Friday, May 25, 2018

امریکا: ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کا تشویش ناک فیصلہ

مصنف: ڈیوڈ ای سینگر اور ولیم جے براڈ

امریکا شمالی کوریا اور ایران پر تو دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے اپنے ایٹمی پروگرام ختم کر دیں لیکن اس نے خود اپنے ایٹمی اسلحہ خانے میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایٹمی اسلحہ ختم کروانے کے حوالے سے یہ وائٹ ہاؤس کے لیے ڈرامائی دن ہیں۔ پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ مطالبہ کرتے ہوئے ایران کے ساتھ کیے جانے والے ایٹمی معاہدے سے نکل گئے کہ ایران کو ایک ایسے نئے معاہدے پر دستخط کرنا چاہئیں جس کے تحت ایٹم بم بنانے کا راستا اس پر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ پھر امریکی انتظامیہ نے شمالی کوریا کے راہنما کے ساتھ امریکا کے کسی صدر کی اوّلین ملاقات کا اعلان کیا، جس کا مقصد شمالی کوریا کو اس کے ایٹمی ہتھیاروں سے چھٹکارا دلانا ہو گا لیکن جہاں تک امریکا کے اپنے ایٹمی اسلحہ خانے کا تعلق ہے تو امریکی انتظامیہ ہر قدم مخالف سمت میں اٹھا رہی ہے اور امریکا کی ایٹمی صلاحیت بڑھانے کے لیے ضروری ایٹمی پلانٹ تعمیر کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، جن پر بہت تھوڑی توجہ دی گئی ہے۔ یہ تضاد حیران و ششدر کر دینے والا ہے۔ جمعرات کی شام صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ ان کے ساتھ ان کی ملاقات 12جون کو سنگاپور میں ہو گی ۔۔۔ اس وقت سے ہی شمالی کوریا اس ملاقات کی منسوخی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔اس اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعدپینٹاگان اور محکمۂ توانائی نے جنوبی کیلی فورنیا میں سواناہ رِیور سائٹ میں اگلی نسل کے ایٹمی ہتھیاروں کے اہم ترین اجزا بنانے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ منصوبہ یہ ہے کہ امریکا کے شہروں کوروشنی مہیا کرنے کے لیے پرانے ایٹمی ہتھیاروں کو ری ایکٹر کے ایندھن میں تبدیل کرنے کی غرض سے تعمیر کیے جانے والے ادھورے اور بے شمار مسائل سے دوچار ایٹمی پلانٹ کو ایک بار پھر ایٹمی اسلحہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اب اس ایٹمی پلانٹ کو امریکا کے پرانے ایٹمی ہتھیاروں کو کارآمد بنانے کے علاوہ مزید سینکڑوں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔پینٹاگان نے فروری میں جاری ہونے والی اپنی بنیادی ایٹمی حکمتِ عملی میں ایٹمی اسلحہ بنانے کے امریکا کے تازہ اقدام کا سب سے بڑا جواز پیش کرتے ہوئے شمالی کوریا کی ایٹمی صلاحیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ’’غیر قانونی طور سے ایٹم بم بنا رہا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ پچھلے ہفتے ایوانِ نمائندگان کی ’’سٹریٹجک فورسز سب کمیٹی‘‘ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اس منصوبے کی منظوری دی جس کے تحت روس کی ایٹمی پیش رفتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آب دوزوں سے داغے جا سکنے والے کم طاقت کے ایٹم بم بنائے جائیں گے۔ سب کمیٹی کے چیئرمین الاباما سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن مائیک ڈی روجرس نے کہا کہ یہ فیصلہ ماسکو کے ساتھ ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا ردِ عمل ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں کہا تھا کہ وہ ’’کنٹرول سے باہر ہوتی‘‘ ہتھیاروں کی دوڑ کے حوالے سے روس کے صدر ولادی میر وی پوٹن کے ساتھ ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ (حالاں کہ ایسی کوئی ملاقات طے ہی نہیں پائی۔) مائیک ڈی روجرس نے کہا، ’’یہ کمیٹی جانتی ہے کہ روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ امر خطرناک اور سنجیدگی کا متقاضی ہے۔‘‘ شمالی کوریا  نے  بدھ کے روز دھمکی دی کہ اگر امریکا نے’’ایٹمی اسلحہ خانہ یک طرفہ طور سے ختم کرنے پر‘‘ اصرار کیا تو اگلے مہینے سنگاپور میں ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی جائے گی۔ یہ بیان شمالی کوریا کے ایٹمی اسلحہ ختم کرنے کے موضوع پر مذاکرات کرنے والے حکومتی عہدہ دار نے دیا تھا۔ اس سے چند ہی گھنٹے پہلے ریاستی ذرائع ابلاغ سے انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ جنوبی کوریا اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کی مشترکہ فوجی مشق پر احتجاج کرنے کے لیے ملاقات منسوخ کی جا سکتی ہے۔ وہ فوجی مشق اسی ہفتے شروع ہوئی تھی۔ اس انتباہ نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے افسران کو حواس باختہ کر دیا اور داخلی بحث چھڑ گئی کہ کم جونگ ان سنگاپور میں ہونے والی ملاقات سے پہلے محض ڈراوا دے رہے ہیں یا ایک نئی حقیقی رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز شمالی کوریا کے ایک نائب وزیرِ خارجہ کم کیے کوان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے نئے متعین کیے جانے والے مشیر جان بولٹن کی مذمت کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا کہ شمالی کوریا اُسی طرح اپنا ایٹمی پروگرام ختم کر دے جس طرح پندرہ سال پہلے لیبیا نے کیا تھا۔ محولہ بیان میں کہا گیا تھا، ’’اگر امریکا یک طرفہ طور سے ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے لیے ہم پر دباؤ ڈال کر کونے میں دھکیلے گا تو ہم اس مکالمے میں مزید دل چسپی نہیں لیں گے اور ملاقات پر دوبارہ غور کرنے کے سوا کوئی راستا نہیں ہو گا۔‘‘ جب وائٹ ہاؤس سنبھلا اور شمالی کوریا کے بیان کا جائزہ لیا تو وزارتِ خارجہ نے کہا کہ 12جون والی ملاقات کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور نشان دہی کی کہ جنوبی کوریا کے حکام نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو بتایا تھا کہ شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ ان کو فوجی مشقوں سے آگاہ کر دیا گیا تھا اور انھوں نے اسے قبول کر لیا تھا۔
جہاں یہ ممکن ہے کہ ایٹمی ہتھیار بڑی مقدار میں بنانے کا امریکا کا فیصلہ اس کی مذاکرات کی حکمتِ عملی کا حصہ ہو، وہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سودے بازی کے لیے ایسی چیز پیش کر کے، جو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی، وائٹ ہاؤس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کو یک طرفہ معاملہ تصور کرتا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ امریکا نے اس امر میں کوئی تضاد نہیں دیکھا ہو کہ وہ کم طاقتور ملکوں کو اپنی ایٹمی صلاحیتیں ختم کرنے پر قائل کرتے ہوئے خود اپنی ایٹمی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے‘‘ میں ابتدا ہی سے عدم توازن موجود ہے۔ یہ معاہدہ 1970ء میں عمل میں آیا تھا۔ یہ معاہدہ اُن تمام ریاستوں کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکتا ہے، جن کے پاس پہلے سے ایٹم بم موجود نہیں۔ (اسرائیل، پاکستان اور بھارت نے کبھی اس معاہدے میں شمولیت نہیں جب کہ شمالی کوریا نے اس پر دستخط کیے تھے لیکن بعد میں وہ اس معاہدے سے نکل گیا تھا۔) بہرحال اس معاہدے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ تسلیم شدہ ایٹمی طاقتیں ۔۔۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس ۔۔۔ ’’ایٹمی دوڑ اور ایٹمی ہتھیار ختم کروانے‘‘ کے لیے کام کریں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور روس کہہ سکتے ہیں کہ دیوارِ برلن گرنے کے بعد کے بیس برسوں میں انھوں نے اپنے اپنے ایٹم بموں میں کمی کا وعدہ نبھایا ہے۔ دونوں ملکوں نے جتنے ایٹم بم نصب کر رکھے تھے ان کی تعداد ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول کے معاہدوں کے تحت گھٹ کر اس سال 1,550رہ گئی ہے لیکن ان کے علاوہ ہزاروں ایٹم بم ذخیرہ گاہوں میں محفوظ ہیں۔ امریکا کے سابق صدر بارک اوباما نے کہا تھا کہ امریکا خود اپنے ایٹمی پروگرام کو وسعت دے رہا ہو تو وہ ایٹمی پروگرام ختم کروانے کے لیے دوسرے ملکوں پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔بہرحال ان کے بہت سے ماتحتوں نے بعد میں کہا، ان کی خواہش تھی کہ صدر بارک اوباما امریکا کے ایٹمی اسلحہ خانے میں کمی کے لیے مزید اقدامات کرتے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالکل مخالف سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ امریکا اپنے موجودہ ایٹمی اسلحہ خانے کو بہتر بنانے اور اس میں ایک بار پھر وسعت لانے کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہا ہے۔ ’’نیو سٹارٹ ٹریٹی‘‘ کی اگلے پانچ سال کے لیے تجدید نہ ہوئی تو فروری 2021ء میں امریکا اور روس کے اسلحہ خانوں پر عائد تحدید ختم ہو جائے گی ۔۔۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری میعادِ صدارت شروع ہونے سے محض چند دن بعد۔
اس اثنا میں امریکا کی حکومت واضح کر رہی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کے ایک اور دور کے آغاز کی تیاریاں کر رہی ہے۔ سواناہ رِیور والے اعلان میں ان چھوٹے ایٹم بموں کی تیاری کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے جنھیں ایٹمی صنعت میں ’’جہنم‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ چھوٹے ایٹم بم جب کسی وارہیڈ کے اندر پھٹتے ہیں تو ایک انتہائی گرم دِیاسلائی کی طرح عمل کرتے ہوئے تھرمونیوکلیئر ایندھن کی بہت بڑی مقدار میں آگ بھڑکا دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہیروشیما کو تباہ کر دینے والے ایٹم بم سے 1,000گنا زیادہ بڑا دھماکا ہوتا ہے ۔ اِن ’’جہنموں‘‘ کو چھوٹے سے چھوٹا اورزیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کا طریقہ ایٹمی دور کے سب سے خفیہ رکھے جانے والے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اِن میں سے بیش تر کی جسامت گریپ فروٹ جتنی ہے۔ اس جسامت کی وجہ سے وارہیڈز کو لمبی مار والے میزائلوں پر نصب کیا جانا آسان ہوگیا ہے ۔۔۔ یہ ان ٹیکنالوجیوں میں سے ایک ہے جنھیں شمالی کوریا حاصل کرنے کی کوششیں کرتا آ رہا ہے اور شاید حاصل بھی کر چکا ہو۔ گذشتہ جمعرات کیے جانے والے اعلان کا مقصد ’’دو وفاقی لیمووں سے سکنجبین بنانا‘‘ تھا۔ اب تک ’’جہنم‘‘ نیو میکسیکو میں لاس الاموس میں واقع ایٹمی پلانٹ میں بنائے جا رہے تھے۔ یہ وہی ایٹمی پلانٹ ہے جہاں امریکا کا پہلا ایٹم بم بنایا گیا تھا۔ اس ایٹمی پلانٹ میں جاری کام اور اس کے تحفظ کے معاملے میں مسلسل مسائل رونما ہوئے، جو امریکا کے لیے ندامت کا باعث بنے۔ آخر 2015ء میں صدر بارک اوباما نے اس ایٹمی پلانٹ کی اُس وقت کی انتظامیہ کا ٹھیکا منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس انتظامیہ کی ناکامیوں میں سے ایک ناکامی یہ تھی کہ وہ 80’’جہنم‘‘ سالانہ تیار کرنے کا قابلِ اعتبار منصوبہ بنانے میں ناکام رہی تھی۔
دوسری طرف سواناہ رِیور سائٹ میں ایٹم بم بنانے کے قابل کئی ٹن پلوٹونیم کو تجارتی بجلی گھروں کے ایندھن میں بدلنے کے پروجیکٹ کے اخراجات سترہ ارب ڈالر تک بڑھ گئے تھے۔ اب اس پروجیکٹ کو ختم کر دیا گیا ہے اور پچھلے ہفتے دو حصوں پر مشتمل جس منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے، وہ ’’جہنم‘‘ بنانے کا بوجھ بھی لاس الاموس والے ایٹمی پلانٹ پر سے کم کر دے گا۔ لاس الاموس والا ایٹمی پلانٹ ہر سال تیس ’’جہنم‘‘ بنائے گا جب کہ جنوبی کیرولینا والے ایٹمی پلانٹ میں ہر سال پچاس ’’جہنم‘‘ بنائے جائیں گے۔ امریکا کے محکمۂ توانائی اور محکمۂ دفاع نے کہا کہ اس نظام کے تحت’’ایک ایٹمی پلانٹ پر انحصار نہ کرنے سے ہمارے ایٹمی پلانٹوں اور ایٹمی اسلحہ خانوں کا تحفظ زیادہ بہتر ہو جائے گا۔‘‘ اس اقدام سے نشان دہی ہوتی ہے کہ امریکا نئے ایٹمی ہتھیار بھی بنائے گا حالاں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران ڈ یل سے نکل جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ تہران ایٹم بم نہ بنانے کا معاہدہ بھی کرے۔ 80’’جہنم‘‘ سالانہ بنانے کے لیے امریکی وفاق کے جواز کو بہت خفیہ رکھا گیا ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ امریکا جس پلوٹونیم ایندھن سے ایٹم بم بنا رہا ہے، اس کا معیار وقت گزرنے کے ساتھ گر جائے گا جس سے آخرِ کار ’’جہنم‘‘ نامی یہ ایٹم بم بے کار ہو جائیں گے۔یہ خدشہ بجا تو ہے لیکن اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ 2006ء میں ایک وفاقی نیوکلیئر پینل نے تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ پلوٹونیم سے تیار کردہ ’’جہنم‘‘ توقع سے زیادہ بہتر ہیں اور انھیں ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصہ تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تنقید کرنے والوں نے اس فیصلے پر کہا تھا کہ وفاقی حکومت نئی نسل کے ایٹمی ’’جہنم‘‘ قومی سلامتی کے لیے نہیں بلکہ محض فوجی قوت دکھانے کی غرض سے بنانا چاہتی ہے۔ امریکا کے ایٹمی پلانٹوں اور ایٹمی اسلحہ خانوں کی نگرانی اور ان کے پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والی البوقرق کی نجی تنظیم لاس الاموس سٹڈی گروپ کے ایگزیکٹو گریگ میلو نے حال ہی میں کہا، ’’کسی بھی وارہیڈ کے لیے نئے ’’جہنموں‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہزاروں ’’جہنموں‘‘ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، جنھیں امکانی طور سے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
پینٹاگان کا ’’نیوکلیئر پوسچر ریویو‘‘ فروری میں شائع ہوا۔ اس میں پلوٹونیم سے بنائے گئے ’’جہنموں‘‘ کی تیاری کے لیے نئی صلاحیت کا تقاضا کیا گیا ہے۔ اس میں کانگریس سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ کم طاقت والے نئے ایٹمی ہتھیار بنانے کی منظوری دے۔ پچھلے ہفتے ’’ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی‘‘ کے تمام ارکان پر مشتمل اجلاس میں ’’نیوکلیئر پوسچر ریویو‘‘ کی منظوری دی گئی لیکن تمام ڈیموکریٹ ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیے۔ واشنگٹن سے کانگریس کے رکن اور ’’ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی‘‘ میں ڈیموکریٹ ارکان کے راہنما ایڈم سمتھ نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارے پاس ایک قابلِ اعتبار ڈیٹرنٹ ہونا چاہیے لیکن میرا خیال ہے کہ ’’نیوکلیئرپوسچر ریویو‘‘ قابلِ اعتبار ایٹمی ڈیٹرنٹ سے بڑھ گیا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ایٹمی جنگ چھیڑ بیٹھیں۔‘‘

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...