مصنف: رولینڈ اولیفینٹ
ہزاروں سال سے مچھیرے خلیجِ گوادر میں ماہی گیری کرتے آئے
ہیں۔ ہر اعتبار سے کامل گوادرکی بندرگاہ
اُس دشت تک رسائی فراہم کرتی ہے جہاں سکندرِ اعظم نے اپنی فوج کو پیاس سے مرتا
دیکھا تھا۔ ماہی گیروں کی یہ چھوٹی سی
بستی سکندرِ اعظم جیسے عزائم کے حامل تزویری منصوبے میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ
پاکستان اور چین کے اس اتحاد کا محور ہے
جو بحرِ ہند میں طاقت کا توازن مکمل طور پرتبدیل کرسکتا ہے۔ کیپٹن گل محمد یہاں
میرین آپریشنز کے سربراہ ہیں۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی زندگی کا بڑا
حصہ سمندروں میں گزرا ہے۔ وہ دوستانہ مزاج کے برطانوی تربیت یافتہ ماسٹر میرینر
ہیں۔ وہ بحری راستوں کو رکاوٹوں سے پاک رکھنے، روشنیوں اور سمندر میں تیرتے آبی نشانات کو درست رکھنے جیسے امور کے ذمہ دار
ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں خلیج کے گرد ایستادہ سائنس فکشن جیسی خاکستری پہاڑیوں کے
سائے میں بحری سفر کے دوران انھوں نے کہا، "گوادرمستقبل میں دبئی کی طرح ترقی
یافتہ ہو جائے گا۔ بلاشبہ یہ بات خواب جیسی لگتی ہے لیکن ایسا ہونا یقینی ہے۔"
گواد کی بندرگاہ
پاکستان چین اکنامک کوریڈور کا آخری پڑاؤ ہے۔ پاکستان چین اکنامک کوریڈور چین کی
سرحد سے لے کر بحرِ ہند تک محیط ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر کا عظیم ترین منصوبہ
ہے۔ اس منصوبے سے پاکستان کو اپنے انفراسٹرکچر
کے لیے سرمایہ کاری حاصل ہوئی ہے جو کہ اس کی معیشت کے لیے بہت ضروری تھی
جبکہ چین کو گرم پانیوں کی ایک ایسی بندرگاہ تک رسائی مل گئی ہے جو آبنائےہرمز سے
صرف 563 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گوادر کی بندرگاہ یورپ سے تجارتی رابطوں کے لیے چین کے "ایک
بیلٹ، ایک روڈ" منصوبے کی ایک کلیدی
بندرگاہ ہے۔ پاکستان چین اکنامک کوریڈور کے لیے چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالر کی
سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے۔ اتنی بڑی سرمایہ کاری پاکستان کی معیشت میں نئی روح پھونک دے گی۔سابق
مشیر برائے ٹیکس اور اقتصادی اصلاح محمد زبیر، جو اَب صوبہ سندھ کے گورنر ہیں، اس
منصوبے کو تشکیل دینے والوں میں شامل رہے ہیں۔ انھوں نے کراچی میں اپنی رہائش گاہ
پر ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ پاکستان کے نکتۂ نظر سے اس منصوبے کا محرک
تزویراتی وژن نہیں بلکہ ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا، "پاکستان کو بلیک آؤٹ کا
سامنا تھا۔ طلب اور رسد کا فرق بڑھتا جا رہا تھا اور کوئی پاور پلانٹ زیرِ تعمیر
نہیں تھا۔ ہم نے شمارکیا تو معلوم ہوا کہ اس کے لیے 30 ارب ڈالر سے 35 ارب ڈالر کی
ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس اتنی بڑی رقم نہیں تھی۔ اس ضرورت نے ہمیں پاکستان چین
اکنامک کوریڈور کی طرف متوجہ کیا۔" چین جبوتی کی بندرگاہ بھی تعمیر کر چکا ہے
جو سری لنکا اور میانمار کی بندرگاہوں سمیت
بندرگاہیں تعمیر کرنے کے "موتیوں کی مالا" نامی منصوبے کاایک
"موتی" ہے۔ چین نے جبوتی میں فوجی اڈہ بھی بنایا ہے۔ چین نے مالدیپ میں
بھی بندگاہ تعمیر کی ہے۔ جہاں تک گوادر کا تعلق ہے تو یہ ایک تجارتی بندرگاہ ہے اور ٹیلی گراف نے
بندرگاہ کے دورے کے دوران وہاں کوئی فوجی سرگرمی نہیں دیکھی۔ ہم نے دیکھا کہ ساحل پر لکڑی کی پرانی کشتیوں کے ڈھانچوں کے
نزدیک بڑے بڑے بحری جہاز بنائے جا رہے تھے۔چینیوں نے صحرا میں رومنوں کی شاہراہوں
جیسی موٹروے تعمیر کی ہے۔ گوادر تک ریلوے لائن بچھانے اور پاکستان کے سب سے بڑے
ائیرپورٹ کی تعمیر کے منصوبے بھی تشکیل دے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان جانے کے لیے ایک نئی سڑک
بھی تعمیرکی جائے گی۔ صحرا میں بسائے جانے والے نئے شہر کی پانی کی ضروریات پوری
کرنے کے لیے سمندر کے پانی کو انسانوں کے لیے قابلِ استعمال بنانےکے منصوبے بھی تشکیل
دے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ 2050ء تک اس شہر کی آبادی ایک کروڑ ستر لاکھ نفوس تک پہنچ
جائے گی۔ بندرگاہ کے قریب دو وسیع و عریض "فری اکنامک زون" بھی بنائے
جائیں گے۔ سرمایہ کاروں کو ان فری اکنامک زونز کی طرف مائل کرنے کے لیے 99 سال کے
پٹے اور 23 سال کی ٹیکس چھوٹ بھی سہولیات میں شامل ہیں۔ سمندر میں شان دار بندرگاہ
تعمیرکی جا چکی ہے۔ جہاں تک خشکی کا تعلق ہے تو خاکستری ریت پرہائی ویز کا جال بچھا دیا گیا ہے جن کے نام سینٹرل بولیوارڈ اور میرین ڈرائیو رکھے گئے
ہیں۔ پراپرٹی کا کاروبار خوب فروغ پا رہا ہے اور بنجرپلاٹوں کی قیمتیں کروڑوں تک
پہنچ چکی ہیں۔ فی الوقت شہرکے 85000 لوگوں کی پانی کی ضرورت اس آبی ذخیرے سے پوری
کی جاتی ہے جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا ہے۔ اس مہینے کے شروع میں شہر میں
پانی کی قلت ہوئ تو نزدیکی شہرتربت سے
ٹینکروں میں پانی لا کر فراہم کیا گیا۔
بندرگاہ اور دوسرے تعمیراتی منصوبوں پر کام کرنے والے
معماروں کو نہ صرف انتہائی سخت آب و ہوا کا سامنا ہے بلکہ دہشت گردوں کی
کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ پاکستان کی فوج کئی سال سے دہشت گردوں کے ساتھ کامیابی
سے نبرد آزما ہے۔ دہشت گرد افغانستان کی سرحد پار کر کے خود کش حملے کر چکے ہیں۔
پاکستانی فوج کے جوان مشین گنوں اور آئی ای ڈی ڈیوائسز کو جام کر دینے والے
آلات سے لیس پک اپ
ٹرکوں میں سوار ہو کرصحرا میں آباد شہروں کے گرد گشت کرتے رہتے ہیں۔ اسی
ہفتے ملنے والی خبروں کے مطابق چینی اہل کاروں نے بھی دہشت گردانہ حملے رکوانے کے
لیے علیٰحدگی پسندوں کے راہنماؤں کے ساتھ گف و شنید کی ہے۔ اگرچہ اس دورے کے دوران
ٹیلی گراف کی ملاقات کسی چینی اہل کار سے
نہیں ہوئی تاہم چینی پاکستان میں جاری مختلف تعمیری منصوبوں میں سرگرمِ کار ہیں۔
شہر کے گرد آلود ائیرپورٹ کے باہر چینی زبان اور انگریزی
میں خیرمقدمی بورڈ آویزاں ہیں۔ نئی بندرگاہ کے اردگرد سڑکوں کے نشانات بھی دونوں
زبانوں میں لکھے گئے ہیں۔ بندرگاہ کے داخلی راستے پر پاکستان اور چین کے پرچم ساتھ
ساتھ لہرا رہے ہیں۔ یہ دو پرانے اتحادیوں کے مابین دوستی کا شان دار اظہار ہے۔
بشکریہ دی ٹیلی گراف