Thursday, May 17, 2018

انتہائی ہلاکت انگیز عالم گیر وبا کا خطرہ


مصنف: مِشیلا ٹِنڈرا

’’نئے جراثیم مسلسل پیدا ہو رہے ہیں جب کہ ہماری دنیا فضائی سفر کے ذریعے جڑی ہوئی ہے، اس لیے کسی بڑے حیاتیاتی دہشت گرد حملے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری زندگیوں کے دوران کسی بھی وقت کوئی ہمہ گیر اور انتہائی ہلاکت انگیز عالم گیر وبا پھوٹ پڑنے کا بھی خاصا امکان ہے۔‘‘ خوف طاری کر دینے والے ان امکانات و خدشات کا اظہار بل گیٹس نے بوسٹن میں منعقدہ ’’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘‘ کے ’’شٹک لیکچر‘‘ کے سلسلے کے تحت اپنے لیکچر میں کِیا۔ بل گیٹس حفظانِ صحت کے مستقبل کے حوالے سے امید پرست انسان ہیں لیکن کسی عالم گیر وبا کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ انھیں ہمیشہ متفکر و مضطرب رکھتا ہے۔ ’’سپینش فلو‘‘ کا پھوٹ پڑنا صرف سو (100) سال پہلے ہی کا واقعہ ہے۔ اس وبا میں صرف چند ہفتوں ہی میں چھ لاکھ پچہتر ہزار (675,000) امریکی فلو کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔ فلو یا انفلوئنزا سانس کی ایک بیماری ہے۔ اس کا وائرس ناک اور منہ کے راستے انسان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ انفلوئنزا یا فلو کی عام نشانیوں میں بخار، ناک بہنا، گلے کا دُکھنا، پٹھوں میں درد، کھانسی اور تھکن محسوس ہونا شامل ہیں۔بیماری کی یہ نشانیاں وائرس جسم میں داخل کے ہونے کے دو دن بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ عام فلو/ انفلوئنزا تقریباً ایک ہفتہ برقرار رہتا ہے۔ کھانسی تقریباً دو ہفتے رہ سکتی ہے جب کہ بچوں کو متلی اور قے بھی ہو سکتی ہے۔ ’’سپنیش فلو‘‘ نامی وبا کے دوران ایک سال میں پوری دنیا میں پانچ کروڑ انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ اپنے لیکچر کے دوران بل گیٹس نے ’’انسٹی ٹیوٹ فار ڈیزیز ماڈلنگ‘‘ کا کمپیوٹر پرکیا گیا ایک تجربہ بھی سامعین کو دکھایا۔ اس تجربے کے مطابق اگر ہوا کے ذریعے پھیل جانے والے فلو کے جراثیم اس سال پھیل جائیں تو چھ مہینوں کے اندر اندر تقریباً تین کروڑ تیس لاکھ انسان اس بیماری سے ہلاک ہو جائیں گے۔
بل گیٹس نے کہا، ’’ہالی وُڈ کی سنسنی خیز فلمیں دیکھتے ہوئے آپ سوچیں گے کہ دنیا ہلاکت انگیز جراثیم سے عوام کو محفوظ رکھنے کے معاملے میں بہت اچھی ہے لیکن حقیقی دنیا میں عمومی بیماریوں سے تحفظ اور ان کے علاج کا ہمارا نظام بڑی وبائیں پھوٹ پڑنے کی صورت میں کسی کام نہیں آ سکے گا۔ خاص طور سے غریب ملکوں کا عوام کی صحت کے تحفظ کا نظام کسی وبا کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں بالکل کام نہیں آ سکے گا۔ حتیٰ کہ امریکا جیسے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک میں بھی کسی بڑے حیاتیاتی دہشت گرد حملے یا کسی بڑی وبا کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں حفظانِ صحت کا ہماراموجودہ ناکافی ثابت ہو گا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس امکانی المیے سے بچنے کے لیے مربوط عالم گیر کوششیں کرنا ضروری ہے۔ضروری ہے کہ دنیا وبا کا سراغ جلد لگانے کا نظام، اس سے نمٹنے کے ذرائع اور اس پر قابو پانے کا نظام تشکیل دے۔ انھوں نے بتایا کہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کئی منصوبوں پر کام پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے۔ فلو کی ویکسین تیار کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ فلو کی امکانی عالم گیر وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے فلو کی ویکسین چند ہفتوں میں تیار کرنے کی استعداد پیدا کرنے کے لیے پچھلے سال ’’کولیشن فار ایپی ڈیمک پری پیئرڈنیس اِنّوویشنز‘‘ کا آغاز کیا گیا، جس کے لیے مخیر افراد نے چھ کروڑ تیس لاکھ ڈالر کے عطیات دینے کے وعدے کیے۔ بروڈ انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے فلو کی جلد تشخیص کے لیے کرِسپر (سی آر آئی ایس پی آر)ٹیکنولوجی استعمال کرتے ہوئے ایک تشخیصی ٹیسٹ ایجاد کرنے پر کام کر رہے ہیں (کرِسپر ٹیکنولوجی کے ذریعے کسی بھی خلیے میں موجود جینیاتی مواد میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے)۔ اس کے علاوہ یہ جاننے کے لیے کہ وبا کے شکار انسان زِیکا وائرس سے متاثرہ ہیں یا ڈینگی وائرس سے ، یہ دونوں ادارے کاغذ کی ایک چھوٹی سی پٹّی کے ذریعے تشخیصی ٹیسٹ ایجاد کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں، جیسے کہ حمل کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ مارچ میں امریکا کی مقننہ (کانگریس) نے ٹرمپ حکومت کو ہدایت کی کہ صحت کی عالمی سلامتی کو مضبوط تر بنانے کے لیے منصوبہ سازی کی جائے۔ اپنے لیکچر میں بل گیٹس نے کہا، ’’دنیا کو عالم گیر وبا سے نمٹنے کے لیے اُسی طرح تیاریاں کرنا چاہئیں جیسے کوئی فوج جنگ لڑنے کے لیے تیاریاں کرتی ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ تربیت یافتہ طبی عملے اور رضاکاروں پر مشتمل ایک ریزرو دستہ تیار کیا جائے جو کسی عالم گیر وبا کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں چند لمحوں کے اندر اندر اس سے مقابلے کے لیے میدان میں نکل سکتا ہو۔ انھوں نے امریکا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ادویات کی تیاری اور تحقیق کے لیے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے نیز ادویات ساز کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کو جائزہ بھی لیا جائے۔
انھوں نے اپنے لیکچر کے دوران اعلان کیا کہ گوگل کے بانی لیری پیج اور بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے فلو کی عالم گیر وبا سے نمٹنے کے لیے ایسی ویکسین ایجاد کرنے کے مقابلے کا اعلان کیا ہے جو ہر قسم کے فلو کے لیے کارآمد ہو۔ سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے اس مقابلے کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن پہلے ہی ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزیزِز‘‘ جیسی دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزیزِز‘‘ نے فلو کی ایک ویکسین بنائی ہے جو انسانوں پر آزمائے جانے کے مرحلے میں ہے۔ بل گیٹس نے کہا، ’’جیسا کہ میں نے اپنے لیکچر کے آغاز میں کہا تھا، میں ایک امید پرست انسان ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ہم اگلی بڑی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔‘‘ بل گیٹس نے اپنے لیکچر کے دوران بتایا کہ انھوں نے ورلڈ بینک کی 1993ء کی ایک رپورٹ پڑھی تھی جس سے انھیں عالمی سطح پر صحت کے تحفظ کے لیے اپنی دولت کا بڑا حصہ عطیہ کرنے کی تحریک ملی تھی۔ انھوں نے سامعین کو بتایا کہ اُس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ترقی پذیر ملکوں میں صرف چند بیماریاں بہت زیادہ اموات کی وجہ ہیں۔انھوں نے کہا، ’’رپورٹ پڑھتے ہی میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے ایسی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ادویات اور دوسری چیزیں ایجاد نہیں کیں۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ اچھی ادویات وغیرہ موجود ہیں لیکن ان کی مذکورہ ملکوں میں دست یابی ممکن بنانے کا نظام ناقص ہے، جسے درست کیا جانا ضروری ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے جانا کہ ترقی پذیر دنیا میں حفظانِ صحت کا ایسا نظام موجود نہیں جس کے ذریعے اینٹی بایوٹک ادویات اور ویکسین عوام تک پہنچائی جا سکیں۔ اس الم ناک حقیقت سے آگاہ ہوتے ہی بل گیٹس اور ان کی بیوی ملنڈا گیٹس نے اپنی دولت کا بہت بڑا حصہ انسانی صحت کے تحفظ کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایسی عام بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے لیے تحقیق کی حوصلہ افزائی کا فیصلہ کیا جن کے لیے اُس وقت کم مالی وسائل مہیا کیے جا رہے تھے۔ اُن میں ملیریا جیسی بیماریاں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ترقی پذیر ملکوں کے بچوں کے لیے نیوموکوکل ویکسین اور روٹا وائرس ویکسین فراہم کرنے کے لیے عطیات دینے کا فیصلہ کیا۔ 1990ء کے عشرے سے دیے جانے والے ان کے عطیات کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں 1990ء میں ترقی پذیر ملکوں میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ تیس لاکھ بچے موت کے شکار ہو جاتے تھے، وہاں 2016ء میں ایسی اموات کی تعداد گھٹ کر پچاس لاکھ رہ گئی۔اس حوالے سے انھوں نے کہا، ’’ہم چاہتے تھے کہ ہم صرف اس صورت میں اپنی کمائی کا بہت بڑا حصہ وقف کریں، جب اس کا نتیجہ بھی بڑے اعداد کی صورت میں سامنے آئے۔‘‘ محولہ بالا اعدادوشمار سے پتا چلا کہ ہوا بھی ایسا ہی
بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کا قیام 2000ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت سے یہ تنظیم ملیریا، پولیو، ایچ آئی وی اور تپِ دق جیسے عوام کی صحت کو لاحق انتہائی خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کی کوششوں کے نتیجے میں ان بیماریوں کے خلاف نوعِ انسان کو اپنی جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صرف 2012ء میں دنیا کے بیس کروڑ ستّر لاکھ انسان ملیریا کے شکار ہوئے تھے جن میں چھ لاکھ انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ اس خوف ناک بیماری کو مٹانے کی غرض سے اپریل 2018ء میں لندن میں منعقدہ ’’ملیریا سمٹ‘‘ میں بل گیٹس نے ایک ارب ڈالردینے کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے وہ اسی کارِ خیر کے لیے دو ارب ڈالر وقف کر چکے ہیں۔ ان کے حالیہ وقف کردہ ایک ارب ڈالر 2023ء تک ملیریا کو مٹانے کی غرض سے مہیا کیے جائیں گے۔ اس سے پہلے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے ایڈز، تپِ دق اور ملیریا کا مقابلہ کرنے کے لیے چھ کروڑ ڈالر وقف کیے تھے۔ 2017ء سے 2019ء تک ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے مزید ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر وقف کیے۔ ایک وقت تھا کہ پولیو ہر سال دنیا کے ایک سو پچیس ملکوں کے تین لاکھ پچاس ہزار بچوں کو معذور کر دیا کرتا تھا۔ 2016ء میں پوری دنیا میں صرف چالیس بچے پولیو کے شکار ہوئے تھے۔ 2020ء تک پولیو کو دنیا سے مٹانے کے لیے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے پچھلے سال چار کروڑ پچاس لاکھ ڈالر وقف کرنے کا اعلان کیا۔ ذیلی صحارائی افریقی ملکوں میں بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مالی مدد سے کیے جانے والے کئی سال پر محیط ایک بڑے تجربے کی رپورٹ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے اپریل 2018ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر فراہم کی جانے والی اینٹی بایوٹک دوا ازتھرومائیسن کے استعمال کے نتیجے میں ایک ماہ سے پانچ سال تک کے بچوں کی اموات کی شرح میں 13.5فی صد کمی واقع ہوئی۔ ازتھرومائیسن دنیا بھر میں تجویز کی جاتی ہے اور یہ بیکٹیریا کی وجہ سے لاحق ہونے والی آنکھوں کی ایک بیماری کے علاج کے لیے خصوصاً استعمال کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے حوالے سے بل گیٹس نے اپنے لیکچر میں کہا، ’’یہ ایک نہایت مسرت بخش خبر ہے۔ میں سب سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس رپورٹ کا مطالعہ کریں۔‘‘ اقوامِ متحدہ کو ان نتائج کی روشنی میں اپنے اُس ہدف کو پانے میں مدد مل سکتی ہے جس کے تحت اسے 2030ء تک دنیا بھر کے بچوں کو ایسی بیماریوں سے مرنے سے بچانا ہے جن کا علاج ممکن ہے۔ مذکورہ تحقیق میں شریک سائنس دانوں نے کہا ہے کہ یہ بات ٹھیک ٹھیک جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس دوا نے کس طرح بچوں کو موت سے بچایا۔

(بشکریہ فوربز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...