مصنف: بینڈی ایکس لی، جیفری ڈی
ساکس
مترجم:
محمد احسن بٹ
جب ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالا تو بہت سے تجزیہ کاروں کو یقین تھا کہ وہ اپنی حکومت مستحکم کر لیں گے اور ہوش مندانہ اقدامات کا محور بن جائیں گے لیکن ذہنی امراض کے متعدد امریکی ماہرین کا خیال اس سے مختلف ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ واضح طور پر ایک ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں جو دباؤ کی کیفیت میں شدید تر ہو جائے گا اور اس حالت میں ٹرمپ جنگ حتیٰ کہ ایٹمی جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اب جب کہ ٹرمپ کی سپہ سالاری میں شمالی کوریا یا ایران کے ساتھ جنگ کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے تو دنیا کو چاہیے کہ امریکی صدر کو ایسا کرنے سے روکے، پیش تراس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔
متعدد پیشہ ور ماہرینِ نفسیات اور نفسیاتی معالجوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نہ صرف کم زور افراد پر دھونس جمانے والے، دکھاوا باز، جارحیت پسند اور دروغ گو ہیں بلکہ وہ ایسے ذہنی مرض میں مبتلا فرد جیسے ہیں، جو بات بات پر بھڑک اٹھتا ہو، جارحیت پسند ہو اور جو مواقع سے فائدہ اٹھانے اور دوسروں پر الزام دھرنے میں تیزی دکھاتا ہو۔ ان ماہرین نے ٹرمپ کی ذہنی استعداد فوری اور آزادانہ طور پر جانچنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے اسی سال والٹر رِیڈ آرمی میڈیکل سینٹر میں صدر ٹرمپ کے جسمانی معائنے کے علاوہ دماغی معائنہ بھی کیا جا چکا ہے لیکن مذکورہ ماہرین ان کا زیادہ تفصیلی دماغی معائنہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ صدرٹرمپ کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کی علامات زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ اپنے آپ پر کنٹرول نہ ہونے کی کیفیت کو غلطی سے کھلا ڈلا پن سمجھا جا سکتا ہے۔ جارحیت پسندی اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کو غلطی سے معاملے طے کرنے کی مہارتیں سمجھا جا سکتا ہے لیکن ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ جو افراد اس طرح کے رویوں کا اظہار کرتے ہیں،وہ اکثر اوقات ناقابلِ برداشت بے بسی، ناکافی پن اور قبول کیے جانے کی شدید ضرورت کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ دباؤ کی صورت میں ایسے افراد پر تباہ کردینے کی کیفیت طاری ہو سکتی ہے۔
بلا شبہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ شدید نفسیاتی مرض میں مبتلا کسی لیڈر نے اقتدار حاصل کر لیا ہو لیکن ایسے لیڈر عموماً چھوٹے ملکوں میں اقتدار حاصل کرتے ہیں جن کی فوج دنیا کی سب سے طاقت ور فوج نہیں ہوتی۔ اب بھی ایسے واقعات کا ریکارڈ خوف انگیز ہے: عیدی امین، صدام حسین، پول پاٹ اور دوسرے بہت سارے ایسے افراد نے بڑے پیمانے پر خوں بہایا۔
ان لیڈروں کے برخلاف ٹرمپ اپنی کمانڈ میں دنیا کو ایک تباہ کن ایٹمی جنگ کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں انھوں نے ایٹمی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں بار بار دی ہیں۔ ٹرمپ کو یقین ہے کہ وہ دھمکیوں، اقتصادی پابندیوں اور قوت کے اظہار سے شمالی کوریا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دست بردار ہونے پرمجبور کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں اگرٹرمپ نے شمالی کوریا کو بے بس کر دیا تو زیادہ یقینی امر یہ ہے کہ وہ جنگ چھیڑ دے گا۔ جنوبی کوریا کے لوگ یہ حقیقت سمجھتے ہیں لیکن امریکا انھیں قائل کر رہا ہے کہ سخت مؤقف اختیار کریں۔ حال ہی میں اولمپکس کے موقع پرجنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے باہمی تعلقات میں بہتری نظر آئی جو بہت حوصلہ افزا ہے لیکن یہ کہانی کا اختتام نہیں ہے۔ یہ امریقینی ہے کہ ٹرمپ جلد ہی ایک بار پھر تناؤ پیدا کر دیں گے۔ وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا سکتے۔
دوسرا حساس معاملہ ایران کا ہے۔ ٹرمپ کو ان کی حکومت میں موجود سخت گیر افراد نے گھیرا ہوا ہے جو ایران کے ساتھ ٹکراؤ چاہتے ہیں۔ بنجامن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی حکومت بھی ٹرمپ کو اسی سمت میں دھکیل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ٹرمپ اور ان کے مشیروں کو یقین ہو کہ قوت کا اظہار ایرانیوں کو شام اور لبنان میں اپنی علاقائی برتری دکھانے سے باز رکھ سکے گا لیکن ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا جزوی سبب یہ ہے کہ ایران روس کی خفیہ پشت پناہی حاصل کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کو جیتنے کا جنون ہے اور وہ توازنِ طاقت قبول کرنے میں نااہل ہیں۔ یہ بہت خطر انگیز امر ہے۔ جنوری میں انھوں نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ وہ ’’ایک بہت مستحکم نابغہ‘‘ ہیں۔ ان کا یہ اعلان طاقت ور ہونے کی نہیں بلکہ ناطاقتی کی علامت ہے۔ ایسے بیانات شبہات رفع نہیں کرتے بلکہ خبردار کرتے ہیں۔
خصوصی وکیل رابرٹ ملر کی تفتیش جاری ہے جس سے ٹرمپ پر جذ باتی اور سیاسی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے صدر ٹرمپ کے جنگ چھیڑ دینے کی ترغیب میں بھی ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ ٹرمپ جذبات کے زیرِ اثر کچھ سجھائی نہ دینے کی کیفیت میں تشدد کے راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ اور دوسرے افراد ان کے داخلی زخموں کو چھپانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ان کے اردگرد موجود افراد انھیں ’’حد میں‘‘ رکھنے کے لیے اکثر اوقات ان کی بہت زیادہ خوشامد کرتے یا ان کے غیر معمولی مطالبات مان لیتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا ماحول مبینہ طور پر اس طرح کا ہے، جہاں ان کے معاونین امریکا کو اپنے باس سے محفوظ رکھنے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
صورتِ حال کی سنگینی بھانپ کر امریکی کانگریس کو چاہیے کہ ٹرمپ کا یک طرفہ طور پر اعلانِ جنگ خصوصاً ایٹمی جنگ شروع کرنے کا اختیار بلاتاخیر ختم کر دے۔ امریکی آئین کی شق نمبر ایک، جزو نمبر آٹھ میں واضح لکھا ہے کہ اعلانِ جنگ کا اختیار صدر کے پاس نہیں بلکہ کانگریس کے پاس ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکی صدور نے یہ اختیار بدترین انداز میں غصب کیااور بد قسمتی سے کانگریس نے اس پرکوئی احتجاج نہیں کیا۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ بقا کا مسئلہ بن چکا ہے کہ کانگریس اپنا آئینی اختیار واضح طورپراور بلاتاخیردوبارہ حاصل کرلے۔
امریکا کے روایتی اتحادیوں کو بھی خبردار رہنا چاہیے اور اندھا دھند امریکا کے پیچھے پیچھے جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم جزیرہ نمائے کوریا یا مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن اور استحکام قائم کرنے اورتمام فریقوں کے سلامتی کے مفادات باہمی طور پر تسلیم کیے جانے کے لیے نئی جنگ نہیں چاہتے۔ ہم سفارت کاری چاہتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ نفسیاتی اعتبار سے اس کی اہلیت نہیں رکھتے کیوں کہ ان کا مزاج سمجھوتے کرنے والا نہیں بلکہ حملہ کرنے والا ہے۔ امن کی عالمی طاقتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مزاحمت کریں۔
(بینڈی ایکس لی ییل سکول آف میڈیسن میں قانون اور نفسیات کی پروفیسر ہیں۔ جیفری ڈی ساکس کولمبیا یونیورسٹی میں ہیلتھ اینڈ مینجمنٹ کے پروفیسر، اقوامِ متحدہ کے’’ سسٹین ایبل ڈیویلپ مینٹ سولوشنز نیٹ ورک‘‘ کے ڈائریکٹر اور چار کتابوں کے مصنف ہیں۔)
جب ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالا تو بہت سے تجزیہ کاروں کو یقین تھا کہ وہ اپنی حکومت مستحکم کر لیں گے اور ہوش مندانہ اقدامات کا محور بن جائیں گے لیکن ذہنی امراض کے متعدد امریکی ماہرین کا خیال اس سے مختلف ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ واضح طور پر ایک ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں جو دباؤ کی کیفیت میں شدید تر ہو جائے گا اور اس حالت میں ٹرمپ جنگ حتیٰ کہ ایٹمی جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اب جب کہ ٹرمپ کی سپہ سالاری میں شمالی کوریا یا ایران کے ساتھ جنگ کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے تو دنیا کو چاہیے کہ امریکی صدر کو ایسا کرنے سے روکے، پیش تراس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔
متعدد پیشہ ور ماہرینِ نفسیات اور نفسیاتی معالجوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نہ صرف کم زور افراد پر دھونس جمانے والے، دکھاوا باز، جارحیت پسند اور دروغ گو ہیں بلکہ وہ ایسے ذہنی مرض میں مبتلا فرد جیسے ہیں، جو بات بات پر بھڑک اٹھتا ہو، جارحیت پسند ہو اور جو مواقع سے فائدہ اٹھانے اور دوسروں پر الزام دھرنے میں تیزی دکھاتا ہو۔ ان ماہرین نے ٹرمپ کی ذہنی استعداد فوری اور آزادانہ طور پر جانچنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے اسی سال والٹر رِیڈ آرمی میڈیکل سینٹر میں صدر ٹرمپ کے جسمانی معائنے کے علاوہ دماغی معائنہ بھی کیا جا چکا ہے لیکن مذکورہ ماہرین ان کا زیادہ تفصیلی دماغی معائنہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ صدرٹرمپ کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کی علامات زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ اپنے آپ پر کنٹرول نہ ہونے کی کیفیت کو غلطی سے کھلا ڈلا پن سمجھا جا سکتا ہے۔ جارحیت پسندی اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کو غلطی سے معاملے طے کرنے کی مہارتیں سمجھا جا سکتا ہے لیکن ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ جو افراد اس طرح کے رویوں کا اظہار کرتے ہیں،وہ اکثر اوقات ناقابلِ برداشت بے بسی، ناکافی پن اور قبول کیے جانے کی شدید ضرورت کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ دباؤ کی صورت میں ایسے افراد پر تباہ کردینے کی کیفیت طاری ہو سکتی ہے۔
بلا شبہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ شدید نفسیاتی مرض میں مبتلا کسی لیڈر نے اقتدار حاصل کر لیا ہو لیکن ایسے لیڈر عموماً چھوٹے ملکوں میں اقتدار حاصل کرتے ہیں جن کی فوج دنیا کی سب سے طاقت ور فوج نہیں ہوتی۔ اب بھی ایسے واقعات کا ریکارڈ خوف انگیز ہے: عیدی امین، صدام حسین، پول پاٹ اور دوسرے بہت سارے ایسے افراد نے بڑے پیمانے پر خوں بہایا۔
ان لیڈروں کے برخلاف ٹرمپ اپنی کمانڈ میں دنیا کو ایک تباہ کن ایٹمی جنگ کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں انھوں نے ایٹمی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں بار بار دی ہیں۔ ٹرمپ کو یقین ہے کہ وہ دھمکیوں، اقتصادی پابندیوں اور قوت کے اظہار سے شمالی کوریا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دست بردار ہونے پرمجبور کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں اگرٹرمپ نے شمالی کوریا کو بے بس کر دیا تو زیادہ یقینی امر یہ ہے کہ وہ جنگ چھیڑ دے گا۔ جنوبی کوریا کے لوگ یہ حقیقت سمجھتے ہیں لیکن امریکا انھیں قائل کر رہا ہے کہ سخت مؤقف اختیار کریں۔ حال ہی میں اولمپکس کے موقع پرجنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے باہمی تعلقات میں بہتری نظر آئی جو بہت حوصلہ افزا ہے لیکن یہ کہانی کا اختتام نہیں ہے۔ یہ امریقینی ہے کہ ٹرمپ جلد ہی ایک بار پھر تناؤ پیدا کر دیں گے۔ وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا سکتے۔
دوسرا حساس معاملہ ایران کا ہے۔ ٹرمپ کو ان کی حکومت میں موجود سخت گیر افراد نے گھیرا ہوا ہے جو ایران کے ساتھ ٹکراؤ چاہتے ہیں۔ بنجامن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی حکومت بھی ٹرمپ کو اسی سمت میں دھکیل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ٹرمپ اور ان کے مشیروں کو یقین ہو کہ قوت کا اظہار ایرانیوں کو شام اور لبنان میں اپنی علاقائی برتری دکھانے سے باز رکھ سکے گا لیکن ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا جزوی سبب یہ ہے کہ ایران روس کی خفیہ پشت پناہی حاصل کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کو جیتنے کا جنون ہے اور وہ توازنِ طاقت قبول کرنے میں نااہل ہیں۔ یہ بہت خطر انگیز امر ہے۔ جنوری میں انھوں نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ وہ ’’ایک بہت مستحکم نابغہ‘‘ ہیں۔ ان کا یہ اعلان طاقت ور ہونے کی نہیں بلکہ ناطاقتی کی علامت ہے۔ ایسے بیانات شبہات رفع نہیں کرتے بلکہ خبردار کرتے ہیں۔
خصوصی وکیل رابرٹ ملر کی تفتیش جاری ہے جس سے ٹرمپ پر جذ باتی اور سیاسی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے صدر ٹرمپ کے جنگ چھیڑ دینے کی ترغیب میں بھی ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ ٹرمپ جذبات کے زیرِ اثر کچھ سجھائی نہ دینے کی کیفیت میں تشدد کے راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ اور دوسرے افراد ان کے داخلی زخموں کو چھپانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ان کے اردگرد موجود افراد انھیں ’’حد میں‘‘ رکھنے کے لیے اکثر اوقات ان کی بہت زیادہ خوشامد کرتے یا ان کے غیر معمولی مطالبات مان لیتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا ماحول مبینہ طور پر اس طرح کا ہے، جہاں ان کے معاونین امریکا کو اپنے باس سے محفوظ رکھنے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
صورتِ حال کی سنگینی بھانپ کر امریکی کانگریس کو چاہیے کہ ٹرمپ کا یک طرفہ طور پر اعلانِ جنگ خصوصاً ایٹمی جنگ شروع کرنے کا اختیار بلاتاخیر ختم کر دے۔ امریکی آئین کی شق نمبر ایک، جزو نمبر آٹھ میں واضح لکھا ہے کہ اعلانِ جنگ کا اختیار صدر کے پاس نہیں بلکہ کانگریس کے پاس ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکی صدور نے یہ اختیار بدترین انداز میں غصب کیااور بد قسمتی سے کانگریس نے اس پرکوئی احتجاج نہیں کیا۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ بقا کا مسئلہ بن چکا ہے کہ کانگریس اپنا آئینی اختیار واضح طورپراور بلاتاخیردوبارہ حاصل کرلے۔
امریکا کے روایتی اتحادیوں کو بھی خبردار رہنا چاہیے اور اندھا دھند امریکا کے پیچھے پیچھے جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم جزیرہ نمائے کوریا یا مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن اور استحکام قائم کرنے اورتمام فریقوں کے سلامتی کے مفادات باہمی طور پر تسلیم کیے جانے کے لیے نئی جنگ نہیں چاہتے۔ ہم سفارت کاری چاہتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ نفسیاتی اعتبار سے اس کی اہلیت نہیں رکھتے کیوں کہ ان کا مزاج سمجھوتے کرنے والا نہیں بلکہ حملہ کرنے والا ہے۔ امن کی عالمی طاقتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مزاحمت کریں۔
(بینڈی ایکس لی ییل سکول آف میڈیسن میں قانون اور نفسیات کی پروفیسر ہیں۔ جیفری ڈی ساکس کولمبیا یونیورسٹی میں ہیلتھ اینڈ مینجمنٹ کے پروفیسر، اقوامِ متحدہ کے’’ سسٹین ایبل ڈیویلپ مینٹ سولوشنز نیٹ ورک‘‘ کے ڈائریکٹر اور چار کتابوں کے مصنف ہیں۔)
بشکریہ پروجیکٹ سنڈیکیٹ
http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2018-03-03&edition=LHR&id=3746840_31768723
http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2018-03-03&edition=LHR&id=3746840_31768723