Friday, June 29, 2018

تازہ پانی کا سب سے بڑا قدرتی ذخیرہ فنا کے خطرے سے دوچار

تازہ پانی کا سب سے بڑا قدرتی ذخیرہ فنا کے خطرے سے دوچار

کینڈرا پیئری لوئیس

دنیا کا 60 سے 90فی صد تک تازہ پانی برِ اعظم انٹارکٹیکا کی برفانی تہوں میں منجمد ہے۔ برِ اعظم انٹارکٹیکا کا رقبہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور میکسیکو کے مجموعی رقبے کے برابر ہے۔ اگر یہاں موجود ساری برف پگھل جائے تو دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح 200 فٹ اونچی ہو جائے گی۔ انٹارکٹیکا کی برف شب بھر میں نہیں پگھلے گی لیکن بلاشبہ وہ پگھل رہی ہے اور جریدہ ’’نیچر‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2007ء سے انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی شرح میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے۔سائنس دان کہتے ہیں اب اس برِ اعظم کی برف اس قدر تیزی سے پگھل رہی ہے کہ 2100ء تک دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح پندرہ سینٹی میٹر (چھ انچ) اونچی ہو جائے گی۔ ’’انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج‘‘ کے تخمینے کے مطابق اس صدی کے اختتام تک صرف انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے سے دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں ہونے والا یہ سب سے زیادہ امکانی اضافہ ہے۔ یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر آف ارتھ آبزرویشن ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’بروکلین میں سال میں ایک دفعہ سیلاب آتا ہے۔ اگر سمندروں کے پانی کی سطح 15سینٹی میٹر اونچی ہو گئی تو یہاں سال میں 20دفعہ سیلاب آیا کرے گا۔‘‘ اب تو صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ معمول کے حالات میں بھی انٹارکٹیکا کا منظر مسلسل تبدیل ہو رہا ہے کیوں کہ گلیشیئر ٹوٹ رہے ہیں، برف باری کے بعد سطح پر پڑی ہوئی برف فوراً ہی پگھل رہی ہے اور گلیشیئروں میں گہرے گڑھے بن رہے ہیں، جنھیں ’’مولین‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نہایت تشویش انگیز امر ہے لیکن جو چیز سائنس دانوں کو زیادہ تشویش میں مبتلا کر رہی ہے، وہ ہر سال جمع ہونے والی برف اور پگھل جانے والی برف کے توازن کا بگڑنا ہے۔ 1992ء سے 2017ء تک کے عرصے میں انٹارکٹیکا کی تیس کھرب ٹن برف پگھل چکی ہے۔ اس کے باعث دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح تقریباً 0.12انچ اونچی ہو چکی ہے۔ یہ اضافہ زیادہ نہیں لگتا لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ اس اضافے کا 40فی صد 2012ء سے 2017ء کے صرف پانچ برسوں کے دوران واقع ہوا ہے۔ صرف انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے سے سمندروں کے پانی کی سطح اونچی نہیں ہو رہی بلکہ گرین لینڈ کا بھی اس میں حصہ ہے۔ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2011ء سے 2014ء کے درمیانی عرصے میں گرین لینڈ کی تقریباً 10کھرب ٹن برف پگھلی۔ چوں کہ سمندر بھی گرم ہو رہے ہیں، اس لیے پانی کی سطح میں اضافے کے ساتھ ساتھ وہ زیادہ رقبہ بھی گھیر رہے ہیں۔ برف پگھلنے اور سمندروں کے گرم ہونے کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان مختلف طریقوں سے ایسی گیسیں فضا میں شامل کر رہے ہیں، جن کی وجہ سے کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے کا باعث بننے والی گیسوں کو اصطلاحاً ’’گرین ہاؤس گیسز‘‘ کہا جاتا ہے۔ محولہ بالا تحقیقی رپورٹ انٹارکٹیکا کے مختلف خِطوں کی برف پگھلنے میں پائے جانے والے فرق کے باعث پیدا ہونے والا غیر یقینی پن بھی دور کرتی ہے۔ یہ بات تو کچھ عرصے سے سب کو معلوم ہے کہ مغربی انٹارکٹیکا اور جزیرہ نمائے انٹارکٹیکا، جو جنوبی امریکا تک پہنچتا ہے، اپنی برف کھو رہے ہیں، تاہم مشرقی انٹارکٹیکا کی صورتِ حال قدرے دھندلی ہے کیوں کہ اس کے بعض حصوں میں برف کی تہیں پگھل رہی ہیں جب کہ بعض حصوں میں برف کی تہیں مزید موٹی ہوتی جا رہی ہیں۔
مشرقی انٹارکٹیکا کچھ عرصہ اُن لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا، جو کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے کی سائنس کو نہیں مانتے۔ یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے ایک جیالوجسٹ ڈاکٹر مائیکل کوپس کہتے ہیں، ’’بہت سے ایسے لوگ جو آب و ہوا کی تبدیلی میں دل چسپی نہیں رکھتے، ان کا کہنا ہے کہ مشرقی انٹارکٹیکا کی برف کی تہ حقیقت میں موٹی ہوتی جا رہی ہے، اس لیے ہمیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ڈاکٹر مائیکل کوپس نے کہا کہ مشرقی انٹارکٹیکا برِ اعظم انٹارکٹیکا کے دو تہائی حصے پر مشتمل ہے اور دنیا کے اِس دور افتادہ ترین علاقے کا بھی دور افتادہ حصہ ہے، جہاں اعداد و شمار بہت کم دستیاب ہیں کیوں کہ اس علاقے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی پیمائش کرنے والے مراکز بہت کم ہیں۔ محققین کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کے رقبے کے برابر رقبے والے اس علاقے میں رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بہت تھوڑے اعداد و شمار کے ذریعے ہی اندازے لگانا پڑتے ہیں، جس کے باعث ٹھیک ٹھیک تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ محولہ تحقیق کے دوران ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے دنیا بھر کے اسّی (80) سے زیادہ محققین نے 1990ء کے عشرے سے لے کر تحقیق کے وقت تک سیٹلائٹس سے کی جانے والی درجن بھر مختلف پیمائشوں کا ڈیٹا استعمال کیا۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’ہم نے مختلف سیٹلائٹس اور تیکنیکیں استعمال کر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافے کی مقدار کا تعین کیا کیوں کہ مختلف طریقوں کی اپنی خوبیاں اور خامیاں تھیں۔ ہم نے یہ جانا کہ ہم تمام دستیاب پیمائشوں کو ملا کر انفرادی تیکنیکوں کے مسائل سے بچ سکتے ہیں۔‘‘ محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مشرقی انٹارکٹیکا کی برف اتنی تیزی سے نہیں پگھل رہی جتنی تیزی سے مغربی انٹارکٹیکا اور جزیرہ نمائے انٹارکٹیکا کی برف پگھل رہی ہے۔ بہر حال برِ اعظم انٹارکٹیکا کی برف کی تہیں پگھل رہی ہیں اور دنیا بھر کے سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ اور ان کی ٹیم نے پانچ سال پہلے بھی پچھلے بیس برسوں کے اعداد و شمار استعمال کرتے ہوئے اسی طرح تجزیہ کیا تھا لیکن اس کے سوا کچھ کہنے سے قاصر رہے تھے کہ انٹارکٹیکا تیزی سے اپنی برف سے محروم ہو رہا ہے۔ انھوں نے انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کی شرح تب دریافت کی، جب انھوں نے دوسری مرتبہ تجزیہ کرتے ہوئے مزید پانچ برس کے اعداد و شمار سے بھی استفادہ کیا۔ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ کہتے ہیں، ’’ اب ہم دوبارہ جائزہ لے رہے ہیں تو واقعی دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے پہلے جو کچھ دیکھا تھا، اشارے اُس سے مختلف ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کے باعث سمندروں کے پانی کی سطح میں ہونے والے اضافے کی شرح 2012ء سے تین گنازیادہ ہو چکی ہے۔
کرۂ ارض کا مشاہدہ کرنے والے سیٹلائٹس میں بہتری کے باعث محققین قطبی خِطوں کو زیادہ بہتر سمجھنے کے اہل ہو گئے ہیں۔ بہت سے محققین کا خیال تھا کہ کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافے سے قطبی خِطوں کی برف میں اضافہ ہو گا کیوں کہ زیادہ درجۂ حرارت فضا میں نمی کے بڑھنے کا باعث بنتا ہے، جس کی وجہ سے بارشیں زیادہ ہوتی ہیں اور ان کا خیال تھا کہ اسی طرح قطبین میں برف باری بھی زیادہ ہو گی۔ سیٹلائٹس سے کیے جانے والے براہِ راست مشاہدے نے ان کا خیال غلط ثابت کر دیا۔ بہر حال ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ جیسے محققین اس خدشے کے شکار ہیں کہ مستقبل میں سیٹلائٹس سے معلومات کا حصول مشکل ہو گا کیوں کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے بجٹ میں کرۂ ارض کے مشاہدے کے بعض پروگراموں میں تخفیف کر دی ہے۔ ڈاکٹر اینڈریو شیفرڈ نے کہا، ’’ہم نا صرف برف کی تہوں کے پگھلنے بلکہ اس کے باعث سمندروں کی سطح میں ہونے والے اضافے کی پیمائش کے لیے بھی سیٹلائٹس سے حاصل شدہ اعداد و شمار سے استفادہ کرتے ہیں۔‘‘ سیٹلائٹس سے کیے گئے مشاہدے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انٹارکٹیکا کی برف پگھلنے کے اسباب کیا ہیں۔ ڈاکٹر مائیکل کوپس نے بتایا، ’’یہ تحقیق واضح کرتی ہے کہ برف کی تہ کے کنارے زیادہ پگھل رہے ہیں۔ اس جگہ برف کی تہ اور سمندر آپس میں ملتے ہیں۔ گرم سمندر برف پگھلا رہے ہیں۔ سمندر برف کو اتنی تیزی سے پگھلا رہے ہیں کہ ہوا میں بھی کوئی چیز اتنی تیزی سے تبدیلی نہیں لا رہی۔ یہ ایسی قوتیں ہیں جنھیں روکنا آسان نہیں۔‘‘

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛  ترجمہ: محمد احسن بٹ)

Monday, June 18, 2018

بِکے ہوئے اینکر، کالم نویس اور حقیقی میڈیا ورکرز

جب بھی کوئی اینکر ٹی وی پر  غلط بات  کرتا ہے یا کالم میں غلط بات لکھتا ہے تو بعض قارئین و ناظرین ان پر تنقید کرتے ہوئے تمام  صحافیوں (پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں) کو برا کہتے ہیں۔ چوں کہ میں بھی ایک نہایت حقیر میڈیا ورکر ہوں، اس لیے ذاتی تجربے اور معلومات (فرسٹ ہینڈ نالج) کی بنیاد پر ایک اہم گزارش کر رہا ہوں۔

جو میڈیا پرسنز (کالم نویس، اینکر اور تجزیہ کار) ملک و معاشرے کے حقیقی مسائل پر بات نہیں کرتے اور نان ایشوز پر بات کرتے ہوئے غیرمتوازن تبصرے اور تجزیے کرتے ہیں،   ایسے سوکالڈ میڈیا پرسنز کے بارے میں اہم ترین حقیقت جان لیجیے۔ ان میں سے تقریباً 99 فی صد لوگ حقیقت میں صحافی نہیں ہیں۔ یہ  سب نہیں لیکن ان میں سے اکثر کرمنل مائنڈڈ لوگ ہیں، جو ارادتاً صحافیوں (میڈیا پرسنز)  کا بہروپ بھر کر بڑی عیاری اور سفاکی سے میرٹ اور اہل میڈیا ورکرز کے حقوق پامال کر کے میڈیا پر قابض ہیں۔ اصل میڈیا ورکرز (صحافیوں) کی حالت اتنی خراب ہے کہ اکثر کو سخت محنت کے باوجود وقت پر تنخواہ  نہیں ملتی۔ مختلف شہروں میں اخبارات و ٹی وی کے نمائندوں کو کوئی سہولت نہیں دی جاتی۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اِن اہل اور محنتی صحافیوں کو میڈیا ہاؤسز کے مالکان نے آج تک ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق تنخواہ اور لازمی سہولیات کبھی نہیں دیں۔ مذکورہ کرمنل مائنڈڈ، بہروپیے، سوکالڈ میڈیا پرسنز (اینکرز، کالم نویس وغیرہ) دسیوں لاکھ روپے ماہانہ آن ریکارڈ تنخواہوں کے علاوہ بے شمار مراعات حاصل کر رہے ہیں جب کہ حقیقی صحافی (میڈیا پرسنز) کے گھروں میں  فاقوں تک کی نوبت آئی ہوتی ہے۔

 یہ کرمنل  مائنڈڈ  کالم نویس، اینکر وغیرہ عوام کے تصور سے بھی زیادہ سفاک  اور بے حس ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ جن صحافیوں  کو وقت پر تنخواہ نہیں مل رہی یا وہ بے روزگار ہیں، یہ اُن کا اپنا قصور ہے۔ ہاں اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ کرمنل مائنڈڈ، سوکالڈ میڈیا پرسنز (کالم نویس، اینکرز وغیرہ) کی طرح ضمیر فروش، سفاک اور بے حس نہیں ہیں۔

رکھیو غالب مجھے اِس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مِرے دل میں سِوا ہوتا ہے

سفاک اور بےحس کرمنل مائنڈڈ، بہروپیے سوکالڈ میڈیا پرسنز (کالم نویس، اینکرز وغیرہ) کی بےحسی خدا تو دیکھ رہا ہے نا!  خدا محنتی، خود حلال کھانے اور اپنی اولاد کو حلال کھلانے والے میڈیا ورکرز کو اُن کا حق ضرور دلائے گا۔

آپ سب دردمند خواتین و حضرات  سے گزارش ہے کہ اہل، محنتی اور حلال کھانے والے حقیقی صحافیوں (میڈیا ورکرز) کے حق میں دعا کیجیے گا پلیز۔

Friday, June 15, 2018

بھارت میں زنا بالجبر کی وارداتیں: مودی کے نام 50سابق کلیدی بیوروکریٹس کا کھلا خط

 بھارت میں زنا بالجبر کی وارداتیں: مودی کے نام 50سابق کلیدی بیوروکریٹس کا کھلا خط

یہ اُس کھلے خط کا متن ہے جو ہم 50ریٹائرڈ سِول سروینٹ میڈیا کے ذریعے عزت مآب وزیرِ اعظم نریندر مودی کو بھیج رہے ہیں۔
ہم ریٹائرڈ سِوِل سروینٹس نے اپنے ملک کے آئین میں محفوظ تقدس کی حامل جمہوری، سیکولر اور لبرل اقدار کے زوال پر اپنی فکر و تشویش کے اظہار کے لیے پچھلے سال یہ گروپ تشکیل دیا تھا۔ موجودہ حکومت نے بڑی عیاری سے بتدریج بھارت میں نفرت،خوف اور شیطانیت کا جو ماحول طاری کر دیا ہے، اس کے خلاف بلند کی جانے والی دوسری احتجاجی آوازوں میں اپنی آواز ملانے کے لیے ہم نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ ہم نے اُس وقت بھی آواز اٹھائی تھی اور ہم آج بھی آواز اٹھا رہے ہیں ۔۔۔ ایسے شہریوں کی حیثیت سے جن کا تعلق نہ تو کسی سیاسی جماعت سے ہے اور نہ ہی جو کسی سیاسی نظریے کے ماننے والے ہیں۔ ہمارا سروکار صرف اُن اقدار سے ہے جنھیں ہمارے آئین میں تقدس دیا گیا ہے۔
ہمیں امید تھی کہ آپ (نریندر مودی) نے آئین پر عمل کرنے کا حلف اٹھایا ہوا ہے اس لیے حکومت، جس کے آپ سربراہ ہیں اور وہ جماعت، جس سے آپ کا تعلق ہے، خطرناک زوال پر خوابِ غفلت سے جاگ اٹھیں گے، برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے اور سب کو، بالخصوص اقلیتوں اور معاشرے کے کم زور طبقات کو یقین دلائیں گے کہ انھیں اپنی جان اور آزادی کے کھو جانے کے خوف میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ افسوس یہ امید خاک میں ملا دی گئی۔ اس کی بجائے کٹھوعہ اور اُنّاؤ میں ہونے والے واقعات کی دہشت نے ہمیں دم بخود کر ڈالا۔ ان واقعات سے عیاں ہوا کہ حکومت وہ بنیادی ذمہ داریوں ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے جو عوام نے اسے سونپی تھیں۔ دوسری طرف اپنے اخلاقی، روحانی اور ثقافتی ورثے پر فخر کرنے والی قوم اور تحمل و برداشت، مظلوموں کے لیے دردمندی اور بھائی چارے جیسی مہذبانہ اقدار کو اپنا تہذیبی اثاثہ سمجھنے والے معاشرے کی حیثیت سے ہم بھی ناکام ہو چکے ہیں۔ ہندووں کے نام پر ایک انسان کی دوسرے انسان کے خلاف بربریت و درندگی کو برقرار رکھ کر ہم انسان ہونے کی حیثیت میں بھی ناکام ہو چکے ہیں۔
ایک آٹھ سالہ بچی کو جس وحشت اور درندگی سے زنا بالجبر کے بعد قتل کیا گیا، اس سے عیاں ہوا کہ ہم اخلاقی زوال کی عمیق ترین کھائی میں گر چکے ہیں۔ بھارت کی آزادی کے بعد یہ اِس کی تاریخ کا تاریک ترین وقت ہے اور اس اخلاقی زوال پر ہماری حکومت اور ہماری سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کا ردِ عمل ناکافی اورکمزور ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہمیں سرنگ کے آخری سِرے پر روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی اور شرم سے ہمارے سر جھکے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس باعث بھی انتہائی شرم محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے نوجوان رفقائے کار، جو اس وقت بھی ملازمت کر رہے ہیں خصوصاً ان اضلاع میں جہاں یہ خوف ناک واقعات رونما ہوئے ہیں، جن کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ کم زور اور بے بس افراد کا خیال رکھیں اور ان کا تحفظ کریں، وہ بھی اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
محترم وزیرِ اعظم! ہم نے صرف اجتماعی شرم کے اظہار کے لیے اور تہذیبی اقدار کو فنا کر دیے جانے پر اپنے کرب اور درد و غم کے اظہار کرنے اور سوگ منانے کے لیے ہی آپ کو خط نہیں لکھا بلکہ ہم نے یہ خط اپنے شدید غصے اور اشتعال کے اظہار کے لیے لکھا ہے۔ ہمیں آپ کی جماعت اور اس کی بے شمار شاخوں کے تقسیم و تفریق اور نفرت کے ایجنڈے پر شدید غصہ ہے۔ آپ کی جماعت کی وقتا فوقتاً ابھر آنے والی اکثر شاخیں خفیہ ہوتی ہیں۔ آپ کی جماعت اور اس کی ان گنت شاخوں نے تقسیم و تفریق اور نفرت کا یہ ایجنڈا ہماری سیاست کی گرامر، ہماری سماجی و ثقافتی زندگی اور حد تو یہ ہے کہ ہمارے روزمرہ کے بیانیے میں بڑی عیاری سے بتدریج متعارف کروایا ہے۔ اسی باعث کٹھوعہ اور اناؤ جیسے شرم ناک واقعات کو سماجی قبولیت اور جواز ملا ہے۔
جموں کے شہر کٹھوعہ میں سَنگھ پری وار (راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ کے ارکان کی قائم کردہ انتہا پسند ہندو تنظیموں) نے ہندو اکثریت کی جنگجویانہ اور جارحانہ ثقافت کو فروغ دیا ہے جس نے ہندو اکثریت کے جنونی فرقہ پرست عناصر کو اپنے گھناؤنے ایجنڈے پر عمل کرنے کی جرأت دی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاسی اعتبار سے طاقتور افراد اور ہندووں اور مسلمانوں میں شدید ترین نفرت و عداوت پیدا کر کے حکومت حاصل کرنے والے لوگ ان کی تائید و حمایت کریں گے۔ اتر پردیش کے قصبے اُنّاؤ میں ووٹ اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کی غرض سے بدترین پدرسری جاگیردار مافیا ڈانوں پر انحصار کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنی شخصی طاقت دکھانے کے لیے زنا بالجبر اور قتل اور بھتہ خوری کی آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ طاقت اور اختیار و اقتدار کے اس گھناؤنے استعمال سے بھی بدتر امر یہ ہے کہ ریاستی حکومت زنا بالجبر اور قتل کے مبینہ ملزموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی بجائے زنا بالجبر کا نشانہ بننے والی بچی اور اس کے مظلوم خاندان کو ڈرا دھمکا رہی ہے۔ اس سے عیاں ہوتا ہے کہ حکومت کس قدر بے راہ روی اور کج روی کی شکار ہو چکی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اتر پردیش کی حکومت تب جا کر حرکت میں آئی جب ہائی کورٹ نے اسے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا حکم دیا۔ اس سے حکومت کی منافقت اور ملزموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے میں اس کی نیم دلی عیاں ہے ۔
محترم وزیرِ اعظم! یہ دونوں واقعات جن ریاستوں میں رونما ہوئے وہاں آپ کی جماعت برسرِ اقتدار ہے۔ آپ کی جماعت میں آپ کی برتری نیز جماعت پر آپ اور جماعت کے صدر کے کنٹرول کے تناظر میں اس دہشت انگیز اور ہول ناک صورتِ حال کے سب سے زیادہ ذمہ دار آپ قرار پاتے ہیں۔ آپ نے اپنی ذمہ داری نبھانے اور تلافی کرنے کی بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دی اور اپنے ہونٹوں پر لگا چپ کا تالا صرف اس وقت توڑاجب بھارتی عوام اور بین الاقوامی برادری کا غصہ اس سطح تک پہنچ گیا کہ آپ اسے مزید نظر انداز کرنے کے قابل ہی نہیں رہے تھے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ آپ نے واقعے کی مذمت تو کی اور شرم کا اظہار تو کیا لیکن ایسے دہشت انگیز واقعات کا سبب بننے والی ہندو انتہا پسندی کی مذمت بالکل نہیں کی اور نہ ہی نفرت کو پروان چڑھانے والے سماجی، سیاسی اور انتظامی حالات تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اب ہم اس طرح تاخیر سے پیش کی جانے والی تاویلوں اور انصاف کرنے کے جھوٹے وعدوں کو مزید برداشت نہیں کر سکتے جب کہ سَنگھ پری وار کی پروردہ طاقتیں مذہبی انتہا پسندی کی بھٹی مسلسل بھڑکا رہی ہیں۔
محترم وزیرِ اعظم! یہ دو واقعات عام جرائم نہیں جن کے باعث ہمارے معاشرے کے سماجی اور اخلاقی وجود پر لگنے والے زخم وقت گزرنے کے ساتھ بھر جائیں گے اور گلشن کا کاروبار ایک بار پھر معمول کے مطابق چلنے لگے گا۔ ایسا نہیں ہونے والا۔ یہ وجودی بحران کی گھڑی ہے، ایک ہم ترین موڑ ہے ۔۔۔ اب حکومت جس انداز سے ردِ عمل کرے گی وہ اس امر کا تعین کرے گا کہ ہم ایک قوم اور ایک جمہوریہ کی حیثیت سے آئینی اقدار، حکمرانی اور اپنے اخلاقی نظام کے بحران پر قابو پانے کے اہل ہیں کہ نہیں۔ اس مقصد کے لیے ہم آپ سے درجِ ذیل اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں:
* اناؤ اور کٹھوعہ میں مظلوموں کے اہلِ خانہ سے جا کر ملیں اور ہم سب کی طرف سے ان سے معافی مانگیں۔
* کٹھوعہ والے واقعے کے ملزموں کو جلد از جلد سزا دلوائیں اور اناؤ والے واقعے میں مزید تاویلات پیش کرنے کی بجائے عدالت کے ذریعے خصوصی تفتیشی ٹیم بنوائیں۔
* ان معصوم بچیوں اور نفرت کے جذبے کے زیرِ اثر کیے جانے والے جرائم کے شکار بننے والے تمام لوگوں کی یاد میں اس عہد کا احیا کریں کہ مسلمانوں، دلتوں، دوسری اقلیتوں، خواتین اور بچوں کو خصوصی تحفظ دیا جائے گا تاکہ انھیں اپنی جان اور آزادی کے حوالے سے مزید خوف نہ رہے نیز یہ عہد کریں کہ انھیں لاحق ہر خطرہ ریاست کی پوری طاقت استعمال کر کے مٹا ڈالا جائے گا۔
* نفرت کے جذبے کے تحت کیے جانے والے جرائم اور نفرت آمیز تقریریں کرنے والے ہر شخص کو حکومتی عہدوں سے ہٹا دیں۔
* نفرت کے جذبے کے زیرِ اثر کیے جانے والے جرائم کو سماجی، سیاسی اور انتظامی اعتبار سے ختم کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کے لیے ایک کُل جماعتی اجلاس بلائیں۔
اگرچہ بہت تاخیر سے کیے جانے والے ان اقدامات کا فائدہ بہت کم ہو گا لیکن اس سے یہ احساس تھوڑا بہت بحال ہو گا کہ ملک کا نظام کسی حد تک اب بھی قائم ہے اور امید پیدا ہو گی کہ انارکی ختم کی جا سکتی ہے۔ ہم امید میں جی رہے ہیں۔

(بشکریہ دی ہندو؛  ترجمہ: محمد احسن بٹ)

عظیم قومیں، راہ نما اور تاریخ

امریکا کے ایک اہم ترین اخبار واشنگٹن پوسٹ کی  آج 15 جون 2018ء کی ایک ٹویٹ کے مطابق لنکن میموریل کی مرمت اور بحالی و بہتری کا کام کیا جا رہا ہے۔ اس کام  پر پاکستانی روپوں میں 3014000000.00 خرچ ہوں گے۔ عظیم ملک اور معاشرے اپنی تاریخ اور اپنے قومی راہ نماؤں کی اتنی قدر کرتے ہیں۔

Tuesday, June 12, 2018

Our Brains Deceive Us

The pictures that the imagination draws are so very delightful that we willingly predominate it to over reason till experience forces us to see the truth. - Philosopher Mary Wollstonecraft.

Saturday, June 9, 2018

امریکا کی سیاست میں امریکا کی فوج اور خفیہ اداروں کا مرکزی کردار

امریکا کی سیاست میں امریکا کی فوج اور خفیہ اداروں کا مرکزی کردار


اردو کے معروف شاعر اور پنجاب کی سیاست و زرعی معیشت کے ایک اہم خاندان کے چشم و چراغ محمد ندیم بھابھا صاحب نے پاکستان کی تازہ سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے فیس بک پر اپنی ٹائم لائن پر ایک پوسٹ پبلش کی۔ محمد ندیم بھابھا صاحب کی  اس پوسٹ اور  اس پر کیے جانے والے بعض احباب کے کومینٹس کے تناظر میں اس عاجز کے کومینٹ ایک  "مضمونچے"  کی صورت احباب کی خدمت میں پیش ہیں:

برطانیہ کو سِوِل ڈیموکریسی کی جنم بھومی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو جمہوریت کا پاسبان مانا جاتا ہے۔ میں نہایت  بےوسیلہ اور حاسدوں کی مہربانی سے تمام زندگی نیم بےروزگار رہنے والا حقیر طالبِ علم اپنے محدود مطالعے سے یہ جان پایا ہوں کہ امریکا کے بیش تر صدور اور مجموعی طور سے بیش تر امریکی سیاست دان سیاست میں آنے سے پہلے فوج میں ملازمت کر چکے تھے۔ امریکا میں ڈیپ سٹیٹ حقیقی حکمران ہے۔ معاصر عالمی سٹیٹ کرافٹ  کے بارے میں جاننے والے  اس حقیقت سے  آگاہ ہیں۔ میں تو ایک حقیر طالب علم کی حیثیت سے عرض کر رہا ہوں۔ یہ عاجز اکثر اوقات رہائش کا کرایہ ادا نہ کر پانے کے باعث مستقل قیام گاہ سے محرومی کے سبب لائبریری نہیں بنا سکا ورنہ یہاں حوالے/ ریفرنس پیش کرتا۔  جو حوالے/ ریفرنس آن لائن دستیاب ہیں، وہ نذر کر رہا ہوں تاکہ پڑھنا چاہیں تو پڑھ لیں۔

For some Presidents of the United States, the title “Commander-in-Chief” was their first association with the military, but a majority of our country’s leaders came to office as Veterans.

یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ امریکا کی ایک سرکاری ویب سائٹ کے ایک مضمون کا پہلا جملہ ہے۔ مضمون کا عنوان ہے: Military Roots: Presidents who were Veterans

امریکا کی برطانیہ سے آزادی کے بعد اس کے پہلے صدر جارج واشنگٹن اس وقت کی امریکی فوج کے سربراہ تھے۔ انھوں نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے لیے فوج کے سربراہ کے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

امریکا کی محولہ بالا سرکاری ویب سائٹ کے مذکورہ مضمون کا ایک اور اہم ترین جملہ:

Partisanship soon became the norm in American politics, but the value of military service remained an important quality that citizens sought in their President.

دنیا کی حقیقی ناظم سپر پاور امریکا کے متعلق نہایت اہم حقیقت، اس کی اپنی سرکاری ویب سائٹ سے:

 Twenty-six of our 44 Presidents served in the military.

ریاست ہائے متحدہ امریکا کی سیاست میں فوج کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ اس کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر لگائے جانے والے اہم ترین الزامات میں سے ایک الزام یہ ہے کہ انھوں نے یونی ورسٹی میں پڑھنے کے دوران ویت نام میں جنگ کے لیے فوج میں بھرتی سے گریز کیا تھا۔

موجودہ دور میں کسی بھی ملک کے  وزیرِ خارجہ کی اہمیت سے سب آگاہ ہیں۔ امریکا کا وزیرِ خارجہ تو دنیا میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ امریکا کے موجودہ وزیرِ خارجہ کے فوج سے تعلق کے حوالے سے امریکا کی وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ پر یہ لکھا ہے:

Mr. Pompeo graduated first in his class at the United States Military Academy at West Point in 1986 and served as a cavalry officer patrolling the Iron Curtain before the fall of the Berlin Wall. He also served with the 2nd Squadron, 7th Cavalry in the US Army’s Fourth Infantry Division.

After leaving active duty, Mr. Pompeo graduated from Harvard Law School, having been an editor of the Harvard Law Review.

افسوس میرے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ورنہ ایسے اہم موضوعات پر تفصیل سے لکھتا، جن کے بارے میں ہمارا میڈیا (کالم نویس، اینکر، اینالسٹ)، انٹیلی جینشیا (دانشور مرد و خواتین)، ایکیڈیمیا (یونی ورسٹیوں، کالجوں میں پڑھانے والے مرد و خواتین) وغیرہ شعوری طور سے مغالطے پھیلا رہے ہیں اور عشروں سے عوام کو گم راہ کر رہے ہیں۔

امریکا کے ایک سابق صدر جمی کارٹر نے اپنی کتاب Our Endangered Values: America's Moral Crisis میں امریکا کے نظامِ سیاست و ریاست کے اہم ترین گوشے عیاں کیے تھے۔ یہ کتاب اردو  میں بھی دستیاب ہے۔

امریکا کی سیاست میں ریاستی اداروں خصوصاً خفیہ اداروں کا بنیادی کردار واٹر گیٹ سکینڈل سے عیاں ہے، جس پر ہالی وُڈ میں فلم بنائی گئی تھی "آل دا پریزیڈینٹس مین"۔ اس فلم کو جیو ٹی وی نے اردو میں ڈب کروا کر نشر کیا تھا۔ یہ حقیر بلاگر بھی ایک معمولی ورکر (ٹرانسلیٹر/ ٹرانسلیشن ایڈیٹر) کی حیثیت سے اس اہم پروجیکٹ میں شامل تھا۔

واٹر گیٹ سکینڈل میں امریکا کے صدر کے خلاف بنیادی کردار امریکا کے اہم ترین خفیہ ادارے ایف بی آئی کے اس وقت کے نائب سربراہ نے ادا کیا تھا۔ اس کا اعتراف انھوں نے چند سال پہلے فوت ہونے سے قبل کیا تھا۔
امریکا کے سب سے اہم خفیہ ادارے سی آئی اے کا امریکا کے نظامِ سیاست و حکومت میں بنیادی کردار جاننا ہو تو اردو میں دستیاب ایک کتاب "سی آئی اے اور دہشت گردی؟" پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ سی آئی اے کے ایک سابق سربراہ جارج ٹینیٹ کی آپ بیتی ہے۔

anglx miN as ktab ka enwan oy: At the Center of the Storm: My Years at the CIA


کاش میرے پاس وسائل ہوتے تو ایسے اہم موضوعات پر باقاعدہ لکھا کرتا۔

میڈیا میں فریمنگ - فریمنگ تھیوری


The basis of framing theory is that the media focuses attention on certain events and then places them within a field of meaning.

Wednesday, June 6, 2018

برطانوی اثرورسوخ کا خاتمہ

برطانوی اثرورسوخ کا خاتمہ

جیسمین ایڈمووِچ

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے دو ستونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ برطانیہ کی خارجہ پالیسی کے یہ دو ستون ہیں، امریکا کے ساتھ برطانیہ کا خصوصی تعلق اور بین الاقوامی امور کے حوالے سے یورپ پر برطانیہ کا اثرورسوخ۔ برطانیہ نے 1980ء سے اپنی طاقت کا جو تاثر قائم کر رکھا تھا، اسے برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو 4مارچ 2018ء کو زہر دیے جانے کے واقعے نیز روس پر مزید پابندیاں عائد کروانے کی کوششوں میں اس کی ناکامی اور اکیلے پن نے پاش پاش کر دیا ہے۔ مارگریٹ تھیچر نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے زمانے میں دو بنیادی اجزا پر مبنی برطانوی خارجہ پالیسی تشکیل د ی تھی۔ مارگریٹ تھیچر کی وضع کردہ برطانوی خارجہ پالیسی کے پہلے بنیادی اصول کے مطابق امریکا کے ساتھ خصوصی تعلقات استوار کیے گئے۔ یوں لندن واشنگٹن کا ایک ناگزیر اتحادی بن گیا۔ برطانیہ واشنگٹن اور بحرِ اوقیانوس کے پار یورپ کے دارالحکومتوں کے مابین ایک پل بن گیا۔ مارگریٹ تھیچر نے اپنی وضع کردہ برطانوی خارجہ پالیسی کے دوسرے بنیادی جزو کے مطابق اپنے زمانہ ہائے وزارتِ عظمیٰ کے دوران یورپی یکجہتی کو فروغ دیا اور ’’ایک منڈی‘‘ کے قیام کے ذریعے برطانیہ کا اثرورسوخ بڑھانے اور اسے فیصلہ سازی میں مرکزی حیثیت دلوانے کی کامیاب کوششیں کی۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں 1992ء کا ’’ماسترخت معاہدہ‘‘ عمل میں آیا اور یورپی یونین کے قیام کے علاہ یورو کرنسی کا اجرا بھی کیا گیا۔ اب جب کہ برطانیہ یورپی یونین کی رکنیت سے دست بردار ہونے کے لیے مذکرات کر رہا ہے تو وہ اپنی خارجہ پالیسی کے مذکورہ دو ستونوں کو ممکن حد تک قائم و برقرار رکھنے کی کوشش بھی کر رہا ہے
ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے بھاگی بھاگی امریکا پہنچ گئی تھیں۔ ان کے اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ امریکا کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے جائیں، دونوں ملکوں کی حکومتوں کا باہمی اعتماد پختہ کیا جائے اور برطانیۂ عظمیٰ پر واشنگٹن کا اعتبار قائم رکھا جائے۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے تو تھریسا مے نے واضح کر دیا ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کی رکنیت سے دست بردار ہونے کے بعد بھی یورپی امور و معاملات میں شامل رہے گا۔ انھوں نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی اور سلامتی کے معاملات کے حوالے سے فیصلہ سازی میں برطانیہ کا زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ برقرار رکھنے کی غرض سے یورپ کی سلامتی سے ’’غیر مشروط وابستگی‘‘ کی پیش کش بھی کی تھی۔ لندن اپنی طاقتیں ..... سفارتی نیٹ ورک، انٹیلی جینس سروسز، فوج اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور ناٹو میں موجودگی ..... استعمال کرتے ہوئے یورپ کی پالیسی پر اپنا اثرورسوخ اور اپنی شان و شوکت قائم و برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا (جرمنی اور فرانس کی قیمت پر) نیز امریکا اور یورپ ہر دو کے لیے اپنی افادیت برقرار رکھنے کی کوشش بھی کرے گا۔
بہرحال روس کی پالیسی بالخصوص برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس سرگی سکریپل کو زہر دیے جانے کا واقعہ رونما ہونے کے بعد برطانیہ کی طاقت اور اس کے اثرورسوخ کا تاثر ملیامیٹ ہو چکا ہے۔ حالیہ برسوں میں برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی سٹریٹجی کے مذکورہ دو بنیادی اجزا برقرار رکھنے کی غرض سے روس کو مرکزِ نگاہ بنا لیا تھا۔ اس طرح وہ امریکا کے لیے اپنی افادیت ثابت کرنا اور یورپی یونین پر اپنا اثر قائم رکھنا چاہتا تھا۔ اوباما کے دورِ صدارت میں برطانیہ اور امریکا کے تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی برقرار نہیں رہی تھی۔ ہلیری کلنٹن کے وزارتِ خارجہ سے جانے کے بعد توبالخصوص ایسی صورتِ حال رونما ہوئی تھی کہ ڈاؤننگ سٹریٹ اور ایف سی او بے قراری سے ہلیری کلنٹن کے صدر منتخب ہونے کی آرزو کرنے لگے تھے۔ 2015ء اور2016ء میں برطانیہ یورپی یونین اور ناٹو کو قائل کرنے کی کوششیں کرتا رہا کہ روس کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ اس وقت کے برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون روسی معیشت اور ولادی میر پیوٹن کے داخلی حلقے پر پابندیاں عائد کروانے کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرتے رہے تھے۔ انھوں نے فرانس کی تائید و حمایت سے ماسکو کے ساتھ سیاسی اور معاشی روابط رکھنے والے یورپی یونین کے ارکان ..... اٹلی ، یونان، بلغاریہ، ہنگری، سلواکیہ اور آسٹریا ..... پر دباؤ ڈالا تاکہ 2017ء میں بھی روس پر پابندیاں جاری رکھی جا سکیں۔ یوکرین اور کرائیمیا میں تناؤ بڑھنے کے زمانے میں اگست 2016ء میں برطانیہ کے دفاعی تجزیے پر مبنی ایک رپورٹ افشا ہونے سے عیاں ہوا تھا کہ روس عسکری استعداد کے اعتبار سے برطانیہ سے آگے نکل چکا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں روس کی جنگی استعداد جیسا کہ مسلسل طاقتور بنائے جانے والے فضائی دفاع کے نظام، راکٹ لانچر، سائبر جنگ کی صلاحیت اور الیکٹرانک جنگ کی صلاحیت کو بالخصوص باعثِ تشویش قرار دیا گیا تھا۔اس رپورٹ کے افشا کیے جانے کے دو واضح مقاصد تھے۔ ایک مقصد یہ تھا کہ روس پر پابندیوں کی ضرورت نیز یورپ اور ناٹو کے مابین تعاون کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ بریگزٹ کے بعد فوجی اخراجات میں اضافے اور آٹھ ارب پونڈ مالیت کی اگلی نسل کی ویپن ٹیکنولوجیز کا جواز پیش کیا جائے۔ 2017ء میں پورا سال جعلی خبروں، بلقان، مشرقی یورپ اور شام میں روس کے کردار کے حوالے سے الزامات لگاتے ہوئے برطانوی عسکری شخصیات نے روس کی طرف سے پیدا ہونے والے خطرے سے نبرد آزما ہونے کی غرض سے دفاعی اخراجات میں اضافے کے لیے لابنگ جاری رکھی۔ اس کے علاوہ برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے شام میں روس کی بم باری پر اس کے خلاف جنگی جرائم کی تفتیش کا مطالبہ کیا۔ فرانس کے اس زمانے کے صدر فرانسس اولاند نے اس معاملے میں ان کی تائید کی تھی، جو روس کمے صدر پیوٹن اور فرانس کے صدر اولاند کے مابین ہونے والی ملاقات کے التوا کا باعث بنی تھی۔
حلب پر روس کی بم باری کے معاملے پر برطانیہ نے فرانس اور جرمنی کی تائید سے کوشش کی کہ روس پر مزید پابندیاں لگائی جائیں۔ یہ کوشش اٹلی کے معاشی مفادات کے باعث ناکامی سے دوچار ہو گئی تھی۔معاشی خدشات ایک بار پھر جولائی 2017ء میں اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب امریکی کانگریس نے نورڈ سٹریم پروجیکٹ کو ہدف بناتے ہوئے پابندیاں عائد کیں۔ جہاں تک برطانوی خارجہ پالیسی کے مستقبل کا تعلق ہے تو بریگزٹ کے باعث پیش آنے والی دشواریوں کے باوجود لندن پورے یورپ اور مشرقِ وسطیٰ میں روسی اقدامات اور کارروائیوں پر نظر رکھنا جاری رکھے گا۔ بہرحال برطانیہ 2021ء تک یورپی ملکوں کو اپنی روس مخالف سٹریٹجی سے متفق کرنے یا اپنی اس سٹریٹجی سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے گا۔ صرف ایک استثنائی صورت ہے، جو تقریباً ناممکن ہے۔ وہ یہ کہ وائٹ ہاؤس میں تبدیلی آ جائے۔ برطانیہ روس پر دباؤ تو ڈال سکتا ہے لیکن امریکا، فرانس اور جرمنی سے عوامی تائید و حمایت حاصل ہونے کے باوجودماسکو کے خلاف مزید پابندیاں لگوانا برطانیہ کے لیے مشکل ہو گا۔ برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو مارچ 2018ء میں زہر دیے جانے کا واقعہ اس حوالے سے برطانیہ کو درپیش مشکلات عیاں کرتا ہے۔ اگرچہ امریکا، فرانس اور جرمنی نے آخرِ کار رشین فیڈریشن کے خلاف ویسٹ منسٹر کے دعووں کی تائید کی ہے، تاہم ماسکو کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام اٹھائے جانے اور پابندیاں لگانے کا امکان بہت کم ہے۔
اگرچہ یورپی یونین نے روس میں متعین اپنا سفیر واپس بلا لیا ہے اور یورپی یونین کی تمام اٹھائیس رکن ریاستوں نے برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو زہر دینے کے واقعے کی ذمہ داری ماسکو پر عائد کی ہے، تاہم یورپی یونین کی تنقید اور اظہارِ یکجہتی سفارتی فتح نہیں ہے، جیسے کہ برطانیہ ظاہرکر رہا ہے۔تائید و حمایت سے مراد یہ نہیں کہ حقیقی اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے۔ اس حوالے سے مذاکرات بعد میں ہوں گے، تب دوسرے عوامل ڈاؤننگ سٹریٹ کو مایوس کر دیں گے۔ روس کے کرائیمیا کا اپنے ساتھ الحاق کرنے کے بعد 2014ء میں روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی تجدید کے لیے ہر سال یورپی یونین کے ارکان کا متفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس مرتبہ یہ امر اٹلی، یونان اور آسٹریا کی معاشی مشکلات کے باعث بہت دشوار لگتا ہے۔ اٹلی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج، یوکرین کے حوالے سے منسک II مذاکرات شروع کرنے کی اینجلا مرکل کی خواہش اور فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کی یورپی یونین میں اصلاحات کا عمل تیز کرنے کی کوششوں سے عیاں ہے کہ سیاسی سرمایہ روس پر صَرف نہیں کیا جائے گا۔
برطانیہ کی تصادم کی پالیسی اور یورپی یونین کی عدم تصادم کی پالیسی اپنی اپنی جگہ برقرار رہیں گی۔ برطانیہ یورپی یونین کے ساتھ سلامتی کا ایک ایسا معاہدہ کرنے کی کوشش بھی کرے گا جو اس کے لیے سودمند ہو۔ یورپی یونین کی رکن ریاستیں سمجھتی ہیں کہ برطانیہ یورپ کے سفارتی، عسکری اور سلامتی کے امور و معاملات پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کے لیے اس قسم کا معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ناٹو میں ترکی کے موجود ہونے کا مطلب ہے کہ ناٹو کوئی بھی متفقہ اقدام نہیں اٹھا سکے گی۔ بہرحال برطانیہ نے فرانس کے ساتھ ایک دو طرفہ معاہدہ کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین طویل عرصے سے قائم سلامتی سے متعلق اور فوجی رفاقتِ کار آئندہ بھی جاری رہے۔ حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ برطانیہ اس وقت کس قدر کمزور اور اکیلا ہے۔ برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو زہر دیے جانے والے واقعے یا یورپی یونین کی کانفرنسوں اور ایف سی او کی قیادت میں روس کو نشانہ بنانے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ روس پر پابندیاں عائد کرنے یا ایسے بیانات دیے جانے سے، جیسا کہ برطانوی وزیرِ خارجہ بورس جانسن نے روس کو نازی جرمنی سے تشبیہ دی ہے، کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ایسے بیانات کا مقصد صرف ملک کے اندر اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ ہی ہوا کرتا ہے۔

(بشکریہ جیوپولیٹیکل مانیٹر؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی

افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی

فرانز جے مارٹی

اس طرح کی خبریں تو کثرت سے شائع اور نشر کی جاتی ہیں کہ پاکستان میں افغان طالبان کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں لیکن یہ حقیقت نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ بعض انتہا پسند گروپ جیسے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان جا کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اگرچہ پاکستانی حکام برسوں سے دنیا کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کروا رہے ہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں اور وہ افغانستان میں بحفاظت رہتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہے لیکن دنیا نے پاکستان کی اس حقیقت بیانی پر اس طرح توجہ نہیں دی جس طرح کہ توجہ دی جانا چاہیے تھی جب کہ افغان اور امریکی حکام کے ایسے الزامات کو بہت توجہ دی جاتی ہے کہ افغانستان میں شورش پھیلانے والے لوگ پاکستان میں چھپے ہوئے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی افغانستان میں بحفاظت موجودگی اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کرنے کی جو بات پاکستان کہتا آ رہا ہے، وہ اس وقت سچ ثابت ہوئی جب 7مارچ 2018ء کو پاکستان کی سرحد کے قریب مشرقی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں واقع تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک ٹھکانے پر امریکی ڈرون حملے میں ٹی ٹی پی کے کم از کم بیس دہشت گرد ہلاک ہو گئے جن میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے راہنما ملا فضل اللہ کا بیٹا عبداللہ بھی شامل تھا۔ اس بات کا اعتراف ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک بیان میں کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ایک افغان دہشت گرد نے، جو قاری سیف اللہ کے فرضی نام سے جانا جاتا ہے، اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستانی (جن میں سے بہت سوں کا تعلق وادئ سوات سے ہے) اور افغان دہشت گردوں پر مشتمل تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد افغانستان کے صوبہ کنڑ کے اضلاع شگل وا شیلتن کے دور افتادہ علاقے چوگام میں رہتے ہیں۔ اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ اس علاقے پر ڈرون حملہ کیا گیا تھا جس کے باعث خاصا جانی نقصان ہوا تھا۔ قاری سیف اللہ نے بتایا کہ اس گروپ کا سربراہ استاد فتح ہے اور مذکورہ ڈرون حملے سے پہلے اس نے تقریباً ہر مہینے افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں باجوڑ میں دہشت گردی کی کارروائیاں کروائی تھیں۔تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی پاکستان میں ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو عالمی ذرائع ابلاغ توجہ نہیں دیتا، تاہم رائٹرز نے نومبر 2017ء کے وسط میں دہشت گردی کے اُس واقعے کی خبر جاری کی تھی جس میں باجوڑ میں واقع پاکستانی فوج کی ایک چوکی پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا۔ قاری سیف اللہ کے مطابق وہ حملہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کروایا تھا۔ استاد فتح کی زیرِ قیادت کام کرنے والے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے گروپ کی افغانستان کے صوبہ کنڑ میں موجودگی کی تصدیق دو دوسرے ذرائع سے بھی ہوئی ہے۔ ایک ذریعہ ایک ایسا شخص تھا جو کچھ عرصہ پہلے تک کنڑ میں افغان بارڈر پولیس میں کام کیا کرتا تھا۔ اس شخص نے بتایا کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق رکھنے والے 200سے 300 دہشت گرد چوگام میں موجود ہیں۔ اسی شخص نے یہ بھی بتایا کہ پورے صوبہ کنڑ میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 2000کے لگ بھگ دہشت گرد موجود ہیں۔ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے دہشت گردوں کی موجودگی کی تصدیق کرنے والا دوسرا ذریعہ زیادہ معلومات کا حامل تھا۔ اس نے معاملے کی نزاکت کے پیشِ نظر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ اس نے بتایا کہ مالاکنڈ ڈویژن کے لیے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ملٹری کمانڈر استاد فتح کا اصل نام عمر رحمان ہے۔ قاری سیف اللہ نے بھی بتایا تھا کہ استاد فتح کا اصل نام عمر رحمان ہے۔ نام مستور رکھنے کی درخواست کرنے والے ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ استاد فتح کنڑ میں موجود ہے۔ چوں کہ استاد فتح تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا درمیانی سطح کا ایک نسبتاً گمنام کمانڈر ہے اس لیے دو الگ الگ ذرائع سے اس کی موجودگی کی تصدیق ضروری تھی۔ اسی ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ استاد فتح کا تعلق اس خود کش بم بار سے تھا جس نے 3فروری کو وادئ سوات میں اپنے آپ کو اڑا کر پاکستانی فوج کے گیارہ جوانوں کو شہید کر دیا تھا۔
اس بات کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ 7مارچ کے امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں چوگام میں موجود تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردکارروائیاں کرنے سے معذور ہوئے یا نہیں، یا اس علاقے سے ان کا صفایا ہوا یا نہیں۔ بہرحال ایسا ہوا بھی ہو تب افغانستان کے صوبہ کنڑ میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی موجودگی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ معلام ہوا ہے کہ محولہ حملے سے تھوڑا پہلے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد خاصی تعداد میں نزدیکی ضلع غازی آباد کے پہاڑوں میں واقع ایک اور محفوظ ٹھکانے کی طرف چلے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں استاد فتح بھی شامل تھا۔ ایک اور ذریعے نے بھی اس خبر کی تصدیق کی کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد غازی آباد کے پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ اس ذریعے نے فروری میں وہاں دہشت گردوں کے ایک اجتماع میں شرکت کی تھی۔پاکستان کہتا ہے کہ بھارت کی انٹیلی جینس سروس ریسرچ اینڈ اینیلسز ونگ (را) افغان انٹیلی جینس سروس نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی (این ڈی ایس) کے ذریعے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتی ہے اور پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے انھیں وسائل مہیا کرتی ہے۔ قاری سیف اللہ نے بتایا کہ مقامی افغان اہل کار تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے نہیں روکتے ۔ کم از کم ایک اور ذریعے نے بھی تصدیق کی کہ افغان حکام تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے مختلف گروپوں کو رقوم اور ہتھیار فراہم کرتے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کے افغانستان میں موجود ہونے کے سبب ہی پاکستان کبھی کبھار افغانستانی علاقے میں گولہ باری کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ افغانستان حکومت اس حوالے سے کچھ بھی کہے پاکستان کا موقف ہے کہ وہ افغانستان سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے دہشت گردوں کے پاکستان میں داخل ہونے کے جواب میں گولہ باری کرتا ہے۔ اگر افغان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل نہ ہونے دے تو پاکستان کو جواب دینے کی کیا ضرورت ہے۔ افغان حکومت اپنے الزامات کے ثبوت میں چند زخمی ہی پیش کر سکی جس سے اس کے یہ الزامات جھوٹ ثابت ہوئے کہ پاکستان زیادہ گولہ باری کر رہا ہے اور پاکستان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا کہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے باز رکھنے کے لیے نہایت احتیاط سے صرف دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کرتا ہے۔
اب تک ہماری بحث سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ کراس بارڈر پُرتشدد انتہا پسندی کسی بھی ملک کے لیے فائدہ بخش نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات عمومی طور سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں جس کے باعث آج تک دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ مؤثر تعاون نہیں کر سکے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد 2670کلومیٹر لمبی ہے اور انتہائی دورافتادہ و دشوار گزار علاقوں پر محیط ہے جہاں سے دہشت گرد داخل ہو سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان افغانستان جب تک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے، تب تک دونوں ملک دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے ختم نہیں کر سکیں گے۔ 

(بشکریہ دی ڈپلومیٹ؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

بھارت: زنا بالجبر کی شکار مسلم بچی سے کسی کو ہمدردی نہیں

بھارت: زنا بالجبر کی شکار مسلم بچی سے کسی کو ہمدردی نہیں

جیفری جیٹلمین

آٹھ سالہ بچی سے کسی کو ہمدردی نہیں تھی۔ یہ ایسے تھا جیسے اسے انسان ہی نہ سمجھا جا رہا ہو، جیسے اس کی زندگی سوائے ایک شکار کے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہو۔ پولیس کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ہندو نوجوانوں کے ایک ٹولے نے اس کا انتخاب بطورِ خاص ایسا پیغام بھیجنے کے لیے کیا تھا جو اس بچی کی مسلمان خانہ بدوش قوم میں دہشت پھیلا دے۔ انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بنا کر اسے ایک چراگاہ سے اغوا کیا تھا، نشہ طاری کر دینے والی چیزیں اس کے حلق میں ٹھونسی تھیں اور اسے ایک مندر میں تین دن مقید رکھا تھا، جہاں انھوں نے اسے مارا پیٹا، اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا اور آخرِ کار اس کا گلا دبا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس کا قد محض ساڑھے تین فٹ تھا اور وہ اپنا دفاع کرنے کے قابل بالکل نہیں تھی۔ جہاں بھارت کے مختلف شہروں اور بین الاقوامی سطح پر غصہ بھرے احتجاجی مظاہرے ہوئے وہاں جموں و کشمیر کی اس بستی رسانا میں، جہاں اس بچی کو قتل کیا گیا تھا، موڈ مختلف ہے۔ رسانا ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ اس میں کُل بیس گھر ہیں اور اس کے ایک سِرے سے دوسرے تک پیدل جانے میں صرف پانچ منٹ لگتے ہیں۔ خشک، خراشیں ڈالنے والی گندم کے کھیتوں سے، جن سے گائے کے گوبر کی بو آ رہی ہے،اور نیچی بیرونی دیواروں والے چھوٹی اینٹوں کے مکانات سے آگے جائیں تو آخرِ کار آپ ایک گلابی رنگ کے مندر تک پہنچ جاتے ہیں، جس پر اب قفل پڑا ہے۔ یہاں نہ تو شرمندگی ہے اور نہ ہی ہمدردی۔ ہندو اکثریت والی اس بستی کے چند لوگ ہی اس غیر انسانی جرم یا اس حقیقت کے بارے میں بات کر رہے ہیں کہ صدمے کے شکار لڑکی کے ماں باپ بستی سے بھاگ چکے ہیں۔ انھیں اپنی بیٹی کی لاش اپنے گھر کے نزدیک دفنانے سے روک دیا گیا تھا، اس لیے اِس گھرانے کو اُس کی لاش اپنے ساتھ لے جانا پڑی۔
اس کی بجائے آپ ایسی باتیں سنیں گے: ہماری زمین اور ان کی زمین۔ ہم اور وہ۔
نزدیکی بستی کے ایک بھاگ مَل نامی بوڑھے نے کہا، ’’یہ ہندووں کی ہمت توڑنے کی بڑی سازش ہے۔‘‘ بھاگ مل کو اصرار تھا کہ بچی کی ہلاکت کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے آٹھ آدمیوں کو بلاوجہ پکڑا گیا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ اس سازش کے پیچھے کون ہے؟ تو اس نے غصہ بھری آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ’’علیٰحدگی پسند۔‘‘ اس کا اشارہ ریاست جموں و کشمیر کے دوسرے حصے کے مسلمانوں کی طرف تھا جو بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ بہت سے بھارتیوں کو امید تھی کہ 2012ء میں دہلی میں ایک بس میں ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ اجتماعی زنا بالجبر کے واقعے کے بعد صورتِ حال تبدیل ہو جائے گی لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ چند قوانین سخت بنا دیے گئے تھے اور اب بھارتی حکومت چاہتی ہے کہ چھوٹی بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے لیکن زنا بالجبر کے مقدمات میں سزا دینے کی شرح بہت کم ہے جب کہ درجنوں بھارتی سیاست دان جنسی جرائم کے الزامات کے باوجود منتخب ہو چکے ہیں۔
بھارت مذہب، نسل اور سیاسی خطوط پر اتنا زیادہ منقسم ملک ہے کہ اس قدر ہول ناک جرم کو بھی فوراًسیاست کے رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔بہت سے ہندو اہلِ علم انتہا پسندی کے عروج کو اس کا الزام دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں مسلمانوں کے خلاف کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں اور کتنے کم عمر ہی کیوں نہ ہوں۔ بچی کی ہلاکت کے بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی پر، جن کی جماعت کی جڑیں ہندو قوم پرستی میں ہیں، اس جرم کی مذمت فوراً نہ کرنے پر سخت تنقید کی گئی۔ انھوں نے اس واقعے اور زنا بالجبر کے ایک اور حالیہ واقعے پر تب بات کی جب ہر طرف احتجاج برپا ہوا۔ انھوں نے کہا، ’’ہماری بیٹیوں کو انصاف ضرور ملے گا۔‘‘ ان کی جماعت کے عہدے داروں نے اس بات سے انکار کیا کہ انھوں نے دونوں واقعات کے حوالے سے غلط طرزِ عمل اپنایا تھا۔ انھوں نے یہ بات بھی تسلیم نہیں کی کہ ان کی سیاست نے بھارت کو ایک دوسرے کے شدید مخالف دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچی کی ہلاکت کے بعد وہ تو صرف ’’لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے۔‘‘ بہرحال مودی کی جماعت کے بعض اعلیٰ عہدے دار بچی کے قتل کے معاملے میں ملوث افراد کا شدومد سے دفاع کر رہے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ کئی سال سے بی جے پی کا رویہ ایسا ہی چلا آ رہا ہے۔ تیروواننتا پورم کے سینٹر فار ڈیویلپمنٹ سٹڈیز سے تعلق رکھنے والی تاریخ داں جے دِیویکانے کہا، ’’نوجوانوں کو پڑھایا گیا ہے کہ مسلمان اس قوم پر دھبہ ہیں ۔۔۔ ان کے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو، کرو۔‘‘ انھوں نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور ان کے اتحادیوں پر الزام لگایا کہ انھوں نے ’’ہندو مذہب کو ہتھیار بنا لیا ہے۔‘‘ انھوں نے ایک اور واقعے کا بھی ذکر کیا جس میں ایک ہندو جنونی نے کلہاڑی کے وار کر کے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا۔ قاتل نے اس کی دہشت ناک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی، جو بہت بڑی تعدا میں شیئر کی گئی۔قاتل ہندو انتہا پسندوں میں راتوں رات مشہور ہو گیا۔ جہاں بہت سے بھارتیوں کو اس واقعے پر افسوس ہوا، وہاں بے شمار بھارتی اس پر خوش ہوئے۔ ہندو انتہا پسندوں کے ہول ناک جرائم کی فہرست طویل ہے۔ گائے لے جانے والے مسلمانوں کو ہندووں کے ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کر ڈالا۔ ایک مسلمان لڑکے کو ٹرین میں خنجر گھونپ دیا گیا۔ ابھی پچھلے ہی ہفتے پولیس نے کہا کہ نریندر مودی کی سیاسی جماعت کے ایک نوجوان راہنما نے شیخی بگھارتے ہوئے بتایا کہ اس نے روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کے سینکڑوں مکانات جلا کر خاکستر کر ڈالے۔ ایک حالیہ تجزیے کے مطابق نریندر مودی کی آنکھوں کے سامنے نفرت کی وجہ سے کیے جانے والے جرائم میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ بچی کا قتل اسی عام ہو جانے والی نفرت کا ہی نتیجہ ہے۔ زیادہ تر مسلمان اور نچلی ذات کے ہندو نفرت کا نشانہ بنتے ہیں۔ رسانا میں موجود سرکاری اہل کاردونوں طرف کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
بھارت کے بیش تر علاقوں میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ اس علاقے میں بھی مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور عموماً ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ انداز اپنائے رکھتے ہیں تا وقتے کہ کوئی انھیں اکسا نہ دے۔ آٹھ سالہ بچی سے زنا اور اسے قتل کرنے کے مقدمے میں عدالت میں سب سے پہلے ہندو وکیلوں نے پولیس کے سپاہیوں کے ساتھ ہاتھا پائی کی۔ اس کے بعد احتجاج در احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نریندر مودی کی جماعت کے کارکنوں اور عہدہ داروں نے جلوس نکالے اور توڑ پھوڑ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مشتبہ افراد کو اس مقدمے میں پھنسایا گیا ہے اور وہ بے قصور ہیں۔ درجنوں ہندو عورتیں بھی ان کے احتجاجی جلوس میں شریک ہوئی تھیں۔ ان ہندو عورتوں نے بھوک ہڑتال کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کریں گی۔ ان میں سے کئی ہندو عورتوں نے ایسا ہی کیا اور قریب المرگ ہونے پر انھیں ہسپتالوں میں داخل کروایا گیا۔ احتجاج کرنے والے ہندو ایک سی باتیں کر رہے ہیں۔ وہ ریاستی حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ریاستی پولیس کی بجائے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) تفتیش کرے۔ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) ایک وفاقی ایجنسی ہے جس کے بارے میں سب کہتے ہیں کہ وہ نریندر مودی کی جماعت کے اشاروں پر کام کرتی ہے۔ دوسری طرف ریاست کے دوسرے حصوں میں مسلمانوں نے احتجاجی جلوس نکالے۔ پولیس نے انھیں روکا تو ان کا پولیس کے ساتھ تصادم ہو گیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ مشتبہ افراد کو پھانسی دی جائے۔ اگرچہ ریاستِ جموں و کشمیر کا زیادہ تر انتظام بھارت کے ہاتھ میں ہے لیکن یہ پاکستان کے ساتھ عشروں سے جاری خوں ریز تنازع کا باعث چلی آ رہی ہے۔ ریاست کی حکومت پہلے ہی حالات و واقعات سے گھبرائی ہوئی ہے۔ اسے وادئ کشمیر کے عوام کی لامختتم شورش اور بھارتی سکیورٹی فورسز کے شدید ترین کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ یہ حکومت محض سیاسی مقاصد سے بنائے گئے ایک عجیب و غریب اتحاد کی حکومت ہے جس میں خودمختاری کے لیے کام کرنے والی مسلمانوں کی ایک جماعت اور نریندر مودی کی دائیں بازو کی ہندو جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی، جسے بی جے پی کہا جاتاہے، شامل ہیں (دونوں جماعتوں نے اتنے ووٹ حاصل نہیں کیے تھے جو حکومت بنانے کے لیے کافی ہوتے۔) اپریل کے وسط میں بی جے پی سے تعلق رکھنے والے اُن دو وزیروں کو استعفے دینے پر مجبور کر دیا گیا جنھوں نے آٹھ سالہ بچی سے زنا اور قتل کرنے میں ملوث ملزمان کے حق میں نکالے جانے والے احتجاجی جلوسوں میں شرکت کی تھی۔ اس اقدام کا مقصد کمزور سیاسی اتحاد کو بچانا تھا۔ اب بھی وہ دونوں سابق وزیر ملزموں کے حق میں نکالے جانے والے وکیلوں کے احتجاجی جلوسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔ پورے بھارت میں، خصوصاً بڑے شہروں میں، ہر مذہب کے لوگوں نے اس جرم اور اس کے بعد ابھرنے والی تفریق کے خلاف غصے کا اظہار کیا لیکن اکسانے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کے کئی اخبارات اور نیوز چینلوں کے مطابق ایک ہندو وکیل نے اس جرم کی تفتیش کرنے والے پولیس افسر کی تذلیل کی۔ اگرچہ فردِ جرم کسی ڈراؤنی فلم کے سکرپٹ کی طرح رونگٹے کھڑے کر دینے والی ہے لیکن مقامی سطح پر اس دہشت انگیز جرم کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ بچی کے باپ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ 10جنوری کی شام کو گڑبڑ کے پہلے آثار نظر آئے تھے، جب پانچ گھوڑے اپنی آٹھ سالہ مالکن کے بغیر واپس آئے تھے۔ بچی کو گھوڑوں سے بہت پیار تھا۔ وہ اپنے دوپٹے کو لگام کی جگہ استعمال کرتے ہوئے ان پر لگاموں کے بغیر سواری کیا کرتی تھی۔ اسے بہت تلاش کیا گیا لیکن وہ کہیں نہ مل سکی۔ اس کے باپ نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس نے جلدی سے ٹارچ اٹھائی اور ہر گڑھے، کھائی، نالے اور کھیتوں میں اسے ڈھونڈا۔ وہ کہیں نہیں ملی۔ انھوں نے اسے گھر گھر تلاش کیا۔ وہ کسی بھی گھر میں نہیں ملی۔ ان کی پریشانی بڑھتی گئی۔ بہت سے دوسرے خانہ بدوش بھی ان کے ساتھ تلاش میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے نزدیکی جنگل میں تلاش کیا اور ایک چھوٹے سے مندر تک پہنچ گئے۔ خانہ بدوشوں نے بتایا کہ مندر کے نگران نے انھیں ڈرا یا دھمکایا۔ وہ ایک سابق ریوینیو افسر ہے، جو دست شناسی، علمِ نجوم اور مستقبل بینی کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس نے تحکم آمیز لہجے میں لڑکی کے والدین کو تسلی دی کہ فکر نہ کرو، تمھاری بچی خیریت سے ہے۔ کوئی اس کی حفاظت کر رہا ہے۔ پولیس کے مطابق ٹھیک اسی وقت اسی مندر کے نگران کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے نوجوان مرد مندر کے اندر بچی کے ساتھ زنا بالجبر کر رہے تھے۔ تین دن بعد انھوں نے بچی کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ تفتیش کار کہتے ہیں کہ جرم کا مقصد نسلی صفایا کے سوا کچھ نہیں تھا۔
تفتیش کاروں نے کہا کہ مندر کا نگران سانجی رام اپنے علاقے میں خانہ بدوشوں کے آنے کے باعث ان سے نفرت کرتا تھا اور اس نے انھیں وہاں سے بھگانے کی نیت سے اس جرم کا منصوبہ بنایا تھا۔ خانہ بدوشوں کا تعلق بکروال کہلائے جانے والے ایک نسلی گروپ سے ہے، جس کے اکثر لوگ مسلمان ہیں۔ وہ لوگ کئی نسلوں سے بھیڑبکریوں کے گلّوں اور گھوڑوں اور کتوں کے ساتھ پورے جموں و کشمیر کے اونچے نیچے پہاڑوں ، وادیوں میں اور سڑکوں کے کنارے کنارے پھرتے رہتے ہیں۔ وہ ہائی ویز کے نزدیک لگائے گئے اپنے رنگ برنگے خیموں اور اپنی چمک دار آنکھوں کی وجہ سے دوسروں سے الگ دکھائی دیتے ہیں۔ بکروال بزرگ کہتے ہیں کہ انھیں اپنی برادری کے لوگوں کی تعداد کا علم نہیں، شاید ان کی تعداد 200,000ہو۔اسی طرح انھیں اپنی اصل کا بھی ٹھیک سے علم نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ کوہِ قاف سے آئے تھے اور بعض کہتے ہیں وہ افغانستان سے آئے تھے۔ ایک بکروال بزرگ طالب حسین نے کہا، ’’ہماری تاریخ کسی نے نہیں لکھی۔‘‘ بہرحال بکروال خانہ بدوشوں کے لیے زندگی بدل رہی ہے۔چند گھرانوں نے رسانا کے علاقے میں ہندو کاشت کاروں سے زمین خرید کر وہاں آباد ہونے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے پکی اینٹوں سے مکان تعمیر کروائے اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا سوچا۔ یہ ان کے لیے آگے کی طرف ایک بہت بڑا قدم تھا۔ مقتول بچی کا گھرانا بھی ان گھرانوں میں شامل تھا۔ مشتعل سانجی رام کے بارے میں بستی والے کہتے ہیں کہ وہ راسخ العقیدہ ہندو اور نریندر مودی کا جوشیلا مداح تھا۔بستی کے بہت سے لوگوں نے بتایا کہ سانجی رام ہندو خانہ بدوشوں کو تو اپنی زمین کاشت کاری کے لیے بخوشی دے دیتا تھا لیکن مسلمانوں کو بالکل نہیں دیتا تھا۔ تفتیش کارکہتے ہیں کہ سانجی رام نے آٹھ سالہ بچی کو اغوا کرنے کے لیے اپنے بیٹے، بھانجے اور چند دوسرے نوجوانوں کو تیار کیا تھا۔ (بچی کا نام اس باعث لکھا نہیں جا رہا کیوں کہ ایک بھارتی عدالت نے صحافیوں کو دھمکی دی ہے کہ بچی یا اس کے گھرانے کے افراد کے بارے میں کسی بھی قسم کی معلومات افشا کیں تو انھیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ عدالت کہتی ہے کہ اس گھرانے کی عزت محفوظ رکھنے کی غرض سے ایسا کرنا ضروری ہے حالاں کہ پولیس پہلے ہی بچی کا نام بتا چکی ہے اور سوشل میڈیا پر اس کا نام عام ہو چکا ہے۔) بچی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش ایک کھائی میں پھینک دی گئی تھی۔ تفتیش کاروں نے بتایا کہ دو پولیس والوں نے، جو ہندو تھے، ثبوت و شواہد مٹا دیے۔ انھوں نے بچی کا لباس کرائم لیبارٹری بھیجے جانے سے پہلے صاف کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بہانہ بنایا کہ وہ تو ڈی این اے ثبوت ڈھونڈ رہے تھے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ آٹھوں مشتبہ افراد نے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ رسانا کے ہندووں کو اس بات پر یقین نہیں۔ ایک دن چند ہندو بوڑھے مجھے جنگل کے سِرے پر واقع گلابی رنگ کی عمارت والے مندر میں لے گئے۔ کنکریٹ کا فرش دھو کر صاف کر دیا گیا تھا، دیواریں ہندو دیوی، دیوتاؤں کے شوخ رنگوں والے پرانے پوسٹروں سے سجائی گئی تھیں۔ مندر میں سانجی رام کے ایک معاون سریش شرما نے کہا، ’’دیکھیں، بچی کو یہاں قید نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہاں لوگ ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘ لیکن اس کی بات پر یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ صرف چند ہی گھروں کے لوگ اس مندر میں آتے ہیں جب کہ بہت سے گھر ویران پڑے ہیں۔

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ انتخاب: دنیا ریسرچ سیل؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

دنیا پر امریکا کے غلبے کی تاریخ

دنیا پر امریکا کے غلبے کی تاریخ

عبدالرحمان عمر

1776ء میں اعلانِ آزادی سے تھوڑا پہلے کانگریس نے امریکا کی تمام بندرگاہیں دنیا کے ہراُس علاقے سے تجارت کے کھول دی تھیں جس پر برطانیہ کا اقتدار قائم نہیں تھا۔امریکی اپنے اثر و رسوخ کو توسیع دینے اور بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینے کے مشتاق تھے۔ صرف بیس سال کے عرصے میں امریکہ کی تجارت بین الاقوامی سطح پر خوب فروغ پا چکی تھی۔ بہرکیف شمالی افریقا میں بحیرۂ روم کے ساحلوں پر صدیوں سے غارت گری مچانے والے بربر قزاقوں نے امریکی بحری جہازوں کو بھی نہیں چھوڑا۔ 1801ء میں تھامس جیفرسن نے عہدۂ صدارت سنبھالا ہی تھا کہ طرابلس کے پاشا یوسف کرمانلی نے نئی امریکی حکومت سے خراج طلب کیا، جو 2017ء کی شرحِ مبادلہ کے مطابق تینتیس لاکھ امریکی ڈالر کے مساوی تھا۔ اس سے پہلے امریکا اپنے بحری جہازوں کو نقصان سے محفوظ رکھنے کی غرض سے الجزائر کے حکمران کو اسی طرح خراج ادا کر چکا تھا لیکن تھامس جیفرسن نے دیکھا کہ خراج کا یہ نظام امریکا کی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے، اس لیے اس نے خراج ادا کرنے کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ پاشا یوسف کرمانلی نے خراج ادا کیے جانے کا مطالبہ امریکا کے صدر کی طرف سے مسترد کیے جانے پر اعلانِ جنگ کے روایتی قاعدے کے مطابق طرابلس میں امریکی قونصلیٹ کے سامنے ایک کھمبے پر لہراتا امریکی پرچم کاٹ کر پھنکوا دیا۔ اس واقعے کے بعد دونوں فریقوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ کئی سال جاری رہا۔ آخر 1805ء میں پاشا یوسف کرمانلی نے جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کر دیے اور امریکا اس جنگ میں فتح یاب قرار پایا۔ بربری جنگوں کے ذریعے امریکا کا بین الاقوامی سٹیج پر نمودار ہونا اور اس کے نتیجے میں بین الاقوامی غلبے کے لیے اس کا کوشش کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
بربری جنگوں کا تجزیہ اس تناظر میں کیا جانا ضروری ہے کہ ان میں شامل ہونے سے تھوڑا عرصہ پہلے ہی امریکا نے طویل جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی تھی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بانیوں نے برطانیہ کے بادشاہ جارج سوم کی بادشاہت سے آزادی کا اعلان 1776ء میں کیا تھا اور اس کے محض پچیس سال بعد اس کے بحری جہاز بحرِ اوقیانوس کے پار شمالی افریقا کے ساحلوں پر نیم خود مختار عثمانی ریاستوں کے ساتھ براہِ راست تصادم کے لیے آمادہ و تیار تھا۔ جب پاشا یوسف کرمانلی نے چیلنج کیا تو ’’نوجوان‘‘ امریکی ریاست نے اپنے بحری تجارتی راستوں کے تحفظ کے لیے تجربہ کار قزاقوں کے خلاف میدانِ جنگ میں اترنے میں ذرا بھی تأمل نہیں کیا تھا حالاں کہ اُس زمانے میں برطانیہ اور دوسری مغربی طاقتوں کے غلبے والی دنیا میں امریکا ایک چھوٹا کھلاڑی تھا۔ بربری جنگوں سے عیاں ہوتاہے کہ امریکا ابتدا ہی سے طاقت کی بین الاقوامی کش مکش میں شامل ہو گیا تھا اور اکثر اوقات اس کا رویہ جارحانہ ہوتا تھا۔ اس زمانے کی انارکی سے بھری دنیا میں امریکا نے آغاز ہی میں فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہر جگہ جائے گا اور جہاں بھی جائے گا اپنی خود مختاری ہر قیمت پر یقینی بنائے گا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک بین الاقوامی سٹیج پر اپنے مفادات کے لیے عمل کرتے ہوئے امریکا کے پاس کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہوتا تھا۔ اسے کہیں بھی حملے کرنے اور تباہی مچانے کی آزادی حاصل تھی بشرطے کہ کسی غالب یورپی کھلاڑی کی سرحدوں کو عبور نہ کرے اور اس کے مفادات کو زک نہ پہنچائے۔
1941ء میں یعنی دوسری عالمی جنگ شروع ہونے کے دو سال بعد امریکادوسری عالمی جنگ میں اس وقت باقاعدہ شامل ہواجب پرل ہاربر پر حملہ کیا گیا۔اگرچہ پرل ہاربرپر حملہ کیے جانے تک اس نے اپنی رسمی غیر جانب داری برقرار رکھی تھی، تاہم وہ اتحادیوں کو مدد فراہم کر کے جنگ میں پہلے ہی سے شامل تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ جنگ اس کی سلامتی اور تجارتی راستوں کے لیے خطرہ ہے۔ جب برطانیہ کے دوش بدوش امریکا میدانِ جنگ میں اترا تو اس اقدام کے حوالے سے یوں پروپیگنڈا کیا گیا جیسے یہ ایک نظریاتی جنگ ہے اور برطانیہ و امریکا دنیا میں ’’جمہوریت کے دفاع‘‘ کے لیے جنگ میں شامل ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک انتہائی سادہ بیانیہ تھا۔ جنگ میں شامل ہونا امریکا کے ذاتی مفادات کا سوال تھا کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ اگر جرمنی جنگ میں فتح یاب ہوا اور پورے یورپ پر اس کا غلبہ قائم ہو گیا تو امریکا کی تجارت طویل عرصے کے لیے متاثر ہو گی۔
جب آخرِ کار اتحادی جنگ میں فتح یاب ہوئے تو بین الاقوامی سٹیج پر غالب بیانیہ میں نازیوں اور جاپان کے ظلم و ستم کی داستانوں کو مرکزی حیثیت دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک ایسے نئے دور کا آغاز ہوا جس میں فوجی مداخلت کے قانونی ہونے کے علاوہ ’’اخلاقیات‘‘ کا سوال پہلی مرتبہ اٹھایا گیا اور ڈریسڈن کے جرمن شہریوں پر اتحادیوں کی بم باری یا جاپانی شہریوں پر گرائے گئے امریکی ایٹم بموں کو جنگ ختم کرنے کے لیے’’ضروری اقدامات‘‘ قرار دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ اس امید کے ساتھ قائم کی گئی کہ وہ مستقبل میں مفادات کی ایسی ہول ناک جنگ نہیں ہونے دے گی۔
دوسری عالمی جنگ کے ختم ہوتے ہی اس عالمی نظام کا بھی خاتمہ ہو گیا جس میں یورپ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یورپی طاقتوں کے پسپا ہونے سے امریکا خود بخود دنیا کی غالب فوجی طاقت بن گیا۔ چوں کہ پوری جنگ کے دوران امریکا نے اپنے آپ کو فاشسٹ جارحیت کے خلاف آزادی کے محافظ کی حیثیت سے پیش کیا تھا اس لیے تاریخ کے اس موڑ پر وہ دنیا کی اوّلین ’’اخلاقی سپر پاور‘‘ بھی بن گیا۔اس نے دنیا میں امن و امان کے قیام کی ذمہ داری سنبھال لی لیکن اپنے اس نئے کردار کو طاقت کی جارحانہ کش مکش میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اس کی بجائے وہ بربری جنگوں تک جو کچھ کرتا آیا تھا وہی کچھ یعنی اپنے قومی مفادات کا تحفظ اور معاشی و فوجی غلبہ قائم کرنے کے لیے اس نئی ’’اخلاقی‘‘ حرکیات کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پوری سرد جنگ کے دوران امریکا ’’کمیونسٹ خطرے‘‘ کے خلاف اپنے آپ کو ایک اخلاقی قوت کی حیثیت سے پیش کرتا رہا۔ اس عرصے کے دوران پروپیگنڈا کے سراب سے باہر جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر لاطینی امریکا تک پوری دنیا میں امریکا کے اخلاقی اعتبار سے واقعتاً ابہام زدہ اقدامات سے عیاں ہوتا ہے کہ اس نے اپنے اقدامات کے لیے جو جو اخلاقی جواز پیش کیے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں تھے۔ سوویت یونین کو تازہ تازہ قائم ہونے والے عالمی نظام کے لیے خطرے کی حیثیت سے پیش کر کے امریکا نے اپنے اتحادیوں کو قائل کر لیا کہ تمام تر جارحانہ و غیراخلاقی اقدامات کے باوجود وہ خیر کے لیے سرگرمِ عمل قوت ہے۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکا بین الاقوامی تعلقات میں کارفرما قوانین اور ضوابط کے حوالے سے صرف دکھاوے کے اقدمات کرتے ہوئے اپنے مفادات کے لیے جارحانہ انداز سے عمل کرتا رہا۔ صرف اس مرتبہ ایسا تھا کہ کوئی بڑا حریف سامنے نہیں تھا۔ اکیسویں صدی میں امریکا کی منافقانہ اخلاقی برتری اس وقت کھل کرسامنے آ گئی جب مارچ 2003ء میں صدر جارج ڈبلیو بش نے ’’آپریشن عراقی فریڈم‘‘ کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں، جس کے لیے اب اچھے خیالات کا اظہار نہیں کیا جاتا، عراقیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’ان کی آزادی کا دن نزدیک ہے۔‘‘ بش حکومت نے اس اقدام کو منصفانہ اقدام ثابت کرنے کی غرض سے کہا کہ عراق کے حکمرانوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنا لیے ہیں اور انھیں استعمال بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ عراقی حکومت پر انسانی حقوق پامال کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ بش حکومت نے اپنے اقدامات کے لیے یہ جواز پیش کیا کہ عراقی عوام کو امریکا کے جمہوریت اور آزادی کے مثالیوں کی ضرورت ہے۔ بہرحال دنیا کو بعد میں پتا چلا کہ عراق کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں جو دعوے کیے گئے تھے، وہ سراسر جھوٹ تھے اور اس حملے کا نتیجہ ویسا یوٹوپیائی نہیں تھا جیسا کہ آغاز میں کہا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ امر واضح ہوتا گیا کہ امریکا نے ایک خود مختار ملک پر حملہ آزادی اور جمہوریت کے لیے نہیں بلکہ اپنے قومی مفادات کے لیے کیا تھا۔ لاکھوں معصوم انسان مارے گئے جب کہ موت سے بچ جانے والے لاکھوں ہی انسانوں کی زندگیاں ہمیشہ کے لیے برباد ہو گئیں۔ پندرہ سال گزر جانے کے بعد بھی عراقی ریاست انتشار کی شکار ہے۔ امریکا بہت طویل عرصے سے آزادی اور جمہوریت جیسے مجرد تصورات استعمال کر کے بین الاقوامی برادری کو یقین دلا رہا ہے کہ وہ اخلاقی اور مبنی بر انصاف مقاصد کے لیے جنگیں لڑ رہا ہے لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا نے اخلاقیات کا جو بھاری لبادہ پہنا تھا، وہ آخرِ کار اترنے لگا ہے۔ شمالی و جنوبی کوریا، ویت نام، عراق اور افغانستان کی عسکری دلدلوں میں دھنسنے کے بعد امریکا کا تاثر بری طرح خراب ہوا ہے۔ ممکن ہے آج امریکی فوج دنیا کی بہترین ..... اور مؤثر ترین .....فوج ہو لیکن امریکا اخلاقی برتری سے محروم ہو چکا ہے۔ بربری جنگوں کے ذریعے امریکا نے عالمی سٹیج کے قوانین طے کیے تھے اور اپنے غلبے کو چیلنج کرنے والوں کو مٹا ڈالا تھا۔ امریکا ابتدا ہی سے اپنے آپ کو دنیا میں جس انداز سے پیش کرتا آیا ہے، اس میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ وہ کچھ عرصہ تو دنیا پر اپنا غلبہ قائم کرنے کے اپنے جارحانہ اقدامات کو اخلاقیات کے جھوٹے جوازوں کے پردے میں چھپانے میں کامیاب ہوا لیکن اب اس کا کھیل ختم ہو چکا ہے۔

(بشکریہ الجزیرہ ٹی وی؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

کراچی: شدید گرمی کی لہر المیہ بن گئی

کراچی: شدید گرمی کی لہر المیہ بن گئی

مہر احمد

پاکستان کے عظیم ساحلی شہر کراچی میں سال کے اس حصے میں گرمی کی لہریں معمول بن چکی ہیں۔اس سال بھی گرمی کی تازہ ترین لہر نے اس شہر کے دو کروڑ باسیوں کو نشانہ بنایا ہے جب کہ وہ اس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ جب پچھلے ہفتے درجۂ حرارت 44درجہ سیلسیئس تک پہنچ گیا اور لوگوں کو سایے میں بھی یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ بخار میں مبتلا ہوں، تب اس گرمی سے بچنے سے قاصر لوگ اپنے دن سستی سے گزارتے ہوئے اسی طرح کی باتیں کر رہے تھے۔ سڑکوں اور سیمنٹ سے تعمیر کردہ عمارتوں سے رات کے وقت بھی خارج ہوتی گرمی کو شہر کے سبزے کے فقدان نے مزید اذیت دہ بنا دیا۔ جو لوگ اپنے گھروں اور دکانوں میں ائیرکنڈیشنر لگوانے کی استطاعت رکھتے تھے، انھوں نے ایئرکنڈیشنر چلا لیے ہیں لیکن زیادہ تر لوگوں کے پاس انتہا کی گرمی سے بچنے کے چند ایک ہی راستے ہیں۔ ان میں شامل ہیں پانی سے بھگوئے ہوئے تولیے اور بجلی سے چلنے والے پنکھے۔ بجلی سے چلنے والے پنکھے صرف اُن چند گھنٹوں ہی کے دوران کام کرتے ہیں جن میں بجلی ہوتی ہے۔ سڑکوں پر عموماً ٹریفک بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن دوپہر کے وقت سڑکیں بھی ویران ہو جاتی ہیں۔ ٹریفک پولیس کے سپاہی اپنی چھتریوں کے نیچے سے نکل کر کاروں کی طرف عدم دل چسپی اور توانائی سے محرومی کی کیفیت میں آتے ہیں جب کہ لوگ انھیں کھڑا کر کے کسی عمارت کے اندر چلے گئے ہوتے ہیں یا چند لمحوں کے لیے شہر کے بہت سارے کنکریٹ کے میناروں کے سایے میں چھپ جاتے ہیں ۔۔۔ کوئی بھی جگہ جہاں تھوڑا بہت سکون و آرام مل سکے۔ مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے آغاز کے چند دن بعد 18مئی کو گرمی انتہا کو پہنچ گئی ۔۔۔ اس مہینے کے دوران تمام جسمانی اعتبار سے اہل مسلمانوں پر فرض ہے کہ سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج غروب ہونے تک کچھ بھی نہ کھائیں پئیں۔ اس دورانیے نے خوف انگیز درجۂ حرارت کے اثرات بڑھا دیے ہیں۔ کراچی میں سب سے زیادہ تعداد میں ایمبولینسوں اور مرکزی مردہ خانے کے حامل امدادی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پینسٹھ تک پہنچ چکی ہے۔ سرکاری افسران اس تعداد سے اختلاف کرتے ہیں۔ چار دن بعد انتہا کی گرمی میں تھوڑی کمی آئی۔۔۔ درجۂ حرارت گھٹ کر تینتیس درجے سیلسیئس ہو گیا ۔ گرمی کی شدت کے باعث جان کھو دینے والوں میں تیس سالہ طیبہ فیروز بھی شامل تھیں۔ ان کے خاوند محمد شیراز نے بتایا کہ وہ 20مئی کی شام اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانے لگیں تو انھیں بہت گرمی لگ رہی تھی لیکن ان کی طبیعت خراب نہیں تھی۔ اس روز طیبہ فیروز کا روزہ نہیں تھا کیوں کہ وہ حمل سے تھیں اور حاملہ عورتوں کو اس مذہبی فریضے سے استثنا حاصل ہے۔ ان کے محلے میں بجلی روزانہ تقریباً چھ گھنٹے نہیں ہوتی تھی۔ یہ محلہ شہر کے شمالی حصے کا انتہائی غریب اور بے سروسامان لوگوں کا کثیر آبادی والا محلہ ہے۔ اس محلے کے باسی بجلی کے آنے کے وقت کے حساب سے اپنے کام کاج کرتے ہیں۔ طیبہ فیروز کے خاوند نے بتایا کہ بجلی دوبارہ چلی گئی تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے اصرار کیا کہ وہ گھر والوں کے لیے کھانا پکائیں گی۔ ان کے خاوند محمد شیراز نے بتایا کہ کھانا پکانے کے لیے چولہے کی طرف جانے سے پہلے وہ اپنے تین سالہ بیٹے کے ساتھ ہنس کھیل رہی تھیں۔ چند ہی منٹ بعد وہ گر یں اور اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اس کے ایک ہفتے بعد ان کے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کرنے والے محمد شیرازابھی تک اپنی بیوی کی اچانک وفات پر صدمے سے نڈھال تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ پانی کی کمی اور چولھے سے نکلنے والی حرارت کے باعث ہلاک ہوئی تھیں۔انھوں نے کہا کہ انھیں احساسِ خطا بھی ہے کیوں کہ ایدھی فاؤنڈیشن کی ایک ایمبولینس کا ڈرائیور ہونے کے ناتے انھیں گرمی لگنے کی علامات کا علم ہے۔ اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے محمد شیراز نے کہا پچھلے تیس برسوں کے دوران وہ کم از کم دو درجن افراد کو گرمی لگنے سے ہلاک ہوتا دیکھ چکے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں جون 2015ء میں ہوئی تھیں، جب کراچی تاریخ کی مہلک ترین گرمی کی لہر کی لپیٹ میں آیا تھا۔ اُس سال دو ہفتوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہسپتالوں میں جگہ نہیں رہی تھی جب کہ ایمرجینسی میں امدادی کارروائیاں کرنے والے نڈھال ہو کر رہ گئے تھے۔
محمد شیراز نے بتایا ، ’’میں نے لوگوں کو سڑکوں پر چلتے چلتے گرتے اور اللہ کو پیارے ہوتے دیکھا ہے۔ ہماری ایمبولینسوں کے پیچھے لوگ مر جاتے تھے۔ اموات نان سٹاپ ہو رہی تھیں۔‘‘ فیصل ایدھی نے، جن کے خاندان نے ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز کیا تھا، بتایا کہ انھیں یقین ہے 2015ء میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ بیشتر ہلاکتوں کی خبریں کسی کو ملی ہی نہیں تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ادارے نے اِس سال پینسٹھ افراد کے گرمی سے ہلاک ہونے کی اطلاع دی ہے۔ یہ وہ ہلاکتیں ہیں، جو کراچی میں ہوئی ہیں اور ہمیں ان کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔‘‘انھوں نے کہا، ’’امکان ہے کہ شہر کے باہر درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہوں گے لیکن ہمارے پاس اِن ہلاکتوں کا ریکارڈ نہیں ہے۔‘‘ فیصل ایدھی نے کہا کہ گرمی کی لہر کے دوران مردے خانے میں لاشیں معمول کی تعداد سے دگنی زیادہ تعداد میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مقامی حکومت کو گرمی سے نبرد آزما ہونے میں لوگوں کی زیادہ مدد کرنا چاہیے۔ شہر کی انتظامیہ نے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کے بارے میں اب تک کچھ نہیں بتایا اور شہر کے حاکمِ اعلیٰ کہتے ہیں کہ گرمی لگنے سے کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا بلکہ گرمی سے متعلقہ مسائل جیسے کہ پانی کی کمی وغیرہ سے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ کراچی کے ایک سب سے بڑے ہسپتال جناح پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمیں جمالی نے کہا کہ شہر نے 2015ء کے تجربات سے سبق سیکھا ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اب صورتِ حال ہمارے قابو میں ہے۔‘‘اُس وقت سے گرمی کی لہریں تواتر سے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں لیکن اُس گرمی کی لہر کے بعد گرمی کی موجودہ لہر بدترین نوعیت کی ہے۔ رمضان کے دوران پاکستان میں سرِ عام کھانے پینے پر امتناع عائد کر دیا جاتا ہے۔ جو کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا پایا جائے اسے تین ماہ تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ کراچی کے سب سے بڑے مذہبی ادارے کے سربراہ مفتی محمد نعیم نے کہا کہ اسلامی فقہ موسمِ گرما میں روزے رکھنے کے باب میں واضح ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اگر آپ قریب المرگ ہوں تو روزہ توڑا جا سکتا ہے لیکن ڈاکٹر ان دنوں تھوڑے سے گرم موسم میں بھی پانی پینے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ شرع کے خلاف ہے۔‘‘ شہر میں ان کی باتوں کو کافی مانا جاتا ہے، جس سے مذہبی احکام پر سختی سے عمل کرنے والے لوگوں کے لیے درمیانی راستا مہیا ہوتا ہے کہ جب شہر کا درجۂ حرارت بڑھے تو وہ تھکن اور گرمی لگنے کے خطرے اور مذہبی تقاضوں میں توازن سے کام لیں۔ ایک تخمینے کے مطابق کراچی کی 61فی صد آبادی شہر کے مضافات میں جھونپڑ پٹیوں میں کنکریٹ سے تعمیر کیے جانے والے بے ہنگم مکانوں میں رہتی ہے۔ ان محلوں کے لوگوں کو گرمی کے علاوہ بہت سے دوسرے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ شہر کا پانی کا محکمہ کہتا ہے کہ اس کی 42فی صد سپلائی، جو تقریباً دو کروڑ افراد کے لیے کافی ہے، چرا لی جاتی ہے یا ’’کھو‘‘ جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پہلے سے بارانی آب و ہوا میں پانی کی انتہائی قلت واقع ہو چکی ہے۔شہر کے غریب لوگ بہت اونچی قیمت پر ملنے والا پانی خریدنے سے قاصر ہیں۔ گرمی سے ہلاک ہونے والی محولہ بالا طیبہ فیروز کے خاوند محمد شیراز نے کہا کہ وہ ایک مجرم گروہ سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں حالاں کہ ان کے گھر میں پانی کا کنکشن لگا ہوا ہے۔ انھوں نے کہا، ’’ہماری ٹوٹیوں میں پانی کبھی نہیں آتا۔ پانی وہیں چرا لیا جاتاہے، جہاں سے وہ فراہم کیا جاتا ہے چناں چہ ہمیں ان مجرموں سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔‘‘ شہری حکام اور پولیس نے مجرم گروپوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی ہیں اور حالیہ برسوں میں بجلی کے تعطل پر بھی تھوڑا بہت قابو پا لیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اپریل میں کراچی میں بجلی کی فراہمی میں تعطل آ گیا تھا کیوں کہ شہر کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے اور اسے گیس فراہم کرنے والے محکمے کے مابین جھگڑا کھڑا ہو گیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پانی اور بجلی کی متواتر فراہمی سے محروم شہر کے غریب ترین لوگ گرمی کا مقابلہ کرنے سے بے بس ہو گئے۔ فیصل ایدھی نے اموات سے متعلق اپنا ریکارڈ دیکھتے ہوئے بتایا کہ پچھلے ہفتے ہلاک ہونے والے تقریباً تمام افراد کا تعلق جھونپڑ پٹیوں سے تھا، جہاں زیادہ تر شہر کا مزدور طبقہ آباد ہے۔ محمد شیراز اپنی بیوی کی وفات کے بعد دس دن سوگ میں گزارنے کے بعد ایمبولینس پر اپنی ڈیوٹی انجام دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’’بلا شبہ میں روزے رکھ رہا ہوں۔ میں صبح اپنی بیوی کی قبر پر فاتحہ پڑھوں گا اور ایدھی فاؤنڈیشن میں اپنی ڈیوٹی ادا کرنے پہنچ جاؤں گا۔‘‘

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

بھارت کے انتخابات اور سوشل میڈیا

بھارت کے انتخابات اور سوشل میڈیا

وِندو گوئل

پچھلے ہفتے بھارت کے گرم و مرطوب جنوب مغربی ساحلی شہر منگلور میں پرنو بھٹ بہت بڑا زعفرانی جھنڈا لہراتے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے جلسے میں شریک ہوئے۔ اٹھارہ سالہ پرنو بھٹ اپنے کالج کے دوستوں کے ساتھ ایک وسیع و عریض میدان میں گھوم پھر رہے تھے۔ وہ نریندر مودی اور ہندو سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں اس ریاست کا کنٹرول نسبتاً سیکولر سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس سے چھیننے کی کوشش کر رہے تھے۔ بہرحال زیادہ زوردار سیاسی مہم سڑکوں اور گلیوں بازاروں کی بجائے واٹس ایپ پر زیادہ زور شور سے مہم چلائی جا رہی تھی۔ واٹس ایپ ایک میسجنگ سروس ہے جس کی مالک فیس بک ہے اور بھارت میں واٹس ایپ استعمال کرنے والوں کی تعداد تقریباً پچیس کروڑ ہے۔ پرنو بھٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نوجوان راہنما ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ واٹس ایپ پر اُن ساٹھ ووٹروں کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے ہیں، جن کے ساتھ رابطہ رکھنے کی ذمہ داری پارٹی کی طرف سے انھیں سونپی گئی ہے۔ وہ انھیں واٹس ایپ کے ذریعے کرناٹک کی ریاستی حکومت پر تنقید، مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہندووں کے حوالے سے خبریں اور ایسے لطیفے بھیجتے ہیں جن میں کانگریس کے راہنماؤں کا مذاق اڑایا گیا ہوتا ہے۔ انھی میں وہ جھوٹی خبر بھی شامل تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ جہادیوں نے 23کارکنوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ ان کی اپنی واٹس ایپ سٹریم انتخابات سے متعلقہ اپ ڈیٹس، بی جے پی کی حمایت میں بنائی جانے والی ویڈیوز اور جعلی خبروں سے بھری ہوئی تھی۔ ان جعلی خبروں میں وہ جعلی سروے بھی شامل تھا جسے بی بی سی سے منسوب کیا گیا تھا اور جس میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ بی جے پی انتخابات میں صفایا کر دے گی۔ کالج کے طالبِ علم پرنو بھٹ نے مجھے بتایا، ’’ہر منٹ میں مجھے کوئی نہ کوئی میسیج ملتا ہے۔‘‘ فیس بک کی مقبول میسجنگ ایپ ’’واٹس ایپ‘‘ ترقی پذیر ملکوں کے انتخابات میں مرکزی کردار حاصل کرتی جا رہی ہے۔ حالیہ مہینوں میں بھارت کی سیاسی جماعتوں، مذہبی کارکنوں اور دیگرافراد نے دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ یا میسجنگ ایپس کی نسبت واٹس ایپ کو زیادہ استعمال کیا اور کرناٹک کے چار کروڑ نوے لاکھ ووٹروں تک پیغامات بھیجے۔ بہت سے پیغامات انتخابی مہم کے عام پیغامات تھے لیکن بعض پیغامات مذہبی منافرت کو ہوا دینے کی نیت سے بھی بھیجے گئے تھے جب کہ بعض پیغامات سراسر جھوٹے اور غلط تھے، جن کے بارے میں پتا لگانا دشوار تھا کہ انھیں سب سے پہلے کس نے بھیجا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس نے دعویٰ کیا کہ 12مئی کو ہونے والے ریاستی انتخابات سے پہلے انھوں نے اپنے اپنے پیغامات پھیلانے کی غرض سے واٹس ایپ پر 50,000گروپ بنائے تھے۔ ان پچاس ہزار گروپوں کے ساتھ ساتھ ایسے گروپ بھی سرگرمِ عمل تھے جن کے بنانے والوں کا کوئی پتا نہیں تھا اور جو ریاست کے ہندووں اور مسلمانوں میں تفرقہ بڑھانے اور دونوں مذاہب کے ماننے والوں میں اشتعال پیدا کرنے والی ویڈیوز، آڈیو کلپس، پوسٹس اور جھوٹی خبریں پھیلا رہے تھے۔ بی بی سی سے منسوب ایک قبل از انتخاب جعلی سروے بڑے پیمانے پر واٹس ایپ پر پھیلایا گیا۔ اس سروے میں، جس کے اوّلین بھیجنے والے کا کسی کو پتا نہیں، پیش گوئی کی گئی تھی کہ کرناٹک میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، جو اُس وقت ریاستی اسمبلی میں بہت تھوڑی نشستوں کی حامل تھی، زبردست کامیابی حاصل کرے گی۔ ایک اور جعلی سروے نئی دہلی میں قائم امریکا کے سفارت خانے سے منسوب کیا گیا تھا۔ ایسے جعلی سروے واٹس ایپ پر لڑی جانے والی سیاسی جنگ میں عام استعمال کیے گئے۔دائیں بازو کے ہندو گروپوں نے ایک ویڈیو کثرت سے بھیجی جس میں دکھایا گیا تھا کہ ہجوم نے ایک عورت کو مار مار کر ہلاک کر دیا۔ جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ عورت ہندو اور ہجوم مسلمانوں کا تھا حالاں کہ وہ ویڈیو گوئٹے مالا کے ایک واقعے کی تھی۔ کسی نامعلوم شخص کی بھیجی ہوئی ایک آڈیو ریکارڈنگ میں زور دیا گیا تھا کہ ریاست کرناٹک کے سارے مسلمان ’’اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لیے‘‘ کانگریس پارٹی کو ووٹ دیں۔ ایک اور واٹس ایپ پیغام میں ہندووں کو مشوہ دیا گیا تھا کہ بی جے پی کو ووٹ دیں کیوں کہ ’’یہ محض انتخاب نہیں، مذاہب کی جنگ ہے۔‘‘
بھارت کی ساری ریاستوں کی طرح کرناٹک میں بھی ہندو اکثریت میں ہیں۔ بھارت کی ہر ریاست کی انتخابی سیاست کا سب سے عام حربہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور ہنددوں کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا جاتا ہے جب کہ ہندووں کی مختلف ذاتوں کو بھی ایک دوسرے کے مقابل صف آرا کر دیا جاتا ہے۔ ’’عام آدمی پارٹی‘‘ نے کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی کی دو سو چوبیس نشستوں میں سے اٹھائیس نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے تھے۔ عام آدمی پارٹی کے چوٹی کے حکمت کار انکیت لال نے کہا کہ واٹس ایپ ڈیجیٹل انتخابی مہم میں سب سے اہم بن گئی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم ٹوئٹر پر گتھم گتھا ہیں۔ ہم فیس بک پر معرکہ آرا ہیں۔ ہم واٹس ایپ پر جنگ لڑ رہے ہیں۔‘‘ ووٹروں کو متاثر کرنے میں واٹس ایپ نے جو کردار ادا کیا، اسے اُس کی ’’سسٹر سروسز‘‘ فیس بک اور اس کے فوٹو شیئرنگ پلیٹ فارم انسٹا گرام کے مقابلے میں کم توجہ دی گئی۔ 2016ء کے امریکا کے صدر کے انتخابات کی انتخابی مہم کے دوران روسی ایجنٹوں نے جس طرح فیس بک اور انسٹا گرام استعمال کرنے والوں کی رائے پر اثر ڈالا، اس کی وجہ سے حالیہ مہینوں میں ان دونوں سروسز کی سختی سے جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ واٹس ایپ اس باعث اس سخت جانچ پڑتال سے بچ گئی کہ اسے زیادہ تر امریکا کے باہر استعمال کیا جاتا ہے ۔ بھارت، برازیل اور انڈونیشیا جیسے ملکوں کے لوگ واٹس ایپ پر روزانہ 60ارب پیغامات بھیجتے ہیں۔ فیس بک اور انسٹا گرام پر تو لوگوں کی سرگرمیاں بڑی حد تک آن لائن سب کے سامنے ہوتی ہیں لیکن واٹس ایپ پر لوگوں کی سرگرمیاں عموماً چھپی رہتی ہیں کیوں کہ یہ افراد کے مابین ذاتی گفت و شنید کے لیے ایجاد کی گئی تھی۔ واٹس ایپ کے بہت سی فیچر ایسے ہیں کہ یہ غلط خبریں پھیلانے اور غلط کام کرنے والوں کے لیے سازگار بن گئی ہے۔ لوگ اپنا نام ظاہر کیے بغیر صرف ایک فون نمبر کو اپنی شناخت بنا کر اس پر سرگرم رہ سکتے ہیں۔واٹس ایپ پر ایک گروپ میں دو سو چھپن افراد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ واٹس ایپ پر گروپ بنانا بہت آسان ہے۔ واٹس ایپ گروپ بنانے والے لوگ اپنے پاس موجود دوسرے لوگوں کے فون نمبروں کے ذریعے انھیں اپنے گروپوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں میں یہ رجحان بھی پایا گیا ہے کہ وہ ایک وقت میں بہت سارے گروپوں کے رکن بن جاتے ہیں، اس لیے ایک ہی پیغام انھیں بار بار ملتا ہے۔ جب کوئی پیغام موصول ہونے کے بعد مزید لوگوں کو بھیجا جاتا ہے تو سب سے پہلے پیغام بھیجنے والے اصل شخص کے بارے میں کوئی اشارہ تک اس میں شامل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ واٹس ایپ پر ہر چیز کو مرموز بنا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کار حتیٰ کہ خود واٹس ایپ بھی اُس وقت تک کسی پیغام کو دیکھ نہیں سکتی جب تک کہ استعمال کنندہ کے فون کی سکرین سامنے نہ ہو۔ گووند راج اتھیراج بھارت میں سیاسی جماعتوں اور حکومت کے دعووں کی حقیقت جانچنے والی دو ویب سائٹوں ’’بوم‘‘ اور ’’انڈیا سپینڈ‘‘ کے بانی ہیں۔ کرناٹک کے ریاستی انتخابات کے دوران ان کی ویب سائٹ ’’بوم‘‘ نے فیس بک کے ساتھ مل کر فیس بک پر نمودار ہونے والی جعلی خبریں شناخت کرنے کا کام کیا۔ گووند راج اتھیراج جعلی خبریں پھیلائے جانے میں واٹس ایپ کے کردار کے باعث اسے ’’موذی ایپ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے انھوں نے دل چسپ الفاظ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’آپ کا سامنا بھوتوں سے ہے۔‘‘ اگرچہ فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکر برگ نے وعدہ کیا ہے کہ انتخابات پر خفیہ طور سے اثر انداز ہونے والے لوگوں کو آئندہ فیس بک اور انسٹا گرام استعمال نہیں کرنے دی جائیں گی لیکن انھوں نے واٹس ایپ کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ یاد رہے واٹس ایپ کو فیس بک نے 2014ء میں 19ارب ڈالر کے عوض خرید لیا تھا۔جہاں تک واٹس ایپ چلانے والے افراد کا تعلق ہے تو ان کا کہنا ہے کہ وہ واٹس ایپ کے غلط استعمال پر فکر مند ہیں۔ واٹس ایپ کی شرائطِ استعمال کے مطابق نفرت پھیلانے والے پیغامات بھیجنا، تشدد کی دھمکیاں دینا اور جھوٹے بیانات دینا منع ہے۔ چند ہفتے پہلے واٹس ایپ کے سسٹمز نے سراغ لگایا کہ کرناٹک میں کوئی آٹومیشن کے استعمال سے واٹس ایپ پر درجنوں گروپ بہت تیزی سے بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کئی لوگوں نے ایسے گروپوں کی جانب سے ’’سپیم‘‘ بھیجے جانے کی شکایت کی تو کمپنی نے ایسے سارے گروپ بلاک کر دیے۔ واٹس ایپ نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ ان گروپوں کے بنانے کے حوالے سے اسے کس پر شبہ ہے۔ واٹس ایپ نے ایک بیان میں کہا، ’’ہم لوگوں کو گروپوں پر مزید کنٹرول دینے کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں اور خودکار طریقے سے بنائے گئے مواد کو بلاک کرنے کے لیے ٹولز بنا رہے ہیں۔‘‘ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو واٹس ایپ کے حفاظتی فیچر کا استعمال سکھانے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور لوگوں کو یہ بھی سکھا رہے ہیں کہ وہ جعلی خبروں اور فریب کاری کو کس طرح پہچان سکتے ہیں۔ بھارت کی کانگریس پارٹی، جس نے اس کی آزادی کے بعد کا زیادہ عرصہ اس پر حکومت کی ہے، مرکزی حکومت اور کئی کلیدی ریاستوں کی حکومت کھو چکی ہے لیکن کرناٹک میں وہ اپنا اقتدار برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ کرناٹک کے حالیہ انتخابات کے نتائج پر واٹس ایپ نے کیا اثر ڈالا، یہ کبھی واضح نہیں ہو سکے گا۔ اگرچہ واٹس ایپ نے ٹیکسٹ میسجز اور ای میل کی جگہ لے لی ہے لیکن انتخابی مہم کے پرانے حربے مثلاً جلسے جلوس، ٹیلی ویژن اور اخبارات میں اشتہارات، گھر گھر جا کر ووٹروں کو قائل کرنا اور ووٹ خریدنا آج بھی غالب ہیں۔
نئی دہلی کے سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے لیے عوام کے انتخابی رویے کا جائزہ لینے کی غرض سے کرناٹک کا دورہ کرنے والے نیلنجن سرکار کہتے ہیں کہ واٹس ایپ کے پیغامات کے سیلاب نے ووٹروں کی سیاسی رائے تو تبدیل نہیں کی لیکن انھوں نے جذبات کو مہمیز ضرور دی اور اُن علاقوں میں ووٹ زیادہ تعداد میں ڈالے جانے کا سبب بنے جہاں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تفریق زیادہ پائی جاتی ہے۔ نیلنجن سرکار کہتے ہیں، ’’واٹس ایپ نے یہ ضرور کیا ہے کہ وہ لوگوں کو گھروں سے باہر نکال لائی ہے۔‘‘ریاست کرناٹک کے حکام نے بتایا ہے کہ اس مرتبہ 72فی صد ووٹروں نے ووٹ ڈالے، جو 1952ء کے بعد سے ریاست میں ووٹ ڈالے جانے کی تاریخ کی سب سے اونچی شرح ہے۔ جب چار سال پہلے نریندر مودی نے اقتدار حاصل کیا تھاتو اس وقت ووٹروں کو ان کی طرف مائل کرنے میں فیس بک نے سب سے اہم ڈیجیٹل ذریعے کا کردار ادا کیا تھا لیکن پچھلے ڈیڑھ برسوں کے دوران بھارت میں سمارٹ فون کا استعمال بہت زیادہ بڑھ جانے سے واٹس ایپ بھارت میں رابطے کا بنیادی ذریعہ بن چکی ہے اور انتخابی مہم کے پیغامات پھیلانے کے لیے اسے ترجیح دی جا رہی ہے۔ مثال کے طور سے 2017ء کے اوائل میں ہونے والے اتر پردیش کے ریاستی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کے پیغامات ہر ضلع اور ہر بستی تک پہنچانے کے لیے 6,000سے زیادہ واٹس ایپ گروپ بنائے تھے۔وہاں اس کی بھرپور کامیابی نے کانگریس کو تحریک دی کہ وہ بھی اپنی ’’واٹس ایپ آرمی‘‘ کو حرکت میں لائے۔ چناں چہ جب کرناٹک کے ریاستی انتخابات کے لیے سرگرمِ کار ہونے کا وقت آیا تو دونوں جماعتوں نے واٹس ایپ سے بھرپور استفادہ کیا۔ کانگریس پارٹی کے مرکزی ترجمان رَن دیپ سنگھ سرجی والا کہتے ہیں، ’’واٹس ایپ نیوکلیئر چین ری ایکشن کی طرح کام کرتی ہے۔‘‘ کرناٹک کی پچھلی قانون ساز اسمبلی کے رکن یو ٹی کھادر نے پہلی بار انتخابات میں واٹس ایپ کا اثر دیکھا۔ وہ کانگریس پارٹی کے مسلمان رکن ہیں اور حالیہ ریاستی انتخابات کے دوران منگلور پولیس کے بقول ایک نئی طرز کے واٹس ایپ حملے کا ہدف تھے۔ انھیں اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار بنائے جانے کے حوالے سے واٹس ایپ پر ہندووں اور مسلمانوں کے مابین گالم گلوچ اور دھمکیوں سے بھرے آڈیو پیغامات کثرت سے پھیلائے گئے تھے۔ ایسے ایک آڈیو میسیج میں، جو ایک لمبی فون کال کی ریکارڈنگ ہے، ایک شخص دوسرے شخص کو ڈراتے دھمکاتے ہوئے کہتا ہے کہ زعفرانی رنگ کی شال یو ٹی کھادر پر ڈال دو۔ یاد رہے بی جے پی زعفرانی رنگ کو ہندو مذہب کی علامت ہونے کے ناتے بہت اہمیت دیتی ہے۔اس آڈیو میسیج میں ایک شخص کہتا ہے، ’’تم نے کھادر پر زعفرانی شال کیوں نہیں ڈالی؟ تمھیں اپنی جان پیاری نہیں ہے کیا؟ اگر میں تمھیں خنجر گھونپ دوں تو کیا کھادر تمھیں بچانے آئے گا؟‘‘ ایسا لگتا ہے دوسرا میسیج کسی مسلمان کا تھا، جو پہلے میسیج کے جواب میں جاری کیا گیا تھا۔ اس میں گالی دیتے ہوئے کہا گیا تھا، ’’۔۔۔ کے بچے، میں تمھیں وارننگ دیتا ہوں۔ میں تمھیں باہر نکال لاؤں گا۔‘‘ یہ میسیج بہت سارے واٹس ایپ گروپوں میں بھیجا گیا تھا، اس لیے اسے بہت سارے لوگوں نے سنا تھا۔ یو ٹی کھادر تقریباً دس سال سے اس علاقے کی نمائندگی کر رہے ہیں اور پچھلی مرتبہ وہ اپنے مدِ مقابل امیدوار کی نسبت بہت زیادہ ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ یہ گفتگوئیں جعلی ہیں اور سٹوڈیو میں تیار کی گئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ واٹس ایپ کی سماجی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے نفرت پر مبنی پیغامات کو روکے۔ تاہم انھیں یہ بھی یقین تھا کہ منفی پیغامات کا الٹ اثر ہو رہا ہے اور انھیں اپنے حلقے کے زیادہ ووٹروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے جن میں سے نصف مسلمان اور نصف ہندو ہیں۔ یوں واٹس ایپ دوسرے انداز سے ان کی انتخابی مہم میں فائدہ بخش ثابت ہوئی۔ یو ٹی کھادر نے کہا، ’’ٹی وی چینل اور اخبارات عمومی طور سے مجھے نظر انداز کر رہے ہیں۔ ایسے میں واٹس ایپ نے مجھے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کی مدد کے بغیر اپنے سپورٹروں تک پہنچنے میں مدد دی۔‘‘
کالج کے طالبِ علم اور بی جے پی کے نوجوان راہنما پرنو بھٹ کہتے ہیں کہ واٹس ایپ ان کے لیے بھی فائدہ بخش ثابت ہوئی ہے۔ ہفتے کے روز ووٹنگ مکمل ہو جانے کے بعد انھوں نے کہا کہ انھیں جن ساٹھ افراد کو قائل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، ان میں سینتالیس افراد ان کے واٹس ایپ پیغامات کی وجہ سے بی جے پی کو ووٹ دینے پر آمادہ ہو گئے، جن میں سے تیرہ افراد ایسے تھے جنھوں نے پہلے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا تھا۔پرنو بھٹ نے کہا، ’’میں انھیں بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالنے پر قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛  ترجمہ: محمد احسن بٹ)

امریکا کی نئی ویزا پالیسی اور غیر ملکی طلبا

امریکا کی نئی ویزا پالیسی اور غیر ملکی طلبا

ایریکا ایل گرین

ٹرمپ ایڈمنسٹریشن ان طلبا اور سیاحوں کو پکڑنے کے لیے چھاپے مارنے کا سلسلہ شروع کرنے والی ہے جو اپنے ویزوں کی مدت ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں قیام پذیر ہیں۔ اس سے ہائر ایجوکیشن کے ادارے اس خوف میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ امیگریشن پالیسیاں یونیورسٹیوں کی ان کوششوں میں رکاوٹ ڈالیں گی جو وہ دوسرے ملکوں کے ذہین طلبا کو مائل کرنے کے لیے کرتی ہیں۔ ’’یونائیٹڈ سٹیٹس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘نے اسی مہینے اپنے ایک پالیسی میمورنڈم میں اعلان کیا ہے کہ اس نے سٹوڈنٹ ویزا اور ایکسچینج پروگرام کے تحت معینہ مدت سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد امریکا میں ’’غیر قانونی طور سے موجود‘‘ غیر ملکیوں کو شمار کرنے کے طریقے میں تبدیلی لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ’’یونائیٹڈ سٹیٹس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ان طلبا کو زیادہ سخت سزائیں بھی دے گی، جو اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں مقیم ہیں ۔۔۔ امریکا میں داخلے پر دس سالہ پابندی لگانا بھی ان سزاؤں میں شامل ہے۔ اس پالیسی کا نفاذ اگست سے ہو رہا ہے۔ امریکا کے ہائر ایجوکیشن کے اداروں اور طلبا کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم افراد اور تنظیموں نے اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس تبدیلی سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ’’امریکا فرسٹ‘‘ پالیسی کی غیر منصفانہ نوعیت عیاں ہو رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امیگریشن کے حوالے سے جارحانہ پالیسی قوم کے ان ممتاز اہلِ علم کی راہیں مسدود کر رہی ہے جن سے امریکا کی معیشت کو اربوں ڈالر کا فائدہ ہو رہا ہے، جو اس کے صفِ اوّل کے تحقیقی اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں، انتہائی اعلیٰ مہارتوں کے متقاضی مناصب پر فائز ہیں اور خود صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹیکنالوجی، ریاضی، انجنیئرنگ اور سائنس سے متعلقہ ملازمتوں کو فروغ دینے کے مقصد کی آب یاری کر رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ایجوکیٹرز نافسا کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر فار پبلک پالیسی جل ویلش کہتی ہیں، ’’یہ امر واضح ہے کہ حکومت ’عوام کا زیادہ تحفظ‘ کرتے ہوئے تعلیمی ٹیلنٹ کے لیے دروازے مزید بند کر رہی ہے۔ یہ ایک اور پالیسی ہے جو امریکا کو دوسرے ملکوں کے باصلاحیت طلبا کے لیے کم پُرکشش بنا رہی ہے۔‘‘ اب تک تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے ملک کی سرحدوں پر توجہ مرکوز کر رکھی تھی اور ان کی سخت الفاظ پر مشتمل تقریروں نے مجرم گروہوں پر گھبراہٹ طاری کی ہوئی تھی لیکن جنوری 2017ء میں انھوں نے ایک انتظامی حکم جاری کیا جس سے یہ واضح ہو گیا کہ ویزا کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں مقیم طلبا اور دوسرے لوگوں کی شامت آنے والی ہے۔ مذکورہ انتظامی حکم میں کہا گیا ہے کہ ’’غیر قانونی طریقوں سے امریکا میں داخل ہونے والے بہت سے غیر ملکی اور ایسے لوگ جو اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں یا وہ لوگ جو اپنے ویزوں کی شرائط کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، وہ قومی سلامتی اور تحفظِ عامہ کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔‘‘ تخمینہ لگایا گیا ہے کہ امریکا میں جتنے بھی غیر ملکی متعلقہ حکومتی اداروں میں اندراج کروائے بغیر مقیم ہیں، ان میں سے نصف ایسے غیر ملکی ہیں جن کے ویزوں کی میعاد ختم ہو چکی ہیں لیکن وہ اس کے باوجود واپس نہیں گئے اور امریکا ہی میں رہ رہے ہیں۔
امریکا کے داخلی سلامتی کے محکمے نے حال ہی میں جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، ان سے عیاں ہوتا ہے کہ عارضی قیام کے ویزے پر امریکا آنے والے افراد میں سے جو لوگ اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں، ان میں طلبا اور ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکا آنے والوں کی شرح زیادہ ہے ، جو 2.8فی صد ہے۔ امیگریشن حکام کہتے ہیں کہ نئی پالیسی محولہ بالا انتظامی حکم سے ہم آہنگ ہے۔ ’’سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز‘‘ کے ڈائریکٹر ایل فرانسس سِسنا نے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ویزا کے حامل افراد کو ’’کسی نہ کسی خاص مقصد کے تحت امریکا میں آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اگر وہ اپنے قیام کا مقصد پورا ہو جانے کے بعد بھی امریکا میں رہ رہے ہیں تو ہم انھیں ڈی پورٹ کر سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ قانونی طریقے سے امیگریشن سٹیٹَس حاصل کریں۔‘‘ مجوزہ ضوابط ایف اور ایم ویزا کو نشانہ بنائیں گے، جو دوسرے ملکوں کے ایسے طلبا ستعمال کرتے ہیں جنھیں امریکا کے ہائر ایجوکیشن کے تعلیمی یا تیکنیکی تربیت کے اداروں میں داخلہ لینا ہوتا ہے۔ اسی طرح جے ۔ 1 ویزا بھی متاثر ہو گا، جو غیر ملکی طلبا، پروفیسروں اور سیاحوں کو مختصر مدت کے ثقافتی تبادلے کے پروگراموں میں شرکت کرنے کے لیے جاری کیا جاتا ہے۔ نئی پالیسی کے تحت حکومت امریکا میں ’’غیر قانونی موجودگی‘‘ اس تاریخ سے شمار کرے گی جس تاریخ کو غیر ملکی افراد کا امریکا آنے کا مقصد پورا ہو گیا تھا جیسے کہ کسی طالبِ علم کی تعلیم کا مکمل ہو جانا۔ موجودہ پالیسی بیس سال پہلے نافذ کی گئی تھی۔ اس کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی امریکا میں مقیم شخص جب پکڑا جاتا ہے، اس کی غیر قانونی موجودگی اس کے پکڑے جانے کے دن سے شمار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ نئی پالیسی میں معافی کا امکان بھی بہت کم رکھا گیا ہے۔ جو افراد اپنے ویزوں کی میعاد ختم ہونے کے بعد امریکا میں 180دن سے مقیم ہوں گے، ان کے امریکا میں دوبارہ داخل ہونے پر تین سے دس سال تک کے لیے پابندی عائد کر دی جائے گی۔ کوئی شخص اپنے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد جتنے زیادہ دن امریکا میں غیر قانونی طور سے رہ رہا ہو گا اس کو اتنی ہی زیادہ سخت سزا دی جائے گی۔ امریکا کی موجودہ پالیسی طلبا کو عموماً اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے ویزے کی میعاد ختم ہو جانے پر اپنے ملک واپس جائیں اور دوبارہ ویزے کے حصول یا اپنے موجودہ ویزے کو اپ ڈیٹ کرنے کی درخواست دے دیں۔یہ عمل مکمل ہونے کے بعد وہ امریکا واپس آ سکتے ہیں۔
لاس اینجلس کی ایک لیگل فرم ’’سیفرتھ شا‘‘کے لیے خدمات انجام دینے والے وکیل اینجلو اے پیپاریلی کہتے ہیں کہ نئی پالیسی میں اعلان کردہ سخت سزائیں بالخصوص تھرتھری طاری کر دینے والی ہیں کیوں کہ چھوٹی سی غلطی پر بہت بڑی سزا دی جا سکتی ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اگر کسی پر تین یا دس سال کی پابندی عائد کر دی گئی ہو تو کوئی امیگریشن اٹارنی اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘انھوں نے مزید کہا کہ ایسے طلبا کے لیے اِس قانون کے مطابق عمل کرنا ممکن نہیں ہو گا جو نئے ویزے کے حصول یا پرانے ویزے کی تجدید کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ جو طلبا تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد مزید تعلیم کے حصول یا ملازمت کرنے کے لیے اپنا ویزا استعمال کرتے ہیں، وہ بالخصوص اس نئی پالیسی کی سخت شرائط کا نشانہ بنیں گے۔ یہ طے کرنا ایک داخلی معاملہ ہے کہ ان کی ملازمتیں امریکا میں ان کے قیام کے مخصوص تقاضے پورے کرتی ہیں یا نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ خلاف ورزی کریں گے تو ان کا یہ عمل ان پر خودکار طریقے سے پابندی عائد ہونے کا باعث بن جائے گا۔غیر ملکی طلبا کے ساتھ مل کر کام کرنے والے منتظمین پریشان ہیں کہ انھیں زندگی کی ایسی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر سزا دی جائے گی جن سے ملکی طلبا کو فائدہ ہوتا ہے۔ بہت سے طلبا اس وجہ سے اپنے ویزے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی رہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ ذہنی صحت کے مسائل کی وجہ سے یا خاندان کے کسی مسئلے کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنے یا اپنے خاندان کی مدد کے لیے جز وقتی ملازمت کرنے کے نتیجے میں اپنا کورس مکمل نہیں کر پاتے۔ ریاستِ نیو یارک کی یونیورسٹی کے غیر ملکی طلبا کی خدمات کے شعبے کی ڈائریکٹر کیٹی ٹوڈینی کہتی ہیں، ’’جب طلبا بحران میں ہوتے ہیں تو بہت سی چیزیں ان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں وہ ویزے کی میعاد ختم ہونے کا خیال نہیں رکھ پاتے۔‘‘ بون، این سی کی اپالاچیان سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل سٹوڈنٹس اینڈ سکالر سروسز اینڈ آؤٹ ریچ کے ڈائریکٹر ایڈم جولیان نے کہا کہ امریکا کے امیگریشن کے نظام میں غیر ملکی طلبا کی جانچ پڑتال سب سے زیادہ ہوتی ہے کیوں کہ ان کو ویزے لینے کے لیے اپنے داخلوں کی معلومات مسلسل مہیا کرنا ہوتی ہیں جیسا کہ پتا اور کالج یا یونیورسٹی میں کل وقتی حیثیت۔ اب کالج یا یونیورسٹی کے اہل کار چھوٹی سی غلطی پر بھی طلبا کو ویزے کی میعاد کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار دے سکیں گے۔ انھوں نے کہا، ’’بہرحال ہم پوری تن دہی سے طلبا کو آگاہ کر رہے ہیں کہ یہ نئی حقیقت ہے یعنی یہ کہ آخرِ کار امریکا ایک ایسا ملک بننے والا ہے جو غیر ملکی اہلِ علم کی صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...