کرپشن، فراڈ اور بلیک منی کا ہیڈکوارٹر
مصنف: اولیور بُلو
برطانوی حکام ان الزامات سے تنگ آ چکے ہیں کہ برطانیہ ’’ڈرٹی منی‘‘ (غیر قانونی ذرائع سے کمائے ہوئے پیسے) کا گھناؤنا مرکز بن چکا ہے اور یہ کہ وہ جعلی کارپوریشنوں کے پردے میں چھپائی گئی دولت کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ پیسے کی آمد کے راستوں کو عیاں کرنے اور بدعنوانی سے کمائی ہوئی دولت کو ملک سے باہر نکالنے کے لیے جو کام کر رہے ہیں، ان پر تنقید کرنے والے لوگ اس کام کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ چناں چہ جب انھیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا خوب چرچا کرتے ہیں۔ پچھلے مہینے تجارتی کمپنیوں کا اندراج کرنے والے محکمے ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نے ایک ایسے شخص کے خلاف قانونی کارروائی کامیابی سے کی جس نے کمپنی قائم کرنے کے لیے جھوٹ بولا تھا۔ یہ ’’وائٹ کالر جرائم‘‘ میں سے ایک جرم ہے جس کا ارتکاب شائستہ و مہذب دکھائی دینے والے فراڈیے کر رہے ہیں اور برطانوی عوام کو روزانہ لوٹ رہے ہیں جب کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ برطانیہ کے کاروبار، توانائی اور صنعتی حکمتِ عملی کے وزیر اینڈریو جیمز گرفتھس نے ایک پریس ریلیز میں کہا، ’’یہ قانونی کارروائی برطانیہ میں اپنی نوعیت کی اوّلین کارروائی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ایسے لوگوں کے خلاف سخت اقدامات کرے گی جو قانون کو جان بوجھ کر توڑتے ہیں اور کمپنی کا اندراج کرواتے وقت جھوٹی معلومات فراہم کرتے ہیں۔‘‘ اس واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ واروِک شائر کے ایک شخص کیون بروئر نے اقرارِ جرم کر لیا تھا۔ اس نے جرمانہ اور مقدمے پر خرچ ہونے والی حکومت کی رقم ادا کی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ اس نے جو دو کمپنیاں بنائی تھیں، ان میں سے ایک کا تعلق رکنِ پارلیمان وِنس کیبل اور دوسری کمپنی کا تعلق رکنِ پارلیمان جیمز کلیورلی، لیڈی نیوائل رولف اور ایک اسرائیلی شہری سے ہے۔ اسرائیلی شہری کے بارے میں پتا چلا کہ وہ ایک فرضی کردار تھا۔ ابتدا میں عوام نے اس خبر پر جو ردِ عمل کیا وہ حکومت کی امید کے مطابق تھا۔ معروف برطانوی روزنامے ’’دی ٹائمز‘‘ نے جرم کی تفصیلات سے اپنے صفحات بھر دیے۔ اخبار میں بتایا گیا تھا کہ حکومت فراڈ اور فراڈ کی وجوہ کے خلاف سخت اقدامات کرے گی۔ بہرحال یہ فتح زیادہ دیر برقرار نہیں رہی۔ محولہ بالا فاتحانہ پریس ریلیز کے ایک ہی ماہ بعد حکومت کے اینٹی کرپشن چیمپیئن اور ٹوری (قدامت پسند) رکنِ پارلیمان جان پینروز نے اس مقدمے کے حوالے سے کہا، ’’یہ نامہ بر کو گولی مار دینے جیسا احمقانہ اقدام تھا۔‘‘ ہو سکتا ہے کیون بروئر اپنے دعوے کے مطابق بے قصور ہو لیکن وہ برطانوی قوانین و ضوابط کی وہ خامی عیاں کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جو کھربوں پونڈ کے فراڈ ممکن بناتی ہے۔ اسے انعام یہ ملا کہ پہلے تو اسے نظر انداز کیا جاتا رہا اور آخرِ کار اسی کو مجرم قرار دے دیا گیا۔
برطانیہ میں تجارتی کمپنیوں کا اندراج کرنے والے محکمے میں چالیس لاکھ کمپنیوں کا اندراج ہو چکا ہے۔ ان چالیس لاکھ رجسٹرڈ کمپنیوں نے برطانیہ کی معیشت تشکیل دی ہے اور وہ اس کی خوش حالی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ جس طرح ہجوم میں جیب کترے چھپے ہوتے ہی اسی طرح ان چالیس لاکھ رجسٹرڈ کمپنیوں کے درمیان ہزاروں ایسی جعلی کمپنیاں بھی چھپی ہوئی ہیں جنھیں فراڈیے جرائم کے ارتکاب کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کمپنیوں کے ذریعے مجرم اپنے آپ کو قانونی کاروبار کرنے والے افراد کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے فراڈ کرتے اور ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کمپنیاں اپنے ملکوں کی قومی اور عوامی دولت لوٹنے والے حکمرانوں کے جرائم کو معمول کا کاروبار ظاہر کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ یہ جعلی کمپنیاں واضح خامیوں کی حامل ہوتی ہیں جیسا کہ من گھڑت پتے، آف شور ملکیت یعنی کمپنیوں کے مالکان کا دوسرے ملکوں کا شہری ہونا، ایسی کمپنیاں جو اپنے آپ کو دوسری کمپنیوں کی مالک ظاہر کر رہی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ کیون بروئر کی کمپنیوں کی انوکھی بات یہ تھی کہ ان میں یہ خامیاں موجود نہیں تھیں۔ ان کا اندراج کیون بروئر کے پتے پر کروایا گیا تھا؛ اس کا کاروبار ان کمپنیوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے چلایا جا رہا تھا؛ وہ ارکانِ پارلیمان اور معاصرین کو بتا چکا تھا کہ وہ ان کے نام پر کاروبار کر رہا ہے اور اس نے اس کے بعد کمپنیاں تحلیل کر دی تھیں۔ اگر وہ مجرم تھا تو بڑا انوکھا مجرم تھا: بینک لوٹنے والا ایسا لٹیرا جس نے ایک پیسہ بھی نہیں لوٹا تھا، اپنا کاروباری کارڈ بینک کے کاؤنٹر پر چھوڑ گیا تھا اور بینک کے مینیجر کے نام لکھے خط میں اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔ حقیقی بینک لوٹنے والے ہمارے اردگرد کھلے پھر رہے ہیں جب کہ کیون بروئر پکڑا گیا تھا۔ اس کی کہانی ’’منی لانڈرنگ‘‘سے نبرد آزما ہونے کی کم زور حکمتِ عملی کی حقیقت بیان کرنے کے علاوہ برطانیہ کی سرحدوں سے دور تک پھیلے جرم سے جنگ کرنے میں برطانیہ کی ناکامی عیاں کرتی ہے۔
چھیاسٹھ سالہ کیون بروئر تجارتی کمپنیاں قائم کرنے میں سرمایہ کو مدد فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ 1984ء سے آج تک کی اپنی عملی زندگی میں پانچ لاکھ کمپنیوں کے قیام میں مدد دے چکے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میرا کام ملک میں ہر کسی کے لیے کمپنیاں قائم کرنا تھا۔ یہ کام ترقی کرتے کرتے قومی سطح تک پھیل چکا تھا۔ میرے بنیادی گاہک وکیل اور اکاؤنٹنٹ ہوتے تھے۔ میں فخریہ کہتا ہوں کہ میری خدمات کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے عام لوگوں کی بجائے پیشہ ور افراد میری خدمات حاصل کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ کام بہت محنت طلب تھا۔ انھیں اپنے گاہک کی شناخت کی تصدیق کرنا پڑتی تھی، اس کے پاس موجود رقم کا منبع اور اس کی کمپنی کا مقصد جاننا پڑتا تھا۔ اکثر اوقات پولیس، محکمۂ مال اور کسٹمز کے تفتیش کاران کی فائلیں دیکھنے کی درخواست کرتے اور وہ انھیں اپنی فائلوں کی مدد سے یہ جاننے میں مدد دیتے تھے کہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والی کمپنی کے پیچھے کون ہے۔ انھوں نے بتایا، ’’میں ہر بڑے مقدمے میں شہادتی بیانات دے چکا ہوں۔ برطانیہ کے ’’سیریئس فراڈ آفس‘‘ نے میری خدمات کے اعتراف میں مجھے شکریہ کا خط لکھا تھا۔‘‘ ان کے مسئلے کا آغاز 2011ء میں اتحادی حکومت کے دور میں اس وقت ہوا تھا جب وزیرِ تجارت ونس کیبل نے ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کے آن لائن رجسٹریشن سسٹم کا افتتاح کیا تھا۔ کم سرمائے سے کاروبار شروع کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران یہ سہولت فراہم کی گئی کہ کاغذی کارروائی کرنے یا کیون بروئر جیسے ایجنٹوں کے ذریعے کمپنی کا اندراج کروانے کی بجائے کوئی بھی شخص اس محکمے کے آن لائن پورٹل کے ذریعے اپنی کمپنی کا اندراج خود کروا سکتا ہے۔ 2012ء میں بس اڈوں پر ’’برطانیہ عظیم ہے‘‘ کی اشتہاری مہم چلائی گئی تھی ، جس کی ایک ذیلی سرخی میں فخریہ کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں کمپنی کے اندراج میں چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت لگتا ہے۔وزیروں کے خیال میں یہ ایک کارنامہ تھا جب کہ کیون بروئر جیسے ایجنٹوں کا خیال تھا کہ یہ ان کے کام کی بربادی ہے۔انھوں نے کہا، ’’بہت ہی تھوڑی رقم سے دنیا کا کوئی بھی شخص لاگ اِن ہو کر کمپنی بنا سکتا ہے۔ وہ کسی کا بھی نام درج کر سکتا ہے ۔۔۔ سراسر جعلی نام ۔۔۔ ان کی کمپنیاں بنا سکتا ہے اور ان کے لیے سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتا ہے۔ چاہے وہ روس میں ہوں یا جمیکا میں یا کسی بھی ملک میں۔‘‘ کیون بروئر جیسے ایجنٹ کمپنی کا اندراج کروانے کے لیے 100پونڈ معاوضہ لیتے ہیں جب کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘صرف 18پونڈ لیتا ہے۔ کیون بروئر اور دوسرے ایجنٹ گاہک کے ارادوں اور اس شناخت کی تصدیق کرتے ہیں لیکن ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کسی بھی چیز کی تصدیق نہیں کرتا۔ اس سے اُن کا کاروبار تو خطرے میں پڑا ہی ہے، اس سے جس پیمانے پر فراڈ کی راہ کھلی ہے وہ پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا۔ انھیں یقین ہے کہ حکومت نے اپنی پالیسی کے نتائج پر غور و غوض نہیں کیا۔ کیون بروئر نے وزیرِ تجارت ونس کیبل کے نام خط میں لکھا، ’’پالیسی ناصرف غلط اور مہنگی ہے بلکہ اس نے فراڈ اور فریب کاری کے بے پناہ مواقع بھی فراہم کر دیے ہیں۔ ہم نے اپنا موقف واضح کرنے کے لیے ایک کمپنی آپ کی مرضی کے بغیر اور آپ کے علم میں لائے بغیر آپ کے نام پر قائم کی ہے۔ ہم آپ کی شناخت استعمال کرتے ہوئے تجارت شروع کر سکتے ہیں۔‘‘ جان ونسنٹ کیبل سروسز لمیٹڈ 23مئی 2013ء کو قائم کی گئی تھی، جس کا صرف ایک شیئر ہولڈر تھا ۔۔۔ برطانیہ کا وزیرِ تجارت!
وزیرِ تجارت ونس کیبل کی طرف سے خاتون رکنِ پارلیمان جو سونسن نے ان کے خط کے جواب میں طویل خط لکھا، جس میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ پر اینٹی منی لانڈرنگ قوانین و ضوابط کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔ جو سونسن نے انھیں انتباہ دیتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے جعلی کمپنی بنا کر جرم کا ارتکاب کیا ہے لیکن یہ کہ وہ اس کے خلاف مقدمہ چلانا نہیں چاہتیں۔ ’’ڈیلی مرر‘‘ نے اسے ایک عجوبہ قرار دیا اور یہ اس معاملے کا اختتام تھا۔ وزارتِ تجارت، توانائی اور صنعتی حکمتِ عملی (بی ای آئی ایس) کا ایک ترجمان پچھلے ہفتے کیون بروئر کے بارے میں میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بڑا محتاط تھا۔ اس نے کہا کہ کیون بروئر نے وزیرِ تجارت ونس کیبل کو خبردار کرتے ہوئے کامل دیانت داری سے کام نہیں لیا تھا۔ وہ ملکی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لیے سرگرمِ عمل تھا کیوں کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں اس کا کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا۔ اگرچہ یہ درست تھا لیکن اس کی وجہ سے اس حقیقت سے توجہ نہیں ہٹانا چاہیے تھی کہ کیون بروئر نے آن لائن رجسٹریشن کی سہولت کے مجرمانہ استعمال کی جو نشان دہی کی تھی، اس میں وزن تھا۔
برطانیہ کی کمپنیوں نے عالم گیر سطح پر فراڈ ممکن بنا دیا ہے۔ یوکرین کے سابق صدر اور ان کے حواریوں نے اپنی املاک چھپانے کے لیے برطانوی کمپنیوں کو استعمال کیا تھا۔ روس سے دو کروڑ دس لاکھ ڈالر باہر لے جانے والی پیچیدہ منی لانڈرنگ سکیم ’’رشیئن لانڈرومیٹ‘‘ سکاٹش لمیٹڈ پارٹنر شپس کے ذریعے چلائی گئی تھی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے (ٹی آئی -یو کے) نے پچھلے سال کرپشن کے باون مقدمات کا جائزہ لے کر پتا چلایا کہ ان میں سات سو ستاسٹھ برطانوی تجارتی کمپنیاں ملوث تھیں، جنھوں نے تقریباً اسّی (80) ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی (یعنی غیرقانونی رقم کو قانونی بنایا)۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یوکے نے اس حوالے سے ’’نظروں کے سامنے چھپانا‘‘ کے عنوان سے جاری کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا، ’’ان جرائم کی زد میں آنے والے لوگوں کا انسانی نقصان ہنوز شمار کیاجا رہا ہے۔‘‘ تجارتی کمپنیوں کو بطور آڑ استعمال کیے بغیر اس قسم کے ’’معززانہ‘‘ مالی جرائم کا ارتکاب ناممکن ہے۔ کیروزل فراڈ میں تاجروں نے اشیا برطانیہ درآمد کیں، انھیں برآمد کرنے سے پہلے متعلقہ کمپنیوں کے ذریعے انھیں اپنے آپ کو بیچااور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی واپسی کے لیے دعویٰ دائر کر دیا حالاں کہ یہ ٹیکس ادا کیا ہی نہیں گیا تھا۔ صرف اس ایک جرم سے برطانیہ کو ہر سال پانچ کروڑ پونڈ سے ایک ارب پونڈ تک کا نقصان ہو رہا ہے۔ نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ ہر سال فراڈ کی وجہ سے 193ارب پونڈ کا نقصان اٹھا رہا ہے جب کہ تقریباً 100ارب پونڈ کی غیر قانونی رقم ملک کے مالیاتی نظام کی خامیوں کے باعث قانونی بنائی جا رہی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت نے اس جرم کا ارتکاب روکنے کے لیے برطانوی کمپنیوں پر لازم کیا تھا کہ کم از کم ایک ایسے شخص کا نام افشا کریں جو اس کمپنی پر خاصا کنٹرول رکھتا ہو (اسے پی ایس سی کہا جاتا ہے اور اس سے مراد ایسا شخص ہے جو حقیقتاً کمپنی کے حصص کا مالک ہوتا ہے)۔ ڈیوڈ کیمرون کی حکومت نے عوام کو یہ سہولت بھی دی کہ’ ’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی ویب سائٹ پر کسی بھی کمپنی کو بلامعاوضہ تلاش کیا جا سکتاہے۔ اس اقدام کا مقصد عوامی جانچ پڑتال میں اضافہ کرنا تھا۔ مشکل یہ ہے کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ میں کوئی بھی یہ جائزہ نہیں لے رہا کہ جمع کروائی جانے والی معلومات درست ہیں یا نہیں۔ کوئی چیز کتنی بھی شفاف کیوں نہ ہو، ٹیکنولوجی کی دنیا کی پرانی کہاوت اس پر صادق آتی ہے کہ ’’گند ڈالا جائے گا تو گند ہی باہر آئے گا۔‘‘ بعض شہری ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کو یہ مسئلہ حل کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کے ڈیٹا میں تضادات ڈھونڈ رہے ہیں۔ کرپشن اور تنازعات پھیلانے والے کاموں کے بارے میں تحقیق کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’گلوبل وِٹنیس‘‘ نے جنوری میں ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی ویب سائٹ پر پی ایس سی کے اندراجات کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ 4,000 شیرخوار بچے کمپنیوں کے مالک ہیں جب کہ ایک کامالک تو ابھی پیدا ہونا تھا۔ گراہم بیرو مالیاتی جرائم کا کھوج لگانے کے ماہر ہیں اور آج کل ڈوئچے بینک میں کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنے لنکڈ اِن پیج پر دل چسپ جرائم کی کہانیاں پوسٹ کیا کرتے ہیں۔انھوں نے حال ہی میں ایک شخص کے جرائم کا قصہ لکھا ہے جو اپنا نام چھ مختلف ہجوں میں لکھتا ہے اوراس طرح اس نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی تلاش مشکل بنا دی ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ ان انکشافات پر کوئی ردِ عمل نہیں کرے گا۔ میں نے 2016ء میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں ایک خاتون کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ متعدد کمپنیوں کی مالک ہے۔ حتیٰ کہ فوت ہو نے کے دو سال بعد بھی وہ ایک رجسٹرڈ کمپنی کے مالکان میں شامل ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے نے ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کو ایسی فعال کمپنیوں کے بارے میں خبردار کیا ہے جو اس کی تفتیش کے مطابق منی لانڈرنگ میں ملوث رہی ہیں۔ اس اطلاع پر ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نے ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ گراہم بیرو نے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں کئی عالمی بینکوں میں کام کر چکا ہوں۔ وہ سب اپنی خامیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو کروڑوں ڈالر جرمانہ ادا کر چکے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی کارکردگی کے اعتبار سے اتنا برا نہیں جتنا کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ برا ہے۔ مجھے بے چارے کیون بروئر پر ترس آ رہا ہے۔ اس نے تو یہ دِکھانے کی کوشش کی تھی کہ معاملات کس قدر خراب ہیں اور اسی کو مجرم قرار دے دیا گیا!‘‘
منی لانڈرنگ کے حوالے سے بنائے گئے قوانین و ضوابط بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں۔ اگر کوئی وکیل یا اکاؤنٹنٹ کمپنی بنائے تو بائیس محکمے اس کا جائزہ لیں گے۔ ان بائیس محکموں کی کارکردگی کا جائزہ نیا بنایا جانے والا محکمہ ’’آفس فار پروفیشنل باڈی اینٹی منی لانڈرنگ سپرویژن‘‘ (او پی بی اے ایس) لیتا ہے۔ ’’آفس فار پروفیشنل باڈی اینٹی منی لانڈرنگ سپرویژن‘‘ (او پی بی اے ایس) ’’فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی‘‘ (ایف سی اے) کا حصہ ہے۔ جہاں تک کمپنیاں قائم کرنے میں مدد دینے والے کیون بروئر جیسے ایجنٹوں کا تعلق ہے تو ان کے کام کی نگرانی الگ سے کی جاتی ہے حالاں کہ وہ بالکل ویسا ہی کام کر رہے ہیں۔وہ ایچ ایم آر سی کو اپنے کاموں کی رپورٹ دیتے ہیں، جو کسی بھی وزارت کے تحت نہیں۔ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کوئی کمپنی قائم کرتا ہے تو اس دوران اس کمپنی کی جانچ پڑتال منی لانڈرنگ روکنے والے قوانین و ضوابط کے تحت نہیں کی جاتی۔ محکمۂ موسمیات، این سی اے اور کیبنٹ آفس میں خدمات انجام دینے والے جان بینٹن پچھلے سال ہی ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ کرپشن اور مالیاتی جرائم کی تفتیش کیا کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ خفیہ معلومات ایک دوسرے تک پہنچانا تو الگ بات ان محکموں میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرنے تک کا سوفٹ ویئر موجود نہیں۔ انھوں نے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اب میں نجی شعبے میں کام کر رہا ہوں اور مالیاتی اداروں کے زیرِ استعمال تجزیہ کار سوفٹ ویئرز کی طاقت دیکھ رہا ہوں۔ یہ ادارے قانون نافذ کرنے والے سرکاری اداروں سے کئی عشرے آگے ہیں۔ ہم برٹش ورجن آئی لینڈ میں ہونے والے مالیاتی جرائم پر تنقید کرتے ہیں حالاں کہ یہ جرائم تو ہمارے ملک میں ہی بڑے پیمانے پر کیے جا رہے ہیں۔‘‘ مارچ میں ارکانِ پارلیمان نے پابندیوں اور اینٹی منی لانڈرنگ مسودۂ قانون پر بحث کی۔شیڈو وزیرِ خزانہ لیبر پارٹی کے انیلیز ڈوڈس نے اس میں دو ترامیم تجویز کیں جو کیون بروئر، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے، گلوبل وٹنیس، گراہم بیرو، جان بینٹن اور ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی کارکردگی کا جائزہ لینے والے ہر شخص کے دریافت کردہ مسائل کو حل کریں گی۔ ایک ترمیم کے تحت ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کے ضوابط میں منی لانڈرنگ کے خلاف ضوابط شامل کیے جائیں گے جب کہ دوسری ترمیم کے تحت ایسے لوگوں کے برطانیہ میں کمپنیاں قائم کرنے پر امتناع عائد کر دیا جائے گا ، جن پر برطانوی ضوابط لاگو نہیں ہوتے۔ شیڈو وزیرِ خزانہ لیبر پارٹی کے انیلیز ڈوڈس نے پبلک بل کمیٹی کو بتایا، ’’بے شمار کمپنیاں کسی جانچ پڑتال کے بغیر قائم کی جا چکی ہیں۔ پچھلے سال 251,628کمپنیوں کا اندراج جانچ پڑتال کے بغیر کروایا گیا۔ ہماری تجویز کو بوجھ قرار دیا جا رہا ہے حالاں کہ یہ ہمارے ووٹروں کو فراڈیوں کے ہاتھوں لٹنے سے بچنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ فراڈیے دن یا رات کسی بھی وقت آزادانہ یہاں آکر ہمارے شہریوں کو لوٹ کر فرار ہو سکتے ہیں اور ان کی کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنے والے ہمارے لوگ مشکل میں پھنسے پیچھے رہ جاتے ہیں۔‘‘ وزیرِ خزانہ جان گلین نے حکومت کی جانب سے جواب دیا۔ جو سونسن نے 2013ء میں جو دلائل بروئر کو دیے تھے، انھوں نے وہی دلائل دہرائے یعنی یہ کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ صرف معلومات جمع کرنے والا محکمہ ہے۔ وہ اس اختیار کا حامل نہیں کہ پیش کی جانے والی معلومات کی جانچ پڑتال کروا سکے۔ انھوں نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ یہ قانونی کمپنیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا کہ وہ بینک اکاوٌنٹ کھلواتے وقت اپنی شناخت کی پڑتال کروانے کے بعد ایک بار پھر اسی عمل سے گزریں۔انھوں نے کہا، ’’اتنی زیادہ کمپنیوں کی جانچ پڑتال کروانے پر وسائل بھی بہت زیادہ خرچ ہوں گے۔ اس کام کے لیے ہر سال کروڑوں پونڈادا کرنے کا بوجھ برطانیہ کی معیشت پر پڑ جائے گا۔‘‘
مسودۂ قانون میں لیبر پارٹی کی تجویز کردہ تبدیلیوں پر آنے والے خرچ کا حساب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے نے بھی لگایا تھا۔ اس کے اندازے کے مطابق جتنا خرچ حکومت بتا رہی تھی، اس سے کہیں کم خرچ آئے گا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے نے حساب لگایا کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نئی کمپنی کا اندراج کروانے کی فیس میں صرف 5 پونڈ سے 10پونڈ تک کا اضافہ کر کے اصلاح کا خرچ پورا کر سکتا ہے۔ اس طرح برطانیہ میں نئی کمپنی قائم کرنے کا خرچ 20پونڈ کے لگ بھگ ہو جائے گا، جو عالمی معیارات سے ہنوز سستا ہو گا۔ برٹش ورجن آئی لینڈز میں کمپنی خریدنا اس سے 50گنا زیادہ مہنگا ہے۔ دیوالیہ ہو جانے والی کمپنیوں کے معاملات کا تجربہ رکھنے والی وکیل اور فراڈ ایڈوائزری پینل کی ڈائریکٹر فرانسس کولسن برطانوی شہریوں کو مالیاتی جرائم سے بچانے کے مقصد سے سرگرمِ عمل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 100پونڈ بھی خرچ آ جائے تب بھی فائدہ ہی ہو گا۔انھوں نے کہا، ’’یہ ایک سوراخ ہے جس کے ذریعے لوگ غیر قانونی پیسے کو قانونی بنا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس خامی کو دور کرنا کاروباری افراد کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنے گا۔ ان کے لیے 100پونڈ کی بھلا کیا حیثیت؟ جب کہ ریاست کو تو اس پر کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ رجسٹرار کے ہاں ایسی ہزاروں کمپنیاں ہیں جنھوں نے بکواس معلومات درج کروا رکھی ہیں۔ ہمیں اکثر ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ معلومات بکواس کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ پس سوال یہ ہے کہ یہ کس قسم کے کاروبار کی راہ میں رکاوٹ ڈالے گی؟ کیا ہم فراڈیوں کو کھلی چھوٹ دینا چاہتے ہیں؟ یہ قانونی کاروبار کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی کیوں کہ انھیں بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے ایسی ہی جانچ پڑتال کروانا پڑتی ہے۔‘‘ ڈوڈس نے کہا کہ ان کے خیال میں حکومت سمجھ ہی نہیں سکی کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔درمیانی ایجنٹوں کے ذریعے کھولی جانے والی کمپنیوں کے مقابلے میں ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ میں براہِ راست کھولی جانے والی کمپنیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا تناسب 50فی صد ہو چکا ہے۔ اگر تمام نئی کمپنیوں میں سے آدھی کے مالکان کی معلومات غیر مصدقہ ہو تو اس سے پورے محکمے کی دیانت داری پر شک ہو جاتا ہے۔ ہمیں مطلقاً تیقن کرنا چاہیے کہ لندن یا پوٹرس بار یا گلاسگو ’’ڈرٹی منی‘‘ کو ’’دھونے‘‘ (غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ دولت کو قانونی بنانے) کے مقامات نہیں ہیں کیوں کہ یہ غریبوں کا پیسہ لوٹنے کا معاملہ ہے اور ہمیں حقیقتاً مجرموں کی مدد نہیں کرنا چاہیے۔ ہوا صرف یہ ہے کہ اس بے چارے کو سزا سنا دی گئی ہے۔ یہ غصہ دلانے والی بات ہے۔ کسی بھی کام کو موزوں طریقے سے انجام دینا اس قدر مہنگا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ 2015ء کے انتخابات کے بعد ونس کیبل اپنے منصب سے محروم ہو گئے تو کیون بروئر نے قدامت پسندوں کی حکومت کو قائل کرنے کی مہم ایک بار پھر شروع کر دی۔ انھوں نے ایسے ارکانِ پارلیمان کو خطوط لکھے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ ان کی بات پر ہمدردانہ توجہ دیں گے۔ اس کے علاوہ انھوں نے وزیروں کو بھی خط لکھ کر قائل کرنے کی کوشش کی کہ منی لانڈرنگ کے خلاف برطانیہ کے ضوابط اتنے کمزور ہیں کہ ان کے حوالے سے انھیں فکر مند ہونا چاہیے۔ انھیں ٹوری (قدامت پسند) ارکانِ پارلیمان کے فری اینٹرپرائز گروپ کے راہ نما جیمز کلیورلی کی طرف سے دوستانہ جواب موصول ہوا جنھوں نے کہا انھیں امید ہے کہ وہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی ذمہ دار وزیر لیڈی نیوائل رولف کو قائل کر لیں گے۔ انھوں نے وہی ترکیب آزمانے کا فیصلہ کیا جو ونس کیبل کو متاثر کرنے میں ناکام رہی تھی۔ انھوں نے 17مئی 2016ء کو ایک نئی کمپنی ۔۔۔ کلیورلی کلوگس لمیٹڈ ۔۔۔ قائم کی۔ جیمز کلیورلی اور لیڈی نیوائل رولف اس کے حصص کے مالکان اور ڈائریکٹر تھے۔ ان کے علاوہ ایک اسرائیلی تھا، جو کہ فرضی کردار تھا۔ کیون بروئر نے اس فرضی اسرائیلی شخص کے پتے کی جگہ ایک شاپنگ مال کا پتا درج کروایا تھا۔ کمپنی قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جیمز کلیورلی سے کیون بروئر کی ملاقات بہت خوش گوار تھی لیکن وہ لیڈی نیوائل رولف اور دوسرے وزیروں سے کبھی نہ مل سکے۔ یہ وزیر بھی اپنے لبرل ڈیموکریٹ پیش رووں کی طرح وعدہ خلاف نکلے تھے۔ کیون بروئر نے کہا، ’’کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مجھے محسوس ہو اجیسے میں سراب کے پیچھے بھاگتا رہا ہوں۔ میں حقیقتاً مایوس ہو چکا تھا۔ میں سوچنے لگا تھا کہ میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہوں۔ یہ 2016ء کی بات ہے۔‘‘
وہ تو ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کا پیچھا چھوڑ چکے تھے لیکن ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دیوالیہ ہونے والی کمپنیوں کے لیے بنائے گئے سرکاری محکمے کا ایک تفتیش کار ان سے تفتیش کرنے پہنچ گیا۔ کیون بروئر نے اسے سارے خطوط دکھائے اور واضح کیا کہ وہ کس طرح ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کو اپنے اقدامات کے بارے میں آگاہ کرتے آئے ہیں اور کمپنی بنانے کے لیے جن لوگوں کے نام استعمال کیے ہیں، انھیں بھی آگاہ کرتے آئے ہیں۔ انھوں نے تفتیش کار کو سمجھایا کہ وہ ایک مسئلے کو سامنے لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے غلط ارادے سے کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے فوراً وہ کمپنیاں بند کر دی تھیں۔ کسی نے نہیں کہا تھا کہ مجھے مجرم قرار دے دیا جائے گا۔ میں نے یہ کام سادگی میں کیے تھے۔ میری نیت صاف تھی۔ میں مکالمہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیوں کہ میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ سمجھ نہیں سکے ہیں۔ مجھے جس وزیر کی طرف سے بھی خط ملا، سب لفظ بہ لفظ ایک جیسے تھے۔‘‘ پھر 11دسمبر کو سمن آ گئے۔ انھیں ریڈچ مجسٹریٹس کورٹ میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔ انھوں نے ایک وکیل سے مشورے کے بعد 15مارچ کو اقرارِجرم کر لیا۔ انھیں جرمانے کے علاوہ مقدمے پر ہونے والے حکومت کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرنا پڑے تھے۔ مقدمے پر ہونے والے ان کے اپنے اخراجات الگ تھے۔ انھیں کُل 22,800پونڈ بھرنا پڑے تھے۔اینٹی کرپشن چیمپیئن قدامت پسند رکنِ پارلیمان جان پینروز کو اس فیصلے پر بہت غصہ آیا تھا۔ انھوں نے لندن میں فرنٹ لائن کلب کے میرے ترتیب دیے ہوئے’’ کلیپٹو سکوپ ایونٹ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’افسوس اتنے بڑے جرم کی نشان دہی کرنے والے شریف انسان کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ یہ واحد مقدمہ ہے جو منی لانڈرنگ کے حوالے سے قائم کیا گیا، وہ بھی ایک شریف شہری کے خلاف، جو حکام کی توجہ نظام کی خامیوں کی طرف دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے اتنی تکلیفیں اٹھانے کا کیا صلہ ملا؟ 22000پونڈ کا خرچ۔ یہ فیصلہ اس امر کا بدیہی ثبوت ہے کہ ہم اس مسئلے پر توجہ نہیں دے رہے کہ غلط معلومات درج کروائی جا رہی ہیں۔ میں خود بھی پچھلے چوبیس گھنٹوں میں یہ معاملہ کئی وزیروں کے سامنے پیش کر چکا ہوں۔‘‘ مجھے یہ معلوم کرنے میں پورا ایک دن لگ گیا کہ کیون بروئر پر مقدمہ چلانے کا اقدام کس نے کروایا تھا۔میں نے بی ای آئی ایس کے وزیر اینڈریو گرفتھس سے بات کی تو انھوں نے مجھے ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ بھیج دیا۔ اس کے عملے نے کہا کہ کیون بروئر پر مقدمہ کرنے کا اقدام ’’نامعلوم‘‘ سرکاری افراد نے کیا تھا۔ کراؤن پراسیکیوشن سروس کے ایک ترجمان نے اپنا ا طمینان چھپائے بغیر بتایا کہ اِس محکمے کا اس مقدمے میں کوئی کردار نہیں۔ آخرِ کار دیوالیہ ہو جانے والی کمپنیوں کے معاملات طے کرنے والے محکمے سے پتا چلا کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نے فائل انھیں بھیجی تھی۔محکمے کے ترجمان نے مجھے بتایا، ’’ہمارے محکمے کے پراسیکیوٹر نے فائل پڑھ کر نتیجہ اخذ کیا کہ کوڈ فار کراؤن پراسیکیوٹرز کے مطابق مقدمہ قائم کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں اور یہ کہ ایسا کرنا عوام کے مفاد میں ہو گا۔‘‘
کوڈ فار کراؤن پراسیکیوٹرز اٹھارہ صفحات پر مشتمل دستاویز ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کسی کو عدالت میں لے جانے سے پہلے کن کن باتوں پر غور کرنا چاہیے۔ اس میں مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں اور کیون بروئر کا معاملہ ثبوت والے مرحلے سے گزر چکا تھا کیوں کہ انھوں نے یا تو خود ہی تمام ثبوت پیش کر دیے تھے یا ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی فائلوں میں مہیا کر دیے تھے۔ بہرحال عوامی مفاد والا مرحلہ زیادہ دل چسپ تھا۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ ’’جرم کا نشانہ بننے والے حالات‘‘ کو زیرِ غور لایا جائے۔ سوال یہ تھا کہ کیون بروئر کے جرم کا نشانہ کون تھا؟ کیا لیڈی نیوائل رولف ان کے جرم کا نشانہ تھیں؟ وہ کیون بروئر سے کبھی نہیں ملی تھیں اور انھیں اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوا تھا کہ یہ جرم تو لگتا ہے لیکن حقیقت میں نظام کی خامی واضح کرنے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ کیا کلیورلی اس جرم کا نشانہ تھے؟ بہرحال وہ کیون بروئر سے ملاقات کر چکے تھے اور وہ شاید ان کی حسِ مزاح کو سمجھ چکے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں تو کیون بروئر پر مقدمہ چلانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔ ونس کیبل نے، جو اَب لبرل ڈیموکریٹوں کے راہ نما تھے، ایک بیان میں کہا کہ ان کا خیال ہے یہ ضرورت سے زیادہ ردِ عمل ہے۔انھوں نے کہا، ’’سِوِل سروینٹ مجھے محفوظ رکھنے کا اپنا فرض ادا کر رہے تھے کیوں کہ انھیں خدشہ تھا کہ یہ فراڈ نہ ہو۔ بہر حال معاملات پر ایک بار پھر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ اقدام سخت تھا اور انھوں نے اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا تھا کہ کیون بروئر نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھیں جرمانہ واپس کر دینا چاہیے۔‘‘
(بشکریہ دی گارڈین؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)