Thursday, May 31, 2018

مشرقِ وسطیٰ، ٹرمپ اور پوٹن

مشرقِ وسطیٰ، ٹرمپ اور پوٹن

رابرٹ فسک

وِلادی میر پوٹن کو شامی توپ خانے کے نزدیک اُس مقام پر گہری توجہ دینا پڑے گی جہاں گذشتہ اختتامِ ہفتہ چار روسی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دیر الزور کے گرد واقع صحرا ایک خطرناک مقام ہے ۔۔۔ سیاسی اعتبار سے بھی اور طبعی اعتبار سے بھی ۔۔۔ جہاں امریکی اور روسی جنگ کا انتہائی خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔
پوٹن کو اب بھی شبہ ہے کہ امریکیوں نے ایک سال سے بھی تھوڑا عرصہ پہلے توپ خانے کے اُس حملے کے لیے آرٹلری گائیڈینس مہیا کی تھی جس میں دیر الزور کے مقام پر روس کی فار ایسٹ ففتھ آرمی کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ویلیری ایساپوف ہلاک ہو گئے تھے۔ کیا توپوں سے داغے جانے والے وہ بم امریکا کے حامی کرد جنگجووں نے داغے تھے؟ یا انھیں آئی ایس آئی ایس نے داغا تھا؟ روسی کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایس کے گشتی حملہ آوروں نے اس ہفتے کے اختتام پر رات کے وقت شامی توپ خانے کے مورچوں پر حملہ کیا تھا ۔۔۔ اسلامسٹوں کی معمول کی کارروائی، جس میں وہ خود کش ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں پر صحرائی وادیوں سے نکل کر حملے کرتے ہیں ۔۔۔ حالاں کہ شامی فوج کے چھوٹے چھوٹے قلعے، پوری ریتلی سطح مرتفع پر ریت اور سیمنٹ سے تعمیر کیے گئے پشتے، ناقابلِ تسخیر تصور کیے جاتے ہیں۔
سو اَب روسی توپ خانے سے اپنے احکامات کے تحت گولہ باری کروا رہے ہیں۔ پہلے وہ شامی فوج کو فضائی مدد مہیا کر رہے تھے۔ ان کی فضائیہ کے آبزرور اگلے مورچوں پر جا کر شام کے صدر بشار الاسد کے دشمنوں پر حملوں کے لیے سخوئی طیاروں کی رہنمائی کرتے تھے۔ پھر روسیوں نے پالمیرا، دیر الزور، حمص اور حلب سے بارودی سرنگیں صاف کرنے کا کام انجام دیا۔ اس کے بعد روسی ملٹری پولیس شکست خوردہ جہادیوں کو صوبہ ادلب کے ویرانوں یا ترکی کی سرحد تک پہنچا کر آئی۔ روسی ہی دریائے فرات پر شامیوں اور امریکا کے حامی کردوں کے مابین رابطے کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔
بارہ مہینے پہلے ولادی میر پوٹن کے توپ خانے کے چوٹی کے ٹیکنیشن حلب میں ملبہ کریدکرید کر سخت مشکل اٹھا کر بموں کے گرنے کے نقشے تیار کر رہے تھے ۔۔۔ یعنی روسیوں کے فضا سے گرائے گئے بموں کے خول اور دھماکوں کے اثرات کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لے رہے تھے۔ میں ان میں سے ایک ٹیم سے ملا تھا۔ بلاشبہ اس کی خبریں گردش کرتی روسی فوجی انٹیلی جنس تک بھی پہنچ گئی تھیں لیکن وہ پہلے براہِ راست کریملن پہنچی تھیں۔
ولادی میر پوٹن نے وہ خبریں خود پڑھی تھیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھنے والے حکمران ہیں۔ شام میں اس طرح کا المیہ رونما نہیں ہو گا جیسے برزنیف کے دور میں افغانستان میں رونما ہوا تھا ۔۔۔ یا روسی یہ دعا مانگتے ہیں ۔۔۔ نہ دریائے آمو کے پار سیاسی جرنیلوں کی تن آسانی سے ہونے والی پسپائی کی طرح پسپائی ہو گی اور نہ ہی کریملن سستی سے کام لے گا۔ روسی افسر اچھی عربی بولتے ہیں (اور کافی اچھی انگریزی بھی) ۔۔۔ ماسکو سکول آف فارن لینگوئجز کی پیداوار ۔۔۔ اور شامی فوج کے افسروں کی طرح ان کے افسر بھی میدانِ جنگ میں اگلے مورچوں تک جاتے ہیں۔
لیفٹیننٹ ایساپوف اسی باعث تو ہلاک ہوئے تھے۔ ولادی میر پوٹن نے اپنے چیچنیائی اور روسی جہادی دشمنوں کا پیچھا شام تک کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ اور ان سب کو ہلاک کر دیا۔ انھوں نے اپنے اتحادی بشار الاسد کو بچا لیا لیکن اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ ایک آدھ انتباہ لینے دینے اور بعد میں معافی مانگ لینے والے اردوان کی جانب سے ایک روسی طیارہ مار گرائے جانے کے سوا ۔۔۔ وہ اسرائیل، ایران، ترکی، مصر، لبنان، سعودی عرب وغیرہ وغیرہ کے قابلِ اعتبار دوست رہے ہیں۔
ولادی میر پوٹن نے شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ جنگ میں واشنگٹن میں موجود اپنے فاتر العقل ہم منصب کے ساتھ شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے ایک اصطلاح استعمال کی، جو ہر ڈکٹیٹر، وزیرِ اعظم، مافیائی مطلق العنان حاکم، بادشاہ، صدر، قتلِ عام کروانے والے جابر، اجرت پر کام کرنے والے ماہرِ تعلقاتِ عامہ یا چاپلوس مدیر تک سب کو متحد کر دیتا ہے: ’’وار آن ٹیرر‘‘۔
میرا خیال ہے ولادی میر پوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ یہ پیچیدہ و مبہم فقرے تقریباً برابر تعداد میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ عوام کے لیے گپ ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کریملن میں موجود کوئی کلبی اسے استعمال کرتا ہے یا وائٹ ہاؤس میں موجود مضحک شکل کا کوئی شخص اسے استعمال کرتا ہے، جو مکمل مسخرہ ہے۔ بہر حال بلاشبہ ولادی میر پوٹن ایک ایسے انسان ہیں جو ہر طرح کی صورتِ حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وہ شام کو ’’بچانے‘‘ پر بشار الاسد کی تعریف و تحسین قبول کرتے ہیں۔ وہ اسرائیل کے نسل پرست وزیرِ دفاع اویگڈور لائبرمین کو ’’ذہین‘‘ کہتے ہیں۔ بلاشبہ کریملن میں ہونے والے ایک اجلاس کے ایک روسی ترجمے میں ولادی میر پوٹن کے حوالے سے یہ دعویٰ بیان کیا گیا ہے کہ لائبرمین ۔۔۔ سابق سوویت یونین کے ایک نائٹ کلب کے سابق دربان ۔۔۔ ’’ایک عظیم روسی ہیں۔‘‘ بنجامن نیتن یاہو کا کریملن میں ہمیشہ خیر مقدم کیا جاتا ہے، خواہ وہ شام میں ایرانیوں پر بم باری کروا رہے ہوں۔ سلطان اردوان آف ترکی، جن کی ایئر فورس نے پوٹن کا ایک جیٹ مار گرایا تھا، اس وقت پوٹن کو دوست بنانے دوڑے دوڑے پہنچ گئے تھے جب روسیوں نے تعطیلات میں سیر و سیاحت کا بند و بست کرنے والوں سے کہا تھا کہ ترکی کی ساحلی سیاحتی صنعت کا صفایا کر دیں۔ جب ولادی میر پوٹن استنبول جا کر اردوان کے سونے کے محل میں ان سے ملنے گئے تھے، تب انھوں نے عین توپ کاپی کے سامنے ٹھیک باسفورس کے وسط میں اپنے ہیلی کاپٹر کیریئر کو ٹھہرایا تھا۔
مصر کے سیسی ولادی میر پوٹن کو قاہرہ کے ایک اوپرا لے گئے تھے۔ کریملن میں ولادی میر پوٹن نے سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ کا استقبال کیا۔ انھوں نے قطریوں کا بھی خیر مقدم کیا۔ وہ ایران کے روحانی کی پسندیدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب سپریم لیڈر خامنائی مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی مداخلت کی برائیاں بیان کرتے ہیں (صرف دو سال پہلے) تو وہ ۔۔۔ یقینی طور سے، ان کی طرف غصے سے تکتے ہوئے ۔۔۔ سنتے ہیں۔
شکر ہے ایرانیوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران شمالی ایران پر روس کے حملے کا ذکر نہیں کیا، نہ ہی جنگ کے بعد آذربائیجان اور ایرانی کردستان میں مہاباد میں سوویتیں قائم کرنے کا ذکر کیا۔ سیسی سے زیادہ کوئی یاد نہیں کرتا کہ سادات نے 1972ء میں کس طرح روسیوں کو مصر سے نکال باہر کیا تھا۔ پوٹن سے زیادہ کسی نے اسد سے نہیں کہا ہو گا کہ کس طرح دمشق کے نوجوان شیر نے مغرب سے فلرٹ کیا ہے اور 2008ء میں نکولس سرکوزی کے ساتھ بیستائل ڈے پریڈ میں شرکت کی ۔۔۔ ٹرمپ نے بھی پچھلے سال اسی طرح کی فوجی یاوہ گوئی کی ۔۔۔ اور 2000 ء میں فرار ہو کر روس چلے جانے والے چیچنیائی باغیوں کے حوالے سے روسی درخواستوں کا عوام کے سامنے جواب دینے سے ا نکار کر دیا۔
لیکن لیبیا کی بربادی کے بعد جب ولادی میر پوٹن کے مغربی ہم منصبوں نے بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی تو انھوں نے انھیں اس کا ذرا سا بھی موقع نہیں دیا۔ بحیرۂ روم سے روسیوں کی اس سے زیادہ شرم ناک پسپائی کوئی اور نہ ہوتی۔
جب بعد میں روسیوں نے امریکا کے تربیت یافتہ اسلامسٹ لیبیائی فوج کے لارڈ آف وار خلیفہ ہفتار سے گفت و شنید کرنا چاہا تو وہ اسے ہیلی کاپٹر میں اٹھا کر سمندر میں لنگر انداز روسی کیریئر پر لے گئے تھے۔ جب امریکیوں نے شکایت کی کہ شام میں روسیوں کے فضائی حملے صرف سی آئی اے کی پسندیدہ (اور کافی افسانوی نوعیت کی) ’’فری سیریا آرمی‘‘ کے باغیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تو روس کے وزیرِ خارجہ سرگی لیواروف نے ہیبت ناک انداز میں جواب دیا تھا کہ ’’اگر وہ دہشت گرد جیسا لگتا ہو، اگر وہ دہشت گرد کی طرح کارروائی کر رہا ہو، اگر وہ دہشت گرد کی طرح چل رہا ہو ۔۔۔ تو وہ دہشت گرد ہے۔‘‘
ولادی میر پوٹن نے ان روسی کرائے کے قاتلوں کے ہلاک ہونے پر بہت کم آنسو بہائے تھے، جو شام میں کردوں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے، اسی طرح جیسے انھوں نے آفرین میں ترک فوج اور آئی ایس آئی ایس سے تعلق رکھنے والے جنگجووں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو جانے والے کردوں پر بھی بہت کم آنسو بہائے تھے۔ یہ ڈیل سادہ سی لگتی ہے۔ یہ کہ ترک صوبہ آفرین لے سکتے ہیں ۔۔۔ تھوڑے وقت کے لیے ۔۔۔ بشرطے کہ وہ شامیوں اور روسیوں کو مستقبل میں صوبہ ادلب سے اسلامسٹوں کا صفایا کرنے دیں (نوٹ: اس جنگ کا انتظار کیجیے)۔


(بشکریہ د ی  انڈی پینڈنٹ؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...