی
فرانز جے مارٹی
اس طرح کی خبریں تو کثرت سے شائع اور نشر کی جاتی ہیں کہ پاکستان میں افغان طالبان کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں لیکن یہ حقیقت نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ بعض انتہا پسند گروپ جیسے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان جا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی حکام برسوں سے دنیا کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کروا رہے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں اور وہ افغانستان میں بحفاظت رہتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے لیکن دنیا نے پاکستان کی اس حقیقت بیانی پر اس طرح توجہ نہیں دی جس طرح کہ توجہ دی جانا چاہیے تھی جب کہ افغان اور امریکی حکام کے ایسے الزامات کو بہت توجہ دی جاتی ہے کہ افغانستان میں شورش پھیلانے والے لوگ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی افغانستان میں بحفاظت موجودگی اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کی جو بات پاکستان کہتا آ رہا ہے، وہ اس وقت سچ ثابت ہوئی جب 7مارچ 2018ء کو پاکستان کی سرحد کے قریب مشرقی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں واقع تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک ٹھکانے پر امریکی ڈرون حملے میں ٹی ٹی پی کے کم از کم بیس دہشت گرد ہلاک ہو گئے جن میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے راہنما ملا فضل اللہ کا بیٹا عبداللہ بھی شامل تھا۔ اس بات کا اعتراف ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک بیان میں کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک افغان دہشت گرد نے، جو قاری سیف اللہ کے فرضی نام سے جانا جاتا ہے، اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستانی (جن میں سے بہت سوں کا تعلق وادئ سوات سے ہے) اور افغان دہشت گردوں پر مشتمل تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد افغانستان کے صوبہ کنڑ کے اضلاع شگل وا شیلتن کے دور افتادہ علاقے چوگام میں رہتے ہیں۔ اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ اس علاقے پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا جس کے باعث خاصا جانی نقصان ہوا تھا۔ قاری سیف اللہ نے بتایا کہ اس گروپ کا سربراہ استاد فتح ہے اور مذکورہ ڈرون حملے سے پہلے اس نے تقریباً ہر مہینے افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں باجوڑ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروائی تھیں۔تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پاکستان میں ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو عالمی ذرائع ابلاغ توجہ نہیں دیتا، تاہم رائٹرز نے نومبر 2017ء کے وسط میں دہشت گردی کے اُس واقعے کی خبر جاری کی تھی جس میں باجوڑ میں واقع پاکستانی فوج کی ایک چوکی پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا۔ قاری سیف اللہ کے مطابق وہ حملہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کروایا تھا۔ استاد فتح کی زیرِ قیادت کام کرنے والے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے گروپ کی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں موجودگی کی تصدیق دو دوسرے ذرائع سے بھی ہوئی ہے۔ ایک ذریعہ ایک ایسا شخص تھا جو کچھ عرصہ پہلے تک کنڑ میں افغان بارڈر پولیس میں کام کیا کرتا تھا۔ اس شخص نے بتایا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے 200سے 300 دہشت گرد چوگام میں موجود ہیں۔ اسی شخص نے یہ بھی بتایا کہ پورے صوبہ کنڑ میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 2000کے لگ بھگ دہشت گرد موجود ہیں۔ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے دہشت گردوں کی موجودگی کی تصدیق کرنے والا دوسرا ذریعہ زیادہ معلومات کا حامل تھا۔ اس نے معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ اس نے بتایا کہ مالاکنڈ ڈویژن کے لیے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ملٹری کمانڈر استاد فتح کا اصل نام عمر رحمان ہے۔ قاری سیف اللہ نے بھی بتایا تھا کہ استاد فتح کا اصل نام عمر رحمان ہے۔ نام مستور رکھنے کی درخواست کرنے والے ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ استاد فتح کنڑ میں موجود ہے۔ چوں کہ استاد فتح تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا درمیانی سطح کا ایک نسبتاً گمنام کمانڈر ہے اس لیے دو الگ الگ ذرائع سے اس کی موجودگی کی تصدیق ضروری تھی۔ اسی ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ استاد فتح کا تعلق اس خود کش بم بار سے تھا جس نے 3فروری کو وادئ سوات میں اپنے آپ کو اڑا کر پاکستانی فوج کے گیارہ جوانوں کو شہید کر دیا تھا۔
اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ 7مارچ کے امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں چوگام میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردکارروائیاں کرنے سے معذور ہوئے یا نہیں، یا اس علاقے سے ان کا صفایا ہوا یا نہیں۔ بہرحال ایسا ہوا بھی ہو تب افغانستان کے صوبہ کنڑ میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ معلام ہوا ہے کہ محولہ حملے سے تھوڑا پہلے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد خاصی تعداد میں نزدیکی ضلع غازی آباد کے پہاڑوں میں واقع ایک اور محفوظ ٹھکانے کی طرف چلے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں استاد فتح بھی شامل تھا۔ ایک اور ذریعے نے بھی اس خبر کی تصدیق کی کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد غازی آباد کے پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ اس ذریعے نے فروری میں وہاں دہشت گردوں کے ایک اجتماع میں شرکت کی تھی۔پاکستان کہتا ہے کہ بھارت کی انٹیلی جینس سروس ریسرچ اینڈ اینیلسز ونگ (را) افغان انٹیلی جینس سروس نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ذریعے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتی ہے اور پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے انھیں وسائل مہیا کرتی ہے۔ قاری سیف اللہ نے بتایا کہ مقامی افغان اہل کار تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے نہیں روکتے ۔ کم از کم ایک اور ذریعے نے بھی تصدیق کی کہ افغان حکام تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے مختلف گروپوں کو رقوم اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے افغانستان میں موجود ہونے کے سبب ہی پاکستان کبھی کبھار افغانستانی علاقے میں گولہ باری کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ افغانستان حکومت اس حوالے سے کچھ بھی کہے پاکستان کا موقف ہے کہ وہ افغانستان سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے جواب میں گولہ باری کرتا ہے۔ اگر افغان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل نہ ہونے دے تو پاکستان کو جواب دینے کی کیا ضرورت ہے۔ افغان حکومت اپنے الزامات کے ثبوت میں چند زخمی ہی پیش کر سکی جس سے اس کے یہ الزامات جھوٹ ثابت ہوئے کہ پاکستان زیادہ گولہ باری کر رہا ہے اور پاکستان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے باز رکھنے کے لیے نہایت احتیاط سے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کرتا ہے۔
اب تک ہماری بحث سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ کراس بارڈر پُرتشدد انتہا پسندی کسی بھی ملک کے لیے فائدہ بخش نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات عمومی طور سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں جس کے باعث آج تک دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ مؤثر تعاون نہیں کر سکے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد 2670کلومیٹر لمبی ہے اور انتہائی دورافتادہ و دشوار گزار علاقوں پر محیط ہے جہاں سے دہشت گرد داخل ہو سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان افغانستان جب تک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے، تب تک دونوں ملک دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے ختم نہیں کر سکیں گے۔
(بشکریہ دی ڈپلومیٹ؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
فرانز جے مارٹی
اس طرح کی خبریں تو کثرت سے شائع اور نشر کی جاتی ہیں کہ پاکستان میں افغان طالبان کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں لیکن یہ حقیقت نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ بعض انتہا پسند گروپ جیسے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان جا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی حکام برسوں سے دنیا کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کروا رہے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں اور وہ افغانستان میں بحفاظت رہتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے لیکن دنیا نے پاکستان کی اس حقیقت بیانی پر اس طرح توجہ نہیں دی جس طرح کہ توجہ دی جانا چاہیے تھی جب کہ افغان اور امریکی حکام کے ایسے الزامات کو بہت توجہ دی جاتی ہے کہ افغانستان میں شورش پھیلانے والے لوگ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی افغانستان میں بحفاظت موجودگی اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کی جو بات پاکستان کہتا آ رہا ہے، وہ اس وقت سچ ثابت ہوئی جب 7مارچ 2018ء کو پاکستان کی سرحد کے قریب مشرقی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں واقع تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک ٹھکانے پر امریکی ڈرون حملے میں ٹی ٹی پی کے کم از کم بیس دہشت گرد ہلاک ہو گئے جن میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے راہنما ملا فضل اللہ کا بیٹا عبداللہ بھی شامل تھا۔ اس بات کا اعتراف ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک بیان میں کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک افغان دہشت گرد نے، جو قاری سیف اللہ کے فرضی نام سے جانا جاتا ہے، اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستانی (جن میں سے بہت سوں کا تعلق وادئ سوات سے ہے) اور افغان دہشت گردوں پر مشتمل تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد افغانستان کے صوبہ کنڑ کے اضلاع شگل وا شیلتن کے دور افتادہ علاقے چوگام میں رہتے ہیں۔ اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ اس علاقے پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا جس کے باعث خاصا جانی نقصان ہوا تھا۔ قاری سیف اللہ نے بتایا کہ اس گروپ کا سربراہ استاد فتح ہے اور مذکورہ ڈرون حملے سے پہلے اس نے تقریباً ہر مہینے افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں باجوڑ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروائی تھیں۔تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پاکستان میں ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو عالمی ذرائع ابلاغ توجہ نہیں دیتا، تاہم رائٹرز نے نومبر 2017ء کے وسط میں دہشت گردی کے اُس واقعے کی خبر جاری کی تھی جس میں باجوڑ میں واقع پاکستانی فوج کی ایک چوکی پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا۔ قاری سیف اللہ کے مطابق وہ حملہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کروایا تھا۔ استاد فتح کی زیرِ قیادت کام کرنے والے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے گروپ کی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں موجودگی کی تصدیق دو دوسرے ذرائع سے بھی ہوئی ہے۔ ایک ذریعہ ایک ایسا شخص تھا جو کچھ عرصہ پہلے تک کنڑ میں افغان بارڈر پولیس میں کام کیا کرتا تھا۔ اس شخص نے بتایا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے 200سے 300 دہشت گرد چوگام میں موجود ہیں۔ اسی شخص نے یہ بھی بتایا کہ پورے صوبہ کنڑ میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 2000کے لگ بھگ دہشت گرد موجود ہیں۔ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے دہشت گردوں کی موجودگی کی تصدیق کرنے والا دوسرا ذریعہ زیادہ معلومات کا حامل تھا۔ اس نے معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ اس نے بتایا کہ مالاکنڈ ڈویژن کے لیے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ملٹری کمانڈر استاد فتح کا اصل نام عمر رحمان ہے۔ قاری سیف اللہ نے بھی بتایا تھا کہ استاد فتح کا اصل نام عمر رحمان ہے۔ نام مستور رکھنے کی درخواست کرنے والے ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ استاد فتح کنڑ میں موجود ہے۔ چوں کہ استاد فتح تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا درمیانی سطح کا ایک نسبتاً گمنام کمانڈر ہے اس لیے دو الگ الگ ذرائع سے اس کی موجودگی کی تصدیق ضروری تھی۔ اسی ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ استاد فتح کا تعلق اس خود کش بم بار سے تھا جس نے 3فروری کو وادئ سوات میں اپنے آپ کو اڑا کر پاکستانی فوج کے گیارہ جوانوں کو شہید کر دیا تھا۔
اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ 7مارچ کے امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں چوگام میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردکارروائیاں کرنے سے معذور ہوئے یا نہیں، یا اس علاقے سے ان کا صفایا ہوا یا نہیں۔ بہرحال ایسا ہوا بھی ہو تب افغانستان کے صوبہ کنڑ میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ معلام ہوا ہے کہ محولہ حملے سے تھوڑا پہلے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد خاصی تعداد میں نزدیکی ضلع غازی آباد کے پہاڑوں میں واقع ایک اور محفوظ ٹھکانے کی طرف چلے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں استاد فتح بھی شامل تھا۔ ایک اور ذریعے نے بھی اس خبر کی تصدیق کی کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد غازی آباد کے پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ اس ذریعے نے فروری میں وہاں دہشت گردوں کے ایک اجتماع میں شرکت کی تھی۔پاکستان کہتا ہے کہ بھارت کی انٹیلی جینس سروس ریسرچ اینڈ اینیلسز ونگ (را) افغان انٹیلی جینس سروس نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ذریعے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتی ہے اور پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے انھیں وسائل مہیا کرتی ہے۔ قاری سیف اللہ نے بتایا کہ مقامی افغان اہل کار تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے نہیں روکتے ۔ کم از کم ایک اور ذریعے نے بھی تصدیق کی کہ افغان حکام تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے مختلف گروپوں کو رقوم اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے افغانستان میں موجود ہونے کے سبب ہی پاکستان کبھی کبھار افغانستانی علاقے میں گولہ باری کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ افغانستان حکومت اس حوالے سے کچھ بھی کہے پاکستان کا موقف ہے کہ وہ افغانستان سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے جواب میں گولہ باری کرتا ہے۔ اگر افغان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل نہ ہونے دے تو پاکستان کو جواب دینے کی کیا ضرورت ہے۔ افغان حکومت اپنے الزامات کے ثبوت میں چند زخمی ہی پیش کر سکی جس سے اس کے یہ الزامات جھوٹ ثابت ہوئے کہ پاکستان زیادہ گولہ باری کر رہا ہے اور پاکستان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے باز رکھنے کے لیے نہایت احتیاط سے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کرتا ہے۔
اب تک ہماری بحث سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ کراس بارڈر پُرتشدد انتہا پسندی کسی بھی ملک کے لیے فائدہ بخش نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات عمومی طور سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں جس کے باعث آج تک دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ مؤثر تعاون نہیں کر سکے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد 2670کلومیٹر لمبی ہے اور انتہائی دورافتادہ و دشوار گزار علاقوں پر محیط ہے جہاں سے دہشت گرد داخل ہو سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان افغانستان جب تک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے، تب تک دونوں ملک دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے ختم نہیں کر سکیں گے۔
(بشکریہ دی ڈپلومیٹ؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)