مصنف: شازیہ نگار
مترجم: محمد احسن بٹ
بھارتی عوام اور دانشور کہتے ہیں کہ محنت کشوں کے لیے بنائے گئے قوانین میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی نام نہاد اصلاحات نے محنت کشوں کو مزید کمزور کر دیا ہے جس سے ان کے استحصال کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے لیبر قوانین میں مذکورہ اصلاحات کے نتیجے میں محنت کشوں کی فلاح و بہبود کی سکیمیں خطرات سے دو چار ہو گئی ہیں اور ملازمت پیشہ افراد کی ملازمتوں کا تحفظ بھی برقرار نہیں رہا۔ اس تناظر میں چند ہی دن پہلے یومِ مئی کے موقع پر ممبئی میں ٹریڈ یونینوں نے ایک بڑا احتجاجی جلوس نکالا اور جلسے کا انعقاد کیا۔ اس احتجاجی جلسے کا اہم ترین پہلو یہ تھا کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیبر ونگ ’’ بھارتیہ مزدور سَنگھ‘‘ نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔ ٹریڈ یونینوں کے احتجاجی جلسے میں محنت کشوں نے پُرزور انداز میں کہا کہ 2019ء میں ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کو شکستِ فاش دی جائے گی۔ بھارت کا محنت کش طبقہ لیبر قوانین میں کی جانے والی ترامیم پر مضطرب اور مشتعل ہے جو نریندر مودی کی زیرِ قیادت قائم بی جے پی کی حکومت نے حالیہ برسوں میں کی ہیں۔ ٹریڈ یونینوں نے ان اصلاحات کو ’’مزدور دشمن‘‘قرار دیا ہے۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان اصلاحات کا مقصد بھارت کو ورلڈ بینک کے ’’کاروبار میں آسانی کے اشاریے‘‘ میں اوپر لانا ہے۔ جہاں تک صنعت کاروں اور تاجروں تعلق ہے تو ان کے لیے نریندر مودی کی حکومت کی یہ اصلاحات خوش کن ہیں۔ راجستھان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اصلاحات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان اصلاحات نے ’’وقت ضائع کرنے والی قانونی پیچیدگیاں ختم کرنے میں مدد دی ہے۔‘‘یکم مئی 2017ء کو بھارت کے وزیرِ محنت بندارو دَتّا تریہ نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی تھی۔ یہ تحقیقی رپورٹ وی وی گِری نیشنل انسٹی ٹیوٹ نے تیار کی تھی۔ اس تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان اصلاحات کا اثر محض علامتی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ میں راجستھان، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور آندھرا پردیش کی ریاستی حکومتوں کی اپنی اپنی ریاست کے لیبر قوانین میں کی جانے والی ترامیم کے اثرات و نتائج کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ ترامیم انڈسٹریل ڈسپیوٹ ایکٹ 1974ء، فیکٹریز ایکٹ 1948ء اور کنٹریکٹ لیبر ایکٹ 1970ء سمیت چند دوسرے لیبر قوانین میں کی گئی ہیں۔ لیبر قوانین میں ان ترامیم سے کاروبار مکمل ختم کرنے، محنت کشوں کو ملازمت پر رکھنے اور ملازمت سے نکالنے، کاروبار کی آن لائن رجسٹریشن، یونینوں کو تسلیم کیے جانے اور اجرتوں کی تلافی سمیت بہت سے دوسرے معاملات میں بہت زیادہ آسانیاں مہیا کی گئی ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ کی تیاری کے لیے کام کرنے والے سنجے اُپادھیائے اور پنکج کمار کہتے ہیں: ’’یہ اصلاحات نہ تو بڑی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور نہ ہی صنعتوں اور ملازمتوں میں اضافے کا باعث بنی ہیں۔ لیبر قوانین میں ان ترامیم کا واحد نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محنت کشوں کے استحصال میں اضافہ ہو گیا ہے اورا نھیں فراہم کی جانے والی سہولیات مزید گھٹا دی گئی ہیں۔ ملک کے محنت کش طبقے کے لیے کام کرنے کے حالات بھی پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔‘‘ یونیورسٹی آف لندن کے سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کے لیکچرر ڈاکٹر جینس لرچے نے نریندر مودی کے بھارت میں لیبر قوانین میں کی جانے والی ترامیم کا جائزہ لیا ہے۔ انھوں نے یہ تحقیقی جائزہ 2015ء میں لیا تھا۔ انھوں نے ان اصلاحات کے متنازع ہونے کی تین وجوہ کی نشان دہی کی۔ انھوں نے کہا کہ ان ترامیم نے ’’محنت کشوں کو ملازمتوں سے نکال باہر کرنا آسان بنا دیا ہے، چھوٹی فیکٹریوں کو قوانین و ضوابط کی پابندی سے آزادی مل گئی ہے اور کارخانوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی نمائندگی کرنے والی ٹریڈ یونینوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا جانا مشکل بنا دیا ہے۔ ‘‘
سب سے متنازع ترمیم جس کا اطلاق بھی سب سے بڑے پیمانے پر کیا گیا، انڈسٹریل ڈسپیوٹ ایکٹ میں کی گئی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے کارخانوں اور کمپنیوں کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ حکومت سے اجازت لیے بغیر اپنی مرضی سے جب چاہیں کارخانہ یا کمپنی ختم کر سکتے ہیں اور محنت کشوں کو ملازمتوں سے نکال سکتے ہیں یا ان کی تعداد میں کمی کر سکتے ہیں۔ راجستھان، مدھیہ پردیش، گجرات اور مہاراشٹر میں پہلے ایک سو (100) محنت کشوں کو ملازمتوں سے نکالا جا سکتا تھا۔ نرنیدر مودی حکومت کی انڈسٹریل ڈسپیوٹ ایکٹ میں ترمیم کے بعد کارخانہ دار یا کمپنی کے مالکان ایک سو (100) کی بجائے تین سو (300)محنت کشوں کو ملازمتوں سے نکال سکتے ہیں۔ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کی مہاراشٹر شاخ کے صدر سکمر ڈاملے نے اس ترمیم پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’کارخانوں کے مالکان دونوں طرح کے فائدے اٹھانا چاہتے ہیں ۔۔۔ حکومت سے اجازت لیے بغیر محنت کشوں کی تعداد میں کمی کرنا اور محنت کشوں کو ان کی سہولیات سے محروم کرنے کے لیے انھیں کنٹریکٹ پر بھرتی کرنا۔ ہم سختی سے اس کی مخالفت کریں گے۔‘‘ انڈسٹریل ڈسپیوٹ ایکٹ میں کی جانے والی ایک ترمیم نے ٹریڈ یونین قائم کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ قانونی اعتبار سے منظور شدہ ٹریڈ یونین بنانے کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ کسی کارخانے یا کمپنی میں کام کرنے والے تمام محنت کشوں میں سے 30فی صد محنت کش اس ٹریڈ یونین کے رکن ہوں۔ اس ترمیم سے پہلے 15فی صد محنت کشوں کی رکنیت کی حامل ٹریڈ یونین کو قانونی اعتبار سے محنت کشوں کی نمائندہ تسلیم کر لیا جاتا تھا۔ انڈسٹریل ڈسپیوٹ ایکٹ میں کی جانے والی ایک اور ترمیم کے تحت آجر اور اجیر یعنی محنت کش اور کارخانوں یا کمپنیوں کے مالکان عدالت کے باہر ہی اپنے جھگڑوں کا تصفیہ کر سکتے ہیں۔ اس کا زیادہ فائدہ کارخانوں اور کمپنیوں کے مالکان کو ہوا ہے کیوں کہ عدالت کا خوف ختم ہونے کے بعد وہ محنت کشوں کو دھونس دھاندلی سے اپنے حقوق سے دست بردار ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ایک ٹریڈ یونین راہ نما رامانند کمار کہتے ہیں، ’’یہ ترمیم کارخانہ داروں اور کمپنیوں کے مالکان کے حق میں ہے اور محنت کشوں کو عدالت سے رجوع کرنے کے حق سے محروم کرتی ہے۔ کارخانوں اور کمپنیوں کے مالکان طاقتورہوتے ہیں اس لیے عدالت کے باہر کیے جانے والے تصفیے میں عموماً منصفانہ فیصلے نہیں کیے جاتے۔‘‘
جہاں تک فیکٹریز ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم کا تعلق ہے تو حکومت نے یہ کہتے ہوئے اس کا جواز پیش کرنے کی کوشش کی کہ پرانے ضوابط کے تحت چھوٹے کارخانے ’’فیکٹری‘‘ کی تعریف میں آ جاتے تھے اور فیکٹریوں پر لاگو ہونے والے ضوابط پر عمل کرنے سے ان کی توسیع اور ترقی متاثر ہوتی تھی۔ یونیورسٹی آف لندن کے سکول آف اوریئنٹل اینڈ افریقن سٹڈیز کے لیکچرر ڈاکٹر جینس لرچے کہتے ہیں: ’’دس (10) محنت کشوں سے کم محنت کشوں والی فیکٹریوں کو تو پہلے ہی غیر رسمی شعبے میں شمار کیا جا رہا ہے لہٰذا انھیں تو پہلے ہی بیش تر لیبر قوانین سے چھوٹ دی جا چکی ہے۔ اب غیر رسمی شعبے کے لیے بالائی حد بڑھا کر بیس (20)کر دی گئی ہے اور اس سے کم محنت کشوں والی فیکٹریاں چودہ (14) لیبر قوانین سے آزاد ہوں گی۔ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ان میں وہ قوانین بھی شامل ہیں جو ملازمت کے دوران محنت کشوں کا تحفظ، ان کی صحت اور بہبود یقینی بناتے تھے۔‘‘ بینک آف مہاراشٹر ایمپلائیز یونین کے جنرل سیکریٹری وِشال اُتاگی یومِ مئی پر منعقد کیے گئے احتجاجی جلسے اور جلوس کے انتظامات میں پیش پیش تھے۔ انھوں نے ایک اور مزدور دشمن ترمیم کی نشان دہی کی ہے۔ انھوں نے پچھلے مہینے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا، ’’2017ء میں کنٹریکٹ لیبر (ریگولیشن اینڈ ایبولِیشن) ایکٹ میں جو ترمیم (مہاراشٹر میں) کی گئی ہے، اس کے لیے سراسر غیر جمہوری انداز اپنایا گیا تھا۔ اس ترمیم کے تحت آجر انچاس (49) محنت کشوں کو کنٹریکٹ پر بھرتی کر سکتا ہے اور اسے ایمپلائز سٹیٹ انشورنس کے فوائد، وردی، چھٹیاں اور دوسری سہولیات دینے کی پابندی سے آزاد کر دیا گیا ہے۔‘‘ ان نام نہاد اصلاحات سے پہلے بیس (20) یا بیس سے زیادہ محنت کشوں کی حامل فیکٹریوں پر لازم تھا کہ وہ اپنے ملازموں کو یہ سہولیات فراہم کریں۔ اب محنت کشوں کو صرف اس صورت میں یہ سہولیات مل سکتی ہیں کہ فیکٹری میں کام کرنے والے محنت کشوں کی تعداد پچاس یا پچاس سے زیادہ ہو۔ حکومت کا استدلال ہے کہ پہلے محنت کشوں کی جو کم سے کم تعدادسہولیات کے حصول کے لیے مقرر کی گئی تھی، اس کی وجہ سے آجروں کو محنت کش بھرتی کرتے یا چھوٹے کاروباری اداروں سے ضروری اشیا کی خریداری کرتے ہوئے دشواری ہوتی تھی کیوں کہ چھوٹے کارخانوں یا کمپنیوں کو اس قانون کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مشکلات پیش آتی تھیں۔
سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز (سی آئی ٹی یو) کے جنرل سیکریٹری تپن سین لیبر قوانین میں مودی حکومت کی اصلاحات کے سرگرم ناقد ہیں۔ انھوں نے نشان دہی کی کہ اپرنٹس ایکٹ میں کی جانے والی ترمیم کے تحت کسی فرم میں بھرتی کیے جانے والے اپرنٹسوں کی تعداد بڑھا کر اس فرم میں کام کرنے والے تمام محنت کشوں کی تعداد کے 10فی صد کی بجائے25فی صد کر دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا، ’’اس ترمیم کے تحت حکومت اپرنٹسوں کو دیے جانے والے معاوضے ادا کرے گی جب کہ وہ نجی آجروں کے لیے کام کریں گے۔ اس کے علاوہ اس ترمیم کے تحت اپرنٹس شپ کے دورانیے کا تعین بھی نہیں کیا گیا۔‘‘ اس طرح نجی فیکٹریاں لامختتم مدت تک اپرنٹس شپ جاری رکھتے ہوئے محنت کشوں کو ان سہولیات سے محروم رکھ سکتی ہے جو باقاعدہ ملازموں کو دینا لازم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ 2017ء کے سوشل سکیورٹی ڈرافٹ بل کے نتیجے میں ’’ایمپلائیز سٹیٹ انشورنس اور ایمپلائیز پراویڈینٹ فنڈ جیسی بنیادی اہمیت کی حامل سہولیات ختم ہو جائیں گی۔‘‘ اس کے علاوہ یہ بل ان محنت کشوں کے بہت سے فلاحی بورڈ اور بہبود فنڈ بھی ختم کر دے گا جو کارخانوں کے باقاعدہ ملازم نہیں۔ مزید بر آں مجوزّہ ’’فکسڈ ٹرم ایمپلائمنٹ‘‘ کی ترمیم تمام فرموں کو اجازت دیتی ہے کہ وہ کم عرصے کے لیے محنت کشوں کو ملازمت پر رکھ سکتی ہیں اور نوٹس دیے بغیر ملازمت سے نکال سکتی ہیں۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2019ء تک بھارت کے77فی صد محنت کش ’’غیر محفوظ ملازمتیں‘‘ کر رہے ہوں گے۔ ’’غیر محفوظ ملازمتوں‘‘ سے ایسی ملازمتیں مراد ہیں جن کے اجرتیں کم سے کم اجرت سے بھی تھوڑی ہوتی ہیں، کام مشکل ہوتا ہے اور حالاتِ کار خطرناک ہوتے ہیں (مثلاً لمبی شفٹوں میں کام لیا جانا اور ملازمت کا تحفظ نہ ہونا وغیرہ)، کام کا ماحول غیر محفوظ ہوتا ہے اور تمام لیبر قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ یاد رہے یہ رپورٹ اُسی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے جاری کی ہے، ہندوستان جس کا 1922ء سے بانی و مستقل رکن ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بھارت کی وزارتِ محنت و روزگار نے بار بار رابطوں کے باوجود اس معاملے پر اپنی رائے نہیں دی۔
(بشکریہ ایشیا ٹائمز آن لائن)