Thursday, November 28, 2019

اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو

اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں

دوستو


یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد

تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو


لائی ہے اب اُڑا کے گئے موسموں کی باس

برکھا کی رُت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو


شامِ الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا

راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو


پھرتے ہیں مثلِ  موجِ ہوا شہر شہر میں

آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو


آنکھوں میں اُڑ رہی ہے لُٹی محفلوں کی دھول

عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو


شاعر: منیر نیازی

چوتھے صنعتی انقلاب کا زمانہ، میگا سٹی، یوٹوپیا اور ڈائریا

اپنے لایعنی خیالوں کی دنیا میں جینے والوں کی یوٹوپیا، میگا سِٹی، عظیم تاریخی شہر وغیرہ وغیرہ کی اس چوتھے صنعتی انقلاب کے زمانے میں، اکیسویں ...