Thursday, November 28, 2019

دنیا میں ہر سال کتنی ایجادات ہوتی ہیں؟

اقوامِ متحدہ کی ذیلی تنظیم "ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن" کے مطابق دنیا میں ہر سال چودہ لاکھ ایجادات پیٹینٹ کروائی جاتی ہیں۔

شکستہ حال سا، بے آسرا سا لگتا ہے

شکستہ حال سا، بے آسرا سا لگتا ہے

یہ شہر دل سے زیادہ دُکھا سا لگتا ہے

ہر اک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے

جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہوا سا لگتا ہے

زمین ہے سو وہ اپنی ہی گردشوں میں کہیں

جو چاند ہے سو وہ ٹُوٹا ہوا سا لگتا ہے

مِرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو

جو تم کہو، مجھے قہرِ خدا سا لگتا ہے

یہ رات کھا گئی ایک ایک کر کے سارے چراغ

جو رہ گیا ہے، وہ بجھتا ہُوا سا لگتا ہے

دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں

وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے


تو دل میں بجھنے سی لگتی ہے کائنات تمام

کبھی کبھی جو مجھے تُو بُجھا سا لگتا ہے

جو آ رہی ہے صدا، غور سے سنو اُس کو

کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے

ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی منہگی ہے

مگر ضمیر کا سودا بُرا سا لگتا ہے

یہ موت ہے یا کوئی آخری وصال کے بعد

عجب سکون میں سویا ہوا سا لگتا ہے

ہوائے رنگِ دو عالم میں جاگتی ہوئی لَے

علیم ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ہے

شاعر: عبید اللہ علیم

اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں

دوستو


یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد

تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو


لائی ہے اب اُڑا کے گئے موسموں کی باس

برکھا کی رُت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو


شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا

راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو


پھرتے ہیں مثلِ  موجِ ہوا شہر شہر میں

آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو


آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھول

عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو


شاعر: منیر نیازی

Tuesday, October 22, 2019

بِل گیٹس کی فی گھنٹہ آمدنی کتنی ہے؟

ایک امریکی ویب سائٹ کے مطابق مائیکروسافٹ کے بانی اور مالک بل گیٹس رواں سال میں ہر گھنٹے بیس کروڑ اکسٹھ لاکھ اٹھارہ ہزار روپے کما رہے ہیں۔

اس ویب سائٹ کا نام "گرنج" ہے۔

"گرنج" کے حساب کتاب کے مطابق رواں سال بل گیٹس کی ایک دن کی آمدنی قریباً پانچ ارب بارہ کروڑ سترہ لاکھ بیس ہزار روپے ہے۔

Tuesday, September 10, 2019

یُووَل نوآ ہَراری

Yuval Noah Harari

دنیا کے معروف ترین مفکّر ہیں۔ ان کی کتابوں کے عنوان پاکستان میں بھی معروف ہیں۔

ان کے نام کا تلفظ یہ ہے:

جُووَل نوآ ہَراری۔

یہ نام عبرانی زبان کے الفاظ پر مشتمل ہے۔

جُووَل نوآ ہَراری یہودی ماں باپ کے بیٹے ہیں ان کے ماں باپ نے ان کا نام عبرانی زبان میں رکھا۔

Friday, July 26, 2019

چوتھے صنعتی انقلاب کا زمانہ، میگا سٹی، یوٹوپیا اور ڈائریا

اپنے لایعنی خیالوں کی دنیا میں جینے والوں کی یوٹوپیا، میگا سِٹی، عظیم تاریخی شہر وغیرہ وغیرہ کی اس چوتھے صنعتی انقلاب کے زمانے میں، اکیسویں صدی میں، انسانی ترقی کی نئی راہیں کھلنے کے زمانے میں حالت یہ ہے کہ جنگلوں بیابانوں میں واقع کسی نہایت پِچھڑے ہوئے اور وقت سے پیچھے رہ جانے والے گاؤں کی طرح موسم بدلتے ہی موسمی بیماریاں لاہور کے چند ایک نہیں لاکھوں شہریوں کو بیمار کر دیتی ہیں۔

آج کل کے موسم کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اسے بیماریاں اور وبائیں پھیلنے کے لیے سب سے سازگار موسم کہا جاتا ہے اور لوک دانش میں اس موسم کے دوران احتیاط کی بہت سی تدبیریں بزرگوں نے بتائی ہیں۔

کیا یہ المیہ نہیں کہ چوتھے صنعتی انقلاب کے زمانے کے لاہور میں ہر جگہ ۔۔۔۔ صرف امیر لوگوں کے چند علاقوں کے سِوا ۔۔۔۔، ہر کھانے پینے کی چیز میں پیٹ کی بیماریوں کے جراثیم کثرت سے موجود ہونے کی وجہ سے لاہور کے لاکھوں لوگ ڈائریا اور پیٹ کی دوسری بیماریوں کے شکار ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

کیا اس ملک اور اس "عظیم تاریخی شہر" کے عظیم اینکروں، عظیم کالم نویسوں، عظیم رپورٹروں، عظیم ایڈیٹروں، دیانت دار محنتی میڈیا ورکر کی روزی چھین لینے والے بھیڑیوں، عظیم میڈیا مالکان، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، پروفیسروں، فیس بُکی ایپکٹیٹسوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ لاہور کو یوٹوپیا کہنے کے ساتھ ساتھ اس شہر کے اصل حالات اور اس کے بے بس شہریوں کی جہنم جیسی زندگی کی طرف بھی توجہ دے؟؟؟؟؟

دوستو! لاہور میں کھانے پینے کی ملاوٹ شدہ اور باسی چیزوں میں موجود جراثیم لاکھوں شہریوں کو بیمار کر رہے ہیں۔ کوئی بھی اس سنگین ترین مسئلے کے حل کے لیے بات نہیں کر رہا۔

Monday, July 22, 2019

سب سے زیادہ پی ایچ ڈی

امریکا میں دنیا کے سب سے زیادہ پی ایچ ڈی ڈگری یافتہ افراد موجود ہیں۔ ان میں سے 75 فی صد نے سائنس اور انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔

کیا ہمارے استاد، یونی ورسٹیوں کے مالک اور مستقل حکمران یعنی بیوروکریٹ اس بارے میں سوچنا گوارا کریں گے۔

Tuesday, July 16, 2019

کوانٹم اینٹینگلمینٹ کے ذریعے زمین سے خلا تک ٹیلی پورٹیشن

دوستو! کوانٹم اَین ٹَینگل مینٹ Quantum Entanglement جیسے انوکھے سائنسی تصور کو حقیقت ثابت کرتے اور اسے استعمال کرتے ہوئے دوست ملک چین کے سائنس دانوں نے انسانی تاریخ میں پہلی بار ایک الیکٹرون کو زمین سے 300 میل کی اونچائی پر گردش کرتے سیٹلائٹ تک پہنچانے میں کام یابی حاصل کر لی ہے۔

یہ ناقابلِ یقین خبر کسی سنسنی خیز جھوٹی خبریں چھاپنے والے اخبار یا سائٹ پر نہیں بل کہ "نئی ٹیکنولوجیوں" سے متعلق دنیا کے مستند ترین جریدے "ایم آئی ٹی ٹیکنولوجی ریویو" میں شائع ہوئی ہے۔

دوستو! ہمارا جعلی میڈیا تو ایسی مثبت اور ولولہ انگیز خبر ہمیں اور ہمارے بچوں کو پڑھنے کے لیے کبھی مہیّا نہیں کرے گا۔ لیجیے آپ کا دوست یہ عظیم سائنسی خبر آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہے۔ دوستو! ایسے مضامین اپنے بچوں کو ضرور پڑھایا کریں تاکہ ہمارے بچے "ابھرتی ہوئی، وجود میں لائی جاتی ہوئی نئی دنیا" میں اپنے وطن کے لیے مثبت اور تعمیری کام کر سکیں۔

Saturday, July 13, 2019

نئی دنیا میں اپنے بچوں کو انسانی کچرا بننے سے کیسے بچا سکتے ہیں

دوستو "نئی دنیا" کمپیوٹر سائنس کی دنیا ہو گی۔

نئی دنیا میں ان لوگوں کو جاہل مانا جائے گا اور انھیں کوئی جاب نہیں ملے گی جنھوں نے آج کل دی جانے والی تعلیم حاصل کر رکھی ہو گی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ نئی دنیا میں ہم جیسے سارے لوگ تو فضول یعنی "انسانی کچرا" ہی ہوں گے البتہ ہم اپنے بچوں کو نئی دنیا میں انسانی کچرا بننے سے بچا سکتے ہیں۔

اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کمپیوٹر سائنس کی تعلیم و تربیت دلائیں۔ اس طرح ہمارے بچے نئی دنیا میں انسانی کچرا بننے سے بچ سکیں گے۔

Tuesday, July 2, 2019

گوگل کا نیا آپریٹنگ سسٹم فیوشا

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گوگل اپنے معروف آپریٹنگ سسٹم"اینڈرائیڈ" کی جگہ ایک نیا آپریٹنگ سسٹم پیش کرنے والی ہے۔

گوگل کے نئے آپریٹنگ سسٹم کا نام "فیوشا" Fuchsia ہو گا۔ اس نئے آپریٹنگ سسٹم کی خصوصیات کے بارے میں ابھی گوگل نے کچھ نہیں بتایا۔

جہاں تک اس نئے آپریٹنگ سسٹم کے نام "فیوشا" کا تعلق ہے تو یہ ایک پودے کا نام ہے جس پر سرخ، ارغوانی/ جامنی/ بینگنی اور سفید رنگ کے پھول کِھلتے ہیں۔

Wednesday, June 26, 2019

پیپرلیس نئی دنیا، پاکستانی لکھاری اور پبلشر

ناچیز خود بھی معمولی سا مترجم ہے۔ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ جب دنیا ڈیجیٹل اور پیپرلیس ہو رہی ہے، ہم اپنے بچوں کو صدیوں پرانی اور جلد کاملاً متروک ہو جانے والی ٹیکنولوجی یعنی پیپر پرنٹنگ تک ہی محدود رکھ رہے ہیں۔

افسوس ہمارے پبلشر عصری رجحانات سے واقف ہونے کے لیے اپنے ٹریڈ ہی کی کتابیں اور جرائد تک نہیں پڑھتے ۔۔۔۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم مترجموں، ادیبوں، شاعروں، نقادوں، پروفیسر و غیر پروفیسر دانشوروں، اینکروں، کالم نویسوں، ایڈیٹروں اور رپورٹروں وغیرہ میں سے بھی بہت کم عصری #رجحانات سے آگاہ رہنے کے لیے تازہ ترین کتابیں اور جرائد پڑھتے ہیں ۔۔۔۔ اس لیے پاکستان میں پبلشنگ کا کاروبار اور لکھنے کا شعبہ عصری رجحانات سے ہم آہنگ نہیں۔

احباب سے گذارش ہے کہ حقیقی زندگی میں اپنے دوستوں اور سوشل میڈیا ۔۔۔۔ فیس ںک،بٹوئٹر، واٹس ایپ وغیرہ ۔۔۔۔ پر اپنے فرینڈز میں شامل پبلشروں، ادیبوں، شاعروں، اینکروں، کالم نویسوں، ایڈیٹروں، رپورٹروں، پروفیسروں/ اساتذہ غرض پیشہ ور اور غیر پیشہ ور ہر دو انواع کے لکھنے والوں کو عصری رجحانات سے واقف رہنے کی تحریک دیجیے۔

خاص طور سے اپنے بچوں کو ہم آج عصری رجحانات سے نا واقف رکھیں گے تو ہمارا ملک، معاشرہ اور افرادِ معاشرہ یعنی میں اور آپ اپنے بچوں سمیت دنیا میں اسی طرح بہت پیچھے رہ جائیں گے جیسے کئی سو سال سے چلے آ رہے ہیں۔

Sunday, June 23, 2019

مافیائی نظام میں مثبت انداز سے جینے کا واحد طریقہ

پوری دنیا میں چالاک لوگ گروپ، لابیاں، جتھے، ٹولے یا سادہ الفاظ میں مافیا بنا کر انتہائی سفاکی اور بے حسی سے ایک دوسرے کا استحصال کر رہے ہیں۔ جو سادہ فطرت کے انسان گروپوں، لابیوں، جتھوں اور مافیا میں شامل نہیں ہوتے انھیں تو زندہ در گور کر دیا جاتا ہے۔

ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

میرے عاجزانہ خیال میں ہم ایک خیال کے لوگوں کو اپنے خیالات کے مطابق عمل کی دنیا میں بھی متحد ہونا چاہیے۔

جن عذابوں میں اس نظام اور چالاک لوگوں نے سادہ فطرت کے لوگوں کو ڈالا ہوا ہے، ان سے بچ کر زندگی بسر کرنے کے لیے متحد ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔

یہ سادہ سی بات ہے جسے بعض لوگ احمقانہ بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن سفاک نظام اور انتہائی بے حس لوگوں کے معاشرے میں مثبت ذہن، مثبت سوچ، مثبت فطرت والے، ساری نوعِ انسان کی بھلائی پر یقین رکھنے والے سیدھے سادے انسانوں اور ان کی فیملیوں کو زندہ در گور ہونے سے بچانا میرے عاجزانہ خیال میں سب سے اہم، ضروری بلکہ لازمی ہے اور ایسا صرف مقامی سطح پر یعنی اپنے گلی محلے میں متحد ہو کر ہی ممکن ہے۔

Thursday, June 20, 2019

اُس نے جب چاہنے والوں سے اِطاعت چاہی

اُس نے جب چاہنے والوں سے اِطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اِجازت چاہی

یونہی بے کار میں کب تک کوئی بیٹھا رہتا
اس کو فُرصت جو نہ تھی ہم نے بھی رُخصت چاہی

شِکوہ ناقَدریِ دُنیا کا کریں کیا کہ ہمیں
کچھ زیادہ ہی ملی جتنی مُحبت چاہی

رات جب جمع تھے دُکھ دِل میں زَمانے بھر کے
آنکھ جَھپکا کے غمِ یار نے خلوت چاہی

ہم جو پامالِ زمانہ ہیں تو حَیرت کیوں ہے
ہم نے آبا کے حوالے سے فَضِیلت چاہی

میں تو لے آیا وہی پیرہنِ چاک اپنا
اُس نے جب خلعت و دستار کی قیمت چاہی

حُسن کا اپنا ہی شیوہ تھا تعلق میں فراز
عشق نے اپنے ہی انداز کی چاہت چاہی

شاعر: احمد فراز

Wednesday, June 19, 2019

آف یا اَو ۔۔۔۔۔ of کا درست تلفظ کیا ہے؟

لفظ of کو "آف" بولنا نادرست ہے۔

لفظ of کا تلفظ ہے "اَو"۔

شاید لکھا ہوا تلفظ بعض دوستوں کو سمجھ نہ آئے۔ وہ یوٹیوب پر سن سکتے ہیں۔

"آف" اس لفظ کا تلفظ ہے: off

اسے بھی دوست یوٹیوب پر سن سکتے ہیں۔

پلیز جو جانیے، اپنے بچوں کو بھی بتائیے اور دوستوں کو بھی۔ اور اپنے اس ناچیز دوست کو دعاؤں میں یاد رکھیے، جس کا روزی کمانے کا ہر وسیلہ چھین لیا گیا ہے اور روزی کمانے کا ہر دروازہ ظالموں نے بند کر دیا ہے۔ خدا سب اچھے دل والے انسانوں کو اپنی امان میں رکھے۔

Friday, June 14, 2019

اردو میں تُرک ادیبوں کے غلط نام اور ٹی وی پر جہالت کے خنجر سے تاریخ کا قتل

موجودہ ترکی زبان لاطینی حروفِ تہجی میں لکھی جاتی ہے۔ اس میں پرانے تُرکی الفاظ کے ہجے بدلے ہوئے ہیں۔

ترک نام Orhan کو ہمارے ہاں "اورحان" لکھا جا رہا ہے۔

یہ دراصل دو نام ہیں۔ ایک "اور" جسے "اُر" بھی لکھا جاتا ہے۔ دوسرا خان۔

خان تو ہمارے ہاں دسیوں لاکھ لوگوں کے ناموں کا حصہ ہے۔

"اور خان" قدیم ترکی کی ایک عظیم شخصیت کا نام تھا۔ اردو کی پرانی تاریخ کی کتابوں اور پرانے تاریخی ناولوں میں اس شخصیت کا ذکر ملتا ہے۔

جس تُرک ادیب کا نام ہمارے ہاں "اورحان" غلط لکھا جا رہا ہے، یہ ان کا پورا نام نہیں۔ "اور خان" سے پہلے بھی ایک لفظ ہے۔ یہ نام بھی ہمارے ہاں لاکھوں لوگوں کا نام ہے لیکن موجودہ تُرکی میں جس طرح لکھا جاتا ہے، یقیناً غلط نام "اورحان" لکھنے والے اسے بھی غلط لکھتے۔

ترک ادیبہ الف شفق کا نام بھی ہمارے ہاں غلط لکھا جا رہا ہے۔

مجھے جیو ٹی وی کے لیے ایک تُرکی سوپ کی چند ابتدائی اقساط انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ کراچی گیا تو دیکھا کہ جیو ٹی وی کے شعبے "ایڈیپٹیشنز" میں سب لوگ اس ترکی سوپ کا عنوان تک غلط بول رہے تھے۔ درست عنوان تھا "گُمُش۔" اس کے معنی ہیں چاندی۔

ترکی سوپ کے ذکر سے ایک نہایت لرزہ خیز واقعہ یاد آ گیا، جو ثبوت ہے کہ ٹی وی چینل تاریخی و تہذیبی حقائق برباد کرنے والے چالاک اجہلوں کو تو لاکھوں روپے تنخواہیں دے رہے ہیں مگر باعلم، محنتی اور دیانت دار ٹرانسلیٹروں کو کنٹریکٹ پر بھی رکھیں تو ان کی محنت کی اجرت نہیں دیتے۔ یہ الم ناک واقعہ ایک معروف ترین/ بڑے ٹی وی چینل کے ٹرانسلیٹر نے خود سنایا تھا۔ اس نے بتایا کہ "میں نے ڈرامے کے عثمانی ترک کردار سے نعرۂ حیدری لگوایا۔"

یہ تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ تھا۔

یہ تاریخی حقیقت سب جانتے ہیں کہ عثمانی تُرکوں کی افواج کا نعرہ "نعرۂ حیدری" کبھی نہیں رہا۔

یوں اس ٹی وی چینل سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے ٹرانسلیٹر نے جہالت کے خنجر سے تاریخ کو قتل کر دیا تھا۔

Wednesday, May 29, 2019

جہلِ خِرَد نے دِن یہ دِکھائے

افواجِ پاکستان پر مجنونانہ تنقید کرنے والے لوگ اپنے محلے کے بدمعاش کونسلر کے خلاف کبھی بات تک نہیں کرتے، گندے پانی، جعلی ادویات، جعلی دودھ، جعلی گوشت، جراثیم ہی جراثیم، زہر ہی زہر کے خلاف کبھی نہیں بولتے حالاں کہ ان کے اپنے بچے اِن زہروں کی وجہ سے انسان کی بجائے انسان نُما اور یہ خود لا=انسان بن کر رہ گئے ہیں۔

جہلِ خِرَد نے دن یہ دِکھائے!

ہواوے آرک او ایس

ہم نے 25 مئی 2019ء کو فیس بک پر اپنے گروپ "ahsan hutt science and technology wala" کی پوسٹ میں لکھا تھا کہ گوگل نے ہواوے کو اپنا موبائل فون آپریٹنگ سسٹم استعمال کرنے سے روک دیا ہے اور ہواوے جلد ہی اپنا بنایا ہوا موبائل فون آپریٹنگ سسٹم استعمال کرنا شروع کر دے گی۔

آج خبر چھپی ہے کہ ہواوے نے اپنے موبائل فون آپریٹنگ سسٹم کے حقوق رجسٹر کروانے کی درخواست یورپی یونین کے متعلقہ دفتر کو دے دی ہے۔ اس موبائل فون آپریٹنگ سسٹم کا نام "آرک" ہو گا۔

Saturday, May 25, 2019

اپنے آپ کو خود اڑانے والا ہیلی کاپٹر

چین کے سائنس دانوں نے ایک ایسا ہیلی کاپٹر بنایا ہے جو پائلٹ کے بغیر اڑتا ہے یعنی یہ ہیلی کاپٹر "اپنے آپ کو خود اڑاتا" ہے۔

"اپنے آپ کو خود اڑانے والا" یہ ہیلی کاپٹر ماحول دوست بھی ہے اور فوسل فیولز کی بجائے بجلی سے چلتا ہے۔ اس کی بیٹری چار گھنٹے تک کام دیتی ہے۔

یہ ہیلی کاپٹر 160 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اڑ سکتا ہے۔

اسے سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

آپ کے دوست نے روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین کی جاب کے زمانے میں ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کے بارے میں مضمون ترجمہ کیا تھا۔ یہ اس اہم موضوع پر اردو کے اوّلین مضامین میں سے ایک مضمون تھا۔ افسوس آپ کے دوست کی محنت کی قدر نہیں کی گئی اور جاب چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

گوگل، اینڈرائیڈ اور ہواوے کا اپنا موبائل آپریٹنگ سسٹم

چین کی کمپنی ہواوے، جو دنیا کی دوسری بڑی موبائل فون کمپنی ہے، اپنے موبائل فونوں کے لیے موبائل آپریٹنگ سسٹم بنانے کے لیے پچھلے سات سے سال تحقیق و تجربات کر رہی ہے۔

امریکا کی کمپنی گوگل نے ہواوے کو اینڈرائیڈ موبائل آپریٹنگ سسٹم اور گوگل پلے سٹور استعمال کرنے سے روک دیا ہے۔ امکان ہے کہ جلد یہ پابندی ہٹا لی جائے گی لیکن یہ بھی یقینی ہے کہ ہواوے اپنا موبائل آپریٹنگ سسٹم بھی بنا لے گی۔

Wednesday, May 22, 2019

تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے

تجھے اب کس لیے شکوہ ہے بچے گھر نہیں رہتے
جو پتے زرد ہو جائیں وہ پیڑوں پر نہیں رہتے

تو کیوں بے دخل کرتا ہے مکانوں سے مکینوں کو
وہ دہشت گرد بن جاتے ہیں جن کے گھر نہیں رہتے

اسے جس دھوپ میں جبری مشقت کھینچ لائی ہے
گھروں سے سائے بھی اس دھوپ میں باہر نہیں رہتے

جھکا دے گا تری گردن کو یہ خیرات کا پتھر
جہاں میں مانگنے والوں کے اونچے سر نہیں رہتے

وہ میرا ہم سفر ہوتا تو اس کو بھی خبر ہوتی
جو گزریں آگ کی بستی سے ان کے پر نہیں رہتے

یقیناً یہ رعایا بادشہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے

شاعر: اسلم وڑائچ، سرگودھا

Tuesday, May 14, 2019

مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچی رات کو

سیّد سبطِ علی صبا کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔ ان کا یہ شعر بہت مقبول ہے:

دیوار کیا گِری مِرے کَچُے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رَستے بنا لیے

منتخب اشعار:

جلتے جلتے بجھ گئی اک موم بتی رات کو
مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچی رات کو

جب چلی ٹھنڈی ہَوا بچّہ ٹِھٹَھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو

حریص آنکھیں شکار کی جستجو میں ہر اک کو گھورتی ہیں
سنبھل کے چلنا غریب جائی، ہَوَس کا کیچڑ جگہ جگہ ہے

جو سُوت کاتنے میں رات بھر رہی مصروف
اسی کو سر کے لیے اوڑھنی نہیں ملتی

تنگ آ کے ہم جو بیچنے  نکلے وفا صبا
بازار نے خلوص کے بھاؤ گرا دیے

شہر والوں سے حقارت کے سوا کچھ نہ ملا
زندگی آ تجھے لے جاؤب کسی گاؤ ں میں

لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے

آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اٹ گئی
دیوار سے لگی تری تصویر پھٹ گئی

سورج کی برچھیوں سے مرا جسم چھد گیا
زخموں کی سولیوں پہ مری رات کٹ گئی

احساس کی کرن سے لہو گرم ہو گیا
سوچوں کے دائروں میں تری یاد بٹ گئی

یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں

عجیب سوچ ہے اس شہر کے مکینوں کی
مکاں نئے ہیں مگر کھڑکیاں پرانی ہیں

پلٹ کے گاؤں میں میں اس لیے نہیں آیا
مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ہیں

سفر پسند طبیعت کو خوفِ صحرا کیا
صباؔ ہوا کی وہی سیٹیاں پرانی ہیں

اس شہر میں اب شورِ سگاں کیوں نہیں اٹھتا
آبـاد مکـاں ہیـں تو دھـواں کیـوں نہیں اٹھـتا

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خُوب کِیا

جو مصرع اس بلاگ پوسٹ کا عنوان ہے، یہ بہت معروف ہے۔ عموماً اسے میر تقی میر کی تخلیق کہا جاتا ہے۔

حقیقت میں یہ مصرع نواب محمد یار خاں امیر کا ہے۔ پورا شعر یوں ہے:

شکست و فتح میاں اِتّفاق ہے لیکن

مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

Monday, May 13, 2019

گوری آٹا گوندھ رہی تھی نمک ملانا بھول گئی ۔۔۔۔ مکمل غزل

پھول پہ آ کے بیٹھی تو خود پر اِترانا بھول گئی

ایسی مست ہوئی وہ تتلی پر پھیلانا بھول گئی

ایسے کھلا وہ پھول سا چہرہ پھیلی سارے گھر خوشبو

خط کو چھپا کر پڑھنے والی راز چھپانا بھول گئی

کلیوں نے ہر بھونرے، تتلی سے پوچھا ہے اس کا نام

بادِ صبا جس پھول کے گھر سے لوٹ کے آنا بھول گئی

اپنے پرانے خط لینے وہ آئی تھی میرے کمرے میں

میز پہ دو تصویریں دیکھیں، خط لے جانا بھول گئی

برسوں بعد ملے تو ایسی پیاس بھری تھی آنکھوں میں

بھول گیا میں بات بنانا وہ شرمانا بھول گئی

ساجن کی یادیں بھی خاور کن لمحوں میں آ جاتی ہیں

گوری آٹا گوندھ رہی تھی نمک ملانا بھول گئی

شاعر: خاور احمد

Thursday, May 2, 2019

اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی بجائے ہنر سکھانے والے عظیم پاکستانی

یہ ناچیز بھی کروڑوں پاکستانیوں کی طرح غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور میڈیا اور پبلشنگ کے منفی ذہن کے لوگوں کی "مہربانی" سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے۔

چناں چہ غریبوں اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں سے روز ملنا جلنا ہوتا ہے۔ ان میں سے 90 فی صد لوگ تعلیم کے انتہائی زیادہ چرچے کے زیرِ اثر کہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں، بچیوں کو پڑھانا چاہتے ہیں یا یہ کہ ہم اپنے بچوں، بچیوں کو پڑھا رہے ہیں۔

میں ناچیز ان سب سے کہتا ہوں کہ اپنے بچوں، بچیوں کو کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سکھاؤ۔

غربت کی لکیر سے نیچے اور غربت میں زندگی بسر کرنے والے بعض لوگ باشعور بھی ہیں۔ انھوں نے اپنے بڑوں اور اپنی زندگی سے سبق سیکھا ہے کہ صرف تعلیم سے منفی ذہن کے لوگوں کی اکثریت والے معاشرے اور دہشت انگیز حد تک منفی معاشی نظام میں جینا ناممکن ہے، اس لیے وہ اپنے بچوں کو کم سِنی ہی میں کسی نہ کسی ہنرمند کا شاگرد بنا دیتے ہیں۔ پندرہ سولہ سال کی عمر تک یہ بچے خود ہنرمند بن جاتے ہیں اور ان میں سے بہت سارے اپنی دکان بنا کر اپنے ہنر سے معقول رقم ماہانہ کماتے ہیں۔

حقیقتاً یہ غریب اور غربت لی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانی عظیم انسان ہیں۔

کاش لوگ ان عظیم پاکستانیوں سے سبق سیکھیں اور اپنی اولاد کو اپنے اور معاشرے کے لیے واقعتاً کار آمد انسان بنائیں۔

Sunday, March 31, 2019

انفارمیشن وار میں ہم شہریوں اور سوشل میڈیا یوزرز کی ذمہ داری

یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ دنیا کے ںہت سے ملک اور افراد سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ کو منفی انداز سے استعمال کر رہے ہیں۔

اس کی سب سے مشہور مثال امریکا کے صدر ٹرمپ پر یہ الزام ہے کہ امریکا کے دشمن ملک روس نے انھیں صدر منتخب کروانے کے لیے فیس بک کے ذریعے امریکا میں لوگوں کی آراء پر اثر ڈالا تھا۔

اس الزام کا جواب دینے کے لیے مارک زکربرگ کو بھی امریکا کی پارلیمنٹ کانگریس میں پیش ہو کر تفتیش کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کے بعد فیس بک پر مزید احتیاطی اقدامات کیے گئے تھے۔

اصطلاحاً اسے انفارمیشن وار کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح آپ نے بھی سنی پڑھی ہو گی۔

جس طرح ہر شہری ہتھیار استعمال کرنا نہیں جانتا اسی طرح تقریباً سارے سوشل میڈیا یوزر ان "ہتھیاروں" کے استعمال سے واقف نہیں جنھیں انفارمیشن وار میں استعمال کیا جا رہا ہے۔

ہاں یہ بات ہم سب جانتے ہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی تحریریں، تصویریں اور ویڈیو کلپس اس انفارمیشن وار کے "ہتھیار" ہیں۔

چناں چہ اگر ہم اپنے معاشرے، اپنے ملک اور اپنے آپ کو نقصان سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان پوسٹوں سے ویسے ہی  بچنا چاہیے جیسے عام جنگ کی صورت میں بندوق کی گولیوں اور توپوں کے گولوں سے بچنے کی کوشش کریں گے۔

Tuesday, March 26, 2019

ہمارے سارے مسائل کا بہترین اور آسان ترین حل

میرے عاجزانہ خیال میں ہمارے سارے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے قریبی حلقے ۔۔۔۔۔۔ یعنی خاندان، برادری، گلی محلے، اڑوس پڑوس اور حلقۂ احباب ۔۔۔۔۔ میں اپنی استطاعت کے مطابق خیر اور بھلائی کے کام کریں، ضرورت مندوں کی عملی مدد کریں۔

صرف اس سادہ اور آسان طریقے سے ہم خود بے انتہا دلی اور روحانی اطمینان حاصل کرنے کے علاوہ اپنے قریبی لوگوں کی مشکلات بھی کم کر سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے معاشرے کو اچھا، خوب صورت، پاکیزہ، انسان دوست اور خیر کی روشنی سے منوّر معاشرہ بنا سکتے ہیں۔

Sunday, March 24, 2019

مستقبل میں کامیابی کے لیے کن شعبوں کا علم ضروری ہے

بل گیٹس کے مطابق سائنس، انجنیئرنگ اور معاشیات کی تعلیم حاصل کرنا مستقبل کی دنیا میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

Tuesday, March 5, 2019

ناقابلِ تصور تنخواہیں لینے والے کالم نویسو، اینکرو اور ایڈیٹرو! جینوئن، قابل اور محنتی و دیانت دار صحافیوں کا حق مارنے پر خدا کے عذاب سے ڈرتے کیوں نہیں ہو؟

اردو، انگریزی کا ہر کالم جہل، مغالطوں، جھوٹ وغیرہ کا بد ترین آمیزہ ہوتا ہے۔

آج ایک معروف ترین کالم نویس اینکر کا کالم پڑھ کر بہت افسوس ہوا۔

میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور "نئی دنیا" میں تو میڈیا پہلے سے زیادہ اہم ہو چکا ہے۔

ایک ویب سائٹ کے مطابق اس کالم نویس اینکر کی ماہانہ تنخواہ اٹھائیس لاکھ روپے ہے۔ اس ویب سائٹ پر دس اینکروں کی ماہانہ تنخواہ بتائی گئی ہے۔ خدا جانے یہ سچ ہے یا گپ۔

بہرحال یہ حقیقت ہے کہ بعض اینکروں، کالم نویسوں (اور ایڈیٹروں) کو ان کی اہلیت اور مارکیٹ ویلیو سے انتہائی زیادہ تنخواہ دی جا رہی ہے (مراعات الگ ہیں جب کہ وہ معاشرے کے طاقت ور ترین افراد بھی بن چکے ہیں)۔

کالم کا عنوان ہے "عزّت کے متلاشی بھکاری".

کالم نویس نے اپنے مخصوص چونکا دینے والے اسلوب میں او آئی سی، ایک پڑوسی مگر دشمن ملک، اپنے وطن پاکستان اور موجودہ وزیرِ اعظم کے بارے میں لکھتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے وہ یقیناً بے شمار پڑھنے والوں کو پسند آئے گا لیکن یہ کالم ثبوت ہے کہ ملیئنز آف رُپیز تنخواہ لینے والے یہ محترم کالم نویس اینکر بھی سارے کالم نویس اینکروں اور ایڈیٹروں کی طرح چالاک تو حد سے زیادہ ہیں لیکن کالم نویس اینکر بننے کے لیے لازمی اہلیت سے بالکل ہی محروم ہیں۔

خدا جانے کب میڈیا ایسے جعلی کالم نویسوں، اینکروں اور ایڈیٹروں کے پنجوں سے نجات پائے گا۔

جو اِن جعلی کالم نویسوں، اینکروں اور ایڈیٹروں کی سرپرستی کرتے اور ان سے کام لیتے ہیں، انھیں بھی سوچنا چاہیے کہ اگر وہ اہل لوگوں کو کالم نویس اور اینکر بناتے اور انھیں ملیئنز نہ سہی محض ضروریاتِ زندگی کے مطابق تنخواہ دیتے تو ان کا کام ہزاروں گنا زیادہ بہتر انداز سے انجام پاتا اور ہزاروں گنا بہتر نتائج حاصل ہوتے۔

مانا کہ "انفارمیش وار" کے اِس زمانے میں شور مچانے والی چالاک مگر اجہل کٹھ پتلیاں ضروری ہوتی ہیں لیکن میڈیا، (نیز پبلشنگ بزنس اور تعلیمی اداروں) میں باعلم، اہل اور جینوئن لوگوں کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ عالمی میڈیا حتیٰ کہ تھنک ٹینک تک اس کی مثال ہیں جہاں انفارمیشن کے نام پر بے معنی تحریریں اور کچرا پھیلانے والے سرگرم ہیں لیکن باعلم اور جینوئن لوگ بھی موجود ہیں جو فلسفہ، سائنس، ادب و شاعری اور دوسرے علوم کی کتابیں پڑھتے ہیں اور حاصل شدہ علم و شعور اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے عوام تک پہنچا کر قومی خدمت انجام دیتے ہیں۔

Saturday, February 23, 2019

کیا جراثیم سے بھرے کھانے، جُوس اور دُودھ کسی بایولوجیکل ویپن سے کم ہلاکت خیز ہیں؟

اکیسویں صدی کے دوسرے عَشرے کے آخری سال میں بھی جراثیم سے بھرے کھانے پینے کی چیزوں سے انسانوں کی ہلاکتیں نہایت الم انگیز ہیں ۔۔۔۔ مگر صرف ان کے لیے جن کے ضمیر زندہ ہیں۔

ہمارے وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کی قوم کو عظیم عطا "شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال" کے گیٹ کے عین سامنے سے لے کر اس کی قریب ترین سڑکوں اور گلیوں میں انتہائی گندے لوگ جراثیم سے بھرے کھانے کینسر کے بے بس مریضوں کو کھلا رہے ہیں۔

انتہائی افسوس ناک ظلم یہ ہے کہ ہوٹلوں میں جراثیم سے پاک کھانوں کی فراہمی یقینی بنانے والے متعلقہ سرکاری محکمے کے حرام کھانے والے اہل کار ان ہوٹلوں سے رشوت لے کر انھیں ہلاکت خیز کھانے بیچنے میں پوری مدد دے رہے ہیں۔

دوستو اگر عمران خان صاحب کے وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے گیٹ کے عین سامنے اور اردگرد واقع ہوٹلوں میں جراثیم سے پاک کھانے نہیں مل سکتے تو لاہور سمیت ملک کے دوسرے شہروں کے ہوٹلوں میں یہی کچھ ہو گا جیسا کہ باضمیر و باشعور فیس بک یُوزروں کی اندوہ ناک پوسٹوں سے عیاں ہے۔

Friday, February 22, 2019

ڈیجیٹل جنریشن گیپ، اجہل افسر و ماتحت اور مستقبل کا ڈیجیٹل پاکستان

ہمارے ہاں بہت خوف انگیز "ڈیجیٹل جنریشن گیپ" موجود ہے۔

المیہ یہ بھی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنولوجی، ڈیجیٹلائزیشن، آئی او ٹی ۔۔۔۔ انٹرنیٹ آف تِھنگز ۔۔۔۔ اور دوسری متعلقہ ٹیکنولوجیاں معاشرے کے ہر شعبے میں پہنچانے کے ذمہ دار سرکاری محکموں میں چند ایک قابل اور فرض شناس افراد کے سِوا اکثر افسر و ماتحت خود معاصر ٹیکنولوجیوں سے ذرا بھی آگاہی نہیں رکھتے اور نہ ہی انھیں ان کے بارے میں پڑھنے، جاننے، سیکھنے سے کوئی دل چسپی ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو اکیسویں صدی کے دوسرے عَشرے کے اختتامی سال میں ہمارے ملک اور معاشرے کے سارے شعبوں میں معاصر ٹیکنولوجیوں کا اطلاق ہمہ گیر ہوتا۔

Tuesday, February 19, 2019

خلا میں شہر

نئی دنیا کا نیا انسان خلا میں شہر بسائے گا۔

ہم میں سے کون چاہتا ہے کہ اس کی ںیٹی، بیٹا خلا میں آباد شہروں میں رہے؟

اس کے لیے اپنے بچوں کو ایسے علوم و فنون ۔۔۔۔ ہنروں ۔۔۔۔ کی تعلیم و تربیت دلوانا ہو گی جو مستقبل میں ایسے عام ہوں گے جیسے آج کل موٹر مکینک گلی گلی بیٹھے ہیں۔

Monday, February 18, 2019

جہالت کے زہر سے ذہنوں کا قتلِ عام کرنے والے اینکر، کالم نویس اور ایڈیٹر

مُعاصِر دُنیا اب نیشنلزم کے سیاسی فلسفے سے آگے جا چکی ہے۔ نیا بین الاقوامی نظام اپنا جا رہا ہے

مگر ہمارے کروڑپتی پروفیسر دانشور، دسیوں لاکھ ۔۔۔ ملیئنز ۔۔۔۔ روپے تنخواہ اور دوسرے ذرائع سے کروڑوں بٹورنے والے اینکر، کالم نویس، ایڈیٹر وغیرہ اب تک ۔۔۔۔ یعنی اِکّیسویں صدی کے دوسرے عَشرے کے آخری سال میں ۔۔۔۔ نیشنلزم کی خُونِیں اور مُتَعَفّن دَلدَل میں دَھنسے ہوئے ہیں۔

ہم سب اخبارات کے قارئین اور ٹی وی چینلوں کے ناظرین اپنے اپنے پسندیدہ کالم نویسوں، اینکروں اور ایڈیٹروں سے کیوں نہیں پُوچھتے کہ وہ جہالت کے زہر سے ہمارے ذہنوں کا قتلِ عام کب بند کریں گے؟

Friday, February 15, 2019

پاکستان کی بربادی اور عوام کے مسائل و مصائب کی واحد وجہ اور عمران خان

ہمارے ملک کے ترقی نہ کرنے اور خاص طور سے عوام کو درپیش سارے بدترین مسائل و مصائب کی صرف ایک وجہ ہے۔

حکومت کے ہر بہترین منصوبے اور کروڑوں اربوں روپے سالانہ بجٹ والے ہر بہترین محکمے کی ناکامی کی وہ واحد وجہ یہ ہے کہ ہر سرکاری محکمے کی اعلیٰ ترین پوسٹوں سے لے کر ادنیٰ ترین پوسٹوں تک غیر محبِ وطن، منفی ذہن والے، کام چور اور ہڈ حرام لوگوں نے "قبضہ" کیا ہوا ہے۔

اگر تحریکِ انصاف ۔۔۔۔ پی ٹی آئی ۔۔۔ کی حکومت اور وزیرِ اعظم عمران خان صاحب ملک کے حالات بہتر بنانے اور تبدیلی لانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو صرف ایک کام کریں۔ وہ یہ کہ ہر سرکاری محکمے کے غیر محبِ وطن، منفی ذہن والے، کام چور اور ہڈ حرام افسروں اور ماتحتوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کر کے انھیں ان کے قومی جرائم کی عبرت ناک سزائیں دی جائیں اور ان کی جگہ محبِ وطن، مثبت ذہن والے، محنتی اور دیانت دار و باضمیر افسروں اور ماتحتوں کو ذمہ داریاں سونپی جائیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان صاحب نے صرف یہ ایک کام کر لیا تو ان کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جائے گا۔

پاکستان کا کوئی بھی نام نہاد دانشور، دسیوں لاکھ روپے تنخواہ اور ہوش رُبا مراعات لُوٹنے والے اینکر، کالم نویس، پروفیسر وغیرہ یہ آسان حل کبھی نہیں بتائیں گے۔

اس کا ایک سبب یہ ہے کہ جب یہ لوگ مطالعہ اور غور و فکر کیے بغیر ہی کروڑوں روپے اپنے تجوریوں میں بھر چکے ہیں اور معاشرے میں ناقابلِ تصور طاقت حاصل کر چکے ہیں تو انھیں کیا ضرورت پڑی کہ مطالعہ اور غور و فکر کریں؟

دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ نام نہاد دانشور، دسیوں لاکھ روپے تنخواہ اور ہوش رُبا مراعات لُوٹنے والے اینکر، کالم نویس، پروفیسر وغیرہ خود انتہائی کام چور، ہڈ حرام اور منفی ذہن والے ہیں۔

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...