کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم
مصنف: آرتھر سی بروکس (صدر ’’امریکن اینٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ)
میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتا ہوں۔ یہ نفرت میرے کھیل کے میدان کے برسوں سے نہیں پھوٹی بلکہ اس کی بجائے بیس بائیس سال کی عمر میں ایک پیشہ ورسمفنی آرکسٹرا میں کام کرنے کے میرے تجربے سے پھوٹی ہے۔ آرکسٹرا کے موسیقار جبر، ظلم اور ضرورت سے زیادہ کام لینے کی عادت کے باعث بدنام ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سازندوں کی فن کارانہ زندگی کو مکمل کنٹرول میں رکھنے کی وجہ سے بھی بدنام ہیں۔ وہ اپنی طاقت مستحکم کرنے کی غرض سے سازندوں کو ایک دوسرے کا مخالف بنا دیتے ہیں، ان کی کمزوریوں کی تاک میں رہتے ہیں اور ان کا اعتماد تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔جیسا کہ ہم کہا کرتے ہیں، موسیقار ’’ایول جینیئس‘‘ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ سارے مجسم شر ہوتے ہیں۔
کئی عشرے گزرنے کے بعد موسیقاروں کے لیے میری رائے تھوڑی نرم ہو گئی ہے لیکن کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں کے متعلق میری رائے پہلے جیسی ہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لوگوں کی اکثریت بھی کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتی ہے۔ ’’ہوریبل باسز‘‘ اور ’’ریوینج آف دی نرڈز‘‘ جیسی فلموں میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اپنے مظالم کی سزا پاتے ہیں۔ فلموں کے شائقین کا بڑی تعداد میں یہ فلمیں دیکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جس طرح میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتا ہوں، اسی طرح لوگوں کی اکثریت بھی کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتی ہے۔ کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں کے خلاف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والوں کی کوششوں پر غور کیجیے۔خاتونِ اوّل یعنی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی میلانیا ٹرمپ کی ’’بہترین بنو‘‘ کے نعرے کے تحت شروع کی ہوئی مہم اس سلسلے کی تازہ ترین کوشش ہے۔
چناں چہ یہ ایک اَسرار آمیز امر ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں منڈی کی بنیاد پر استوار مظہر ۔۔۔ یعنی سیاسی مباحثے ۔۔۔ پر اِس وقت انسانی کردار کی اس نفرت انگیز خصوصیت کا غلبہ ہے۔ ٹیلی ویژن سے لے کر سوشل میڈیا اور اعلیٰ ترین سطح کی روزمرہ سیاست تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ طاقتور لوگ اپنے سے کم تر رتبے کے حامل افراد اور کمزور لوگوں کی تحقیر، تذلیل اور تضحیک کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم موجود ہیں تو انھیں عوامی حلقوں میں شہرت و مقبولیت، توجہ اور حتیٰ کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں انعام و اکرام کیوں ملتا ہے؟ انھیں رد کیوں نہیں کر دیا جاتا؟
اس سوال کے تین جواب اور توضیحات ہیں۔ اوّل، لوگ اخلاقیات کے معاملے میں پسند ناپسند اور جانب داری و تعصب سے کام لیتے ہیں۔ دوسرے فریق کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص ایک ہولناک شخص ہوتا ہے جب کہ اپنی جانب کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص ’’سچ بولنے والا‘‘ ہوتا ہے۔ بلا شبہ ہم بعض اوقات اس بیانیے سے بھی ہٹ جاتے ہیں اور یہاں تک کہنے لگتے ہیں کہ ہماری جانب کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص تو اصل میں مظلوم انسان ہے جو کمزوروں پر دھونس جمانے والا بڑے بزدل ظالموں سے لڑ رہا ہے۔
دوم، صورتِ حال اُلٹ ہے، جو کچھ یوں ہے کہ عوام کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اشخاص کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ سماجی سائنس داں ژاں لِپ مَین بلومن نے اپنی کتاب ’’دی الیور آف ٹوکسک لیڈرز‘‘ (The Allure of Toxic Leaders) میں دکھایا ہے کہ لوگ سیاسی ڈکٹیٹروں اور جابر منتظمین کے خلاف شکوے شکایت تو کرتے ہیں لیکن تقریباً ہمیشہ ہی ایک غیر یقینی دنیا میں طاقت کی قدیمی پسندیدگی و ستائش اور تحفظ کی ضرورت کے تحت ان کے وفادار رہتے ہیں۔
جہاں تک آرکسٹرا کے جہان کا تعلق ہے تو وہاں وائیولا بجانے والے ایک سازندے کا لطیفہ اکثر سنایا جاتا ہے جسے موسیقار نے برسوں سے گالم گلوچ اور اذیت کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ایک دن وہ ریہرسل کر کے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ اس کا گھر جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ وہاں موجود پولیس والوں نے اسے بتایا کہ یہ کام اس کے آرکسٹرا کے موسیقار نے کیا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کوئی سوال کرنا چاہتا ہے۔ اس نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد نرم لہجے میں پوچھا، ’’کیا استاد جی میرے گھر تشریف لائے تھے؟‘‘
تیسری توضیح سادہ رضامندی ہے۔ 1999ء میں ’’جرنل آف ایڈولسینس‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق بڑی معروف ہے۔ یہ تحقیق تین ماہرینِ نفسیات نے اس موضوع پر کی تھی کہ جب بچے کسی بزدل ظالم کو اپنے سے کمزور شخص پر دھونس جماتا دیکھتے ہیں تو وہ کس طرح کا ردِ عمل کرتے ہیں۔
کھیل کے میدان میں کھیلتے کودتے ہزاروں بچوں کی ویڈیوز بنائی گئیں۔ اس دوران کمزوروں پر دھونس جمانے کے 200واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم یہ بات بہت زیادہ پسند کرتے ہیں کہ جب وہ کسی کمزور پر دھونس جما رہے ہوں تو اس دوران ان کے ارد گرد تماشائی موجود ہوں۔ ریکارڈ کیے جانے والے 200واقعات میں سے 100واقعات ایسے تھے جن میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اور مظلوم کے علاوہ دو یا دو سے زیادہ لوگ موجود تھے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات رونما ہونے کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں؟ محولہ 200واقعات میں سے جن 100واقعات میں دوسرے جتنے بھی لوگ موجود تھے ان میں سے 21فی صد نے کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم کا ساتھ دیا تھا جب کہ 25فی صد نے مظلوم کا ساتھ دیا تھا۔ باقی 54فی صد لوگ غیر جانب دار رہے تھے۔ وہ بغیر کوئی ردِ عمل کیے ’’تماشا‘‘ دیکھتے رہے تھے۔ انھوں نے نہ تو کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم کا ساتھ دیا تھا اور نہ ہی مظلوم کی مدد کی تھی۔ جب سیاست کے میدان میں بزدل ظالم سیاست دان کمزوروں پر دھونس جماتے ہیں تو بالغ افراد کا ردِ عمل اُن بچوں سے مختلف نہیں ہوتاجن کی ویڈیوز محولہ تحقیق کے دوران بنائی گئی تھیں۔سیاسی تقریر ہو یا معمول کا مزاح کمزوروں پر دھونس جمانے کے بد ترین واقعے پر بھی بے نیازی سے کندھے جھٹک دیے جاتے ہیں۔
امریکا کے سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ نے امن کا نوبل انعام حاصل کرتے وقت جو تقریر کی تھی، اس میں انھوں نے کہا تھا، ’’ہم نجی اور سرکاری زندگی میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں، عادی جھگڑا لو لوگوں اور جابروں سے نفرت اور حقارت کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنی زندگی بخش تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا تھا، ’’لیکن ہم بزدلوں اور عیش و عشرت میں دل چسپی لینے والوں سے بھی کم نفرت نہیں کرتے ۔ اگر کوئی انسان حقوق سے محرومی اور ذلت و خواری کا مقابلہ نہیں کرتا یا ناانصافی کے شکار اپنے پیاروں کی خاطر نہیں لڑتا تو وہ انسان کہلائے جانے کا حق دار نہیں۔‘‘
امریکا کے سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ نے یہ بات اجنبیوں کا دفاع کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے اتحادیوں کے (’’اپنے پیاروں‘‘ کے) حق میں کھڑے ہونے کے بارے میں کی تھی۔ بالکل درست لیکن اپنے آپ سے پوچھیے کہ آپ کے حقیقی اتحادی کون کون ہیں؟ اگر کوئی ایسا شخص آپ کا دوست ہو جس سے آپ سیاسی اعتبار سے اتفاق رائے نہیں رکھتے ہوں تو کیا وہ شخص سیاسی اعتبار سے آپ کے ہم خیال کسی مسخرے، سیاست دان یا ٹوئٹر پر دوسروں کو دِق کرنے والے شخص کی نسبت آپ کا زیادہ اتحادی نہیں ہو گا؟ اگر ایسا ہو تو کیا آپ کو اس مرد یا عورت کو کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم سے بچانے کے لیے کھڑا نہیں ہونا چاہیے، خواہ کمزوروں پر دھونس جمانے والا وہ بزدل ظالم شخص سیاسی اعتبار سے آپ کا ہم خیال ہو؟
بزدل ظالم اپنے سے کمزور افراد پر تب ہی دھونس جماتے ہیں جب اس طرزِ عمل کی طلب موجود ہو، اس کے علاوہ وہ تب ہی ایسا کرتے ہیں جب ان کے اس طرزِ عمل پر کوئی ردِ عمل نہ کیا جائے: انھیں دیکھنے والے شائقین اور تماش بین مطلوب ہوتے ہیں۔ چناں چہ وائٹ ہاؤس کے اخباری نمائندگان کے عشایئے کے میزبان یا ریاست ہائے متحدہ امریکا کے صدر پر الزام مت دھریئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم امریکی بزدلوں اور تعیش پرستوں کی قوم بن چکے ہیں۔ ہم غیر فعالیت سے بیٹھے ہیں جب کہ ہمارے سیاسی بیانیے پر گالم گلوچ اور تحقیر کا غلبہ ہو چکا ہے۔
اگر آپ اس صورتِ حال سے نفرت کرتے ہیں تو کھڑے ہو جائیے۔ میں نے آرکسٹرا میں ایسا صرف ایک مرتبہ ہوتے دیکھا تھا۔ ایک مہمان موسیقار ریہرسل کے دوران ہمیں ڈانٹ رہا تھا اور بعض سازندوں کو گالیاں دے رہا تھا۔ آخر ایک سازندہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا، ’’استادِ محترم میں اپنے تمام ساتھیوں کی طرف سے آپ کے کامل احترام کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ مسئلہ ہم نہیں، آپ ہیں۔‘‘
موسیقار نے اس سازندے کو ریہرسل سے نکال دیا تھا لیکن ہم سب کے لیے وہ ہیروتھا۔
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)
مصنف: آرتھر سی بروکس (صدر ’’امریکن اینٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ)
میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتا ہوں۔ یہ نفرت میرے کھیل کے میدان کے برسوں سے نہیں پھوٹی بلکہ اس کی بجائے بیس بائیس سال کی عمر میں ایک پیشہ ورسمفنی آرکسٹرا میں کام کرنے کے میرے تجربے سے پھوٹی ہے۔ آرکسٹرا کے موسیقار جبر، ظلم اور ضرورت سے زیادہ کام لینے کی عادت کے باعث بدنام ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سازندوں کی فن کارانہ زندگی کو مکمل کنٹرول میں رکھنے کی وجہ سے بھی بدنام ہیں۔ وہ اپنی طاقت مستحکم کرنے کی غرض سے سازندوں کو ایک دوسرے کا مخالف بنا دیتے ہیں، ان کی کمزوریوں کی تاک میں رہتے ہیں اور ان کا اعتماد تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔جیسا کہ ہم کہا کرتے ہیں، موسیقار ’’ایول جینیئس‘‘ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ سارے مجسم شر ہوتے ہیں۔
کئی عشرے گزرنے کے بعد موسیقاروں کے لیے میری رائے تھوڑی نرم ہو گئی ہے لیکن کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں کے متعلق میری رائے پہلے جیسی ہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لوگوں کی اکثریت بھی کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتی ہے۔ ’’ہوریبل باسز‘‘ اور ’’ریوینج آف دی نرڈز‘‘ جیسی فلموں میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اپنے مظالم کی سزا پاتے ہیں۔ فلموں کے شائقین کا بڑی تعداد میں یہ فلمیں دیکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جس طرح میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتا ہوں، اسی طرح لوگوں کی اکثریت بھی کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتی ہے۔ کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں کے خلاف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والوں کی کوششوں پر غور کیجیے۔خاتونِ اوّل یعنی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی میلانیا ٹرمپ کی ’’بہترین بنو‘‘ کے نعرے کے تحت شروع کی ہوئی مہم اس سلسلے کی تازہ ترین کوشش ہے۔
چناں چہ یہ ایک اَسرار آمیز امر ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں منڈی کی بنیاد پر استوار مظہر ۔۔۔ یعنی سیاسی مباحثے ۔۔۔ پر اِس وقت انسانی کردار کی اس نفرت انگیز خصوصیت کا غلبہ ہے۔ ٹیلی ویژن سے لے کر سوشل میڈیا اور اعلیٰ ترین سطح کی روزمرہ سیاست تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ طاقتور لوگ اپنے سے کم تر رتبے کے حامل افراد اور کمزور لوگوں کی تحقیر، تذلیل اور تضحیک کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم موجود ہیں تو انھیں عوامی حلقوں میں شہرت و مقبولیت، توجہ اور حتیٰ کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں انعام و اکرام کیوں ملتا ہے؟ انھیں رد کیوں نہیں کر دیا جاتا؟
اس سوال کے تین جواب اور توضیحات ہیں۔ اوّل، لوگ اخلاقیات کے معاملے میں پسند ناپسند اور جانب داری و تعصب سے کام لیتے ہیں۔ دوسرے فریق کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص ایک ہولناک شخص ہوتا ہے جب کہ اپنی جانب کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص ’’سچ بولنے والا‘‘ ہوتا ہے۔ بلا شبہ ہم بعض اوقات اس بیانیے سے بھی ہٹ جاتے ہیں اور یہاں تک کہنے لگتے ہیں کہ ہماری جانب کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص تو اصل میں مظلوم انسان ہے جو کمزوروں پر دھونس جمانے والا بڑے بزدل ظالموں سے لڑ رہا ہے۔
دوم، صورتِ حال اُلٹ ہے، جو کچھ یوں ہے کہ عوام کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اشخاص کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ سماجی سائنس داں ژاں لِپ مَین بلومن نے اپنی کتاب ’’دی الیور آف ٹوکسک لیڈرز‘‘ (The Allure of Toxic Leaders) میں دکھایا ہے کہ لوگ سیاسی ڈکٹیٹروں اور جابر منتظمین کے خلاف شکوے شکایت تو کرتے ہیں لیکن تقریباً ہمیشہ ہی ایک غیر یقینی دنیا میں طاقت کی قدیمی پسندیدگی و ستائش اور تحفظ کی ضرورت کے تحت ان کے وفادار رہتے ہیں۔
جہاں تک آرکسٹرا کے جہان کا تعلق ہے تو وہاں وائیولا بجانے والے ایک سازندے کا لطیفہ اکثر سنایا جاتا ہے جسے موسیقار نے برسوں سے گالم گلوچ اور اذیت کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ایک دن وہ ریہرسل کر کے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ اس کا گھر جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ وہاں موجود پولیس والوں نے اسے بتایا کہ یہ کام اس کے آرکسٹرا کے موسیقار نے کیا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کوئی سوال کرنا چاہتا ہے۔ اس نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد نرم لہجے میں پوچھا، ’’کیا استاد جی میرے گھر تشریف لائے تھے؟‘‘
تیسری توضیح سادہ رضامندی ہے۔ 1999ء میں ’’جرنل آف ایڈولسینس‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق بڑی معروف ہے۔ یہ تحقیق تین ماہرینِ نفسیات نے اس موضوع پر کی تھی کہ جب بچے کسی بزدل ظالم کو اپنے سے کمزور شخص پر دھونس جماتا دیکھتے ہیں تو وہ کس طرح کا ردِ عمل کرتے ہیں۔
کھیل کے میدان میں کھیلتے کودتے ہزاروں بچوں کی ویڈیوز بنائی گئیں۔ اس دوران کمزوروں پر دھونس جمانے کے 200واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم یہ بات بہت زیادہ پسند کرتے ہیں کہ جب وہ کسی کمزور پر دھونس جما رہے ہوں تو اس دوران ان کے ارد گرد تماشائی موجود ہوں۔ ریکارڈ کیے جانے والے 200واقعات میں سے 100واقعات ایسے تھے جن میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اور مظلوم کے علاوہ دو یا دو سے زیادہ لوگ موجود تھے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات رونما ہونے کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں؟ محولہ 200واقعات میں سے جن 100واقعات میں دوسرے جتنے بھی لوگ موجود تھے ان میں سے 21فی صد نے کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم کا ساتھ دیا تھا جب کہ 25فی صد نے مظلوم کا ساتھ دیا تھا۔ باقی 54فی صد لوگ غیر جانب دار رہے تھے۔ وہ بغیر کوئی ردِ عمل کیے ’’تماشا‘‘ دیکھتے رہے تھے۔ انھوں نے نہ تو کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم کا ساتھ دیا تھا اور نہ ہی مظلوم کی مدد کی تھی۔ جب سیاست کے میدان میں بزدل ظالم سیاست دان کمزوروں پر دھونس جماتے ہیں تو بالغ افراد کا ردِ عمل اُن بچوں سے مختلف نہیں ہوتاجن کی ویڈیوز محولہ تحقیق کے دوران بنائی گئی تھیں۔سیاسی تقریر ہو یا معمول کا مزاح کمزوروں پر دھونس جمانے کے بد ترین واقعے پر بھی بے نیازی سے کندھے جھٹک دیے جاتے ہیں۔
امریکا کے سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ نے امن کا نوبل انعام حاصل کرتے وقت جو تقریر کی تھی، اس میں انھوں نے کہا تھا، ’’ہم نجی اور سرکاری زندگی میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں، عادی جھگڑا لو لوگوں اور جابروں سے نفرت اور حقارت کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنی زندگی بخش تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا تھا، ’’لیکن ہم بزدلوں اور عیش و عشرت میں دل چسپی لینے والوں سے بھی کم نفرت نہیں کرتے ۔ اگر کوئی انسان حقوق سے محرومی اور ذلت و خواری کا مقابلہ نہیں کرتا یا ناانصافی کے شکار اپنے پیاروں کی خاطر نہیں لڑتا تو وہ انسان کہلائے جانے کا حق دار نہیں۔‘‘
امریکا کے سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ نے یہ بات اجنبیوں کا دفاع کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے اتحادیوں کے (’’اپنے پیاروں‘‘ کے) حق میں کھڑے ہونے کے بارے میں کی تھی۔ بالکل درست لیکن اپنے آپ سے پوچھیے کہ آپ کے حقیقی اتحادی کون کون ہیں؟ اگر کوئی ایسا شخص آپ کا دوست ہو جس سے آپ سیاسی اعتبار سے اتفاق رائے نہیں رکھتے ہوں تو کیا وہ شخص سیاسی اعتبار سے آپ کے ہم خیال کسی مسخرے، سیاست دان یا ٹوئٹر پر دوسروں کو دِق کرنے والے شخص کی نسبت آپ کا زیادہ اتحادی نہیں ہو گا؟ اگر ایسا ہو تو کیا آپ کو اس مرد یا عورت کو کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم سے بچانے کے لیے کھڑا نہیں ہونا چاہیے، خواہ کمزوروں پر دھونس جمانے والا وہ بزدل ظالم شخص سیاسی اعتبار سے آپ کا ہم خیال ہو؟
بزدل ظالم اپنے سے کمزور افراد پر تب ہی دھونس جماتے ہیں جب اس طرزِ عمل کی طلب موجود ہو، اس کے علاوہ وہ تب ہی ایسا کرتے ہیں جب ان کے اس طرزِ عمل پر کوئی ردِ عمل نہ کیا جائے: انھیں دیکھنے والے شائقین اور تماش بین مطلوب ہوتے ہیں۔ چناں چہ وائٹ ہاؤس کے اخباری نمائندگان کے عشایئے کے میزبان یا ریاست ہائے متحدہ امریکا کے صدر پر الزام مت دھریئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم امریکی بزدلوں اور تعیش پرستوں کی قوم بن چکے ہیں۔ ہم غیر فعالیت سے بیٹھے ہیں جب کہ ہمارے سیاسی بیانیے پر گالم گلوچ اور تحقیر کا غلبہ ہو چکا ہے۔
اگر آپ اس صورتِ حال سے نفرت کرتے ہیں تو کھڑے ہو جائیے۔ میں نے آرکسٹرا میں ایسا صرف ایک مرتبہ ہوتے دیکھا تھا۔ ایک مہمان موسیقار ریہرسل کے دوران ہمیں ڈانٹ رہا تھا اور بعض سازندوں کو گالیاں دے رہا تھا۔ آخر ایک سازندہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا، ’’استادِ محترم میں اپنے تمام ساتھیوں کی طرف سے آپ کے کامل احترام کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ مسئلہ ہم نہیں، آپ ہیں۔‘‘
موسیقار نے اس سازندے کو ریہرسل سے نکال دیا تھا لیکن ہم سب کے لیے وہ ہیروتھا۔
(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)