صرف جنوبی افریقا کو اس کی بد عنوانی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنانا منصفانہ عمل نہیں ۔ وہ ذیلی صحارائی افریقا کے ملکوں میں بد عنوانی کا بدترین مجرم نہیں ہے جب کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی فہرست کے مطابق بھارت جیسے دنیا کے بدعنوان ترین ملکوں سے تو ہزار درجہ بہتر ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی افریقا فعال جمہوری اداروں اور جاں دار پریس کا حامل بھی ہے۔ بہرحال ملکوں کو دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابل رکھ کر جانچنے کی بجائے انھیں ان کے اپنے امکانات اور وعدوں کی روشنی میں جانچا جانا چاہیے۔اس زاویے سے دیکھا جائے تو جس افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) نے نیلسن منڈیلا کی قیادت میں چوتھائی صدی پہلے نسل پرستی پر فتح پائی تھی، اب اس کے گلے میں بد عنوانی کا طوق پڑ چکا ہے۔ نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی نوریمیٹسو اونیشی اور سلام جبریکیدان کی رپورٹ کے مطابق یہ امر بطورِ خاص غصہ دلانے والا ہے کہ ریاست کے خزانے سے اڑا لیے جانے والے کروڑوں ڈالر نسل پرستی کے منفی اثرات کے باعث پس ماندگی سے دوچار غریبوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ جہاں سیاسی اعتبار سے آپس میں جڑی کمپنیاں اور افراد دولت مند ہو چکے ہیں، وہاں اُن کے اور غریبوں کے مابین خلا بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ یاد رہے غریبوں میں زیادہ تعداد سیاہ فاموں کی ہے۔ ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل بینک فار ری کنسٹرکشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق نسل پرستی کے خاتمے کے بعد تھوڑی بہت ترقی کے باوجود جنوبی افریقا اب بھی ’’دنیا کے ان ملکوں میں سے ایک ہے جہاں نابرابری اور عدم مساوات سب سے زیادہ ہے۔‘‘
تبدیلی کا امکان اس وقت واضح ہوا جب بالآخر فروری میں افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) نے صدر جیکب زوما کو زبردستی ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جیکب زوما کے اقتدار کے نو (9 ) سال انتہائی گھناؤنی بد عنوانی سے لتھڑے ہوئے تھے۔ اب وہ بد عنوانی، بد دیانتی، فراڈ اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے بعد صدارت کے منصب پر متمکن ہونے والے سرل رامافوسا نے اپنے اوّلین صدارتی خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ ’’اس سال ہم اپنے سرکاری اداروں سے بد عنوانی کی لہر کا رُخ موڑ دیں گے۔‘‘ بہرحال سرل رامافوسا خود بھی افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کے پرانے رکن ہیں اور ان کے پاس جتنی دولت موجود ہے، اس کا بڑا حصہ انھوں نے پارٹی سے اپنے تعلق کے ذریعے کمایا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کابینہ میں ایسے لوگ شامل ہیں جن پر بد عنوانی کے الزامات ہیں۔ ہو سکتا ہے خود نیلسن منڈیلا اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہوں کیوں کہ جب انھوں نے سفید فام اقلیت کے ساتھ عظیم معاہدہ کیا تھا تب سفید فام اقلیت نے آخرِ کار سیاست کا کنٹرول تو سیاہ فام اکثریت کے حوالے کر دیا تھا لیکن بہت سے معاشی وسائل سفید فاموں ہی کے ہاتھوں میں رہ گئے تھے۔ نیو یارک ٹائمز کے محولہ بالا مضمون کے مطابق اس کے سبب رشوت لینے دینے کی ترغیب ملی تھی۔ جہاں خامیوں سے معمور انتقالِ اقتدار بد عنوانی میں اضافے کا باعث بنا، وہاں ان حکام کی بد دیانتی و خیانت کا کوئی جواز نہیں جنھوں نے نیلسن منڈیلا کی قیادت میں برپا ہونے والی تحریک کے آدرشوں اور آرزووں کے تحت پرورش پائی تھی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سرل رامافوسا اور افریقن نیشنل پارٹی (اے این سی) ان آدرشوں اور آرزووں کو پورا کرنے کے اہل ہیں یا نہیں؟