مصنف: کینڈرا پیئر لوئس
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایئرکنڈیشروں کی تعداد میں اضافے کا ایک سبب تو آرام و سکون کی خواہش ہے لیکن اس میں دوسرے عوامل بھی کارفرما ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب کسی ملک کے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس ملک کے گھروں میں استعمال کیے جانے والے برقی آلات مثلاً ریفریجریٹروں اور ٹیلی ویژنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھروں میں استعمال کیے جانے والے یہ برقی آلات حرارت پیدا کرتے ہیں، جس سے اُن گھروں کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ جب گھروں کا اندرونی درجۂ حرارت کم کرنے کی غرض سے ایئرکنڈیشنر استعمال کیے جاتے ہیں تو ان سے خارج ہونے والی حرارت ان گھروں کے اردگرد درجۂ حرارت میں اضافہ کر دیتی ہے۔ محولہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض ماہرین کے تخمینے کے مطابق ایئرکنڈیشننگ کی وجہ سے بعض شہروں میں رات کے درجۂ حرارت میں ایک درجہ سیلسیئس (دو درجہ فارن ہائیٹ) کا اضافہ ہو جاتا ہے۔یہ بات بالخصوص قابلِ غور ہے کہ اگر آپ کے سارے پڑوسی اپنے اپنے گھر میں ائیرکنڈیشنر استعمال کرنا شروع کر دیں تو اس کے نتیجے میں آپ کے گھر کا درجۂ حرارت اس قدر بڑھ جائے گا کہ آپ کو بھی آخرِ کار اپنے گھر میں ائیرکنڈیشنر لگوانا پڑے گا۔ اس طرح بلا شبہ آب و ہوا میں تبدیلی وقوع پذیر ہو گی۔ بھارت ایک صدی پہلے اوسطاً جتنا گرم تھا، اُس سے ایک درجہ فارن ہائیٹ گرم ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں ’’کولنگ ڈگری ڈیز‘‘ میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ’’کولنگ ڈگری ڈیز‘‘ ایسے دنوں کو کہا جاتا ہے جن کا اوسط درجۂ حرارت اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ایئرکنڈیشننگ ضروری ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے ہاس سکول آف بزنس کے انرجی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرڈاکٹر لوکس ڈیوس کہتے ہیں، ’’اگر آپ بھارت کے شہروں چنائی اور ممبئی کے ’’کولنگ ڈگری ڈیز‘‘ کا جائزہ لیں تو وہ امریکا کے گرم ترین شہر میامی کے ’’کولنگ ڈگری ڈیز‘‘ کی نسبت دو گنا زیادہ ہو چکے ہیں۔ اتنی گرمی ناقابلِ یقین ہے ۔۔۔ امریکا کا کوئی شہر ایسا نہیں جس کا گرمی کے حوالے سے بھارت کے ان دو شہروں سے موازنہ کیا جا سکتا ہو۔‘‘ جب درجۂ حرارت بڑھتا ہے تو ایئرکنڈیشنروں سے استفادہ نہ کرنا زیادہ ہلاکت خیز ہو سکتا ہے۔ 1995ء میں امریکا کے شہر شکاگو کو لپیٹ میں لینے والی گرمی کی لہر سے سات سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح 2003ء میں یورپ میں آنے والی گرمی کی لہر دسیوں ہزار افراد کی ہلاکت کا سبب بنی تھی جب کہ 2010ء میں روس میں آنے والی گرمی کی لہر سے بھی دسیوں ہزار افرادلقمۂ اجل بن گئے تھے۔ ماہرین نے تحقیق سے پتا چلایا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی نے یورپ میں گرمی کی لہر کو زیادہ ہلاکت خیز بنا دیا تھا۔ اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی روس میں بھی گرمی کی لہر کے زیادہ ہلاکت خیز ہونے کا سبب تھی۔ ایک اور تحقیق کے مطابق امریکا میں 1960ء سے گھروں میں ایئرکنڈیشنروں کا استعمال شروع ہونے کے بعد سے گرمی کی وجہ سے قبل از وقت ہونے والی اموات میں 75فی صد کمی آ چکی ہے۔
اس باعث ڈاکٹر لوکس ڈیوس اور ڈاکٹر فاتح بیرول کہتے ہیں کہ درجۂ حرارت میں اضافے کے مسئلے کا حل یہ نہیں کہ ملکوں کو قائل کیا جائے کہ وہ ایئرکنڈیشنروں کا استعمال تَرک کر دیں بلکہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ کم توانائی خرچ کرنے والے ایئرکنڈیشنر زیادہ استعمال کیے جائیں۔اس سے آنے والے برسوں میں فضا کو ٹھنڈا کرنے کے لیے درکار بجلی کی طلب گھٹ کر نصف رہ جائے گی۔ ڈاکٹر لوکس ڈیوس نے بتایا کہ بھارت میں آج کل جس قسم کے ایئرکنڈیشنر فروخت کیے جا رہے ہیں، وہ بجلی کم خرچ کرنے والے ایئرکنڈیشنروں جتنی ٹھنڈک مہیا کرنے کے لیے ان کی نسبت دگنی بجلی خرچ کرتے ہیں۔ دوسری طرف جاپان اور یورپی یونین میں فروخت کیے جانے والے ایئرکنڈیشنر توانائی کم خرچ کرنے کے اعتبار سے امریکا اور چین میں فروخت کیے جانے والے ایئرکنڈیشنروں سے 25فی صد زیادہ بہتر ہیں۔ ڈاکٹر فاتح ببیرول نے کہا کہ حکومتوں کو ایئرکنڈیشنرں میں توانائی کم خرچ ہونے کے حوالے سے معیارات کا تعین کرنا چاہیے جب کہ ایئرکنڈیشنر بنانے والوں کو ان معیارات کے مطابق ایئرکنڈیشنر بنانے اور صارفین کو ایسے ایئرکنڈیشنر خریدنے کی تحریک و ترغیب دینا چاہیے۔بعض ملک پہلے ہی ایئرکنڈیشنروں میں توانائی کے استعمال کے حوالے سے معیارات کا تعین کر رہے ہیں۔ مونٹریال پروٹوکول میں کی جانے والی ایک ترمیم ’’کِگالی ترمیم‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کے تحت دوسرے ملک ایئرکنڈیشنروں میں استعمال کیے جانے والے اُن مادّوں کا استعمال بتدریج ختم کر رہے ہیں جو کمرے کی حرارت جذب کر کے باہر نکالتے ہیں۔ یہ بھی فضا کا درجۂ حرارت بڑھانے میں حصہ لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر لوکس ڈیوس نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں میں بجلی کی قیمتوں کو بھی لازماً کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا، ’’بجلی کی زیادہ منطقی قیمتیں طے کیے بغیر ان میں سے کسی بھی شعبے میں پیش رفت دشوار ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھانے والی حرارت کے اخراج کو بجلی کی قیمت میں شمار کیا جانا اور حکومتی رعایتوں کا خاتمہ کرنے سے توانائی کم خرچ کرنے والے ایئرکنڈیشنروں کے استعمال اور زیادہ ماحول دوست عمارتیں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ محولہ بالا رپورٹ میں یہ تصور بھی پیش کیا گیا ہے کہ کوئلے، تیل اور قدرتی گیس کی بجائے دھوپ، ہوا، سمندری و دریائی پانی اور دوسرے ماحول دوست ذرائع سے حاصل کی جانے والی توانائی زیادہ استعمال کی جانا چاہیے ۔۔۔ خصوصاً دھوپ سے حاصل کی جانے والی توانائی زیادہ استعمال کی جانا چاہیے کیوں کہ دوپہر کے وقت دھوپ اپنے عروج پر ہوتی ہے اوراسی وقت ایئرکنڈیشنروں میں استعمال کے لیے توانائی کی طلب بھی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ چناں چہ دوپہر کے وقت دھوپ سے حاصل کی جانے والی توانائی کی مقدار ایئرکنڈیشنروں میں استعمال کی جانے والی توانائی کی طلب کے تقریباً برابر ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر فاتح بیرول نے کہا کہ کچھ بھی ہو آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں ایئرکنڈیشننگ ایک بڑا مسئلہ ہو گی۔ انھوں نے کہا، ’’جب میں آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے آنے والے چند برسوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے صنعتی شعبے کے بعد ایئرکنڈیشنر دوسرے نمبر پر نظر آتے ہیں۔ دنیا میں جتنی توانائی پیدا کی جا رہی ہے اس میں سے 21فی صد توانائی ایئرکنڈیشنروں میں استعمال ہونے والی بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے پیدا کی جا رہی ہے۔‘‘
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)