اُس نے جب چاہنے والوں سے اِطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اِجازت چاہی
یونہی بے کار میں کب تک کوئی بیٹھا رہتا
اس کو فُرصت جو نہ تھی ہم نے بھی رُخصت چاہی
شِکوہ ناقَدریِ دُنیا کا کریں کیا کہ ہمیں
کچھ زیادہ ہی ملی جتنی مُحبت چاہی
رات جب جمع تھے دُکھ دِل میں زَمانے بھر کے
آنکھ جَھپکا کے غمِ یار نے خلوت چاہی
ہم جو پامالِ زمانہ ہیں تو حَیرت کیوں ہے
ہم نے آبا کے حوالے سے فَضِیلت چاہی
میں تو لے آیا وہی پیرہنِ چاک اپنا
اُس نے جب خلعت و دستار کی قیمت چاہی
حُسن کا اپنا ہی شیوہ تھا تعلق میں فراز
عشق نے اپنے ہی انداز کی چاہت چاہی
شاعر: احمد فراز