مصنف: کرِس بکلی
دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک اور دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی کے راہنما کی حیثیت سے چین کے صدر شی جِن پِنگ کے لیے بہت سے معاملات فکر مندی کا سبب ہیں۔ ایک نئی کتاب ان معاملات پر روشنی ڈالتی ہے جو امکاناً انھیں راتوں میں جگائے رکھتے ہیں۔ ’’قومی سلامتی‘‘ کے بارے میں چین کے صدر شی جِن پِنگ کے خیالات پر مبنی 272صفحات کی کتاب میں ان کے وہ تبصرے بھی شامل ہیں جو اس سے پہلے شائع نہیں ہوئے اور جو اُن کو تحریک دینے والے عوامل کی کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے کی نسبت زیادہ واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان کے بیانات کا انتخاب ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
ٹیکنولوجی کی دوڑ جیتنا: چین اور امریکا کے مابین حالیہ تجارتی تنازعے نے ٹیکنولوجی کے میدان میں چین کے خود انحصار بننے کے شدید اشتیاق کی طرف توجہ دلائی۔ زیرِ نظر کتاب سے عیاں ہوتا ہے کہ حالیہ تنازعے سے بہت پہلے ہی صدر شی جِن پِنگ تہیہ کر چکے تھے کہ چین کو اپنے مائیکرو چپس، آپریٹنگ سسٹمز اور دوسری بنیادی ٹیکنولوجیوں میں ماہرِ کامل بنانا ہے۔ دو تقریروں میں ۔۔۔ جولائی 2013ء اور اگست 2013ء میں ۔۔۔ صدر شی جِن پِنگ نے واضح اور غیر مبہم انداز میں کہا تھا کہ مغرب کو ٹیکنولوجی کی وجہ سے دنیا پر غلبہ حاصل ہوا تھا۔ ’’ایڈوانسڈ ٹیکنولوجی جدید ریاست کا سب سے کارگر ہتھیار ہے۔ جدید زمانے میں مغربی ملکوں کے دنیاپر غالب آنے کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ ان کے پاس ایڈوانسڈ ٹیکنولوجی تھی۔ آپ بنیادی نوعیت کی حقیقی ٹیکنولوجیاں خرید نہیں سکتے۔ یہ درست کہا جاتا ہے کہ ’کسی ریاست کے سب سے کارگر ہتھیار کو سب کے سامنے نہیں لانا چاہیے۔‘ ہماری ٹیکنولوجی ترقی یافتہ ملکوں کی ٹیکنولوجی سے پیچھے ہے اور ہمیں فوائد کے حصول کے لیے ان ملکوں سے آگے نکلنے کے لیے غیر معمولی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔‘‘
انٹرنیٹ کا استعمال: انٹرنیٹ کے متعارف کروائے جانے کے وقت سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے راہنما اسے تخریب اور جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ صدر شی جِن پِنگ نے اگست 2013ء میں پروپیگنڈا کے موضوع پر تقریر کی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے امریکا کی نگرانی کرنے کی جو اہلیتیں افشا کی ہیں، ان کے بارے میں انھیں تشویش ہے۔ ’’رائے عامہ پر قابو پانے کی کش مکش میں انٹرنیٹ سب سے بڑا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔ بعض ساتھیوں نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ ’سب سے بڑا تغیر‘ ہے جس کا ہمیں سامنا ہے اور اگر ہم اس سے درست انداز سے نبرد آزما نہیں ہوں گے تو یہ ’ہمارے ذہنوں پر مسلط عذاب بن جائے گا۔‘ چین مخالف مغربی طاقتیں ’چین کو چِت کرنے کے لیے‘ انٹرنیٹ کو مستقلاً استعمال کر رہی ہیں مگر وہ اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہی ہیں۔ برسوں پہلے بعض مغربی سیاست دانوں نے اعلان کیا تھا کہ ’انٹرنیٹ کی صورت میں ہمیں چین سے نبرد آزما ہونے کا وسیلہ دست یاب ہو گیا ہے‘ اور ’سوشلسٹ ملک خود بخود مغرب کے سامنے سپر انداز ہو جائیں گے۔‘ امریکا کے تناظر سے دیکھا جائے تو ’ایکس کی سکور‘ اور نگرانی کے دوسرے پروگرام، نگرانی کی اہلیتیں اور اس حوالے سے انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کا دائرہ ہر کسی کی سوچ سے بھی زیادہ وسیع ہو چکا ہے۔ ہم انٹرنیٹ پر جاری یہ جنگ جیتتے ہیں یا نہیں، اس کا براہِ راست اثر ہمارے ملک کی نظریاتی اور سیاسی سلامتی پر پڑے گا۔‘‘
فوجی برتری کی دوڑ: چین اپنی فوج کو بہتر بنانے پر بھاری رقوم خرچ کر رہا ہے۔ دسمبر 2014ء میں صدر شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں چین کے فوجی افسروں کو خبردار کیا کہ خدشہ ہے امریکا ٹیکنولوجی کے میدان میں ان پر سبقت پا سکتا ہے۔ ’’ایک نیا ٹیکنولوجیکل اور صنعتی انقلاب برپا ہو رہا ہے، فوجی معاملات میں برپا ہونے والے عالم گیر انقلاب کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے اور بین الاقوامی فوجی مقابلے کے انداز میں تاریخی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ امریکافوجی معاملات میں برپا ہونے والے اس انقلاب کا قائد ہے۔ بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں اس نے سب سے پہلے اقدامات کیے ہیں اور وہ فوجی ٹیکنولوجیوں میں بھی نئے فوائد حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ امریکا عالمی سطح پر تیزی سے حملہ کرنے کی اہلیتوں میں اضافہ کر رہا ہے اور اس کے بعض جدید ہتھیار تیکینکی اعتبار سے زمان و مکاں کی حدود توڑ چکے ہیں۔ انھیں حقیقی جنگ کے لیے تیار کر لیا گیا تو وہ حملے اور دفاع کے روایتی طریقوں کو بنیادی اعتبار سے کاملاً تبدیل کر دیں گے۔‘‘
چھپے ہوئے مالیاتی خطرے: چین کی قیادت بڑھتے ہوئے قرض سے پیدا ہونے والے مالیاتی خطروں کو ختم کرنے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ فعال ہوتی جا رہی ہے اور صدر شی جِن پِنگ نے دسمبر 2016ء میں اپنی ایک تقریر میں جن خیالات کا اظہار کیا، ان سے پتا چلتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ ’’اس وقت مالیاتی خطرے انتہائی سنگین اور کثیر ہیں۔ اگرچہ ایسے مالیاتی خطرے عمومی طور سے قابو میں ہیں، جو سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام کا حصہ ہیں لیکن غیرفعال اثاثے، لیکوئڈٹی، بانڈ ڈیفالٹس، شیڈو بینکس، خارجی دھچکے، پراپرٹی ببل، حکومتی قرض اور انٹرنیٹ فنانسنگ کی وجہ سے خطروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ فنانشل مارکیٹس میں بھی افراتفری ہے۔ بعض مالیاتی خطرے طویل عرصے سے چلے آ رہے ہیں۔ وہ مرض کے منڈلاتے ہوئے سرچشمے ہیں جو بہت گہرائی میں چھپے ہوئے ہیں اور اچانک پھٹ سکتے ہیں۔ امریکا کا قرض کا بحران ایک ہی رات میں پھٹ پڑا تھا۔ اگر ہمیں مستقبل میں کسی بڑی مشکل کا سامنا ہوا تو وہ اسی شعبے میں رونما ہو گی۔ چناں چہ ہمیں اس شعبے میں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘
آلودگی کے حوالے سے بے چینی: صدر شی جِن پِنگ سموگ، مٹی کے زہر آلود ہونے اور دوسری آلودگیوں کے خلاف چین کی حکومت کی کوششوں میں تیزی لا چکے ہیں۔ مئی 2013ء میں انھوں نے اپنی تقریر میں اس موضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا تھا، ان سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ عوام کے غصے اور احتجاجوں کے حوالے سے کس قدر فکر مند ہیں، جنھیں چینی حکام ’’عوامی واقعات‘‘ کہتے ہیں۔ ’’عوام ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے انتہائی پریشان ہے اور عوام کی خوشی کے اشاریوں میں ماحولیاتی مسائل کا درجہ زیادہ سے زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ جب معیشت اور معاشرہ ترقی کرتے ہیں اور لوگوں کے معیاراتِ زندگی اونچے ہوتے ہیں تو ماحولیاتی مسائل عوام میں بے چینی پیدا ہونے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں اور اگر ان سے درست انداز میں نمٹا نہیں جائے تو ان کی وجہ سے اکثر اوقات عوامی واقعات رونما ہوتے ہیں۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ انتخاب: دنیا ریسرچ سیل؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2018-05-16&edition=LHR&id=3912531_39273449