ختم نہ ہونے والی بھوک
میگن سپیشیا اور کیسی بریکن
بھوک کا موسم اس سال وقت سے پہلے آ گیا۔ ایک وقت تھا کہ فروری کو افراط والا مہینہ تصور کیا جاتا تھا مگر اب فروری آتے آتے جنوبی سوڈان کے ایک گاؤں کی باسی نیابولی چوک کے پا س اپنے تین بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بھی خوراک باقی نہیں بچی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ اب انھیں یہاں سے کہیں اور جانا پڑے گا۔ اس نے بتایا، ’’ہم درختوں کے پتے کھا رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ کس طرح وہ درختوں کے پتوں کو پانی میں ابال کر شوربہ سا بناتی ہے۔ ’’رون ریتھ‘‘ ۔۔۔ یہ لفظ وہ بھوک کے موسم کے لیے استعمال کرتی ہیں۔جنوبی سوڈان کے درجنوں نسلی گروپ اگلی فصل تک جاری رہنے والے خوراک کی قلت کے مہینوں کے لیے مختلف نام استعمال کرتے ہیں لیکن خوف سب کے یکساں ہیں یعنی کم خوراکی کا خوف، بیماری کا خوف حتیٰ کہ موت کا خوف۔ موجودہ سال کے لیے توقع ہے کہ یہ بد ترین سال ہو گا۔ چار سال سے زیادہ عرصے سے جاری خانہ جنگی کے دوران دسیوں لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کے چھوڑے ہوئے بے شمار کھیت ویران پڑے ہیں۔ اِس ملک کے وجود میں آنے کے بعد زیادہ تر عرصہ خانہ جنگی میں گزرا ہے۔ معیشت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ ملک کے سب سے زرخیز حصوں پر لڑائی قبضہ جما چکی ہے۔ خوراک کی قیمتیں تباہ کن حد تک اونچی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جنوری میں پکی ہوئی فصل کاٹنے کے موسم میں بھی، جب خوراک وافر ہوتی ہے، پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں یعنی ملک کی تقریباً نصف آبادی کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اب جب کہ خوراک اگلے چند مہینوں کے لیے ختم ہو چکی ہے، بین الاقوامی حکام کو توقع ہے کہ جن لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، اُن کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ جب کہ دسیوں لاکھ افراد کم خوراکی کے شکار ہوں گے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس سال فصل کی مقدار اس قدر کم رہی کہ 2011ء میں سوڈان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کے برسوں میں سے کسی برس بھی اتنی کم فصل نہیں ہوئی تھی۔ اس سال ملک کی ضرورت سے بہت کم فصل پیدا ہوئی ہے۔ ستم بالائے ستم امن مذاکرات میں تعطل آ چکا ہے اور جنگ بندی کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے لڑائی کی وجہ سے بعض علاقے ہنگامی امداد سے محروم ہو چکے ہیں۔ حکومتی اور باغی جنگجووں نے یکساں طور سے امدادی کارکنوں کونشانہ بنایا ہے، جس کے باعث خوراک تقسیم کرنے کا عمل نہایت دشوار ہو چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خوراک کی قلت سے محفوظ دارالحکومت میں بھی بہت سے گھرانے شہر کے بازاروں میں طلب کی جانے والی انتہائی اونچی قیمتیں ادا کرنا ناممکن پا رہے ہیں۔ سکۂ رائج الوقت کی قدر میں انتہائی کمی ہو جانے کے باعث ان کے سامنے متبادل راہیں نہیں بچیں۔ پورے ملک کے گھرانے اس نئی قوم کو پارہ پارہ کر دینے والی سیاسی اور نسلی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کم خوراکی کے شکار بچوں کے ایک کلینک میں ہجوم کیے ہوئے ہیں۔ بعض مائیں اُن علاقوں سے آئی ہوئی ہیں، جو حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں جب کہ بعض دوسری عورتوں کے خاوند، بھائی اور بیٹے باغیوں کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔درجنوں عورتیں باہر فرش پر پڑی ہیں۔ ان کے بچے کمبلوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کم خوراکی کے نشانات واضح ہیں :پھولے ہوئے پیٹ اور سوکھے ہوئے اعضا۔ جِلد پتلی پتلی ہڈیوں پر تہ بہ تہ لٹکی ہوئی ہے۔ جسم دانوں سے بھرے ہوئے ہیں، جو پھوٹ چکے ہیں۔ پانی کی کمی سے ہونے والے ورم نے جلد کو پھاڑ ڈالا ہے۔ سیسیلیا کدین اپنی نو مہینوں کی بیٹی سارہ کو دودھ پلانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس کی چھاتیوں میں اتنا دودھ نہیں کہ بچی کو پلا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دن میں صرف ایک وقت کھانا کھا سکتی ہے۔ اس نے کہا، ’’مائیں حقیقت میں مصیبت اٹھا رہی ہیں۔‘‘ جنوبی سوڈان دنیا کی تازہ ترین قوم ہے، جو اس کی آزادی سے پہلے جنوبی اور شمالی سوڈان کے مابین عشروں سے جاری تنازع ختم کرنے کے بے پناہ بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی لیکن صرف دو ہی سال بعد نیا ملک جنگ کا شکار ہو چکا تھا۔
دسمبر 2013ء میں صدر سلوا کیر اور نائب صدر ریک ماچر کی وفادار فوجوں کے مابین جھگڑا ہوا۔ تھوڑے سے عرصے ہی میں یہ جھگڑا ایسے تنازع میں ڈھل گیا جس نے ملک کو توڑ کر رکھ دیا۔ دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو گئے ۔ جو ملک پہلے ہی دنیا کا سب سے کم ترقی یافتہ ملک تھا، وہ مزید برباد ہو گیا۔ جنوبی سوڈان کے لیے اوکسفیم کی پالیسی ایڈوائزر الزبتھ وائٹ کہتی ہیں، ’’بہت ہی تھوڑے لوگ ایسے ہیں، جو بھوک کے اثرات سے محفوظ ہیں لیکن تمام راستے واپس تنازعے اور عدم تحفظ کی طرف جاتے ہیں۔‘‘حکومت اور حزبِ اختلاف کے راہنماؤں کے مابین مذاکرات ملتوی ہو چکے ہیں لیکن اگر امن کا معاہدہ ہو بھی جائے تو بھوک کا بحران منڈلاتا رہے گا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنوبی سوڈان میں ہونے والی خانہ جنگی نے روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کے بعد افریقا میں پناہ گزینوں کے سب سے بڑے بحران کو جنم دیا ہے۔ بیس لاکھ سے زیادہ افراد جانیں بچانے کے لیے ملک سے بھاگ گئے ہیں، جس کے باعث خوراک کی پیداوار میں انتہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔ تقریباً بیس لاکھ افراد اپنے گھر چھوڑ کر ملک کے دوسرے حصوں میں جا چکے ہیں۔ان کے چھوڑے ہوئے ویران قصبے آسیب زدہ لگتے ہیں اور کھیت اجاڑ پڑے ہیں۔ ملک کی جنوبی سرحد پر روزانہ درجنوں پناہ گزیں ایک تنگ پل عبور کر کے یوگنڈا میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ پناہ گزیں اپنے ساتھ بھوک کے قصے لے کر آتے ہیں۔ بیس سالہ میری یار اپنے ایک سالہ بیٹے کے ساتھ یوگنڈا میں واقع چھوٹے سے خیر مقدمی مرکز پہنچی۔ اس جگہ سب سے پہلے پناہ گزینوں کا ایک ٹیسٹ لیا جاتا ہے، جس سے ان کی کم خوراکی جانچی جاتی ہے۔ میری یار نے پل کے پار جنوبی سوڈان میں اپنی بستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہاں کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ بچوں کا طبی معائنہ کرنے والے جیفری چینڈیگا نے کہا کہ پچھلے سال بھوک کے موسم کی انتہا پر جنوبی سوڈان کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں یہاں آئے تھے۔ وہ ایک وائٹ بورڈ پر پناہ گزینوں کی تعداد کا موازنہ کرتے رہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ حکام کا اندازہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ دو سال پہلے جنوبی سوڈان کی جنگ ملک کے جنوبی حصوں تک پھیل گئی تھی۔ وہ علاقے نہایت زرخیز تھے اور پورے ملک کی غذائی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ جنگ ان علاقوں تک پھیلنے کی وجہ سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں یوگنڈا آ گئے۔ ان میں سے زیادہ تر اب تک واپس نہیں گئے۔ 2017ء کے اوائل میں اقوامِ متحدہ کے امن قائم کرنے والوں نے محولہ جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کیا تو انھوں نے دیکھا کہ پوری پوری بستیوں کو جلا کر خاکستر کیا جا چکا تھا۔
دارالحکومت میں الزبتھ کنیی اور اس کا خاوند جانسن علی دریائے نیل میں گرنے والے دریائے سفید نیل کے ساتھ واقع اپنے کھیت میں اگی سبزیاں توڑ رہے ہیں۔ وہ بیس برسوں سے اپنے کھیتوں میں اگنے والی بھنڈیاں، ہری مرچیں اور ٹماٹر نزدیکی بازار میں بیچتے آ رہے ہیں لیکن اس سال فصل زیادہ ہونے کے باوجود انھیں اپنے سات افراد والے گھرانے کو کھانا کھلانا تک مشکل ہو رہا ہے۔ جانسن علی نے کہا، ’’میں اپنے کھیت سے جو پیسے کماتا ہوں، وہ بے فائدہ ہیں۔‘‘ ان کی فصل کی قیمت پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے لیکن وہ جو غذائی اشیا مثلاً مکئی اور جوار خریدتے ہیں، ان کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جنوبی سوڈان کے سکۂ رائج الوقت کی قدر میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور انتہائی زیادہ افراطِ زر نے واقعتاً ہر شخص کو نچوڑ ڈالا ہے۔ جنگ سے پہلے ایک امریکی ڈالر تقریباً پانچ جنوبی سوڈانی پونڈ کے مساوی ہوتا تھا۔ مارچ تک ایک امریکی ڈالر 220جنوبی سوڈانی پونڈوں کے مساوی ہو چکا تھا۔ اس کا اثر تباہ کن ہوا ہے۔ 2017ء میں ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایک وقت کے کھانے کی دنیا میں سب سے زیادہ قیمت جنوبی سوڈان میں ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق جنوبی سوڈان کے لوگوں کو پھلیوں کے سالن کی ایک پلیٹ خریدنے کے لیے اپنی روزانہ آمدن کا 155فی صد خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس کو دوسرے انداز سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جو کھانا نیو یارک میں صرف 1.20ڈالر میں کریدا جا سکتا ہے، وہی کھانا جوبا، جنوبی سوڈان میں رہنے والے کسی فرد کو 321.70ڈالر میں خریدنا پڑے گا۔ زراعت برباد ہو جانے کے بعد یہ ملک ہنگامی امداد کے سہارے جی رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق 2018ء کے اوائل میں جنوبی سوڈان کی مجموعی آبادی کے نصف حصے کا انحصار امداد کے طور سے ملنے والی خوراک پر تھا اور آنے والے ہفتوں میں بھوک کے موسم کے اپنی انتہا کو پہنچ جانے پر اس فی صد شرح میں اضافہ ہو جائے گا۔ جہاں تک ان لوگوں تک امداد پہنچانے کا سوال ہے تو یہ مکمل طور سے دوسرا معاملہ ہے۔ ان دشوار مہینوں میں بارشوں کا موسم بھی اپنا رنگ دکھاتا ہے اور سڑکیں کیچڑ کے ناقابلِ عبور دریاؤں میں بدل جاتی ہیں۔ تنازع کی ابتدا سے اب تک کم از کم ایک سو (100) امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ صرف پچھلے سال تیس امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا۔ جنگ کرنے والے فریق امدادی کارکنوں کو اس باعث ہلاک کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی کوششوں سے ان کے دشمنوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پورے ملک میں اقوامِ متحدہ نے جو محفوظ کیمپ قائم کیے ہیں، ان میں بھی کافی خوراک موجود نہیں۔ چوک، وہ خاتون جو اپنے بچوں کو درختوں کے پتے ابال کر کھلاتی ہیں، جوبا کے ایک محفوظ علاقے میں ایک مہینے سے موجود ہیں۔ یہ کیمپ2013ء میں اس وقت قائم کیے گئے تھے جب حکومتی افواج اور ان کے حامیوں کے تشدد سے خوف زدہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر اقوامِ متحدہ کے امن قائم کرنے والوں کے مرکز میں آ گئے تھے۔ پناہ لینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئے کہ پورے پورے شہر آباد ہو گئے، جن کی چاروں اطرف میں خاردار تاروں کی باڑھیں نصب کر دی گئی ہیں۔ اقوامِ متحدہ ان کیمپوں کے اندراج شدہ باسیوں کو غزا مہیا کر رہی ہے لیکن یہاں ایسے ہزاروں لوگ بھی موجود ہیں، جنھوں نے اپنے کوائف کا باقاعدہ اندراج نہیں کروایا۔ چناں چہ انھیں غذا کے لیے اپنے ہمسایوں پر مکمل انحصار کرنا پڑتا ہے۔ راشن کسی کو بھی پورا نہیں پڑتا۔ امدادی کارکن کہتے ہیں کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ایک مقام پر تشدد پھوٹ پڑنے کی وجہ سے جانیں بچا کر دوسرے مقام کی طرف نکل بھاگنے کے باعث مسلسل سفر میں رہتا ہے۔ چوک کے کیمپ میں نئے آنے والوں میں سے زیادہ تر نے ایک سال سے زیادہ عرصہ سے اپنے کوائف کا اندراج نہیں کروایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں اور ان جیسے دوسرے لاتعداد افراد کو کچھ بھی نہیں مل رہا۔ کیمپوں میں رہنا خطرناک بھی ہے۔ کیمپ افسروں کی طرف سے حملوں اور جنسی زیادتیوں کی خبریں بڑے پیمانے پر مل رہی ہیں۔ یہ خبریں بھی ملی ہیں کہ عورتیں خوراک کے لیے جسم فروشی کر رہی ہیں لیکن کیمپ چھوڑنا نئی طرح کے خطروں کو دعوت دیتا ہے۔
تیس سالپ طافیہ نیاتی ایک کیمپ میں 2013ء سے رہ رہی ہیں۔ ان کے چھ بچے ہیں۔ ان کا خوراک کا راشن اکثر ختم ہو جاتا ہے۔ چناں چہ وہ روزانہ کیمپ چھوڑ کر جلانے کی لکڑیاں اکٹھی کرنے جاتی ہیں۔ وہ اس امید میں یہ کام کرتی ہیں کہ شاید جلانے کی لکڑیاں فروخت کر کے انھیں اتنے پیسے حاصل ہو جائیں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے دودھ اور ان کے کپڑے دھونے کے لیے صابن خرید لیں۔ وہ تین گھنٹے پیدل چل کر جگہ جگہ جاتی ہیں۔ اس دوران حکومتی افواج کے ہتھے چڑھنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر وہ اس کے باوجود اپنے بچوں کی خاطر لکڑیاں ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔ وہ جلانے کی لکڑیوں کا بڑا سا ڈھیر سر پر اٹھائے کیمپ واپس آتی ہیں۔ انھوں نے بتایا، ’’وہ عورتوں سے زنا بالجبر کرتے ہیں اور انھیں مارتے پیٹتے ہیں۔ بعض حکومتی فوجیوں نے میرے ساتھ بھی زنا بالجبر کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ یہ وہ خطرات ہیں،جن سے تنازعات والے علاقوں کی عورتوں دوچار رہتی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ایک دن انھیں بری طرح پیٹا گیا اور ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھتی ہیں تو دوبارہ کیمپ سے باہر جانے کے سوا ان کے سامنے کوئی راستا نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا، ’’میں باہر جاتی ہوں اور مجھے پتا نہیں ہوتا کہ اپنے بچوں کے پاس واپس آ بھی سکوں گی یا نہیں۔‘‘ کم خوراکی کے شکار بچوں کے لیے اقوامِ متحدہ نے جو کلینک قائم کیے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ بھوک کا موسم کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ یہ جان کر جسم میں تھرتھری سی دوڑ جاتی ہے۔ بجلی اکثر چلی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہسپتالوں کے وارڈوں میں اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ یہاں پچھلے سال اس موسم میں جتنے بچوں کا روزانہ علاج کیا جاتا تھا، اب اس سے درجن بھر زیادہ بچوں کا علاج روزانہ کیا جا رہا ہے۔ انھیں پورے ملک سے یہاں لایا جاتا ہے۔ یہاں ان کا وزن کیا جاتا ہے، قد ماپا جاتا ہے اور اس کے اینٹی بایوٹکس اور فارمولا دودھ دیا جاتا ہے۔ اگر ان کے جسم برداشت کرنے کے قابل ہوں تو اس کے بعد انھیں ’’پلمپی نٹ‘‘ ۔۔۔ مونگ پھلیوں سے تیار کیا گیا غذائی پیسٹ ۔۔۔ کھلایا جاتا ہے۔ یہاں موجود بہت سارے گھرانے ایسے بھی ہیں، جو لوگوں کو اپنے گھروں چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کر دینے والے خطروں کے شکار نہیں ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ ملازمت کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے بچے بھوک کے شکار ہیں۔ جوبا کے ایک ریستوراں میں کام کرنے والی سلوا انانیا اپنے دو سالہ بچے توبان زکریا کو کلینک لے کر آئیں۔ وہ اپنی تھوڑی سی تنخواہ میں جلد ختم ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر دن انھیں صرف ایک وقت دلیہ کھانا کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ستائیس سالہ سلویا جارج اپنے دو سالہ بیٹے منڈیلا بیسا کو پنکھا جھل رہی ہیں۔ دو سالہ بچہ نیم بے ہوشی کے عالم میں بستر پر پڑا ہے۔ اس کے بازو کی ایک نس میں ڈرپ لگی ہوئی ہے۔ اس بچے کے والد جوبا یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ تینوں سلویا جارج کی والدہ کے گھر میں رہتے ہیں۔ وہی ان کی غذائی ضروریات بھی پورا کر رہی ہیں۔ خوراک ہمیشہ ناکافی رہتی ہے۔ ہیڈ نیوٹریشنسٹ جوزفین روبن نے کہا کہ ابھی جب کہ بھوک کے موسم کی انتہا کا زمانہ دور ہے، کلینک میں مریض کثرت سے اور مسلسل لائے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اضطراب بھرے لہجے میں کہا کہ ’’جون، جولائی میں ہمارے پاس بھی خوراک ناکافی ہو گی۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
میگن سپیشیا اور کیسی بریکن
بھوک کا موسم اس سال وقت سے پہلے آ گیا۔ ایک وقت تھا کہ فروری کو افراط والا مہینہ تصور کیا جاتا تھا مگر اب فروری آتے آتے جنوبی سوڈان کے ایک گاؤں کی باسی نیابولی چوک کے پا س اپنے تین بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بھی خوراک باقی نہیں بچی تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ اب انھیں یہاں سے کہیں اور جانا پڑے گا۔ اس نے بتایا، ’’ہم درختوں کے پتے کھا رہے ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ کس طرح وہ درختوں کے پتوں کو پانی میں ابال کر شوربہ سا بناتی ہے۔ ’’رون ریتھ‘‘ ۔۔۔ یہ لفظ وہ بھوک کے موسم کے لیے استعمال کرتی ہیں۔جنوبی سوڈان کے درجنوں نسلی گروپ اگلی فصل تک جاری رہنے والے خوراک کی قلت کے مہینوں کے لیے مختلف نام استعمال کرتے ہیں لیکن خوف سب کے یکساں ہیں یعنی کم خوراکی کا خوف، بیماری کا خوف حتیٰ کہ موت کا خوف۔ موجودہ سال کے لیے توقع ہے کہ یہ بد ترین سال ہو گا۔ چار سال سے زیادہ عرصے سے جاری خانہ جنگی کے دوران دسیوں لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں اور ان کے چھوڑے ہوئے بے شمار کھیت ویران پڑے ہیں۔ اِس ملک کے وجود میں آنے کے بعد زیادہ تر عرصہ خانہ جنگی میں گزرا ہے۔ معیشت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ ملک کے سب سے زرخیز حصوں پر لڑائی قبضہ جما چکی ہے۔ خوراک کی قیمتیں تباہ کن حد تک اونچی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ جنوری میں پکی ہوئی فصل کاٹنے کے موسم میں بھی، جب خوراک وافر ہوتی ہے، پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں یعنی ملک کی تقریباً نصف آبادی کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اب جب کہ خوراک اگلے چند مہینوں کے لیے ختم ہو چکی ہے، بین الاقوامی حکام کو توقع ہے کہ جن لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، اُن کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ جب کہ دسیوں لاکھ افراد کم خوراکی کے شکار ہوں گے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق اس سال فصل کی مقدار اس قدر کم رہی کہ 2011ء میں سوڈان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کے برسوں میں سے کسی برس بھی اتنی کم فصل نہیں ہوئی تھی۔ اس سال ملک کی ضرورت سے بہت کم فصل پیدا ہوئی ہے۔ ستم بالائے ستم امن مذاکرات میں تعطل آ چکا ہے اور جنگ بندی کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے لڑائی کی وجہ سے بعض علاقے ہنگامی امداد سے محروم ہو چکے ہیں۔ حکومتی اور باغی جنگجووں نے یکساں طور سے امدادی کارکنوں کونشانہ بنایا ہے، جس کے باعث خوراک تقسیم کرنے کا عمل نہایت دشوار ہو چکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خوراک کی قلت سے محفوظ دارالحکومت میں بھی بہت سے گھرانے شہر کے بازاروں میں طلب کی جانے والی انتہائی اونچی قیمتیں ادا کرنا ناممکن پا رہے ہیں۔ سکۂ رائج الوقت کی قدر میں انتہائی کمی ہو جانے کے باعث ان کے سامنے متبادل راہیں نہیں بچیں۔ پورے ملک کے گھرانے اس نئی قوم کو پارہ پارہ کر دینے والی سیاسی اور نسلی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کم خوراکی کے شکار بچوں کے ایک کلینک میں ہجوم کیے ہوئے ہیں۔ بعض مائیں اُن علاقوں سے آئی ہوئی ہیں، جو حکومت کی پشت پناہی کر رہے ہیں جب کہ بعض دوسری عورتوں کے خاوند، بھائی اور بیٹے باغیوں کی طرف سے لڑ رہے ہیں۔درجنوں عورتیں باہر فرش پر پڑی ہیں۔ ان کے بچے کمبلوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔ کم خوراکی کے نشانات واضح ہیں :پھولے ہوئے پیٹ اور سوکھے ہوئے اعضا۔ جِلد پتلی پتلی ہڈیوں پر تہ بہ تہ لٹکی ہوئی ہے۔ جسم دانوں سے بھرے ہوئے ہیں، جو پھوٹ چکے ہیں۔ پانی کی کمی سے ہونے والے ورم نے جلد کو پھاڑ ڈالا ہے۔ سیسیلیا کدین اپنی نو مہینوں کی بیٹی سارہ کو دودھ پلانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس کی چھاتیوں میں اتنا دودھ نہیں کہ بچی کو پلا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دن میں صرف ایک وقت کھانا کھا سکتی ہے۔ اس نے کہا، ’’مائیں حقیقت میں مصیبت اٹھا رہی ہیں۔‘‘ جنوبی سوڈان دنیا کی تازہ ترین قوم ہے، جو اس کی آزادی سے پہلے جنوبی اور شمالی سوڈان کے مابین عشروں سے جاری تنازع ختم کرنے کے بے پناہ بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی لیکن صرف دو ہی سال بعد نیا ملک جنگ کا شکار ہو چکا تھا۔
دسمبر 2013ء میں صدر سلوا کیر اور نائب صدر ریک ماچر کی وفادار فوجوں کے مابین جھگڑا ہوا۔ تھوڑے سے عرصے ہی میں یہ جھگڑا ایسے تنازع میں ڈھل گیا جس نے ملک کو توڑ کر رکھ دیا۔ دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو گئے ۔ جو ملک پہلے ہی دنیا کا سب سے کم ترقی یافتہ ملک تھا، وہ مزید برباد ہو گیا۔ جنوبی سوڈان کے لیے اوکسفیم کی پالیسی ایڈوائزر الزبتھ وائٹ کہتی ہیں، ’’بہت ہی تھوڑے لوگ ایسے ہیں، جو بھوک کے اثرات سے محفوظ ہیں لیکن تمام راستے واپس تنازعے اور عدم تحفظ کی طرف جاتے ہیں۔‘‘حکومت اور حزبِ اختلاف کے راہنماؤں کے مابین مذاکرات ملتوی ہو چکے ہیں لیکن اگر امن کا معاہدہ ہو بھی جائے تو بھوک کا بحران منڈلاتا رہے گا۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنوبی سوڈان میں ہونے والی خانہ جنگی نے روانڈا میں ہونے والی نسل کشی کے بعد افریقا میں پناہ گزینوں کے سب سے بڑے بحران کو جنم دیا ہے۔ بیس لاکھ سے زیادہ افراد جانیں بچانے کے لیے ملک سے بھاگ گئے ہیں، جس کے باعث خوراک کی پیداوار میں انتہائی کمی واقع ہو چکی ہے۔ تقریباً بیس لاکھ افراد اپنے گھر چھوڑ کر ملک کے دوسرے حصوں میں جا چکے ہیں۔ان کے چھوڑے ہوئے ویران قصبے آسیب زدہ لگتے ہیں اور کھیت اجاڑ پڑے ہیں۔ ملک کی جنوبی سرحد پر روزانہ درجنوں پناہ گزیں ایک تنگ پل عبور کر کے یوگنڈا میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ پناہ گزیں اپنے ساتھ بھوک کے قصے لے کر آتے ہیں۔ بیس سالہ میری یار اپنے ایک سالہ بیٹے کے ساتھ یوگنڈا میں واقع چھوٹے سے خیر مقدمی مرکز پہنچی۔ اس جگہ سب سے پہلے پناہ گزینوں کا ایک ٹیسٹ لیا جاتا ہے، جس سے ان کی کم خوراکی جانچی جاتی ہے۔ میری یار نے پل کے پار جنوبی سوڈان میں اپنی بستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’وہاں کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ بچوں کا طبی معائنہ کرنے والے جیفری چینڈیگا نے کہا کہ پچھلے سال بھوک کے موسم کی انتہا پر جنوبی سوڈان کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں یہاں آئے تھے۔ وہ ایک وائٹ بورڈ پر پناہ گزینوں کی تعداد کا موازنہ کرتے رہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ حکام کا اندازہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ دو سال پہلے جنوبی سوڈان کی جنگ ملک کے جنوبی حصوں تک پھیل گئی تھی۔ وہ علاقے نہایت زرخیز تھے اور پورے ملک کی غذائی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ جنگ ان علاقوں تک پھیلنے کی وجہ سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں یوگنڈا آ گئے۔ ان میں سے زیادہ تر اب تک واپس نہیں گئے۔ 2017ء کے اوائل میں اقوامِ متحدہ کے امن قائم کرنے والوں نے محولہ جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کیا تو انھوں نے دیکھا کہ پوری پوری بستیوں کو جلا کر خاکستر کیا جا چکا تھا۔
دارالحکومت میں الزبتھ کنیی اور اس کا خاوند جانسن علی دریائے نیل میں گرنے والے دریائے سفید نیل کے ساتھ واقع اپنے کھیت میں اگی سبزیاں توڑ رہے ہیں۔ وہ بیس برسوں سے اپنے کھیتوں میں اگنے والی بھنڈیاں، ہری مرچیں اور ٹماٹر نزدیکی بازار میں بیچتے آ رہے ہیں لیکن اس سال فصل زیادہ ہونے کے باوجود انھیں اپنے سات افراد والے گھرانے کو کھانا کھلانا تک مشکل ہو رہا ہے۔ جانسن علی نے کہا، ’’میں اپنے کھیت سے جو پیسے کماتا ہوں، وہ بے فائدہ ہیں۔‘‘ ان کی فصل کی قیمت پچھلے سال کی نسبت زیادہ ہے لیکن وہ جو غذائی اشیا مثلاً مکئی اور جوار خریدتے ہیں، ان کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جنوبی سوڈان کے سکۂ رائج الوقت کی قدر میں مسلسل کمی آ رہی ہے اور انتہائی زیادہ افراطِ زر نے واقعتاً ہر شخص کو نچوڑ ڈالا ہے۔ جنگ سے پہلے ایک امریکی ڈالر تقریباً پانچ جنوبی سوڈانی پونڈ کے مساوی ہوتا تھا۔ مارچ تک ایک امریکی ڈالر 220جنوبی سوڈانی پونڈوں کے مساوی ہو چکا تھا۔ اس کا اثر تباہ کن ہوا ہے۔ 2017ء میں ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ایک وقت کے کھانے کی دنیا میں سب سے زیادہ قیمت جنوبی سوڈان میں ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق جنوبی سوڈان کے لوگوں کو پھلیوں کے سالن کی ایک پلیٹ خریدنے کے لیے اپنی روزانہ آمدن کا 155فی صد خرچ کرنا پڑتا ہے۔ اس کو دوسرے انداز سے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ جو کھانا نیو یارک میں صرف 1.20ڈالر میں کریدا جا سکتا ہے، وہی کھانا جوبا، جنوبی سوڈان میں رہنے والے کسی فرد کو 321.70ڈالر میں خریدنا پڑے گا۔ زراعت برباد ہو جانے کے بعد یہ ملک ہنگامی امداد کے سہارے جی رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق 2018ء کے اوائل میں جنوبی سوڈان کی مجموعی آبادی کے نصف حصے کا انحصار امداد کے طور سے ملنے والی خوراک پر تھا اور آنے والے ہفتوں میں بھوک کے موسم کے اپنی انتہا کو پہنچ جانے پر اس فی صد شرح میں اضافہ ہو جائے گا۔ جہاں تک ان لوگوں تک امداد پہنچانے کا سوال ہے تو یہ مکمل طور سے دوسرا معاملہ ہے۔ ان دشوار مہینوں میں بارشوں کا موسم بھی اپنا رنگ دکھاتا ہے اور سڑکیں کیچڑ کے ناقابلِ عبور دریاؤں میں بدل جاتی ہیں۔ تنازع کی ابتدا سے اب تک کم از کم ایک سو (100) امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ صرف پچھلے سال تیس امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا۔ جنگ کرنے والے فریق امدادی کارکنوں کو اس باعث ہلاک کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں ان کی کوششوں سے ان کے دشمنوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پورے ملک میں اقوامِ متحدہ نے جو محفوظ کیمپ قائم کیے ہیں، ان میں بھی کافی خوراک موجود نہیں۔ چوک، وہ خاتون جو اپنے بچوں کو درختوں کے پتے ابال کر کھلاتی ہیں، جوبا کے ایک محفوظ علاقے میں ایک مہینے سے موجود ہیں۔ یہ کیمپ2013ء میں اس وقت قائم کیے گئے تھے جب حکومتی افواج اور ان کے حامیوں کے تشدد سے خوف زدہ نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر اقوامِ متحدہ کے امن قائم کرنے والوں کے مرکز میں آ گئے تھے۔ پناہ لینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئے کہ پورے پورے شہر آباد ہو گئے، جن کی چاروں اطرف میں خاردار تاروں کی باڑھیں نصب کر دی گئی ہیں۔ اقوامِ متحدہ ان کیمپوں کے اندراج شدہ باسیوں کو غزا مہیا کر رہی ہے لیکن یہاں ایسے ہزاروں لوگ بھی موجود ہیں، جنھوں نے اپنے کوائف کا باقاعدہ اندراج نہیں کروایا۔ چناں چہ انھیں غذا کے لیے اپنے ہمسایوں پر مکمل انحصار کرنا پڑتا ہے۔ راشن کسی کو بھی پورا نہیں پڑتا۔ امدادی کارکن کہتے ہیں کہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ایک مقام پر تشدد پھوٹ پڑنے کی وجہ سے جانیں بچا کر دوسرے مقام کی طرف نکل بھاگنے کے باعث مسلسل سفر میں رہتا ہے۔ چوک کے کیمپ میں نئے آنے والوں میں سے زیادہ تر نے ایک سال سے زیادہ عرصہ سے اپنے کوائف کا اندراج نہیں کروایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں اور ان جیسے دوسرے لاتعداد افراد کو کچھ بھی نہیں مل رہا۔ کیمپوں میں رہنا خطرناک بھی ہے۔ کیمپ افسروں کی طرف سے حملوں اور جنسی زیادتیوں کی خبریں بڑے پیمانے پر مل رہی ہیں۔ یہ خبریں بھی ملی ہیں کہ عورتیں خوراک کے لیے جسم فروشی کر رہی ہیں لیکن کیمپ چھوڑنا نئی طرح کے خطروں کو دعوت دیتا ہے۔
تیس سالپ طافیہ نیاتی ایک کیمپ میں 2013ء سے رہ رہی ہیں۔ ان کے چھ بچے ہیں۔ ان کا خوراک کا راشن اکثر ختم ہو جاتا ہے۔ چناں چہ وہ روزانہ کیمپ چھوڑ کر جلانے کی لکڑیاں اکٹھی کرنے جاتی ہیں۔ وہ اس امید میں یہ کام کرتی ہیں کہ شاید جلانے کی لکڑیاں فروخت کر کے انھیں اتنے پیسے حاصل ہو جائیں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے دودھ اور ان کے کپڑے دھونے کے لیے صابن خرید لیں۔ وہ تین گھنٹے پیدل چل کر جگہ جگہ جاتی ہیں۔ اس دوران حکومتی افواج کے ہتھے چڑھنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر وہ اس کے باوجود اپنے بچوں کی خاطر لکڑیاں ڈھونڈتی پھرتی ہیں۔ وہ جلانے کی لکڑیوں کا بڑا سا ڈھیر سر پر اٹھائے کیمپ واپس آتی ہیں۔ انھوں نے بتایا، ’’وہ عورتوں سے زنا بالجبر کرتے ہیں اور انھیں مارتے پیٹتے ہیں۔ بعض حکومتی فوجیوں نے میرے ساتھ بھی زنا بالجبر کرنے کی کوشش کی تھی۔‘‘ یہ وہ خطرات ہیں،جن سے تنازعات والے علاقوں کی عورتوں دوچار رہتی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ ایک دن انھیں بری طرح پیٹا گیا اور ان کی ٹانگ زخمی ہو گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھتی ہیں تو دوبارہ کیمپ سے باہر جانے کے سوا ان کے سامنے کوئی راستا نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا، ’’میں باہر جاتی ہوں اور مجھے پتا نہیں ہوتا کہ اپنے بچوں کے پاس واپس آ بھی سکوں گی یا نہیں۔‘‘ کم خوراکی کے شکار بچوں کے لیے اقوامِ متحدہ نے جو کلینک قائم کیے ہیں، ان سے پتا چلتا ہے کہ بھوک کا موسم کتنا خطرناک ہوتا ہے۔ یہ جان کر جسم میں تھرتھری سی دوڑ جاتی ہے۔ بجلی اکثر چلی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہسپتالوں کے وارڈوں میں اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ یہاں پچھلے سال اس موسم میں جتنے بچوں کا روزانہ علاج کیا جاتا تھا، اب اس سے درجن بھر زیادہ بچوں کا علاج روزانہ کیا جا رہا ہے۔ انھیں پورے ملک سے یہاں لایا جاتا ہے۔ یہاں ان کا وزن کیا جاتا ہے، قد ماپا جاتا ہے اور اس کے اینٹی بایوٹکس اور فارمولا دودھ دیا جاتا ہے۔ اگر ان کے جسم برداشت کرنے کے قابل ہوں تو اس کے بعد انھیں ’’پلمپی نٹ‘‘ ۔۔۔ مونگ پھلیوں سے تیار کیا گیا غذائی پیسٹ ۔۔۔ کھلایا جاتا ہے۔ یہاں موجود بہت سارے گھرانے ایسے بھی ہیں، جو لوگوں کو اپنے گھروں چھوڑ کر بھاگ جانے پر مجبور کر دینے والے خطروں کے شکار نہیں ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض لوگ ملازمت کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے بچے بھوک کے شکار ہیں۔ جوبا کے ایک ریستوراں میں کام کرنے والی سلوا انانیا اپنے دو سالہ بچے توبان زکریا کو کلینک لے کر آئیں۔ وہ اپنی تھوڑی سی تنخواہ میں جلد ختم ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر دن انھیں صرف ایک وقت دلیہ کھانا کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ستائیس سالہ سلویا جارج اپنے دو سالہ بیٹے منڈیلا بیسا کو پنکھا جھل رہی ہیں۔ دو سالہ بچہ نیم بے ہوشی کے عالم میں بستر پر پڑا ہے۔ اس کے بازو کی ایک نس میں ڈرپ لگی ہوئی ہے۔ اس بچے کے والد جوبا یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔ وہ تینوں سلویا جارج کی والدہ کے گھر میں رہتے ہیں۔ وہی ان کی غذائی ضروریات بھی پورا کر رہی ہیں۔ خوراک ہمیشہ ناکافی رہتی ہے۔ ہیڈ نیوٹریشنسٹ جوزفین روبن نے کہا کہ ابھی جب کہ بھوک کے موسم کی انتہا کا زمانہ دور ہے، کلینک میں مریض کثرت سے اور مسلسل لائے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اضطراب بھرے لہجے میں کہا کہ ’’جون، جولائی میں ہمارے پاس بھی خوراک ناکافی ہو گی۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)