مُعاصِر دُنیا اب نیشنلزم کے سیاسی فلسفے سے آگے جا چکی ہے۔ نیا بین الاقوامی نظام اپنا جا رہا ہے
مگر ہمارے کروڑپتی پروفیسر دانشور، دسیوں لاکھ ۔۔۔ ملیئنز ۔۔۔۔ روپے تنخواہ اور دوسرے ذرائع سے کروڑوں بٹورنے والے اینکر، کالم نویس، ایڈیٹر وغیرہ اب تک ۔۔۔۔ یعنی اِکّیسویں صدی کے دوسرے عَشرے کے آخری سال میں ۔۔۔۔ نیشنلزم کی خُونِیں اور مُتَعَفّن دَلدَل میں دَھنسے ہوئے ہیں۔
ہم سب اخبارات کے قارئین اور ٹی وی چینلوں کے ناظرین اپنے اپنے پسندیدہ کالم نویسوں، اینکروں اور ایڈیٹروں سے کیوں نہیں پُوچھتے کہ وہ جہالت کے زہر سے ہمارے ذہنوں کا قتلِ عام کب بند کریں گے؟