Thursday, May 31, 2018

$3.7 trillion is lost to procurement fraud each year


Nearly 30 percent of organizations report incidents of procurement fraud: $3.7 trillion is lost to procurement fraud each year.

(Association of Certified Fraud Examiners - ACFE)

مشرقِ وسطیٰ، ٹرمپ اور پوٹن

مشرقِ وسطیٰ، ٹرمپ اور پوٹن

رابرٹ فسک

وِلادی میر پوٹن کو شامی توپ خانے کے نزدیک اُس مقام پر گہری توجہ دینا پڑے گی جہاں گذشتہ اختتامِ ہفتہ چار روسی فوجی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دیر الزور کے گرد واقع صحرا ایک خطرناک مقام ہے ۔۔۔ سیاسی اعتبار سے بھی اور طبعی اعتبار سے بھی ۔۔۔ جہاں امریکی اور روسی جنگ کا انتہائی خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔
پوٹن کو اب بھی شبہ ہے کہ امریکیوں نے ایک سال سے بھی تھوڑا عرصہ پہلے توپ خانے کے اُس حملے کے لیے آرٹلری گائیڈینس مہیا کی تھی جس میں دیر الزور کے مقام پر روس کی فار ایسٹ ففتھ آرمی کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ویلیری ایساپوف ہلاک ہو گئے تھے۔ کیا توپوں سے داغے جانے والے وہ بم امریکا کے حامی کرد جنگجووں نے داغے تھے؟ یا انھیں آئی ایس آئی ایس نے داغا تھا؟ روسی کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایس کے گشتی حملہ آوروں نے اس ہفتے کے اختتام پر رات کے وقت شامی توپ خانے کے مورچوں پر حملہ کیا تھا ۔۔۔ اسلامسٹوں کی معمول کی کارروائی، جس میں وہ خود کش ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں پر صحرائی وادیوں سے نکل کر حملے کرتے ہیں ۔۔۔ حالاں کہ شامی فوج کے چھوٹے چھوٹے قلعے، پوری ریتلی سطح مرتفع پر ریت اور سیمنٹ سے تعمیر کیے گئے پشتے، ناقابلِ تسخیر تصور کیے جاتے ہیں۔
سو اَب روسی توپ خانے سے اپنے احکامات کے تحت گولہ باری کروا رہے ہیں۔ پہلے وہ شامی فوج کو فضائی مدد مہیا کر رہے تھے۔ ان کی فضائیہ کے آبزرور اگلے مورچوں پر جا کر شام کے صدر بشار الاسد کے دشمنوں پر حملوں کے لیے سخوئی طیاروں کی رہنمائی کرتے تھے۔ پھر روسیوں نے پالمیرا، دیر الزور، حمص اور حلب سے بارودی سرنگیں صاف کرنے کا کام انجام دیا۔ اس کے بعد روسی ملٹری پولیس شکست خوردہ جہادیوں کو صوبہ ادلب کے ویرانوں یا ترکی کی سرحد تک پہنچا کر آئی۔ روسی ہی دریائے فرات پر شامیوں اور امریکا کے حامی کردوں کے مابین رابطے کا ذریعہ بنے ہوئے تھے۔
بارہ مہینے پہلے ولادی میر پوٹن کے توپ خانے کے چوٹی کے ٹیکنیشن حلب میں ملبہ کریدکرید کر سخت مشکل اٹھا کر بموں کے گرنے کے نقشے تیار کر رہے تھے ۔۔۔ یعنی روسیوں کے فضا سے گرائے گئے بموں کے خول اور دھماکوں کے اثرات کا ٹھیک ٹھیک جائزہ لے رہے تھے۔ میں ان میں سے ایک ٹیم سے ملا تھا۔ بلاشبہ اس کی خبریں گردش کرتی روسی فوجی انٹیلی جنس تک بھی پہنچ گئی تھیں لیکن وہ پہلے براہِ راست کریملن پہنچی تھیں۔
ولادی میر پوٹن نے وہ خبریں خود پڑھی تھیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نظر رکھنے والے حکمران ہیں۔ شام میں اس طرح کا المیہ رونما نہیں ہو گا جیسے برزنیف کے دور میں افغانستان میں رونما ہوا تھا ۔۔۔ یا روسی یہ دعا مانگتے ہیں ۔۔۔ نہ دریائے آمو کے پار سیاسی جرنیلوں کی تن آسانی سے ہونے والی پسپائی کی طرح پسپائی ہو گی اور نہ ہی کریملن سستی سے کام لے گا۔ روسی افسر اچھی عربی بولتے ہیں (اور کافی اچھی انگریزی بھی) ۔۔۔ ماسکو سکول آف فارن لینگوئجز کی پیداوار ۔۔۔ اور شامی فوج کے افسروں کی طرح ان کے افسر بھی میدانِ جنگ میں اگلے مورچوں تک جاتے ہیں۔
لیفٹیننٹ ایساپوف اسی باعث تو ہلاک ہوئے تھے۔ ولادی میر پوٹن نے اپنے چیچنیائی اور روسی جہادی دشمنوں کا پیچھا شام تک کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ اور ان سب کو ہلاک کر دیا۔ انھوں نے اپنے اتحادی بشار الاسد کو بچا لیا لیکن اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ ایک آدھ انتباہ لینے دینے اور بعد میں معافی مانگ لینے والے اردوان کی جانب سے ایک روسی طیارہ مار گرائے جانے کے سوا ۔۔۔ وہ اسرائیل، ایران، ترکی، مصر، لبنان، سعودی عرب وغیرہ وغیرہ کے قابلِ اعتبار دوست رہے ہیں۔
ولادی میر پوٹن نے شیعوں اور سنیوں کے مابین فرقہ وارانہ جنگ میں واشنگٹن میں موجود اپنے فاتر العقل ہم منصب کے ساتھ شریک ہونے سے انکار کرتے ہوئے ایک اصطلاح استعمال کی، جو ہر ڈکٹیٹر، وزیرِ اعظم، مافیائی مطلق العنان حاکم، بادشاہ، صدر، قتلِ عام کروانے والے جابر، اجرت پر کام کرنے والے ماہرِ تعلقاتِ عامہ یا چاپلوس مدیر تک سب کو متحد کر دیتا ہے: ’’وار آن ٹیرر‘‘۔
میرا خیال ہے ولادی میر پوٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ یہ پیچیدہ و مبہم فقرے تقریباً برابر تعداد میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ عوام کے لیے گپ ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کریملن میں موجود کوئی کلبی اسے استعمال کرتا ہے یا وائٹ ہاؤس میں موجود مضحک شکل کا کوئی شخص اسے استعمال کرتا ہے، جو مکمل مسخرہ ہے۔ بہر حال بلاشبہ ولادی میر پوٹن ایک ایسے انسان ہیں جو ہر طرح کی صورتِ حال سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وہ شام کو ’’بچانے‘‘ پر بشار الاسد کی تعریف و تحسین قبول کرتے ہیں۔ وہ اسرائیل کے نسل پرست وزیرِ دفاع اویگڈور لائبرمین کو ’’ذہین‘‘ کہتے ہیں۔ بلاشبہ کریملن میں ہونے والے ایک اجلاس کے ایک روسی ترجمے میں ولادی میر پوٹن کے حوالے سے یہ دعویٰ بیان کیا گیا ہے کہ لائبرمین ۔۔۔ سابق سوویت یونین کے ایک نائٹ کلب کے سابق دربان ۔۔۔ ’’ایک عظیم روسی ہیں۔‘‘ بنجامن نیتن یاہو کا کریملن میں ہمیشہ خیر مقدم کیا جاتا ہے، خواہ وہ شام میں ایرانیوں پر بم باری کروا رہے ہوں۔ سلطان اردوان آف ترکی، جن کی ایئر فورس نے پوٹن کا ایک جیٹ مار گرایا تھا، اس وقت پوٹن کو دوست بنانے دوڑے دوڑے پہنچ گئے تھے جب روسیوں نے تعطیلات میں سیر و سیاحت کا بند و بست کرنے والوں سے کہا تھا کہ ترکی کی ساحلی سیاحتی صنعت کا صفایا کر دیں۔ جب ولادی میر پوٹن استنبول جا کر اردوان کے سونے کے محل میں ان سے ملنے گئے تھے، تب انھوں نے عین توپ کاپی کے سامنے ٹھیک باسفورس کے وسط میں اپنے ہیلی کاپٹر کیریئر کو ٹھہرایا تھا۔
مصر کے سیسی ولادی میر پوٹن کو قاہرہ کے ایک اوپرا لے گئے تھے۔ کریملن میں ولادی میر پوٹن نے سعودی عرب کے شاہ عبد اللہ کا استقبال کیا۔ انھوں نے قطریوں کا بھی خیر مقدم کیا۔ وہ ایران کے روحانی کی پسندیدگی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب سپریم لیڈر خامنائی مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کی مداخلت کی برائیاں بیان کرتے ہیں (صرف دو سال پہلے) تو وہ ۔۔۔ یقینی طور سے، ان کی طرف غصے سے تکتے ہوئے ۔۔۔ سنتے ہیں۔
شکر ہے ایرانیوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران شمالی ایران پر روس کے حملے کا ذکر نہیں کیا، نہ ہی جنگ کے بعد آذربائیجان اور ایرانی کردستان میں مہاباد میں سوویتیں قائم کرنے کا ذکر کیا۔ سیسی سے زیادہ کوئی یاد نہیں کرتا کہ سادات نے 1972ء میں کس طرح روسیوں کو مصر سے نکال باہر کیا تھا۔ پوٹن سے زیادہ کسی نے اسد سے نہیں کہا ہو گا کہ کس طرح دمشق کے نوجوان شیر نے مغرب سے فلرٹ کیا ہے اور 2008ء میں نکولس سرکوزی کے ساتھ بیستائل ڈے پریڈ میں شرکت کی ۔۔۔ ٹرمپ نے بھی پچھلے سال اسی طرح کی فوجی یاوہ گوئی کی ۔۔۔ اور 2000 ء میں فرار ہو کر روس چلے جانے والے چیچنیائی باغیوں کے حوالے سے روسی درخواستوں کا عوام کے سامنے جواب دینے سے ا نکار کر دیا۔
لیکن لیبیا کی بربادی کے بعد جب ولادی میر پوٹن کے مغربی ہم منصبوں نے بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی تو انھوں نے انھیں اس کا ذرا سا بھی موقع نہیں دیا۔ بحیرۂ روم سے روسیوں کی اس سے زیادہ شرم ناک پسپائی کوئی اور نہ ہوتی۔
جب بعد میں روسیوں نے امریکا کے تربیت یافتہ اسلامسٹ لیبیائی فوج کے لارڈ آف وار خلیفہ ہفتار سے گفت و شنید کرنا چاہا تو وہ اسے ہیلی کاپٹر میں اٹھا کر سمندر میں لنگر انداز روسی کیریئر پر لے گئے تھے۔ جب امریکیوں نے شکایت کی کہ شام میں روسیوں کے فضائی حملے صرف سی آئی اے کی پسندیدہ (اور کافی افسانوی نوعیت کی) ’’فری سیریا آرمی‘‘ کے باغیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تو روس کے وزیرِ خارجہ سرگی لیواروف نے ہیبت ناک انداز میں جواب دیا تھا کہ ’’اگر وہ دہشت گرد جیسا لگتا ہو، اگر وہ دہشت گرد کی طرح کارروائی کر رہا ہو، اگر وہ دہشت گرد کی طرح چل رہا ہو ۔۔۔ تو وہ دہشت گرد ہے۔‘‘
ولادی میر پوٹن نے ان روسی کرائے کے قاتلوں کے ہلاک ہونے پر بہت کم آنسو بہائے تھے، جو شام میں کردوں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے، اسی طرح جیسے انھوں نے آفرین میں ترک فوج اور آئی ایس آئی ایس سے تعلق رکھنے والے جنگجووں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہو جانے والے کردوں پر بھی بہت کم آنسو بہائے تھے۔ یہ ڈیل سادہ سی لگتی ہے۔ یہ کہ ترک صوبہ آفرین لے سکتے ہیں ۔۔۔ تھوڑے وقت کے لیے ۔۔۔ بشرطے کہ وہ شامیوں اور روسیوں کو مستقبل میں صوبہ ادلب سے اسلامسٹوں کا صفایا کرنے دیں (نوٹ: اس جنگ کا انتظار کیجیے)۔


(بشکریہ د ی  انڈی پینڈنٹ؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

Monday, May 28, 2018

دنیا میں سب سے زیادہ ہلاکتوں کی وجہ جانیے


Unsafe water (and lack of basic sanitation) kills more people every year than all forms of violence combined, including war. (UN Secretary General Ban Ki-moon)

Saturday, May 26, 2018

ایئرکنڈیشنر فضا کا درجۂ حرارت بڑھا رہے ہیں

مصنف: کینڈرا پیئر لوئس

جھینگروں، جگنوؤں، بیس بال اور تفریحی مقامات پر طرح طرح کے پکوان تیار کرنے کی نسبت ایئرکنڈیشنروں کے چلنے کی مانوس آواز امریکا میں موسمِ گرما کی آمد کی زیادہ بڑی علامت ہے لیکن جوں جوں دنیا کے دوسرے ملک امریکا کی طرح ایئرکنڈیشنروں کی محبت میں مبتلا ہو رہے ہیں، توں توں اس فکر میں اضافہ ہو رہا ہے کہ ائیرکنڈیشنروں کو چلانے کے لیے بہت زیادہ بجلی استعمال ہو گی جس سے بجلی کے گرِڈوں پر بوجھ میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ بہت زیادہ تعداد میں ایئرکنڈیشنر استعمال کیے جانے سے کرۂ ارض کے درجۂ حرارت میں اضافہ کرنے والی گیسیں زیادہ مقدار میں فضا میں شامل ہوں گی۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے اسی ہفتے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ایئرکنڈیشنر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ محولہ رپورٹ کے مطابق ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس صدی کے وسط تک پوری دنیا میں زیرِ استعمال ائیرکنڈیشنروں کی مجموعی تعداد بڑھ کر پانچ ارب ساٹھ کروڑ ہو جائے گی۔ اگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو 2050ء تک پوری دنیا میں چلائے جانے والے ایئرکنڈیشنراتنی بجلی استعمال کر رہے ہوں گے جتنی کہ آج پورا چین تمام سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایئرکنڈیشنروں کو چلانے میں جتنی بجلی خرچ ہو رہی ہے، اسے بنانے والے کوئلے اور قدرتی گیس سے چلنے والے بجلی کے کارخانے کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھانے والی (گرین ہاؤس) گیسوں کی جتنی مقدار خارج کرتے ہیں، اس کا مجموعی وزن 2016ء میں ایک ارب پچیس کروڑ ٹن تھا، جو 2050ء میں بڑھ کر دو ارب اٹھائیس کروڑ ٹن ہو جائے گا۔ گیسوں کے اخراج سے عالمی حرارت میں اضافہ ہو گا، جس کے نتیجے میں ایئرکنڈیشنروں کی طلب میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ اس وقت دنیا کے چند گنتی کے ملکوں میں ایئرکنڈیشنر زیادہ تعداد میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ان ملکوں میں امریکا اور جاپان سرِ فہرست ہیں جب کہ چین میں ایئرکنڈیشنروں کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے ایگزیکٹِو ڈائریکٹر ڈاکٹر فاتح بیرول کہتے ہیں کہ امریکا کے 90 فی صد گھروں میں ایئرکنڈیشز نصب ہیں، جب کہ ’’ہم افریقا، ایشیا، لاطینی امریکا اور مشرقِ وسطیٰ کے گرم ملکوں کو دیکھتے ہیں تو ان ملکوں کی دو ارب اسّی کروڑ کی مجموعی آبادی میں سے صرف آٹھ فی صد کے لگ بھگ آبادی ایئرکنڈیشراستعمال کر رہی ہے۔‘‘ بہرحال ان ملکوں کے شہریوں کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے، اس باعث ان ملکوں کے زیادہ شہری اپنے گھروں میں ایئرکنڈیشنر نصب کروا رہے ہیں۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والے برسوں میں بھارت، چین اور انڈونیشیا میں ایئرکنڈیشنروں کے استعمال میں زیادہ اضافہ ہو گا۔
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایئرکنڈیشروں کی تعداد میں اضافے کا ایک سبب تو آرام و سکون کی خواہش ہے لیکن اس میں دوسرے عوامل بھی کارفرما ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ جب کسی ملک کے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس ملک کے گھروں میں استعمال کیے جانے والے برقی آلات مثلاً ریفریجریٹروں اور ٹیلی ویژنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ گھروں میں استعمال کیے جانے والے یہ برقی آلات حرارت پیدا کرتے ہیں، جس سے اُن گھروں کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ جب گھروں کا اندرونی درجۂ حرارت کم کرنے کی غرض سے ایئرکنڈیشنر استعمال کیے جاتے ہیں تو ان سے خارج ہونے والی حرارت ان گھروں کے اردگرد درجۂ حرارت میں اضافہ کر دیتی ہے۔ محولہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بعض ماہرین کے تخمینے کے مطابق ایئرکنڈیشننگ کی وجہ سے بعض شہروں میں رات کے درجۂ حرارت میں ایک درجہ سیلسیئس (دو درجہ فارن ہائیٹ) کا اضافہ ہو جاتا ہے۔یہ بات بالخصوص قابلِ غور ہے کہ اگر آپ کے سارے پڑوسی اپنے اپنے گھر میں ائیرکنڈیشنر استعمال کرنا شروع کر دیں تو اس کے نتیجے میں آپ کے گھر کا درجۂ حرارت اس قدر بڑھ جائے گا کہ آپ کو بھی آخرِ کار اپنے گھر میں ائیرکنڈیشنر لگوانا پڑے گا۔ اس طرح بلا شبہ آب و ہوا میں تبدیلی وقوع پذیر ہو گی۔ بھارت ایک صدی پہلے  اوسطاً  جتنا گرم تھا، اُس سے ایک درجہ فارن ہائیٹ گرم ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں ’’کولنگ ڈگری ڈیز‘‘ میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ’’کولنگ ڈگری ڈیز‘‘ ایسے دنوں کو کہا جاتا ہے جن کا اوسط درجۂ حرارت اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ ایئرکنڈیشننگ ضروری ہو جاتی ہے۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے کے ہاس سکول آف بزنس کے انرجی انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرڈاکٹر لوکس ڈیوس کہتے ہیں، ’’اگر آپ بھارت کے شہروں چنائی اور ممبئی کے ’’کولنگ ڈگری ڈیز‘‘ کا جائزہ لیں تو وہ امریکا کے گرم ترین شہر میامی کے ’’کولنگ ڈگری ڈیز‘‘ کی نسبت دو گنا زیادہ ہو چکے ہیں۔ اتنی گرمی ناقابلِ یقین ہے ۔۔۔ امریکا کا کوئی شہر ایسا نہیں جس کا گرمی کے حوالے سے بھارت کے ان دو شہروں سے موازنہ کیا جا سکتا ہو۔‘‘ جب درجۂ حرارت بڑھتا ہے تو ایئرکنڈیشنروں سے استفادہ نہ کرنا زیادہ ہلاکت خیز ہو سکتا ہے۔ 1995ء میں امریکا کے شہر شکاگو کو لپیٹ میں لینے والی گرمی کی لہر سے سات سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اسی طرح 2003ء میں یورپ میں آنے والی گرمی کی لہر دسیوں ہزار افراد کی ہلاکت کا سبب بنی تھی جب کہ 2010ء میں روس میں آنے والی گرمی کی لہر سے بھی دسیوں ہزار افرادلقمۂ اجل بن گئے تھے۔ ماہرین نے تحقیق سے پتا چلایا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی نے یورپ میں گرمی کی لہر کو زیادہ ہلاکت خیز بنا دیا تھا۔ اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی روس میں بھی گرمی کی لہر کے زیادہ ہلاکت خیز ہونے کا سبب تھی۔ ایک اور تحقیق کے مطابق امریکا میں 1960ء سے گھروں میں ایئرکنڈیشنروں کا استعمال شروع ہونے کے بعد سے گرمی کی وجہ سے قبل از وقت ہونے والی اموات میں 75فی صد کمی آ چکی ہے۔
اس باعث ڈاکٹر لوکس ڈیوس اور ڈاکٹر فاتح بیرول کہتے ہیں کہ درجۂ حرارت میں اضافے کے مسئلے کا حل یہ نہیں کہ ملکوں کو قائل کیا جائے کہ وہ ایئرکنڈیشنروں کا استعمال تَرک کر دیں بلکہ اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ کم توانائی خرچ کرنے والے ایئرکنڈیشنر زیادہ استعمال کیے جائیں۔اس سے آنے والے برسوں میں فضا کو ٹھنڈا کرنے کے لیے درکار بجلی کی طلب گھٹ کر نصف رہ جائے گی۔ ڈاکٹر لوکس ڈیوس نے بتایا کہ بھارت میں آج کل جس قسم کے ایئرکنڈیشنر فروخت کیے جا رہے ہیں، وہ بجلی کم خرچ کرنے والے ایئرکنڈیشنروں جتنی ٹھنڈک مہیا کرنے کے لیے ان کی نسبت دگنی بجلی خرچ کرتے ہیں۔ دوسری طرف جاپان اور یورپی یونین میں فروخت کیے جانے والے ایئرکنڈیشنر توانائی کم خرچ کرنے کے اعتبار سے امریکا اور چین میں فروخت کیے جانے والے ایئرکنڈیشنروں سے 25فی صد زیادہ بہتر ہیں۔ ڈاکٹر فاتح ببیرول نے کہا کہ حکومتوں کو ایئرکنڈیشنرں میں توانائی کم خرچ ہونے کے حوالے سے معیارات کا تعین کرنا چاہیے جب کہ ایئرکنڈیشنر بنانے والوں کو ان معیارات کے مطابق ایئرکنڈیشنر بنانے اور صارفین کو ایسے ایئرکنڈیشنر خریدنے کی تحریک و ترغیب دینا چاہیے۔بعض ملک پہلے ہی ایئرکنڈیشنروں میں توانائی کے استعمال کے حوالے سے معیارات کا تعین کر رہے ہیں۔ مونٹریال پروٹوکول میں کی جانے والی ایک ترمیم ’’کِگالی ترمیم‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کے تحت دوسرے ملک ایئرکنڈیشنروں میں استعمال کیے جانے والے اُن مادّوں کا استعمال بتدریج ختم کر رہے ہیں جو کمرے کی حرارت جذب کر کے باہر نکالتے ہیں۔ یہ بھی فضا کا درجۂ حرارت بڑھانے میں حصہ لے رہے ہیں۔ ڈاکٹر لوکس ڈیوس نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں میں بجلی کی قیمتوں کو بھی لازماً کردار ادا کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا، ’’بجلی کی زیادہ منطقی قیمتیں طے کیے بغیر ان میں سے کسی بھی شعبے میں پیش رفت دشوار ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھانے والی حرارت کے اخراج کو بجلی کی قیمت میں شمار کیا جانا اور حکومتی رعایتوں کا خاتمہ کرنے سے توانائی کم خرچ کرنے والے ایئرکنڈیشنروں کے استعمال اور زیادہ ماحول دوست عمارتیں تعمیر کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ محولہ بالا رپورٹ میں یہ تصور بھی پیش کیا گیا ہے کہ کوئلے، تیل اور قدرتی گیس کی بجائے دھوپ، ہوا، سمندری و دریائی پانی اور دوسرے ماحول دوست ذرائع سے حاصل کی جانے والی توانائی زیادہ استعمال کی جانا چاہیے ۔۔۔ خصوصاً دھوپ سے حاصل کی جانے والی توانائی زیادہ استعمال کی جانا چاہیے کیوں کہ دوپہر کے وقت دھوپ اپنے عروج پر ہوتی ہے اوراسی وقت ایئرکنڈیشنروں میں استعمال کے لیے توانائی کی طلب بھی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ چناں چہ دوپہر کے وقت دھوپ سے حاصل کی جانے والی توانائی کی مقدار ایئرکنڈیشنروں میں استعمال کی جانے والی توانائی کی طلب کے تقریباً برابر ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر فاتح بیرول نے کہا کہ کچھ بھی ہو آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں ایئرکنڈیشننگ ایک بڑا مسئلہ ہو گی۔ انھوں نے کہا، ’’جب میں آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے آنے والے چند برسوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے صنعتی شعبے کے بعد ایئرکنڈیشنر دوسرے نمبر پر نظر آتے ہیں۔ دنیا میں جتنی توانائی پیدا کی جا رہی ہے اس میں سے 21فی صد توانائی ایئرکنڈیشنروں میں استعمال ہونے والی بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے پیدا کی جا رہی ہے۔‘‘

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛  ترجمہ: محمد احسن بٹ)

Friday, May 25, 2018

امریکا: ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کا تشویش ناک فیصلہ

مصنف: ڈیوڈ ای سینگر اور ولیم جے براڈ

امریکا شمالی کوریا اور ایران پر تو دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے اپنے ایٹمی پروگرام ختم کر دیں لیکن اس نے خود اپنے ایٹمی اسلحہ خانے میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایٹمی اسلحہ ختم کروانے کے حوالے سے یہ وائٹ ہاؤس کے لیے ڈرامائی دن ہیں۔ پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ یہ مطالبہ کرتے ہوئے ایران کے ساتھ کیے جانے والے ایٹمی معاہدے سے نکل گئے کہ ایران کو ایک ایسے نئے معاہدے پر دستخط کرنا چاہئیں جس کے تحت ایٹم بم بنانے کا راستا اس پر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے۔ پھر امریکی انتظامیہ نے شمالی کوریا کے راہنما کے ساتھ امریکا کے کسی صدر کی اوّلین ملاقات کا اعلان کیا، جس کا مقصد شمالی کوریا کو اس کے ایٹمی ہتھیاروں سے چھٹکارا دلانا ہو گا لیکن جہاں تک امریکا کے اپنے ایٹمی اسلحہ خانے کا تعلق ہے تو امریکی انتظامیہ ہر قدم مخالف سمت میں اٹھا رہی ہے اور امریکا کی ایٹمی صلاحیت بڑھانے کے لیے ضروری ایٹمی پلانٹ تعمیر کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے اعلانات کیے جا رہے ہیں، جن پر بہت تھوڑی توجہ دی گئی ہے۔ یہ تضاد حیران و ششدر کر دینے والا ہے۔ جمعرات کی شام صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ ان کے ساتھ ان کی ملاقات 12جون کو سنگاپور میں ہو گی ۔۔۔ اس وقت سے ہی شمالی کوریا اس ملاقات کی منسوخی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔اس اعلان کے چند ہی گھنٹوں بعدپینٹاگان اور محکمۂ توانائی نے جنوبی کیلی فورنیا میں سواناہ رِیور سائٹ میں اگلی نسل کے ایٹمی ہتھیاروں کے اہم ترین اجزا بنانے کے منصوبوں کا اعلان کیا۔ منصوبہ یہ ہے کہ امریکا کے شہروں کوروشنی مہیا کرنے کے لیے پرانے ایٹمی ہتھیاروں کو ری ایکٹر کے ایندھن میں تبدیل کرنے کی غرض سے تعمیر کیے جانے والے ادھورے اور بے شمار مسائل سے دوچار ایٹمی پلانٹ کو ایک بار پھر ایٹمی اسلحہ بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اب اس ایٹمی پلانٹ کو امریکا کے پرانے ایٹمی ہتھیاروں کو کارآمد بنانے کے علاوہ مزید سینکڑوں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔پینٹاگان نے فروری میں جاری ہونے والی اپنی بنیادی ایٹمی حکمتِ عملی میں ایٹمی اسلحہ بنانے کے امریکا کے تازہ اقدام کا سب سے بڑا جواز پیش کرتے ہوئے شمالی کوریا کی ایٹمی صلاحیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ’’غیر قانونی طور سے ایٹم بم بنا رہا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ پچھلے ہفتے ایوانِ نمائندگان کی ’’سٹریٹجک فورسز سب کمیٹی‘‘ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے اس منصوبے کی منظوری دی جس کے تحت روس کی ایٹمی پیش رفتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آب دوزوں سے داغے جا سکنے والے کم طاقت کے ایٹم بم بنائے جائیں گے۔ سب کمیٹی کے چیئرمین الاباما سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن مائیک ڈی روجرس نے کہا کہ یہ فیصلہ ماسکو کے ساتھ ہتھیاروں کی نئی دوڑ کا ردِ عمل ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مارچ میں کہا تھا کہ وہ ’’کنٹرول سے باہر ہوتی‘‘ ہتھیاروں کی دوڑ کے حوالے سے روس کے صدر ولادی میر وی پوٹن کے ساتھ ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ (حالاں کہ ایسی کوئی ملاقات طے ہی نہیں پائی۔) مائیک ڈی روجرس نے کہا، ’’یہ کمیٹی جانتی ہے کہ روس اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں اضافہ کر رہا ہے۔ یہ امر خطرناک اور سنجیدگی کا متقاضی ہے۔‘‘ شمالی کوریا  نے  بدھ کے روز دھمکی دی کہ اگر امریکا نے’’ایٹمی اسلحہ خانہ یک طرفہ طور سے ختم کرنے پر‘‘ اصرار کیا تو اگلے مہینے سنگاپور میں ہونے والی ملاقات منسوخ کر دی جائے گی۔ یہ بیان شمالی کوریا کے ایٹمی اسلحہ ختم کرنے کے موضوع پر مذاکرات کرنے والے حکومتی عہدہ دار نے دیا تھا۔ اس سے چند ہی گھنٹے پہلے ریاستی ذرائع ابلاغ سے انتباہ جاری کیا گیا تھا کہ جنوبی کوریا اور ریاست ہائے متحدہ امریکا کی مشترکہ فوجی مشق پر احتجاج کرنے کے لیے ملاقات منسوخ کی جا سکتی ہے۔ وہ فوجی مشق اسی ہفتے شروع ہوئی تھی۔ اس انتباہ نے ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے افسران کو حواس باختہ کر دیا اور داخلی بحث چھڑ گئی کہ کم جونگ ان سنگاپور میں ہونے والی ملاقات سے پہلے محض ڈراوا دے رہے ہیں یا ایک نئی حقیقی رکاوٹ کھڑی کر رہے ہیں۔ بدھ کے روز شمالی کوریا کے ایک نائب وزیرِ خارجہ کم کیے کوان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے نئے متعین کیے جانے والے مشیر جان بولٹن کی مذمت کرتے ہوئے امریکی انتظامیہ کے اس مطالبے کو مسترد کر دیا کہ شمالی کوریا اُسی طرح اپنا ایٹمی پروگرام ختم کر دے جس طرح پندرہ سال پہلے لیبیا نے کیا تھا۔ محولہ بیان میں کہا گیا تھا، ’’اگر امریکا یک طرفہ طور سے ایٹمی پروگرام ختم کرنے کے لیے ہم پر دباؤ ڈال کر کونے میں دھکیلے گا تو ہم اس مکالمے میں مزید دل چسپی نہیں لیں گے اور ملاقات پر دوبارہ غور کرنے کے سوا کوئی راستا نہیں ہو گا۔‘‘ جب وائٹ ہاؤس سنبھلا اور شمالی کوریا کے بیان کا جائزہ لیا تو وزارتِ خارجہ نے کہا کہ 12جون والی ملاقات کے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور نشان دہی کی کہ جنوبی کوریا کے حکام نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کو بتایا تھا کہ شمالی کوریا کے راہنما کم جونگ ان کو فوجی مشقوں سے آگاہ کر دیا گیا تھا اور انھوں نے اسے قبول کر لیا تھا۔
جہاں یہ ممکن ہے کہ ایٹمی ہتھیار بڑی مقدار میں بنانے کا امریکا کا فیصلہ اس کی مذاکرات کی حکمتِ عملی کا حصہ ہو، وہاں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سودے بازی کے لیے ایسی چیز پیش کر کے، جو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی، وائٹ ہاؤس نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کو یک طرفہ معاملہ تصور کرتا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ امریکا نے اس امر میں کوئی تضاد نہیں دیکھا ہو کہ وہ کم طاقتور ملکوں کو اپنی ایٹمی صلاحیتیں ختم کرنے پر قائل کرتے ہوئے خود اپنی ایٹمی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ’’ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے‘‘ میں ابتدا ہی سے عدم توازن موجود ہے۔ یہ معاہدہ 1970ء میں عمل میں آیا تھا۔ یہ معاہدہ اُن تمام ریاستوں کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکتا ہے، جن کے پاس پہلے سے ایٹم بم موجود نہیں۔ (اسرائیل، پاکستان اور بھارت نے کبھی اس معاہدے میں شمولیت نہیں جب کہ شمالی کوریا نے اس پر دستخط کیے تھے لیکن بعد میں وہ اس معاہدے سے نکل گیا تھا۔) بہرحال اس معاہدے کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ تسلیم شدہ ایٹمی طاقتیں ۔۔۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس ۔۔۔ ’’ایٹمی دوڑ اور ایٹمی ہتھیار ختم کروانے‘‘ کے لیے کام کریں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا اور روس کہہ سکتے ہیں کہ دیوارِ برلن گرنے کے بعد کے بیس برسوں میں انھوں نے اپنے اپنے ایٹم بموں میں کمی کا وعدہ نبھایا ہے۔ دونوں ملکوں نے جتنے ایٹم بم نصب کر رکھے تھے ان کی تعداد ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول کے معاہدوں کے تحت گھٹ کر اس سال 1,550رہ گئی ہے لیکن ان کے علاوہ ہزاروں ایٹم بم ذخیرہ گاہوں میں محفوظ ہیں۔ امریکا کے سابق صدر بارک اوباما نے کہا تھا کہ امریکا خود اپنے ایٹمی پروگرام کو وسعت دے رہا ہو تو وہ ایٹمی پروگرام ختم کروانے کے لیے دوسرے ملکوں پر دباؤ نہیں ڈال سکتا۔بہرحال ان کے بہت سے ماتحتوں نے بعد میں کہا، ان کی خواہش تھی کہ صدر بارک اوباما امریکا کے ایٹمی اسلحہ خانے میں کمی کے لیے مزید اقدامات کرتے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالکل مخالف سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ امریکا اپنے موجودہ ایٹمی اسلحہ خانے کو بہتر بنانے اور اس میں ایک بار پھر وسعت لانے کے لیے تیزی سے اقدامات کر رہا ہے۔ ’’نیو سٹارٹ ٹریٹی‘‘ کی اگلے پانچ سال کے لیے تجدید نہ ہوئی تو فروری 2021ء میں امریکا اور روس کے اسلحہ خانوں پر عائد تحدید ختم ہو جائے گی ۔۔۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری میعادِ صدارت شروع ہونے سے محض چند دن بعد۔
اس اثنا میں امریکا کی حکومت واضح کر رہی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کے ایک اور دور کے آغاز کی تیاریاں کر رہی ہے۔ سواناہ رِیور والے اعلان میں ان چھوٹے ایٹم بموں کی تیاری کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے جنھیں ایٹمی صنعت میں ’’جہنم‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ چھوٹے ایٹم بم جب کسی وارہیڈ کے اندر پھٹتے ہیں تو ایک انتہائی گرم دِیاسلائی کی طرح عمل کرتے ہوئے تھرمونیوکلیئر ایندھن کی بہت بڑی مقدار میں آگ بھڑکا دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہیروشیما کو تباہ کر دینے والے ایٹم بم سے 1,000گنا زیادہ بڑا دھماکا ہوتا ہے ۔ اِن ’’جہنموں‘‘ کو چھوٹے سے چھوٹا اورزیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کا طریقہ ایٹمی دور کے سب سے خفیہ رکھے جانے والے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اِن میں سے بیش تر کی جسامت گریپ فروٹ جتنی ہے۔ اس جسامت کی وجہ سے وارہیڈز کو لمبی مار والے میزائلوں پر نصب کیا جانا آسان ہوگیا ہے ۔۔۔ یہ ان ٹیکنالوجیوں میں سے ایک ہے جنھیں شمالی کوریا حاصل کرنے کی کوششیں کرتا آ رہا ہے اور شاید حاصل بھی کر چکا ہو۔ گذشتہ جمعرات کیے جانے والے اعلان کا مقصد ’’دو وفاقی لیمووں سے سکنجبین بنانا‘‘ تھا۔ اب تک ’’جہنم‘‘ نیو میکسیکو میں لاس الاموس میں واقع ایٹمی پلانٹ میں بنائے جا رہے تھے۔ یہ وہی ایٹمی پلانٹ ہے جہاں امریکا کا پہلا ایٹم بم بنایا گیا تھا۔ اس ایٹمی پلانٹ میں جاری کام اور اس کے تحفظ کے معاملے میں مسلسل مسائل رونما ہوئے، جو امریکا کے لیے ندامت کا باعث بنے۔ آخر 2015ء میں صدر بارک اوباما نے اس ایٹمی پلانٹ کی اُس وقت کی انتظامیہ کا ٹھیکا منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس انتظامیہ کی ناکامیوں میں سے ایک ناکامی یہ تھی کہ وہ 80’’جہنم‘‘ سالانہ تیار کرنے کا قابلِ اعتبار منصوبہ بنانے میں ناکام رہی تھی۔
دوسری طرف سواناہ رِیور سائٹ میں ایٹم بم بنانے کے قابل کئی ٹن پلوٹونیم کو تجارتی بجلی گھروں کے ایندھن میں بدلنے کے پروجیکٹ کے اخراجات سترہ ارب ڈالر تک بڑھ گئے تھے۔ اب اس پروجیکٹ کو ختم کر دیا گیا ہے اور پچھلے ہفتے دو حصوں پر مشتمل جس منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے، وہ ’’جہنم‘‘ بنانے کا بوجھ بھی لاس الاموس والے ایٹمی پلانٹ پر سے کم کر دے گا۔ لاس الاموس والا ایٹمی پلانٹ ہر سال تیس ’’جہنم‘‘ بنائے گا جب کہ جنوبی کیرولینا والے ایٹمی پلانٹ میں ہر سال پچاس ’’جہنم‘‘ بنائے جائیں گے۔ امریکا کے محکمۂ توانائی اور محکمۂ دفاع نے کہا کہ اس نظام کے تحت’’ایک ایٹمی پلانٹ پر انحصار نہ کرنے سے ہمارے ایٹمی پلانٹوں اور ایٹمی اسلحہ خانوں کا تحفظ زیادہ بہتر ہو جائے گا۔‘‘ اس اقدام سے نشان دہی ہوتی ہے کہ امریکا نئے ایٹمی ہتھیار بھی بنائے گا حالاں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران ڈ یل سے نکل جانے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ تہران ایٹم بم نہ بنانے کا معاہدہ بھی کرے۔ 80’’جہنم‘‘ سالانہ بنانے کے لیے امریکی وفاق کے جواز کو بہت خفیہ رکھا گیا ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ امریکا جس پلوٹونیم ایندھن سے ایٹم بم بنا رہا ہے، اس کا معیار وقت گزرنے کے ساتھ گر جائے گا جس سے آخرِ کار ’’جہنم‘‘ نامی یہ ایٹم بم بے کار ہو جائیں گے۔یہ خدشہ بجا تو ہے لیکن اس پر بحث کی جا سکتی ہے۔ 2006ء میں ایک وفاقی نیوکلیئر پینل نے تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ پلوٹونیم سے تیار کردہ ’’جہنم‘‘ توقع سے زیادہ بہتر ہیں اور انھیں ایک صدی یا اس سے زیادہ عرصہ تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تنقید کرنے والوں نے اس فیصلے پر کہا تھا کہ وفاقی حکومت نئی نسل کے ایٹمی ’’جہنم‘‘ قومی سلامتی کے لیے نہیں بلکہ محض فوجی قوت دکھانے کی غرض سے بنانا چاہتی ہے۔ امریکا کے ایٹمی پلانٹوں اور ایٹمی اسلحہ خانوں کی نگرانی اور ان کے پھیلاؤ کی مخالفت کرنے والی البوقرق کی نجی تنظیم لاس الاموس سٹڈی گروپ کے ایگزیکٹو گریگ میلو نے حال ہی میں کہا، ’’کسی بھی وارہیڈ کے لیے نئے ’’جہنموں‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہزاروں ’’جہنموں‘‘ کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں، جنھیں امکانی طور سے دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
پینٹاگان کا ’’نیوکلیئر پوسچر ریویو‘‘ فروری میں شائع ہوا۔ اس میں پلوٹونیم سے بنائے گئے ’’جہنموں‘‘ کی تیاری کے لیے نئی صلاحیت کا تقاضا کیا گیا ہے۔ اس میں کانگریس سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ کم طاقت والے نئے ایٹمی ہتھیار بنانے کی منظوری دے۔ پچھلے ہفتے ’’ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی‘‘ کے تمام ارکان پر مشتمل اجلاس میں ’’نیوکلیئر پوسچر ریویو‘‘ کی منظوری دی گئی لیکن تمام ڈیموکریٹ ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیے۔ واشنگٹن سے کانگریس کے رکن اور ’’ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی‘‘ میں ڈیموکریٹ ارکان کے راہنما ایڈم سمتھ نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ہمارے پاس ایک قابلِ اعتبار ڈیٹرنٹ ہونا چاہیے لیکن میرا خیال ہے کہ ’’نیوکلیئرپوسچر ریویو‘‘ قابلِ اعتبار ایٹمی ڈیٹرنٹ سے بڑھ گیا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ایٹمی جنگ چھیڑ بیٹھیں۔‘‘

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

Thursday, May 24, 2018

کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم

کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم

مصنف: آرتھر سی بروکس (صدر ’’امریکن اینٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ)

میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتا ہوں۔ یہ نفرت میرے کھیل کے میدان کے برسوں سے نہیں پھوٹی بلکہ اس کی بجائے بیس بائیس سال کی عمر میں ایک پیشہ ورسمفنی آرکسٹرا میں کام کرنے کے میرے تجربے سے پھوٹی ہے۔ آرکسٹرا کے موسیقار جبر، ظلم اور ضرورت سے زیادہ کام لینے کی عادت کے باعث بدنام ہیں۔ اس کے علاوہ وہ سازندوں کی فن کارانہ زندگی کو مکمل کنٹرول میں رکھنے کی وجہ سے بھی بدنام ہیں۔ وہ اپنی طاقت مستحکم کرنے کی غرض سے سازندوں کو ایک دوسرے کا مخالف بنا دیتے ہیں، ان کی کمزوریوں کی تاک میں رہتے ہیں اور ان کا اعتماد تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔جیسا کہ ہم کہا کرتے ہیں، موسیقار ’’ایول جینیئس‘‘ ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ سارے مجسم شر ہوتے ہیں۔
کئی عشرے گزرنے کے بعد موسیقاروں کے لیے میری رائے تھوڑی نرم ہو گئی ہے لیکن کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں کے متعلق میری رائے پہلے جیسی ہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ لوگوں کی اکثریت بھی کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتی ہے۔ ’’ہوریبل باسز‘‘ اور ’’ریوینج آف دی نرڈز‘‘ جیسی فلموں میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اپنے مظالم کی سزا پاتے ہیں۔ فلموں کے شائقین کا بڑی تعداد میں یہ فلمیں دیکھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جس طرح میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتا ہوں، اسی طرح لوگوں کی اکثریت بھی کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں سے نفرت کرتی ہے۔ کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں کے خلاف عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والوں کی کوششوں پر غور کیجیے۔خاتونِ اوّل یعنی امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیوی میلانیا ٹرمپ کی ’’بہترین بنو‘‘ کے نعرے کے تحت شروع کی ہوئی مہم اس سلسلے کی تازہ ترین کوشش ہے۔
چناں چہ یہ ایک اَسرار آمیز امر ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں منڈی کی بنیاد پر استوار مظہر ۔۔۔ یعنی سیاسی مباحثے ۔۔۔ پر اِس وقت انسانی کردار کی اس نفرت انگیز خصوصیت کا غلبہ ہے۔ ٹیلی ویژن سے لے کر سوشل میڈیا اور اعلیٰ ترین سطح کی روزمرہ سیاست تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ طاقتور لوگ اپنے سے کم تر رتبے کے حامل افراد اور کمزور لوگوں کی تحقیر، تذلیل اور تضحیک کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم موجود ہیں تو انھیں عوامی حلقوں میں شہرت و مقبولیت، توجہ اور حتیٰ کہ انتخابات میں کامیابی کی صورت میں انعام و اکرام کیوں ملتا ہے؟ انھیں رد کیوں نہیں کر دیا جاتا؟
اس سوال کے تین جواب اور توضیحات ہیں۔ اوّل، لوگ اخلاقیات کے معاملے میں پسند ناپسند اور جانب داری و تعصب سے کام لیتے ہیں۔ دوسرے فریق کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص ایک ہولناک شخص ہوتا ہے جب کہ اپنی جانب کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص ’’سچ بولنے والا‘‘ ہوتا ہے۔ بلا شبہ ہم بعض اوقات اس بیانیے سے بھی ہٹ جاتے ہیں اور یہاں تک کہنے لگتے ہیں کہ ہماری جانب کا کمزوروں پر دھونس جمانے والا بزدل ظالم شخص تو اصل میں مظلوم انسان ہے جو کمزوروں پر دھونس جمانے والا بڑے بزدل ظالموں سے لڑ رہا ہے۔
دوم، صورتِ حال اُلٹ ہے، جو کچھ یوں ہے کہ عوام کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اشخاص کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ سماجی سائنس داں ژاں لِپ مَین بلومن نے اپنی کتاب ’’دی الیور آف ٹوکسک لیڈرز‘‘ (The Allure of Toxic Leaders) میں دکھایا ہے کہ لوگ سیاسی ڈکٹیٹروں اور جابر منتظمین کے خلاف شکوے شکایت تو کرتے ہیں لیکن تقریباً ہمیشہ ہی ایک غیر یقینی دنیا میں طاقت کی قدیمی پسندیدگی و ستائش اور تحفظ کی ضرورت کے تحت ان کے وفادار رہتے ہیں۔
جہاں تک آرکسٹرا کے جہان کا تعلق ہے تو وہاں وائیولا بجانے والے ایک سازندے کا لطیفہ اکثر سنایا جاتا ہے جسے موسیقار نے برسوں سے گالم گلوچ اور اذیت کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ایک دن وہ ریہرسل کر کے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ اس کا گھر جل کر راکھ ہو چکا ہے۔ وہاں موجود پولیس والوں نے اسے بتایا کہ یہ کام اس کے آرکسٹرا کے موسیقار نے کیا ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ کوئی سوال کرنا چاہتا ہے۔ اس نے لمحہ بھر سوچنے کے بعد نرم لہجے میں پوچھا، ’’کیا استاد جی میرے گھر تشریف لائے تھے؟‘‘
تیسری توضیح سادہ رضامندی ہے۔ 1999ء میں ’’جرنل آف ایڈولسینس‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق بڑی معروف ہے۔ یہ تحقیق تین ماہرینِ نفسیات نے اس موضوع پر کی تھی کہ جب بچے کسی بزدل ظالم کو اپنے سے کمزور شخص پر دھونس جماتا دیکھتے ہیں تو وہ کس طرح کا ردِ عمل کرتے ہیں۔
کھیل کے میدان میں کھیلتے کودتے ہزاروں بچوں کی ویڈیوز بنائی گئیں۔ اس دوران کمزوروں پر دھونس جمانے کے 200واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم یہ بات بہت زیادہ پسند کرتے ہیں کہ جب وہ کسی کمزور پر دھونس جما رہے ہوں تو اس دوران ان کے ارد گرد تماشائی موجود ہوں۔ ریکارڈ کیے جانے والے 200واقعات میں سے 100واقعات ایسے تھے جن میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم اور مظلوم کے علاوہ دو یا دو سے زیادہ لوگ موجود تھے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات رونما ہونے کے وقت جو لوگ موجود ہوتے ہیں، وہ کیا کرتے ہیں؟ محولہ 200واقعات میں سے جن 100واقعات میں دوسرے جتنے بھی لوگ موجود تھے ان میں سے 21فی صد نے کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم کا ساتھ دیا تھا جب کہ 25فی صد نے مظلوم کا ساتھ دیا تھا۔ باقی 54فی صد لوگ غیر جانب دار رہے تھے۔ وہ بغیر کوئی ردِ عمل کیے ’’تماشا‘‘ دیکھتے رہے تھے۔ انھوں نے نہ تو کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم کا ساتھ دیا تھا اور نہ ہی مظلوم کی مدد کی تھی۔ جب سیاست کے میدان میں بزدل ظالم سیاست دان کمزوروں پر دھونس جماتے ہیں تو بالغ افراد کا ردِ عمل اُن بچوں سے مختلف نہیں ہوتاجن کی ویڈیوز محولہ تحقیق کے دوران بنائی گئی تھیں۔سیاسی تقریر ہو یا معمول کا مزاح کمزوروں پر دھونس جمانے کے بد ترین واقعے پر بھی بے نیازی سے کندھے جھٹک دیے جاتے ہیں۔
امریکا کے سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ نے امن کا نوبل انعام حاصل کرتے وقت جو تقریر کی تھی، اس میں انھوں نے کہا تھا، ’’ہم نجی اور سرکاری زندگی میں کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالموں، عادی جھگڑا لو لوگوں اور جابروں سے نفرت اور حقارت کرتے ہیں۔‘‘ انھوں نے اپنی زندگی بخش تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا تھا، ’’لیکن ہم بزدلوں اور عیش و عشرت میں دل چسپی لینے والوں سے بھی کم نفرت نہیں کرتے ۔ اگر کوئی انسان حقوق سے محرومی اور ذلت و خواری کا مقابلہ نہیں کرتا یا ناانصافی کے شکار اپنے پیاروں کی خاطر نہیں لڑتا تو وہ انسان کہلائے جانے کا حق دار نہیں۔‘‘
امریکا کے سابق صدر تھیوڈور روزویلٹ نے یہ بات اجنبیوں کا دفاع کرنے کے بارے میں نہیں بلکہ اپنے اتحادیوں کے (’’اپنے پیاروں‘‘ کے) حق میں کھڑے ہونے کے بارے میں کی تھی۔ بالکل درست لیکن اپنے آپ سے پوچھیے کہ آپ کے حقیقی اتحادی کون کون ہیں؟ اگر کوئی ایسا شخص آپ کا دوست ہو جس سے آپ سیاسی اعتبار سے اتفاق رائے نہیں رکھتے ہوں تو کیا وہ شخص سیاسی اعتبار سے آپ کے ہم خیال کسی مسخرے، سیاست دان یا ٹوئٹر پر دوسروں کو دِق کرنے والے شخص کی نسبت آپ کا زیادہ اتحادی نہیں ہو گا؟ اگر ایسا ہو تو کیا آپ کو اس مرد یا عورت کو کمزوروں پر دھونس جمانے والے بزدل ظالم سے بچانے کے لیے کھڑا نہیں ہونا چاہیے، خواہ کمزوروں پر دھونس جمانے والا وہ بزدل ظالم شخص سیاسی اعتبار سے آپ کا ہم خیال ہو؟
بزدل ظالم اپنے سے کمزور افراد پر تب ہی دھونس جماتے ہیں جب اس طرزِ عمل کی طلب موجود ہو، اس کے علاوہ وہ تب ہی ایسا کرتے ہیں جب ان کے اس طرزِ عمل پر کوئی ردِ عمل نہ کیا جائے: انھیں دیکھنے والے شائقین اور تماش بین مطلوب ہوتے ہیں۔ چناں چہ وائٹ ہاؤس کے اخباری نمائندگان کے عشایئے کے میزبان یا ریاست ہائے متحدہ امریکا کے صدر پر الزام مت دھریئے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم امریکی بزدلوں اور تعیش پرستوں کی قوم بن چکے ہیں۔ ہم غیر فعالیت سے بیٹھے ہیں جب کہ ہمارے سیاسی بیانیے پر گالم گلوچ اور تحقیر کا غلبہ ہو چکا ہے۔
اگر آپ اس صورتِ حال سے نفرت کرتے ہیں تو کھڑے ہو جائیے۔ میں نے آرکسٹرا میں ایسا صرف ایک مرتبہ ہوتے دیکھا تھا۔ ایک مہمان موسیقار ریہرسل کے دوران ہمیں ڈانٹ رہا تھا اور بعض سازندوں کو گالیاں دے رہا تھا۔ آخر ایک سازندہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا، ’’استادِ محترم میں اپنے تمام ساتھیوں کی طرف سے آپ کے کامل احترام کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ مسئلہ ہم نہیں، آپ ہیں۔‘‘
موسیقار نے اس سازندے کو ریہرسل سے نکال دیا تھا لیکن ہم سب کے لیے وہ ہیروتھا۔

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛  ترجمہ: محمد احسن بٹ)

Tuesday, May 22, 2018

Barack and Michelle Obama have entered into a multi-year agreement to produce films and series for Netflix


Netflix announced Monday after months of speculation that Barack and Michelle Obama have entered into a multi-year agreement to produce films and series for Netflix



Sourse: axios.com

Friday, May 18, 2018

اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی

اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی

مصنفین: نارٹن میزونسکی اور اسرائیل شحاک
مترجم: محمد احسن بٹ (03338301069)


https://www.amazon.com/Israel-Mein-Yahoodi-Bunyad-Parasti/dp/9698455671

کیا راہول گاندھی بھارت کے اگلے وزیرِ اعظم منتخب ہو سکتے ہیں؟

مصنف: راجیش جین

بھارت میں 2014ء کے انتخابات میں کانگریس پارٹی کو پارلیمان کی 44نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اب جب کہ اگلے پارلیمانی انتخابات نزدیک ہیں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا کانگریس اس مرتبہ زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکے گی؟ نیز کیا اس کے راہنما راہول گاندھی بھارت کے اگلے وزیرِ اعظم بن سکیں گے؟ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو اس کا اولین ہدف یہ ہے کہ نریندرا مودی کو دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم نہ بننے دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کانگریس بی جے پی کو 230 سے کم نشستوں پر کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ فرض کیا 543 ارکان پر مشتمل لوک سبھا کی مجموعی طور پر تقریباً 330نشستوں پر کانگریس اور بی جے پی کامیابی حاصل کریں تو کانگریس کو کم از کم 100نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔ باقی نشستیں علاقائی سیاسی جماعتوں کو حاصل ہوں گی جو دونوں قومی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اتحادبنا سکتی ہیں۔ کانگریس کا دوسرا ہدف یہ ہے کہ ایسی حکومت کا قیام عمل میں آئے جس میں بی جے پی شامل نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کو 200 سے کم نشستوں پر کامیابی حاصل ہونا چاہیے۔ اس صورت میں کانگریس کو 130 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔ کانگریس کا تیسرا ہدف، جسے اس مضمون میں زیرِ بحث لایا جائے گا، یہ ہے کہ وہ 150 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کو 180 کے لگ بھگ نشستیں حاصل ہونا چاہئیں۔ اگر راہول گاندھی بھارت پر کانگریس کی حکومت قائم کرنا اور اگلے وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں تو ایسا صرف مذکورہ بالا صورت ہی میں ممکن ہے۔ راہول گاندھی کو بھارت کا اگلا وزیرِ اعظم منتخب کروانے کے لیے کانگریس کے پاس 11سیاسی کارڈ ہیں۔ آئیے کانگریس کے ان 11 سیاسی کارڈوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ آزادی کارڈ: کانگریس کے ضروری ہے کہ وہ اپنے لیے ایک نیا سیاسی موقف وضع کرے۔ پچھلے تین برسوں میں بی جے پی نے منظم انداز سے کانگریس کے وفادار ووٹروں یعنی بھارت کے غریب شہریوں، دلتوں اور قبائلیوں کا ووٹ بینک حاصل کرنے کی کوششیں کی ہیں، جن میں وہ کامیاب رہی ہے۔ بی جے پی آج کی ’’نئی کانگریس‘‘ ہے۔ کانگریس کو ایک نئے آئیڈیا کی ضرورت ہے۔ یہ آئیڈیا تیس صفحات پر مشتمل منشور کی توضیح پر مبنی کتابچوں کی صورت میں سامنے نہیں لانا چاہیے جیسا کہ گجرات میں کیا گیا تھا۔اب بھارت کی سیاسی جماعتوں کو لازماً یہ جان لینا چاہیے کہ منشور کی پروا کوئی بھی نہیں کرتا، سوائے حزبِ اختلاف کے۔ اس کے علاوہ کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کرپشن کے الزام سے اپنے آپ کو نجات دلائے، جو بی جے پی نے اس پر چسپاں کر دیا ہے۔ انتخابات ایک یا دو بڑے تصورات کی بنیاد پرجیتے جاتے ہیں۔ کانگریس کو دوسری سیاسی جماعتوں سے ممتازبنانے والے جس آئیڈیا کی ضرورت ہے، وہ ہے جامع آزادی۔ اسے فرد کی آزادی، سماجی آزادی اور معاشی آزادی کو اپنا سیاسی موقف بنانا ہو گا اور ووٹروں کو باور کروانا ہو گا کہ یہ آزادیاں ملازمتوں اور خوش حالی کی اساس ہیں۔ وہ اس آئیڈیا کو 1947ء میں آزادی کی جدوجہد میں اپنے کردار سے جوڑ سکتی ہے لیکن ا س مقصد کے حصول کے لیے اسے اپنا سوشلزم کا چولا اتارنا ہو گا (جو اَب بی جے پی اوڑھ چکی ہے)۔ شاید کانگریس کے لیے ایسا کرنا سب سے دشوار ہو گا لیکن وہ ’’فی صد کی سیاست‘‘ کر کے جیت نہیں سکتی۔
2۔ چناؤ کارڈ: کانگریس کو لوک سبھا کی 543نشستوں میں سے 200 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوں گے، جن پراس کی جیت کے امکانات سب سے زیادہ ہوں۔ اعدادوشمار سے ایسی نشستوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسا تب ممکن ہے جب وہ پوری توجہ اوروسائل ان نشستوں کے حصول پر مرتکز کر دے۔ کانگریس کو ہر نشست کے لیے ’’مائیکرو‘‘ حکمتِ عملی بنانا ہو گی۔ اسے ان 200 میں سے 150سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کو ہدف بنانا ہو گا۔
3۔ علامت کارڈ: اترپردیش اسمبلی کے انتخابات میں 60 فی صدووٹروں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیے۔ پیغام واضح ہے: کانگریس کو نریندرا مودی کی بی جے پی کے ساتھ وہی کچھ کرنا جو 1977ء میں جنتا پارٹی نے اندرا گاندھی کی کانگریس کے ساتھ کیا تھا۔ کانگریس کو ہر ایک نشست پر بی جے پی کے امیدوار کے مقابل اپنا امیدوار کھڑا کرنا ہو گا۔ بلاشبہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بی جے پی اس حکمتِ عملی کو بھانپ کر اس کا تدارک کرنے کا منصوبہ بنائے گی لیکن یہ حقیقت ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بہت سی علاقائی سیاسی جماعتیں بی جے پی کے پھیلاؤ سے مضطرب ہیں کیوں کہ اس سے ان کے مقامی مفادات کو براہِ راست زَک پہنچ رہی ہے۔ کانگریس کے لیے یہ امر ممکن ہے کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ایک انتخاب کے لیے اپنے اپنے اختلافات پرے رکھ دینے پر قائل کرے۔ کانگرس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے۔ اگر نریندرا مودی بی جے پی کے سربراہ نہ رہیں تو کانگریس اور علاقائی سیاسی جماعتیں بی جے پی کا مقابلہ زیادہ آسانی سے کر سکتی ہیں۔
4۔ ایس پی +بی ایس پی کارڈ: بھارت کی کوئی بھی ریاست اترپردیش س زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ بی جے پی جتنی نشستیں حاصل کرے گی وہ اس کے مخالفوں کی حاصل کردہ نشستوں کے راست متناسب ہو ں گی۔ کانگریس گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے ساتھ اتحادبنا چکی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماج وادی پارٹی کے علاوہ بہوجن سماج وادی پارٹی (بی ایس پی)کے ساتھ بھی اتحاد قائم کرے۔ اگر بی جے پی کو کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج وادی پارٹی کے اتحاد کا مقابلہ کرنا پڑا تو وہ لوک سبھا کی زیادہ سے زیادہ 30 سے 80 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکے گی۔ اگر بہوجن سماج وادی پارٹی نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تو بی جے پی 25 مزیدنشستیں آسانی سے حاصل کر لے گی۔ اگر سماج وادی پارٹی نے بھی اپنے امیدوار کھڑنے کا فیصلہ کیا تو بی جے پی 2014ء کی طرح 71 کے لگ بھگ نشستیں حاصل کر لے گی (اس کے اتحادی کی 2 نشستیں مزید شامل ہوں گی)۔ بلاشبہ یہ حقیقت سب جانتے ہیں۔ چناں چہ کانگریس کا کام واضح ہے۔
5۔ بی جے پی کو ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے سے روکنے کا کارڈ: کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بی جے پی کو ریاستی اسمبلیوں میں مسلسل حاصل ہونے والی کامیابیوں کی راہ مسدود کرے۔ کرناٹک میں اس کا موقع دستیاب ہے۔ وہاں نہ صرف اگلے انتخابات میں جیتنا کانگریس کے لیے ضروری ہے بلکہ اسے اسی سال آگے چل کر دو بڑی ریاستوں ..... راجستھان اور مدھیا پردیش ..... میں سے کم از کم ایک ریاست کے انتخابات میں لازماً جیتنا چاہیے (بہ شرطے کہ لوک سبھا کے انتخابات وقت سے پہلے منعقد نہ کیے جائیں)۔ انجامِ کار جیت ہی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے جب کہ ریاستی انتخابات میں کانگریس کا ریکارڈ 2014ء سے بہت برا رہا ہے۔ حقیقی جیت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ وزرائے اعلیٰ منتخب کروائے جائیں اور اس کے لیے کانگریس کے ضروری ہے کہ وہ ’’بی جے پی مشین‘‘ کو روکے۔
6۔ ’’چھ لاکھ‘‘ والا کارڈ: انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں جہاں راہنما اور پیغام کی اہمیت ہوتی ہے وہاں تنظیم بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اگر کانگریس بی جے پی کو پولنگ بوتھ، انتخابی نشستوں اور مجموعی طور پر انتخابات میں شکست دینا چاہتی ہے تو اسے میدانِ عمل میں فعال کارکنوں کو اولین اہمیت دینا ہو گی۔ کانگریس کو اس سوال کا جواب لازماً ڈھونڈنا چاہیے کہ وہ دس کروڑ ووٹر کہاں ہیں جنھوں نے اسے 2014ء کے انتخابات میں ووٹ دیے تھے ..... جسے اس کی بدترین کارکردگی قرار دیا گیا تھا۔سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہی ہے کہ انھیں اپنے ’’گاہکوں‘‘ (ووٹروں) کا پتا نہیں ہوتا۔کانگریس کو ہرپولنگ بوتھ میں اپنے کارکنوں کی موجودگی یقینی بنانے کے علاوہ رکنیت سازی کی مہم اُسی طرح شروع کرنا ہو گی جس طرح بی جے پی نے 2014-15ء میں کی تھی۔ 200نشستوں کو مدِ نظر رکھنے کا مطلب ہے تین لاکھ پولنگ بوتھ۔ ہر بوتھ کے لیے کم از کم دو مخلص کارکنوں کی ضرورت ہو گی جو 250 خاندانوں کے ووٹروں کے ووٹ ڈلوا سکیں۔ اس کے لیے پورے بھارت میں پارٹی کے چھ لاکھ کارکنوں کا ہونا ضروری ہے، جو ووٹروں کو قائل کرنے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ اپنے حق میں ڈلوانے کے لیے اعدادوشمار اور ٹیکنولوجی سے لیس ہوں۔
7۔ سپن کارڈ: مودی کو شکست دینے کے لیے کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’’مشن موہ بھنگ‘‘ (عوام کو سحر سے نکالنے)پر توجہ مرتکز کرے۔ کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ قوم کی توجہ نریندر مودی سے ہٹا دے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ مودی نے جس انتخاب میں بھی حصہ لیا، اس میں شکست نہیں کھائی۔ شاید بھارت نے آزادی کے بعد نہیں تو گذشتہ دو نسلوں بعد مودی کی شخصیت میں اپنا سب سے ذہین اور سب سے تیز طرار سیاست داں پا لیا ہے۔ مودی میں بھی خامیاں موجود ہیں، جن کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن وہ ہر عظیم سیاست داں کی طرح ’’سپن کے ماسٹر‘‘ ہیں یعنی دیکھی بھالی حقیقتوں کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر عوام سے منوانے کے ماہرِ کامل ہیں۔ کانگریس کو مودی کی بجائے ان کے الفاظ اور اعمال و افعال پر توجہ مرتکز کرنا چاہیے۔ مودی پر تنقید کرنا ایسا ہی ہے جیسے ویرات کوہلی کو نیچی فل ٹاس گیندیں کروانا۔ انھیں پچھلے پندرہ برسوں میں یہ بات جان لینا چاہیے تھی! اس کے لیے کانگریس کو ’’چانکیہ‘‘ کی ضرورت ہے۔مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ جو باتیں کہنے سے ڈرتے ہیں، سماجی ذرائع ابلاغ پر وہ باتیں بلا خوف کہی جا سکتی ہیں۔ بہرحال جو بات بھی کہی جائے اسے حالات و واقعات کے فہم کے ساتھ پُر اثر انداز میں کہنا حقیقی اہمیت رکھتا ہے۔
8۔ سکور کارڈ: بی جے پی حقائق کو اپنی مرضی سے پیش کرنے اور عوام سے انھیں منوانے میں مہارت رکھتی ہے، اس کا توڑ کرنے کے لیے ایک سکور کارڈ شائع کرنا ضروری ہے جس میں بتایا جائے کہ بی جے پی نے انتخابی منشور میں سے کون کون سے وعدے پورے نہیں کیے۔ اس کے علاوہ اس کے پیش کردہ پانچ بجٹوں میں جو وعدے کیے گئے، ان کا جائزہ بھی پیش کیا جائے۔ وزیرِ اعظم مودی اور دوسرے وزراء نے اپنی تقریروں میں جو وعدے کیے ان کا جائزہ بھی مذکورہ سکور کارڈ میں لیا جانا ضروری ہے۔ یہ کام ہر چھ ماہ بعد کیا جانا چاہیے تھا ..... یعنی بی جے پی حکومت کی کارکردگی پرنظر رکھنا چاہیے تھی۔ اب بھی زیادہ دیرنہیں ہوئی۔ لوگ اور حکومتیں ماضی میں کی جانے والی باتیں بھول جایا کرتے ہیں ..... یہ حزبِ مخالف کا کام ہوتا ہے کہ انھیں ساری باتیں یاد دلائے۔
9۔ سٹریٹ کارڈ: کانگریس کونسبتاً چھوٹی سیاسی جماعتوں کے علاوہ علاقائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا چاہیے لیکن ایسا تب تک وقوع پذیرنہیں ہو گا جب تک وہ طاقتور دکھائی نہیں دے گی۔ چناں چہ ضروری ہے کہ وہ طاقتور ہونے کا تاثر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کلیدی مسائل و معاملات پر بی جے پی کی مخالفت کرنے میں حزبِ مخالف کی قیادت کی جائے۔ سماجی ذرائع ابلاغ محض آغاز ہو سکتے ہیں ..... اسے جنگ کو سڑکوں اور گلیوں میں لے جانا ہو گا۔ روزمرہ کے مسائل (جو بہت زیادہ ہیں) کے خلاف واضح احتجاج کیے بغیر مومینٹم بنانا مشکل ہو گا۔ اس کے لیے میدانِ عمل میں موجود کارکنوں کو حرکت میں لانے سے فائدہ ہو گا۔ کانگریس کو اس کی بہت ضرورت ہے۔
10۔ خاموشی کارڈ: بظاہر ایسا کرنا آسان لگتا ہے لیکن انتخابی مہم کی گرما گرمی میں غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ بی جے پی دام بچھانے میں بہت ماہر ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ پیغام پر توجہ مرتکز رکھی جائے اور باقی ساری آوازوں اور تبصروں کو خاموش کر دیا جائے۔ ایک دوست نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ برطانوی سیاست دان کس طرح سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس بات کرنے لکے دو یا تین نکات ہوتے ہیں اور وہ جواب کو گھما پھرا انھی نکات کی طرف لے آتے ہیں خواہ ان سے کوئی بھی سوال پوچھا گیا ہو۔کانگریس کی انتخابی مہم دو تین نکات پر مبنی ہونا چاہیے۔ پارٹی قیادت کو چاہیے کہ سب سے پہلے خود اس عمل کرے۔
11۔ ٹرمپ کارڈ: میرے خیال میں کانگریس کے لیے ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ یہ ہے کہ وہ بلا تاخیر اعلان کرے کہ راہول گاندھی اس کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ بھارت میں انتخابات ہمیشہ کی نسبت صدارتی انتخابات جیسے زیادہ ہو چکے ہیں۔ چہرے اور شخصیتیں اہم ہوتی ہیں۔ یہ قیادت کی ساعت ہے۔ایسا جتنی جلد ہو گا، کانگریس کے لیے اتنا اچھا ہے۔ کانگریس کا 150 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لینا امکان سے باہر نہیں ہے لیکن اس کے لیے کانگریس کو بہت سی چیزیں درست کرنا ہوں گی۔ کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ بی جے پی پر دباؤ بڑھائے تاکہ اس سے غلطیاں سرزد ہوں۔ اس مرحلے میں انتخابات کو کھلا تصور کیا جا رہا ہے کیوں کہ بی جے پی سے اپنے اقتدار کے پہلے 200 دنوں میں غلطیاں سرزد ہوئی تھیں یعنی اس نے نئے ٹیلنٹ کو سامنے آنے کا موقع نہیں دیا اور نظام میں تبدیلیوں کا جو وعدہ ووٹروں سے کیا تھا، وہ وعدہ وفا نہیں کیا۔ اس وقت کانگریس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک نئے شروع کیے جانے والے کاروبار جیسا تصور کرے اور انٹریپرینئیر جیسی بن جائے، بالکل اُسی طرح جیسے مودی نے 2014ء کے انتخابات سے پہلے کیا تھا۔

(بشکریہ ایشیا ٹائمز آن لائن؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

Thursday, May 17, 2018

کرپشن، فراڈ اور بلیک منی کا ہیڈکوارٹر

کرپشن، فراڈ اور بلیک منی کا ہیڈکوارٹر

مصنف: اولیور بُلو

برطانوی حکام ان الزامات سے تنگ آ چکے ہیں کہ برطانیہ ’’ڈرٹی منی‘‘ (غیر قانونی ذرائع سے کمائے ہوئے پیسے) کا گھناؤنا مرکز بن چکا ہے اور یہ کہ وہ جعلی کارپوریشنوں کے پردے میں چھپائی گئی دولت کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے شکوہ کرتے ہیں کہ وہ پیسے کی آمد کے راستوں کو عیاں کرنے اور بدعنوانی سے کمائی ہوئی دولت کو ملک سے باہر نکالنے کے لیے جو کام کر رہے ہیں، ان پر تنقید کرنے والے لوگ اس کام کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ چناں چہ جب انھیں کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو اس کا خوب چرچا کرتے ہیں۔ پچھلے مہینے تجارتی کمپنیوں کا اندراج کرنے والے محکمے ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نے ایک ایسے شخص کے خلاف قانونی کارروائی کامیابی سے کی جس نے کمپنی قائم کرنے کے لیے جھوٹ بولا تھا۔ یہ ’’وائٹ کالر جرائم‘‘ میں سے ایک جرم ہے جس کا ارتکاب شائستہ و مہذب دکھائی دینے والے فراڈیے کر رہے ہیں اور برطانوی عوام کو روزانہ لوٹ رہے ہیں جب کہ حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ برطانیہ کے کاروبار، توانائی اور صنعتی حکمتِ عملی کے وزیر اینڈریو جیمز گرفتھس نے ایک پریس ریلیز میں کہا، ’’یہ قانونی کارروائی برطانیہ میں اپنی نوعیت کی اوّلین کارروائی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ایسے لوگوں کے خلاف سخت اقدامات کرے گی جو قانون کو جان بوجھ کر توڑتے ہیں اور کمپنی کا اندراج کرواتے وقت جھوٹی معلومات فراہم کرتے ہیں۔‘‘ اس واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ واروِک شائر کے ایک شخص کیون بروئر نے اقرارِ جرم کر لیا تھا۔ اس نے جرمانہ اور مقدمے پر خرچ ہونے والی حکومت کی رقم ادا کی۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ اس نے جو دو کمپنیاں بنائی تھیں، ان میں سے ایک کا تعلق رکنِ پارلیمان وِنس کیبل اور دوسری کمپنی کا تعلق رکنِ پارلیمان جیمز کلیورلی، لیڈی نیوائل رولف اور ایک اسرائیلی شہری سے ہے۔ اسرائیلی شہری کے بارے میں پتا چلا کہ وہ ایک فرضی کردار تھا۔ ابتدا میں عوام نے اس خبر پر جو ردِ عمل کیا وہ حکومت کی امید کے مطابق تھا۔ معروف برطانوی روزنامے ’’دی ٹائمز‘‘ نے جرم کی تفصیلات سے اپنے صفحات بھر دیے۔ اخبار میں بتایا گیا تھا کہ حکومت فراڈ اور فراڈ کی وجوہ کے خلاف سخت اقدامات کرے گی۔ بہرحال یہ فتح زیادہ دیر برقرار نہیں رہی۔ محولہ بالا فاتحانہ پریس ریلیز کے ایک ہی ماہ بعد حکومت کے اینٹی کرپشن چیمپیئن اور ٹوری (قدامت پسند) رکنِ پارلیمان جان پینروز نے اس مقدمے کے حوالے سے کہا، ’’یہ نامہ بر کو گولی مار دینے جیسا احمقانہ اقدام تھا۔‘‘ ہو سکتا ہے کیون بروئر اپنے دعوے کے مطابق بے قصور ہو لیکن وہ برطانوی قوانین و ضوابط کی وہ خامی عیاں کرنے کی کوشش کر رہا تھا، جو کھربوں پونڈ کے فراڈ ممکن بناتی ہے۔ اسے انعام یہ ملا کہ پہلے تو اسے نظر انداز کیا جاتا رہا اور آخرِ کار اسی کو مجرم قرار دے دیا گیا۔
برطانیہ میں تجارتی کمپنیوں کا اندراج کرنے والے محکمے میں چالیس لاکھ کمپنیوں کا اندراج ہو چکا ہے۔ ان چالیس لاکھ رجسٹرڈ کمپنیوں نے برطانیہ کی معیشت تشکیل دی ہے اور وہ اس کی خوش حالی کے لیے بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ جس طرح ہجوم میں جیب کترے چھپے ہوتے ہی اسی طرح ان چالیس لاکھ رجسٹرڈ کمپنیوں کے درمیان ہزاروں ایسی جعلی کمپنیاں بھی چھپی ہوئی ہیں جنھیں فراڈیے جرائم کے ارتکاب کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کمپنیوں کے ذریعے مجرم اپنے آپ کو قانونی کاروبار کرنے والے افراد کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے فراڈ کرتے اور ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کمپنیاں اپنے ملکوں کی قومی اور عوامی دولت لوٹنے والے حکمرانوں کے جرائم کو معمول کا کاروبار ظاہر کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ یہ جعلی کمپنیاں واضح خامیوں کی حامل ہوتی ہیں جیسا کہ من گھڑت پتے، آف شور ملکیت یعنی کمپنیوں کے مالکان کا دوسرے ملکوں کا شہری ہونا، ایسی کمپنیاں جو اپنے آپ کو دوسری کمپنیوں کی مالک ظاہر کر رہی ہوں وغیرہ وغیرہ۔ کیون بروئر کی کمپنیوں کی انوکھی بات یہ تھی کہ ان میں یہ خامیاں موجود نہیں تھیں۔ ان کا اندراج کیون بروئر کے پتے پر کروایا گیا تھا؛ اس کا کاروبار ان کمپنیوں کے ایجنٹ کی حیثیت سے چلایا جا رہا تھا؛ وہ ارکانِ پارلیمان اور معاصرین کو بتا چکا تھا کہ وہ ان کے نام پر کاروبار کر رہا ہے اور اس نے اس کے بعد کمپنیاں تحلیل کر دی تھیں۔ اگر وہ مجرم تھا تو بڑا انوکھا مجرم تھا: بینک لوٹنے والا ایسا لٹیرا جس نے ایک پیسہ بھی نہیں لوٹا تھا، اپنا کاروباری کارڈ بینک کے کاؤنٹر پر چھوڑ گیا تھا اور بینک کے مینیجر کے نام لکھے خط میں اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا تھا۔ حقیقی بینک لوٹنے والے ہمارے اردگرد کھلے پھر رہے ہیں جب کہ کیون بروئر پکڑا گیا تھا۔ اس کی کہانی ’’منی لانڈرنگ‘‘سے نبرد آزما ہونے کی کم زور حکمتِ عملی کی حقیقت بیان کرنے کے علاوہ برطانیہ کی سرحدوں سے دور تک پھیلے جرم سے جنگ کرنے میں برطانیہ کی ناکامی عیاں کرتی ہے۔
چھیاسٹھ سالہ کیون بروئر تجارتی کمپنیاں قائم کرنے میں سرمایہ کو مدد فراہم کرنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ 1984ء سے آج تک کی اپنی عملی زندگی میں پانچ لاکھ کمپنیوں کے قیام میں مدد دے چکے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میرا کام ملک میں ہر کسی کے لیے کمپنیاں قائم کرنا تھا۔ یہ کام ترقی کرتے کرتے قومی سطح تک پھیل چکا تھا۔ میرے بنیادی گاہک وکیل اور اکاؤنٹنٹ ہوتے تھے۔ میں فخریہ کہتا ہوں کہ میری خدمات کے اعلیٰ معیار کی وجہ سے عام لوگوں کی بجائے پیشہ ور افراد میری خدمات حاصل کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ کام بہت محنت طلب تھا۔ انھیں اپنے گاہک کی شناخت کی تصدیق کرنا پڑتی تھی، اس کے پاس موجود رقم کا منبع اور اس کی کمپنی کا مقصد جاننا پڑتا تھا۔ اکثر اوقات پولیس، محکمۂ مال اور کسٹمز کے تفتیش کاران کی فائلیں دیکھنے کی درخواست کرتے اور وہ انھیں اپنی فائلوں کی مدد سے یہ جاننے میں مدد دیتے تھے کہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والی کمپنی کے پیچھے کون ہے۔ انھوں نے بتایا، ’’میں ہر بڑے مقدمے میں شہادتی بیانات دے چکا ہوں۔ برطانیہ کے ’’سیریئس فراڈ آفس‘‘ نے میری خدمات کے اعتراف میں مجھے شکریہ کا خط لکھا تھا۔‘‘ ان کے مسئلے کا آغاز 2011ء میں اتحادی حکومت کے دور میں اس وقت ہوا تھا جب وزیرِ تجارت ونس کیبل نے ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کے آن لائن رجسٹریشن سسٹم کا افتتاح کیا تھا۔ کم سرمائے سے کاروبار شروع کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران یہ سہولت فراہم کی گئی کہ کاغذی کارروائی کرنے یا کیون بروئر جیسے ایجنٹوں کے ذریعے کمپنی کا اندراج کروانے کی بجائے کوئی بھی شخص اس محکمے کے آن لائن پورٹل کے ذریعے اپنی کمپنی کا اندراج خود کروا سکتا ہے۔ 2012ء میں بس اڈوں پر ’’برطانیہ عظیم ہے‘‘ کی اشتہاری مہم چلائی گئی تھی ، جس کی ایک ذیلی سرخی میں فخریہ کہا گیا تھا کہ برطانیہ میں کمپنی کے اندراج میں چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت لگتا ہے۔وزیروں کے خیال میں یہ ایک کارنامہ تھا جب کہ کیون بروئر جیسے ایجنٹوں کا خیال تھا کہ یہ ان کے کام کی بربادی ہے۔انھوں نے کہا، ’’بہت ہی تھوڑی رقم سے دنیا کا کوئی بھی شخص لاگ اِن ہو کر کمپنی بنا سکتا ہے۔ وہ کسی کا بھی نام درج کر سکتا ہے ۔۔۔ سراسر جعلی نام ۔۔۔ ان کی کمپنیاں بنا سکتا ہے اور ان کے لیے سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتا ہے۔ چاہے وہ روس میں ہوں یا جمیکا میں یا کسی بھی ملک میں۔‘‘ کیون بروئر جیسے ایجنٹ کمپنی کا اندراج کروانے کے لیے 100پونڈ معاوضہ لیتے ہیں جب کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘صرف 18پونڈ لیتا ہے۔ کیون بروئر اور دوسرے ایجنٹ گاہک کے ارادوں اور اس شناخت کی تصدیق کرتے ہیں لیکن ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کسی بھی چیز کی تصدیق نہیں کرتا۔ اس سے اُن کا کاروبار تو خطرے میں پڑا ہی ہے، اس سے جس پیمانے پر فراڈ کی راہ کھلی ہے وہ پہلے کبھی دیکھا نہیں گیا۔ انھیں یقین ہے کہ حکومت نے اپنی پالیسی کے نتائج پر غور و غوض نہیں کیا۔ کیون بروئر نے وزیرِ تجارت ونس کیبل کے نام خط میں لکھا، ’’پالیسی ناصرف غلط اور مہنگی ہے بلکہ اس نے فراڈ اور فریب کاری کے بے پناہ مواقع بھی فراہم کر دیے ہیں۔ ہم نے اپنا موقف واضح کرنے کے لیے ایک کمپنی آپ کی مرضی کے بغیر اور آپ کے علم میں لائے بغیر آپ کے نام پر قائم کی ہے۔ ہم آپ کی شناخت استعمال کرتے ہوئے تجارت شروع کر سکتے ہیں۔‘‘ جان ونسنٹ کیبل سروسز لمیٹڈ 23مئی 2013ء کو قائم کی گئی تھی، جس کا صرف ایک شیئر ہولڈر تھا ۔۔۔ برطانیہ کا وزیرِ تجارت!
وزیرِ تجارت ونس کیبل کی طرف سے خاتون رکنِ پارلیمان جو سونسن نے ان کے خط کے جواب میں طویل خط لکھا، جس میں تفصیل سے بتایا گیا تھا کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ پر اینٹی منی لانڈرنگ قوانین و ضوابط کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا۔ جو سونسن نے انھیں انتباہ دیتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے جعلی کمپنی بنا کر جرم کا ارتکاب کیا ہے لیکن یہ کہ وہ اس کے خلاف مقدمہ چلانا نہیں چاہتیں۔ ’’ڈیلی مرر‘‘ نے اسے ایک عجوبہ قرار دیا اور یہ اس معاملے کا اختتام تھا۔ وزارتِ تجارت، توانائی اور صنعتی حکمتِ عملی (بی ای آئی ایس) کا ایک ترجمان پچھلے ہفتے کیون بروئر کے بارے میں میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بڑا محتاط تھا۔ اس نے کہا کہ کیون بروئر نے وزیرِ تجارت ونس کیبل کو خبردار کرتے ہوئے کامل دیانت داری سے کام نہیں لیا تھا۔ وہ ملکی مفاد کے لیے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لیے سرگرمِ عمل تھا کیوں کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں اس کا کاروبار ٹھپ ہو گیا تھا۔ اگرچہ یہ درست تھا لیکن اس کی وجہ سے اس حقیقت سے توجہ نہیں ہٹانا چاہیے تھی کہ کیون بروئر نے آن لائن رجسٹریشن کی سہولت کے مجرمانہ استعمال کی جو نشان دہی کی تھی، اس میں وزن تھا۔
برطانیہ کی کمپنیوں نے عالم گیر سطح پر فراڈ ممکن بنا دیا ہے۔ یوکرین کے سابق صدر اور ان کے حواریوں نے اپنی املاک چھپانے کے لیے برطانوی کمپنیوں کو استعمال کیا تھا۔ روس سے دو کروڑ دس لاکھ ڈالر باہر لے جانے والی پیچیدہ منی لانڈرنگ سکیم ’’رشیئن لانڈرومیٹ‘‘ سکاٹش لمیٹڈ پارٹنر شپس کے ذریعے چلائی گئی تھی۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے (ٹی آئی -یو کے) نے پچھلے سال کرپشن کے باون مقدمات کا جائزہ لے کر پتا چلایا کہ ان میں سات سو ستاسٹھ برطانوی تجارتی کمپنیاں ملوث تھیں، جنھوں نے تقریباً اسّی (80) ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کی (یعنی غیرقانونی رقم کو قانونی بنایا)۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یوکے نے اس حوالے سے ’’نظروں کے سامنے چھپانا‘‘ کے عنوان سے جاری کردہ اپنی رپورٹ میں لکھا، ’’ان جرائم کی زد میں آنے والے لوگوں کا انسانی نقصان ہنوز شمار کیاجا رہا ہے۔‘‘ تجارتی کمپنیوں کو بطور آڑ استعمال کیے بغیر اس قسم کے ’’معززانہ‘‘ مالی جرائم کا ارتکاب ناممکن ہے۔ کیروزل فراڈ میں تاجروں نے اشیا برطانیہ درآمد کیں، انھیں برآمد کرنے سے پہلے متعلقہ کمپنیوں کے ذریعے انھیں اپنے آپ کو بیچااور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کی واپسی کے لیے دعویٰ دائر کر دیا حالاں کہ یہ ٹیکس ادا کیا ہی نہیں گیا تھا۔ صرف اس ایک جرم سے برطانیہ کو ہر سال پانچ کروڑ پونڈ سے ایک ارب پونڈ تک کا نقصان ہو رہا ہے۔ نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی پچھلے سال کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ ہر سال فراڈ کی وجہ سے 193ارب پونڈ کا نقصان اٹھا رہا ہے جب کہ تقریباً 100ارب پونڈ کی غیر قانونی رقم ملک کے مالیاتی نظام کی خامیوں کے باعث قانونی بنائی جا رہی ہے۔ سابق وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی حکومت نے اس جرم کا ارتکاب روکنے کے لیے برطانوی کمپنیوں پر لازم کیا تھا کہ کم از کم ایک ایسے شخص کا نام افشا کریں جو اس کمپنی پر خاصا کنٹرول رکھتا ہو (اسے پی ایس سی کہا جاتا ہے اور اس سے مراد ایسا شخص ہے جو حقیقتاً کمپنی کے حصص کا مالک ہوتا ہے)۔ ڈیوڈ کیمرون کی حکومت نے عوام کو یہ سہولت بھی دی کہ’ ’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی ویب سائٹ پر کسی بھی کمپنی کو بلامعاوضہ تلاش کیا جا سکتاہے۔ اس اقدام کا مقصد عوامی جانچ پڑتال میں اضافہ کرنا تھا۔ مشکل یہ ہے کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ میں کوئی بھی یہ جائزہ نہیں لے رہا کہ جمع کروائی جانے والی معلومات درست ہیں یا نہیں۔ کوئی چیز کتنی بھی شفاف کیوں نہ ہو، ٹیکنولوجی کی دنیا کی پرانی کہاوت اس پر صادق آتی ہے کہ ’’گند ڈالا جائے گا تو گند ہی باہر آئے گا۔‘‘ بعض شہری ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کو یہ مسئلہ حل کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے اس کے ڈیٹا میں تضادات ڈھونڈ رہے ہیں۔ کرپشن اور تنازعات پھیلانے والے کاموں کے بارے میں تحقیق کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’’گلوبل وِٹنیس‘‘ نے جنوری میں ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی ویب سائٹ پر پی ایس سی کے اندراجات کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ 4,000 شیرخوار بچے کمپنیوں کے مالک ہیں جب کہ ایک کامالک تو ابھی پیدا ہونا تھا۔ گراہم بیرو مالیاتی جرائم کا کھوج لگانے کے ماہر ہیں اور آج کل ڈوئچے بینک میں کام کر رہے ہیں۔ وہ اپنے لنکڈ اِن پیج پر دل چسپ جرائم کی کہانیاں پوسٹ کیا کرتے ہیں۔انھوں نے حال ہی میں ایک شخص کے جرائم کا قصہ لکھا ہے جو اپنا نام چھ مختلف ہجوں میں لکھتا ہے اوراس طرح اس نے انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی تلاش مشکل بنا دی ہے۔ بہرحال ایسا لگتا ہے کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ ان انکشافات پر کوئی ردِ عمل نہیں کرے گا۔ میں نے 2016ء میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں ایک خاتون کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ متعدد کمپنیوں کی مالک ہے۔ حتیٰ کہ فوت ہو نے کے دو سال بعد بھی وہ ایک رجسٹرڈ کمپنی کے مالکان میں شامل ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے نے ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کو ایسی فعال کمپنیوں کے بارے میں خبردار کیا ہے جو اس کی تفتیش کے مطابق منی لانڈرنگ میں ملوث رہی ہیں۔ اس اطلاع پر ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نے ان کمپنیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ گراہم بیرو نے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں کئی عالمی بینکوں میں کام کر چکا ہوں۔ وہ سب اپنی خامیوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو کروڑوں ڈالر جرمانہ ادا کر چکے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی کارکردگی کے اعتبار سے اتنا برا نہیں جتنا کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ برا ہے۔ مجھے بے چارے کیون بروئر پر ترس آ رہا ہے۔ اس نے تو یہ دِکھانے کی کوشش کی تھی کہ معاملات کس قدر خراب ہیں اور اسی کو مجرم قرار دے دیا گیا!‘‘
منی لانڈرنگ کے حوالے سے بنائے گئے قوانین و ضوابط بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں۔ اگر کوئی وکیل یا اکاؤنٹنٹ کمپنی بنائے تو بائیس محکمے اس کا جائزہ لیں گے۔ ان بائیس محکموں کی کارکردگی کا جائزہ نیا بنایا جانے والا محکمہ ’’آفس فار پروفیشنل باڈی اینٹی منی لانڈرنگ سپرویژن‘‘ (او پی بی اے ایس) لیتا ہے۔ ’’آفس فار پروفیشنل باڈی اینٹی منی لانڈرنگ سپرویژن‘‘ (او پی بی اے ایس) ’’فنانشل کنڈکٹ اتھارٹی‘‘ (ایف سی اے) کا حصہ ہے۔ جہاں تک کمپنیاں قائم کرنے میں مدد دینے والے کیون بروئر جیسے ایجنٹوں کا تعلق ہے تو ان کے کام کی نگرانی الگ سے کی جاتی ہے حالاں کہ وہ بالکل ویسا ہی کام کر رہے ہیں۔وہ ایچ ایم آر سی کو اپنے کاموں کی رپورٹ دیتے ہیں، جو کسی بھی وزارت کے تحت نہیں۔ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کوئی کمپنی قائم کرتا ہے تو اس دوران اس کمپنی کی جانچ پڑتال منی لانڈرنگ روکنے والے قوانین و ضوابط کے تحت نہیں کی جاتی۔ محکمۂ موسمیات، این سی اے اور کیبنٹ آفس میں خدمات انجام دینے والے جان بینٹن پچھلے سال ہی ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ کرپشن اور مالیاتی جرائم کی تفتیش کیا کرتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ خفیہ معلومات ایک دوسرے تک پہنچانا تو الگ بات ان محکموں میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کرنے تک کا سوفٹ ویئر موجود نہیں۔ انھوں نے میرے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’اب میں نجی شعبے میں کام کر رہا ہوں اور مالیاتی اداروں کے زیرِ استعمال تجزیہ کار سوفٹ ویئرز کی طاقت دیکھ رہا ہوں۔ یہ ادارے قانون نافذ کرنے والے سرکاری اداروں سے کئی عشرے آگے ہیں۔ ہم برٹش ورجن آئی لینڈ میں ہونے والے مالیاتی جرائم پر تنقید کرتے ہیں حالاں کہ یہ جرائم تو ہمارے ملک میں ہی بڑے پیمانے پر کیے جا رہے ہیں۔‘‘ مارچ میں ارکانِ پارلیمان نے پابندیوں اور اینٹی منی لانڈرنگ مسودۂ قانون پر بحث کی۔شیڈو وزیرِ خزانہ لیبر پارٹی کے انیلیز ڈوڈس نے اس میں دو ترامیم تجویز کیں جو کیون بروئر، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے، گلوبل وٹنیس، گراہم بیرو، جان بینٹن اور ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی کارکردگی کا جائزہ لینے والے ہر شخص کے دریافت کردہ مسائل کو حل کریں گی۔ ایک ترمیم کے تحت ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کے ضوابط میں منی لانڈرنگ کے خلاف ضوابط شامل کیے جائیں گے جب کہ دوسری ترمیم کے تحت ایسے لوگوں کے برطانیہ میں کمپنیاں قائم کرنے پر امتناع عائد کر دیا جائے گا ، جن پر برطانوی ضوابط لاگو نہیں ہوتے۔ شیڈو وزیرِ خزانہ لیبر پارٹی کے انیلیز ڈوڈس نے پبلک بل کمیٹی کو بتایا، ’’بے شمار کمپنیاں کسی جانچ پڑتال کے بغیر قائم کی جا چکی ہیں۔ پچھلے سال 251,628کمپنیوں کا اندراج جانچ پڑتال کے بغیر کروایا گیا۔ ہماری تجویز کو بوجھ قرار دیا جا رہا ہے حالاں کہ یہ ہمارے ووٹروں کو فراڈیوں کے ہاتھوں لٹنے سے بچنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ فراڈیے دن یا رات کسی بھی وقت آزادانہ یہاں آکر ہمارے شہریوں کو لوٹ کر فرار ہو سکتے ہیں اور ان کی کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنے والے ہمارے لوگ مشکل میں پھنسے پیچھے رہ جاتے ہیں۔‘‘ وزیرِ خزانہ جان گلین نے حکومت کی جانب سے جواب دیا۔ جو سونسن نے 2013ء میں جو دلائل بروئر کو دیے تھے، انھوں نے وہی دلائل دہرائے یعنی یہ کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ صرف معلومات جمع کرنے والا محکمہ ہے۔ وہ اس اختیار کا حامل نہیں کہ پیش کی جانے والی معلومات کی جانچ پڑتال کروا سکے۔ انھوں نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ یہ قانونی کمپنیوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو گا کہ وہ بینک اکاوٌنٹ کھلواتے وقت اپنی شناخت کی پڑتال کروانے کے بعد ایک بار پھر اسی عمل سے گزریں۔انھوں نے کہا، ’’اتنی زیادہ کمپنیوں کی جانچ پڑتال کروانے پر وسائل بھی بہت زیادہ خرچ ہوں گے۔ اس کام کے لیے ہر سال کروڑوں پونڈادا کرنے کا بوجھ برطانیہ کی معیشت پر پڑ جائے گا۔‘‘
مسودۂ قانون میں لیبر پارٹی کی تجویز کردہ تبدیلیوں پر آنے والے خرچ کا حساب ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے نے بھی لگایا تھا۔ اس کے اندازے کے مطابق جتنا خرچ حکومت بتا رہی تھی، اس سے کہیں کم خرچ آئے گا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، یو کے نے حساب لگایا کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نئی کمپنی کا اندراج کروانے کی فیس میں صرف 5 پونڈ سے 10پونڈ تک کا اضافہ کر کے اصلاح کا خرچ پورا کر سکتا ہے۔ اس طرح برطانیہ میں نئی کمپنی قائم کرنے کا خرچ 20پونڈ کے لگ بھگ ہو جائے گا، جو عالمی معیارات سے ہنوز سستا ہو گا۔ برٹش ورجن آئی لینڈز میں کمپنی خریدنا اس سے 50گنا زیادہ مہنگا ہے۔ دیوالیہ ہو جانے والی کمپنیوں کے معاملات کا تجربہ رکھنے والی وکیل اور فراڈ ایڈوائزری پینل کی ڈائریکٹر فرانسس کولسن برطانوی شہریوں کو مالیاتی جرائم سے بچانے کے مقصد سے سرگرمِ عمل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 100پونڈ بھی خرچ آ جائے تب بھی فائدہ ہی ہو گا۔انھوں نے کہا، ’’یہ ایک سوراخ ہے جس کے ذریعے لوگ غیر قانونی پیسے کو قانونی بنا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اس خامی کو دور کرنا کاروباری افراد کے لیے کوئی مسئلہ نہیں بنے گا۔ ان کے لیے 100پونڈ کی بھلا کیا حیثیت؟ جب کہ ریاست کو تو اس پر کچھ بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ رجسٹرار کے ہاں ایسی ہزاروں کمپنیاں ہیں جنھوں نے بکواس معلومات درج کروا رکھی ہیں۔ ہمیں اکثر ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ وہ معلومات بکواس کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ پس سوال یہ ہے کہ یہ کس قسم کے کاروبار کی راہ میں رکاوٹ ڈالے گی؟ کیا ہم فراڈیوں کو کھلی چھوٹ دینا چاہتے ہیں؟ یہ قانونی کاروبار کے لیے رکاوٹ نہیں بنے گی کیوں کہ انھیں بینک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے ایسی ہی جانچ پڑتال کروانا پڑتی ہے۔‘‘ ڈوڈس نے کہا کہ ان کے خیال میں حکومت سمجھ ہی نہیں سکی کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے۔درمیانی ایجنٹوں کے ذریعے کھولی جانے والی کمپنیوں کے مقابلے میں ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ میں براہِ راست کھولی جانے والی کمپنیوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا تناسب 50فی صد ہو چکا ہے۔ اگر تمام نئی کمپنیوں میں سے آدھی کے مالکان کی معلومات غیر مصدقہ ہو تو اس سے پورے محکمے کی دیانت داری پر شک ہو جاتا ہے۔ ہمیں مطلقاً تیقن کرنا چاہیے کہ لندن یا پوٹرس بار یا گلاسگو ’’ڈرٹی منی‘‘ کو ’’دھونے‘‘ (غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ دولت کو قانونی بنانے) کے مقامات نہیں ہیں کیوں کہ یہ غریبوں کا پیسہ لوٹنے کا معاملہ ہے اور ہمیں حقیقتاً مجرموں کی مدد نہیں کرنا چاہیے۔ ہوا صرف یہ ہے کہ اس بے چارے کو سزا سنا دی گئی ہے۔ یہ غصہ دلانے والی بات ہے۔ کسی بھی کام کو موزوں طریقے سے انجام دینا اس قدر مہنگا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ 2015ء کے انتخابات کے بعد ونس کیبل اپنے منصب سے محروم ہو گئے تو کیون بروئر نے قدامت پسندوں کی حکومت کو قائل کرنے کی مہم ایک بار پھر شروع کر دی۔ انھوں نے ایسے ارکانِ پارلیمان کو خطوط لکھے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ ان کی بات پر ہمدردانہ توجہ دیں گے۔ اس کے علاوہ انھوں نے وزیروں کو بھی خط لکھ کر قائل کرنے کی کوشش کی کہ منی لانڈرنگ کے خلاف برطانیہ کے ضوابط اتنے کمزور ہیں کہ ان کے حوالے سے انھیں فکر مند ہونا چاہیے۔ انھیں ٹوری (قدامت پسند) ارکانِ پارلیمان کے فری اینٹرپرائز گروپ کے راہ نما جیمز کلیورلی کی طرف سے دوستانہ جواب موصول ہوا جنھوں نے کہا انھیں امید ہے کہ وہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی ذمہ دار وزیر لیڈی نیوائل رولف کو قائل کر لیں گے۔ انھوں نے وہی ترکیب آزمانے کا فیصلہ کیا جو ونس کیبل کو متاثر کرنے میں ناکام رہی تھی۔ انھوں نے 17مئی 2016ء کو ایک نئی کمپنی ۔۔۔ کلیورلی کلوگس لمیٹڈ ۔۔۔ قائم کی۔ جیمز کلیورلی اور لیڈی نیوائل رولف اس کے حصص کے مالکان اور ڈائریکٹر تھے۔ ان کے علاوہ ایک اسرائیلی تھا، جو کہ فرضی کردار تھا۔ کیون بروئر نے اس فرضی اسرائیلی شخص کے پتے کی جگہ ایک شاپنگ مال کا پتا درج کروایا تھا۔ کمپنی قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جیمز کلیورلی سے کیون بروئر کی ملاقات بہت خوش گوار تھی لیکن وہ لیڈی نیوائل رولف اور دوسرے وزیروں سے کبھی نہ مل سکے۔ یہ وزیر بھی اپنے لبرل ڈیموکریٹ پیش رووں کی طرح وعدہ خلاف نکلے تھے۔ کیون بروئر نے کہا، ’’کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مجھے محسوس ہو اجیسے میں سراب کے پیچھے بھاگتا رہا ہوں۔ میں حقیقتاً مایوس ہو چکا تھا۔ میں سوچنے لگا تھا کہ میں اس سے زیادہ کیا کر سکتا ہوں۔ یہ 2016ء کی بات ہے۔‘‘
وہ تو ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کا پیچھا چھوڑ چکے تھے لیکن ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دیوالیہ ہونے والی کمپنیوں کے لیے بنائے گئے سرکاری محکمے کا ایک تفتیش کار ان سے تفتیش کرنے پہنچ گیا۔ کیون بروئر نے اسے سارے خطوط دکھائے اور واضح کیا کہ وہ کس طرح ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کو اپنے اقدامات کے بارے میں آگاہ کرتے آئے ہیں اور کمپنی بنانے کے لیے جن لوگوں کے نام استعمال کیے ہیں، انھیں بھی آگاہ کرتے آئے ہیں۔ انھوں نے تفتیش کار کو سمجھایا کہ وہ ایک مسئلے کو سامنے لانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے غلط ارادے سے کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے فوراً وہ کمپنیاں بند کر دی تھیں۔ کسی نے نہیں کہا تھا کہ مجھے مجرم قرار دے دیا جائے گا۔ میں نے یہ کام سادگی میں کیے تھے۔ میری نیت صاف تھی۔ میں مکالمہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کیوں کہ میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ سمجھ نہیں سکے ہیں۔ مجھے جس وزیر کی طرف سے بھی خط ملا، سب لفظ بہ لفظ ایک جیسے تھے۔‘‘ پھر 11دسمبر کو سمن آ گئے۔ انھیں ریڈچ مجسٹریٹس کورٹ میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا۔ انھوں نے ایک وکیل سے مشورے کے بعد 15مارچ کو اقرارِجرم کر لیا۔ انھیں جرمانے کے علاوہ مقدمے پر ہونے والے حکومت کے اخراجات بھی اپنی جیب سے ادا کرنا پڑے تھے۔ مقدمے پر ہونے والے ان کے اپنے اخراجات الگ تھے۔ انھیں کُل 22,800پونڈ بھرنا پڑے تھے۔اینٹی کرپشن چیمپیئن قدامت پسند رکنِ پارلیمان جان پینروز کو اس فیصلے پر بہت غصہ آیا تھا۔ انھوں نے لندن میں فرنٹ لائن کلب کے میرے ترتیب دیے ہوئے’’ کلیپٹو سکوپ ایونٹ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’افسوس اتنے بڑے جرم کی نشان دہی کرنے والے شریف انسان کو مجرم قرار دے دیا گیا۔ یہ واحد مقدمہ ہے جو منی لانڈرنگ کے حوالے سے قائم کیا گیا، وہ بھی ایک شریف شہری کے خلاف، جو حکام کی توجہ نظام کی خامیوں کی طرف دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے اتنی تکلیفیں اٹھانے کا کیا صلہ ملا؟ 22000پونڈ کا خرچ۔ یہ فیصلہ اس امر کا بدیہی ثبوت ہے کہ ہم اس مسئلے پر توجہ نہیں دے رہے کہ غلط معلومات درج کروائی جا رہی ہیں۔ میں خود بھی پچھلے چوبیس گھنٹوں میں یہ معاملہ کئی وزیروں کے سامنے پیش کر چکا ہوں۔‘‘ مجھے یہ معلوم کرنے میں پورا ایک دن لگ گیا کہ کیون بروئر پر مقدمہ چلانے کا اقدام کس نے کروایا تھا۔میں نے بی ای آئی ایس کے وزیر اینڈریو گرفتھس سے بات کی تو انھوں نے مجھے ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ بھیج دیا۔ اس کے عملے نے کہا کہ کیون بروئر پر مقدمہ کرنے کا اقدام ’’نامعلوم‘‘ سرکاری افراد نے کیا تھا۔ کراؤن پراسیکیوشن سروس کے ایک ترجمان نے اپنا ا طمینان چھپائے بغیر بتایا کہ اِس محکمے کا اس مقدمے میں کوئی کردار نہیں۔ آخرِ کار دیوالیہ ہو جانے والی کمپنیوں کے معاملات طے کرنے والے محکمے سے پتا چلا کہ ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ نے فائل انھیں بھیجی تھی۔محکمے کے ترجمان نے مجھے بتایا، ’’ہمارے محکمے کے پراسیکیوٹر نے فائل پڑھ کر نتیجہ اخذ کیا کہ کوڈ فار کراؤن پراسیکیوٹرز کے مطابق مقدمہ قائم کرنے کے لیے کافی شواہد موجود ہیں اور یہ کہ ایسا کرنا عوام کے مفاد میں ہو گا۔‘‘
کوڈ فار کراؤن پراسیکیوٹرز اٹھارہ صفحات پر مشتمل دستاویز ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کسی کو عدالت میں لے جانے سے پہلے کن کن باتوں پر غور کرنا چاہیے۔ اس میں مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں اور کیون بروئر کا معاملہ ثبوت والے مرحلے سے گزر چکا تھا کیوں کہ انھوں نے یا تو خود ہی تمام ثبوت پیش کر دیے تھے یا ’’کمپنیز ہاؤس‘‘ کی فائلوں میں مہیا کر دیے تھے۔ بہرحال عوامی مفاد والا مرحلہ زیادہ دل چسپ تھا۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ ’’جرم کا نشانہ بننے والے حالات‘‘ کو زیرِ غور لایا جائے۔ سوال یہ تھا کہ کیون بروئر کے جرم کا نشانہ کون تھا؟ کیا لیڈی نیوائل رولف ان کے جرم کا نشانہ تھیں؟ وہ کیون بروئر سے کبھی نہیں ملی تھیں اور انھیں اس حقیقت کا ادراک نہیں ہوا تھا کہ یہ جرم تو لگتا ہے لیکن حقیقت میں نظام کی خامی واضح کرنے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ کیا کلیورلی اس جرم کا نشانہ تھے؟ بہرحال وہ کیون بروئر سے ملاقات کر چکے تھے اور وہ شاید ان کی حسِ مزاح کو سمجھ چکے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں تو کیون بروئر پر مقدمہ چلانے کی کوئی وجہ نظر نہیں آئی۔ ونس کیبل نے، جو اَب لبرل ڈیموکریٹوں کے راہ نما تھے، ایک بیان میں کہا کہ ان کا خیال ہے یہ ضرورت سے زیادہ ردِ عمل ہے۔انھوں نے کہا، ’’سِوِل سروینٹ مجھے محفوظ رکھنے کا اپنا فرض ادا کر رہے تھے کیوں کہ انھیں خدشہ تھا کہ یہ فراڈ نہ ہو۔ بہر حال معاملات پر ایک بار پھر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ اقدام سخت تھا اور انھوں نے اس حقیقت کا ادراک نہیں کیا تھا کہ کیون بروئر نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھیں جرمانہ واپس کر دینا چاہیے۔‘‘

(بشکریہ دی گارڈین؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

انتہائی ہلاکت انگیز عالم گیر وبا کا خطرہ


مصنف: مِشیلا ٹِنڈرا

’’نئے جراثیم مسلسل پیدا ہو رہے ہیں جب کہ ہماری دنیا فضائی سفر کے ذریعے جڑی ہوئی ہے، اس لیے کسی بڑے حیاتیاتی دہشت گرد حملے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ہماری زندگیوں کے دوران کسی بھی وقت کوئی ہمہ گیر اور انتہائی ہلاکت انگیز عالم گیر وبا پھوٹ پڑنے کا بھی خاصا امکان ہے۔‘‘ خوف طاری کر دینے والے ان امکانات و خدشات کا اظہار بل گیٹس نے بوسٹن میں منعقدہ ’’نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن‘‘ کے ’’شٹک لیکچر‘‘ کے سلسلے کے تحت اپنے لیکچر میں کِیا۔ بل گیٹس حفظانِ صحت کے مستقبل کے حوالے سے امید پرست انسان ہیں لیکن کسی عالم گیر وبا کے پھوٹ پڑنے کا خدشہ انھیں ہمیشہ متفکر و مضطرب رکھتا ہے۔ ’’سپینش فلو‘‘ کا پھوٹ پڑنا صرف سو (100) سال پہلے ہی کا واقعہ ہے۔ اس وبا میں صرف چند ہفتوں ہی میں چھ لاکھ پچہتر ہزار (675,000) امریکی فلو کی وجہ سے ہلاک ہو گئے تھے۔ فلو یا انفلوئنزا سانس کی ایک بیماری ہے۔ اس کا وائرس ناک اور منہ کے راستے انسان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔ انفلوئنزا یا فلو کی عام نشانیوں میں بخار، ناک بہنا، گلے کا دُکھنا، پٹھوں میں درد، کھانسی اور تھکن محسوس ہونا شامل ہیں۔بیماری کی یہ نشانیاں وائرس جسم میں داخل کے ہونے کے دو دن بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں۔ عام فلو/ انفلوئنزا تقریباً ایک ہفتہ برقرار رہتا ہے۔ کھانسی تقریباً دو ہفتے رہ سکتی ہے جب کہ بچوں کو متلی اور قے بھی ہو سکتی ہے۔ ’’سپنیش فلو‘‘ نامی وبا کے دوران ایک سال میں پوری دنیا میں پانچ کروڑ انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ اپنے لیکچر کے دوران بل گیٹس نے ’’انسٹی ٹیوٹ فار ڈیزیز ماڈلنگ‘‘ کا کمپیوٹر پرکیا گیا ایک تجربہ بھی سامعین کو دکھایا۔ اس تجربے کے مطابق اگر ہوا کے ذریعے پھیل جانے والے فلو کے جراثیم اس سال پھیل جائیں تو چھ مہینوں کے اندر اندر تقریباً تین کروڑ تیس لاکھ انسان اس بیماری سے ہلاک ہو جائیں گے۔
بل گیٹس نے کہا، ’’ہالی وُڈ کی سنسنی خیز فلمیں دیکھتے ہوئے آپ سوچیں گے کہ دنیا ہلاکت انگیز جراثیم سے عوام کو محفوظ رکھنے کے معاملے میں بہت اچھی ہے لیکن حقیقی دنیا میں عمومی بیماریوں سے تحفظ اور ان کے علاج کا ہمارا نظام بڑی وبائیں پھوٹ پڑنے کی صورت میں کسی کام نہیں آ سکے گا۔ خاص طور سے غریب ملکوں کا عوام کی صحت کے تحفظ کا نظام کسی وبا کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں بالکل کام نہیں آ سکے گا۔ حتیٰ کہ امریکا جیسے دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک میں بھی کسی بڑے حیاتیاتی دہشت گرد حملے یا کسی بڑی وبا کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں حفظانِ صحت کا ہماراموجودہ ناکافی ثابت ہو گا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس امکانی المیے سے بچنے کے لیے مربوط عالم گیر کوششیں کرنا ضروری ہے۔ضروری ہے کہ دنیا وبا کا سراغ جلد لگانے کا نظام، اس سے نمٹنے کے ذرائع اور اس پر قابو پانے کا نظام تشکیل دے۔ انھوں نے بتایا کہ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کئی منصوبوں پر کام پہلے ہی شروع کیا جا چکا ہے۔ فلو کی ویکسین تیار کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ فلو کی امکانی عالم گیر وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے فلو کی ویکسین چند ہفتوں میں تیار کرنے کی استعداد پیدا کرنے کے لیے پچھلے سال ’’کولیشن فار ایپی ڈیمک پری پیئرڈنیس اِنّوویشنز‘‘ کا آغاز کیا گیا، جس کے لیے مخیر افراد نے چھ کروڑ تیس لاکھ ڈالر کے عطیات دینے کے وعدے کیے۔ بروڈ انسٹی ٹیوٹ اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا، برکلے فلو کی جلد تشخیص کے لیے کرِسپر (سی آر آئی ایس پی آر)ٹیکنولوجی استعمال کرتے ہوئے ایک تشخیصی ٹیسٹ ایجاد کرنے پر کام کر رہے ہیں (کرِسپر ٹیکنولوجی کے ذریعے کسی بھی خلیے میں موجود جینیاتی مواد میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے)۔ اس کے علاوہ یہ جاننے کے لیے کہ وبا کے شکار انسان زِیکا وائرس سے متاثرہ ہیں یا ڈینگی وائرس سے ، یہ دونوں ادارے کاغذ کی ایک چھوٹی سی پٹّی کے ذریعے تشخیصی ٹیسٹ ایجاد کرنے کی کوششیں بھی کر رہے ہیں، جیسے کہ حمل کا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ مارچ میں امریکا کی مقننہ (کانگریس) نے ٹرمپ حکومت کو ہدایت کی کہ صحت کی عالمی سلامتی کو مضبوط تر بنانے کے لیے منصوبہ سازی کی جائے۔ اپنے لیکچر میں بل گیٹس نے کہا، ’’دنیا کو عالم گیر وبا سے نمٹنے کے لیے اُسی طرح تیاریاں کرنا چاہئیں جیسے کوئی فوج جنگ لڑنے کے لیے تیاریاں کرتی ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ تربیت یافتہ طبی عملے اور رضاکاروں پر مشتمل ایک ریزرو دستہ تیار کیا جائے جو کسی عالم گیر وبا کے پھوٹ پڑنے کی صورت میں چند لمحوں کے اندر اندر اس سے مقابلے کے لیے میدان میں نکل سکتا ہو۔ انھوں نے امریکا کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ادویات کی تیاری اور تحقیق کے لیے قانونی تحفظ فراہم کیا جائے نیز ادویات ساز کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کو جائزہ بھی لیا جائے۔
انھوں نے اپنے لیکچر کے دوران اعلان کیا کہ گوگل کے بانی لیری پیج اور بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے فلو کی عالم گیر وبا سے نمٹنے کے لیے ایسی ویکسین ایجاد کرنے کے مقابلے کا اعلان کیا ہے جو ہر قسم کے فلو کے لیے کارآمد ہو۔ سائنس دانوں کی حوصلہ افزائی کی غرض سے اس مقابلے کے لیے ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن پہلے ہی ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزیزِز‘‘ جیسی دوسری تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزیزِز‘‘ نے فلو کی ایک ویکسین بنائی ہے جو انسانوں پر آزمائے جانے کے مرحلے میں ہے۔ بل گیٹس نے کہا، ’’جیسا کہ میں نے اپنے لیکچر کے آغاز میں کہا تھا، میں ایک امید پرست انسان ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ہم اگلی بڑی وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں۔‘‘ بل گیٹس نے اپنے لیکچر کے دوران بتایا کہ انھوں نے ورلڈ بینک کی 1993ء کی ایک رپورٹ پڑھی تھی جس سے انھیں عالمی سطح پر صحت کے تحفظ کے لیے اپنی دولت کا بڑا حصہ عطیہ کرنے کی تحریک ملی تھی۔ انھوں نے سامعین کو بتایا کہ اُس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ترقی پذیر ملکوں میں صرف چند بیماریاں بہت زیادہ اموات کی وجہ ہیں۔انھوں نے کہا، ’’رپورٹ پڑھتے ہی میرے ذہن میں پہلا خیال یہ آیا کہ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم نے ایسی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ادویات اور دوسری چیزیں ایجاد نہیں کیں۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ اچھی ادویات وغیرہ موجود ہیں لیکن ان کی مذکورہ ملکوں میں دست یابی ممکن بنانے کا نظام ناقص ہے، جسے درست کیا جانا ضروری ہے۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے جانا کہ ترقی پذیر دنیا میں حفظانِ صحت کا ایسا نظام موجود نہیں جس کے ذریعے اینٹی بایوٹک ادویات اور ویکسین عوام تک پہنچائی جا سکیں۔ اس الم ناک حقیقت سے آگاہ ہوتے ہی بل گیٹس اور ان کی بیوی ملنڈا گیٹس نے اپنی دولت کا بہت بڑا حصہ انسانی صحت کے تحفظ کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایسی عام بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے لیے تحقیق کی حوصلہ افزائی کا فیصلہ کیا جن کے لیے اُس وقت کم مالی وسائل مہیا کیے جا رہے تھے۔ اُن میں ملیریا جیسی بیماریاں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے ترقی پذیر ملکوں کے بچوں کے لیے نیوموکوکل ویکسین اور روٹا وائرس ویکسین فراہم کرنے کے لیے عطیات دینے کا فیصلہ کیا۔ 1990ء کے عشرے سے دیے جانے والے ان کے عطیات کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں 1990ء میں ترقی پذیر ملکوں میں ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ تیس لاکھ بچے موت کے شکار ہو جاتے تھے، وہاں 2016ء میں ایسی اموات کی تعداد گھٹ کر پچاس لاکھ رہ گئی۔اس حوالے سے انھوں نے کہا، ’’ہم چاہتے تھے کہ ہم صرف اس صورت میں اپنی کمائی کا بہت بڑا حصہ وقف کریں، جب اس کا نتیجہ بھی بڑے اعداد کی صورت میں سامنے آئے۔‘‘ محولہ بالا اعدادوشمار سے پتا چلا کہ ہوا بھی ایسا ہی
بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کا قیام 2000ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت سے یہ تنظیم ملیریا، پولیو، ایچ آئی وی اور تپِ دق جیسے عوام کی صحت کو لاحق انتہائی خطرناک بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کی کوششوں کے نتیجے میں ان بیماریوں کے خلاف نوعِ انسان کو اپنی جنگ میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ صرف 2012ء میں دنیا کے بیس کروڑ ستّر لاکھ انسان ملیریا کے شکار ہوئے تھے جن میں چھ لاکھ انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ اس خوف ناک بیماری کو مٹانے کی غرض سے اپریل 2018ء میں لندن میں منعقدہ ’’ملیریا سمٹ‘‘ میں بل گیٹس نے ایک ارب ڈالردینے کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے وہ اسی کارِ خیر کے لیے دو ارب ڈالر وقف کر چکے ہیں۔ ان کے حالیہ وقف کردہ ایک ارب ڈالر 2023ء تک ملیریا کو مٹانے کی غرض سے مہیا کیے جائیں گے۔ اس سے پہلے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے ایڈز، تپِ دق اور ملیریا کا مقابلہ کرنے کے لیے چھ کروڑ ڈالر وقف کیے تھے۔ 2017ء سے 2019ء تک ان بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی غرض سے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے مزید ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر وقف کیے۔ ایک وقت تھا کہ پولیو ہر سال دنیا کے ایک سو پچیس ملکوں کے تین لاکھ پچاس ہزار بچوں کو معذور کر دیا کرتا تھا۔ 2016ء میں پوری دنیا میں صرف چالیس بچے پولیو کے شکار ہوئے تھے۔ 2020ء تک پولیو کو دنیا سے مٹانے کے لیے بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے پچھلے سال چار کروڑ پچاس لاکھ ڈالر وقف کرنے کا اعلان کیا۔ ذیلی صحارائی افریقی ملکوں میں بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی مالی مدد سے کیے جانے والے کئی سال پر محیط ایک بڑے تجربے کی رپورٹ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن کے اپریل 2018ء کے شمارے میں شائع ہوئی۔ اس رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر فراہم کی جانے والی اینٹی بایوٹک دوا ازتھرومائیسن کے استعمال کے نتیجے میں ایک ماہ سے پانچ سال تک کے بچوں کی اموات کی شرح میں 13.5فی صد کمی واقع ہوئی۔ ازتھرومائیسن دنیا بھر میں تجویز کی جاتی ہے اور یہ بیکٹیریا کی وجہ سے لاحق ہونے والی آنکھوں کی ایک بیماری کے علاج کے لیے خصوصاً استعمال کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کے حوالے سے بل گیٹس نے اپنے لیکچر میں کہا، ’’یہ ایک نہایت مسرت بخش خبر ہے۔ میں سب سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس رپورٹ کا مطالعہ کریں۔‘‘ اقوامِ متحدہ کو ان نتائج کی روشنی میں اپنے اُس ہدف کو پانے میں مدد مل سکتی ہے جس کے تحت اسے 2030ء تک دنیا بھر کے بچوں کو ایسی بیماریوں سے مرنے سے بچانا ہے جن کا علاج ممکن ہے۔ مذکورہ تحقیق میں شریک سائنس دانوں نے کہا ہے کہ یہ بات ٹھیک ٹھیک جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس دوا نے کس طرح بچوں کو موت سے بچایا۔

(بشکریہ فوربز؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

Wednesday, May 16, 2018

وہ کون سے معاملات ہیں جو چین کے صدر کوشب بھر بیدار رکھتے ہیں


مصنف: کرِس بکلی

دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک اور دنیا کی سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی کے راہنما کی حیثیت سے چین کے صدر شی جِن پِنگ کے لیے بہت سے معاملات فکر مندی کا سبب ہیں۔ ایک نئی کتاب ان معاملات پر روشنی ڈالتی ہے جو امکاناً انھیں راتوں میں جگائے رکھتے ہیں۔ ’’قومی سلامتی‘‘ کے بارے میں چین کے صدر شی جِن پِنگ کے خیالات پر مبنی 272صفحات کی کتاب میں ان کے وہ تبصرے بھی شامل ہیں جو اس سے پہلے شائع نہیں ہوئے اور جو اُن کو تحریک دینے والے عوامل کی کمیونسٹ پارٹی کے پروپیگنڈے کی نسبت زیادہ واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ ان کے بیانات کا انتخاب ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
ٹیکنولوجی کی دوڑ جیتنا: چین اور امریکا کے مابین حالیہ تجارتی تنازعے نے ٹیکنولوجی کے میدان میں چین کے خود انحصار بننے کے شدید اشتیاق کی طرف توجہ دلائی۔ زیرِ نظر کتاب سے عیاں ہوتا ہے کہ حالیہ تنازعے سے بہت پہلے ہی صدر شی جِن پِنگ تہیہ کر چکے تھے کہ چین کو اپنے مائیکرو چپس، آپریٹنگ سسٹمز اور دوسری بنیادی ٹیکنولوجیوں میں ماہرِ کامل بنانا ہے۔ دو تقریروں میں ۔۔۔ جولائی 2013ء اور اگست 2013ء میں ۔۔۔ صدر شی جِن پِنگ نے واضح اور غیر مبہم انداز میں کہا تھا کہ مغرب کو ٹیکنولوجی کی وجہ سے دنیا پر غلبہ حاصل ہوا تھا۔ ’’ایڈوانسڈ ٹیکنولوجی جدید ریاست کا سب سے کارگر ہتھیار ہے۔ جدید زمانے میں مغربی ملکوں کے دنیاپر غالب آنے کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ ان کے پاس ایڈوانسڈ ٹیکنولوجی تھی۔ آپ بنیادی نوعیت کی حقیقی ٹیکنولوجیاں خرید نہیں سکتے۔ یہ درست کہا جاتا ہے کہ ’کسی ریاست کے سب سے کارگر ہتھیار کو سب کے سامنے نہیں لانا چاہیے۔‘ ہماری ٹیکنولوجی ترقی یافتہ ملکوں کی ٹیکنولوجی سے پیچھے ہے اور ہمیں فوائد کے حصول کے لیے ان ملکوں سے آگے نکلنے کے لیے غیر معمولی حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔‘‘
انٹرنیٹ کا استعمال: انٹرنیٹ کے متعارف کروائے جانے کے وقت سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے راہنما اسے تخریب اور جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے کے بارے میں فکر مند ہیں۔ صدر شی جِن پِنگ نے اگست 2013ء میں پروپیگنڈا کے موضوع پر تقریر کی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ سی آئی اے کے سابق ملازم ایڈورڈ سنوڈن نے امریکا کی نگرانی کرنے کی جو اہلیتیں افشا کی ہیں، ان کے بارے میں انھیں تشویش ہے۔ ’’رائے عامہ پر قابو پانے کی کش مکش میں انٹرنیٹ سب سے بڑا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔ بعض ساتھیوں نے کہا ہے کہ انٹرنیٹ ’سب سے بڑا تغیر‘ ہے جس کا ہمیں سامنا ہے اور اگر ہم اس سے درست انداز سے نبرد آزما نہیں ہوں گے تو یہ ’ہمارے ذہنوں پر مسلط عذاب بن جائے گا۔‘ چین مخالف مغربی طاقتیں ’چین کو چِت کرنے کے لیے‘ انٹرنیٹ کو مستقلاً استعمال کر رہی ہیں مگر وہ اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہی ہیں۔ برسوں پہلے بعض مغربی سیاست دانوں نے اعلان کیا تھا کہ ’انٹرنیٹ کی صورت میں ہمیں چین سے نبرد آزما ہونے کا وسیلہ دست یاب ہو گیا ہے‘ اور ’سوشلسٹ ملک خود بخود مغرب کے سامنے سپر انداز ہو جائیں گے۔‘ امریکا کے تناظر سے دیکھا جائے تو ’ایکس کی سکور‘ اور نگرانی کے دوسرے پروگرام، نگرانی کی اہلیتیں اور اس حوالے سے انٹرنیٹ پر سرگرمیوں کا دائرہ ہر کسی کی سوچ سے بھی زیادہ وسیع ہو چکا ہے۔ ہم انٹرنیٹ پر جاری یہ جنگ جیتتے ہیں یا نہیں، اس کا براہِ راست اثر ہمارے ملک کی نظریاتی اور سیاسی سلامتی پر پڑے گا۔‘‘
فوجی برتری کی دوڑ: چین اپنی فوج کو بہتر بنانے پر بھاری رقوم خرچ کر رہا ہے۔ دسمبر 2014ء میں صدر شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں چین کے فوجی افسروں کو خبردار کیا کہ خدشہ ہے امریکا ٹیکنولوجی کے میدان میں ان پر سبقت پا سکتا ہے۔ ’’ایک نیا ٹیکنولوجیکل اور صنعتی انقلاب برپا ہو رہا ہے، فوجی معاملات میں برپا ہونے والے عالم گیر انقلاب کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے اور بین الاقوامی فوجی مقابلے کے انداز میں تاریخی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ امریکافوجی معاملات میں برپا ہونے والے اس انقلاب کا قائد ہے۔ بہت سے شعبے ایسے ہیں جن میں اس نے سب سے پہلے اقدامات کیے ہیں اور وہ فوجی ٹیکنولوجیوں میں بھی نئے فوائد حاصل کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ امریکا عالمی سطح پر تیزی سے حملہ کرنے کی اہلیتوں میں اضافہ کر رہا ہے اور اس کے بعض جدید ہتھیار تیکینکی اعتبار سے زمان و مکاں کی حدود توڑ چکے ہیں۔ انھیں حقیقی جنگ کے لیے تیار کر لیا گیا تو وہ حملے اور دفاع کے روایتی طریقوں کو بنیادی اعتبار سے کاملاً تبدیل کر دیں گے۔‘‘
چھپے ہوئے مالیاتی خطرے: چین کی قیادت بڑھتے ہوئے قرض سے پیدا ہونے والے مالیاتی خطروں کو ختم کرنے کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ فعال ہوتی جا رہی ہے اور صدر شی جِن پِنگ نے دسمبر 2016ء میں اپنی ایک تقریر میں جن خیالات کا اظہار کیا، ان سے پتا چلتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ ’’اس وقت مالیاتی خطرے انتہائی سنگین اور کثیر ہیں۔ اگرچہ ایسے مالیاتی خطرے عمومی طور سے قابو میں ہیں، جو سرمایہ دارانہ مالیاتی نظام کا حصہ ہیں لیکن غیرفعال اثاثے، لیکوئڈٹی، بانڈ ڈیفالٹس، شیڈو بینکس، خارجی دھچکے، پراپرٹی ببل، حکومتی قرض اور انٹرنیٹ فنانسنگ کی وجہ سے خطروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ فنانشل مارکیٹس میں بھی افراتفری ہے۔ بعض مالیاتی خطرے طویل عرصے سے چلے آ رہے ہیں۔ وہ مرض کے منڈلاتے ہوئے سرچشمے ہیں جو بہت گہرائی میں چھپے ہوئے ہیں اور اچانک پھٹ سکتے ہیں۔ امریکا کا قرض کا بحران ایک ہی رات میں پھٹ پڑا تھا۔ اگر ہمیں مستقبل میں کسی بڑی مشکل کا سامنا ہوا تو وہ اسی شعبے میں رونما ہو گی۔ چناں چہ ہمیں اس شعبے میں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘
آلودگی کے حوالے سے بے چینی: صدر شی جِن پِنگ سموگ، مٹی کے زہر آلود ہونے اور دوسری آلودگیوں کے خلاف چین کی حکومت کی کوششوں میں تیزی لا چکے ہیں۔ مئی 2013ء میں انھوں نے اپنی تقریر میں اس موضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا تھا، ان سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ عوام کے غصے اور احتجاجوں کے حوالے سے کس قدر فکر مند ہیں، جنھیں چینی حکام ’’عوامی واقعات‘‘ کہتے ہیں۔ ’’عوام ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے انتہائی پریشان ہے اور عوام کی خوشی کے اشاریوں میں ماحولیاتی مسائل کا درجہ زیادہ سے زیادہ نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ جب معیشت اور معاشرہ ترقی کرتے ہیں اور لوگوں کے معیاراتِ زندگی اونچے ہوتے ہیں تو ماحولیاتی مسائل عوام میں بے چینی پیدا ہونے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہوتے ہیں اور اگر ان سے درست انداز میں نمٹا نہیں جائے تو ان کی وجہ سے اکثر اوقات عوامی واقعات رونما ہوتے ہیں۔‘‘

(بشکریہ نیو یارک ٹائمز؛ انتخاب: دنیا ریسرچ سیل؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)

http://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2018-05-16&edition=LHR&id=3912531_39273449

Thursday, May 10, 2018

ٹرمپ کی جنگی نفسیات اور عالمی امن

مصنف: بینڈی ایکس لی، جیفری ڈی ساکس
مترجم: محمد احسن بٹ

جب ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالا تو بہت سے تجزیہ کاروں کو یقین تھا کہ وہ اپنی حکومت مستحکم کر لیں گے اور ہوش مندانہ اقدامات کا محور بن جائیں گے لیکن ذہنی امراض کے متعدد امریکی ماہرین کا خیال اس سے مختلف ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ واضح طور پر ایک ذہنی عارضے میں مبتلا ہیں جو دباؤ کی کیفیت میں شدید تر ہو جائے گا اور اس حالت میں ٹرمپ جنگ حتیٰ کہ ایٹمی جنگ کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اب جب کہ ٹرمپ کی سپہ سالاری میں شمالی کوریا یا ایران کے ساتھ جنگ کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے تو دنیا کو چاہیے کہ امریکی صدر کو ایسا کرنے سے روکے، پیش تراس کے کہ بہت دیر ہو جائے۔
متعدد پیشہ ور ماہرینِ نفسیات اور نفسیاتی معالجوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ نہ صرف کم زور افراد پر دھونس جمانے والے، دکھاوا باز، جارحیت پسند اور دروغ گو ہیں بلکہ وہ ایسے ذہنی مرض میں مبتلا فرد جیسے ہیں، جو بات بات پر بھڑک اٹھتا ہو، جارحیت پسند ہو اور جو مواقع سے فائدہ اٹھانے اور دوسروں پر الزام دھرنے میں تیزی دکھاتا ہو۔ ان ماہرین نے ٹرمپ کی ذہنی استعداد فوری اور آزادانہ طور پر جانچنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے اسی سال والٹر رِیڈ آرمی میڈیکل سینٹر میں صدر ٹرمپ کے جسمانی معائنے کے علاوہ دماغی معائنہ بھی کیا جا چکا ہے لیکن مذکورہ ماہرین ان کا زیادہ تفصیلی دماغی معائنہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بہت سے امریکیوں کا خیال ہے کہ صدرٹرمپ کے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کی علامات زیادہ نمایاں ہوتی جا رہی ہیں۔ اپنے آپ پر کنٹرول نہ ہونے کی کیفیت کو غلطی سے کھلا ڈلا پن سمجھا جا سکتا ہے۔ جارحیت پسندی اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کو غلطی سے معاملے طے کرنے کی مہارتیں سمجھا جا سکتا ہے لیکن ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ جو افراد اس طرح کے رویوں کا اظہار کرتے ہیں،وہ اکثر اوقات ناقابلِ برداشت بے بسی، ناکافی پن اور قبول کیے جانے کی شدید ضرورت کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ دباؤ کی صورت میں ایسے افراد پر تباہ کردینے کی کیفیت طاری ہو سکتی ہے۔
بلا شبہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ شدید نفسیاتی مرض میں مبتلا کسی لیڈر نے اقتدار حاصل کر لیا ہو لیکن ایسے لیڈر عموماً چھوٹے ملکوں میں اقتدار حاصل کرتے ہیں جن کی فوج دنیا کی سب سے طاقت ور فوج نہیں ہوتی۔ اب بھی ایسے واقعات کا ریکارڈ خوف انگیز ہے: عیدی امین، صدام حسین، پول پاٹ اور دوسرے بہت سارے ایسے افراد نے بڑے پیمانے پر خوں بہایا۔
ان لیڈروں کے برخلاف ٹرمپ اپنی کمانڈ میں دنیا کو ایک تباہ کن ایٹمی جنگ کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں انھوں نے ایٹمی طاقت استعمال کرنے کی دھمکیاں بار بار دی ہیں۔ ٹرمپ کو یقین ہے کہ وہ دھمکیوں، اقتصادی پابندیوں اور قوت کے اظہار سے شمالی کوریا کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے دست بردار ہونے پرمجبور کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں اگرٹرمپ نے شمالی کوریا کو بے بس کر دیا تو زیادہ یقینی امر یہ ہے کہ وہ جنگ چھیڑ دے گا۔ جنوبی کوریا کے لوگ یہ حقیقت سمجھتے ہیں لیکن امریکا انھیں قائل کر رہا ہے کہ سخت مؤقف اختیار کریں۔ حال ہی میں اولمپکس کے موقع پرجنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے باہمی تعلقات میں بہتری نظر آئی جو بہت حوصلہ افزا ہے لیکن یہ کہانی کا اختتام نہیں ہے۔ یہ امریقینی ہے کہ ٹرمپ جلد ہی ایک بار پھر تناؤ پیدا کر دیں گے۔ وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا سکتے۔
دوسرا حساس معاملہ ایران کا ہے۔ ٹرمپ کو ان کی حکومت میں موجود سخت گیر افراد نے گھیرا ہوا ہے جو ایران کے ساتھ ٹکراؤ چاہتے ہیں۔ بنجامن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیلی حکومت بھی ٹرمپ کو اسی سمت میں دھکیل رہی ہے۔ ہو سکتا ہے ٹرمپ اور ان کے مشیروں کو یقین ہو کہ قوت کا اظہار ایرانیوں کو شام اور لبنان میں اپنی علاقائی برتری دکھانے سے باز رکھ سکے گا لیکن ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا جزوی سبب یہ ہے کہ ایران روس کی خفیہ پشت پناہی حاصل کر سکتا ہے۔
ٹرمپ کو جیتنے کا جنون ہے اور وہ توازنِ طاقت قبول کرنے میں نااہل ہیں۔ یہ بہت خطر انگیز امر ہے۔ جنوری میں انھوں نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ وہ ’’ایک بہت مستحکم نابغہ‘‘ ہیں۔ ان کا یہ اعلان طاقت ور ہونے کی نہیں بلکہ ناطاقتی کی علامت ہے۔ ایسے بیانات شبہات رفع نہیں کرتے بلکہ خبردار کرتے ہیں۔
خصوصی وکیل رابرٹ ملر کی تفتیش جاری ہے جس سے ٹرمپ پر جذ باتی اور سیاسی دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے صدر ٹرمپ کے جنگ چھیڑ دینے کی ترغیب میں بھی ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ ٹرمپ جذبات کے زیرِ اثر کچھ سجھائی نہ دینے کی کیفیت میں تشدد کے راستے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ اور دوسرے افراد ان کے داخلی زخموں کو چھپانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ان کے اردگرد موجود افراد انھیں ’’حد میں‘‘ رکھنے کے لیے اکثر اوقات ان کی بہت زیادہ خوشامد کرتے یا ان کے غیر معمولی مطالبات مان لیتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا ماحول مبینہ طور پر اس طرح کا ہے، جہاں ان کے معاونین امریکا کو اپنے باس سے محفوظ رکھنے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
صورتِ حال کی سنگینی بھانپ کر امریکی کانگریس کو چاہیے کہ ٹرمپ کا یک طرفہ طور پر اعلانِ جنگ خصوصاً ایٹمی جنگ شروع کرنے کا اختیار بلاتاخیر ختم کر دے۔ امریکی آئین کی شق نمبر ایک، جزو نمبر آٹھ میں واضح لکھا ہے کہ اعلانِ جنگ کا اختیار صدر کے پاس نہیں بلکہ کانگریس کے پاس ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکی صدور نے یہ اختیار بدترین انداز میں غصب کیااور بد قسمتی سے کانگریس نے اس پرکوئی احتجاج نہیں کیا۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ بقا کا مسئلہ بن چکا ہے کہ کانگریس اپنا آئینی اختیار واضح طورپراور بلاتاخیردوبارہ حاصل کرلے۔
امریکا کے روایتی اتحادیوں کو بھی خبردار رہنا چاہیے اور اندھا دھند امریکا کے پیچھے پیچھے جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم انتہائی خطرناک دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم جزیرہ نمائے کوریا یا مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن اور استحکام قائم کرنے اورتمام فریقوں کے سلامتی کے مفادات باہمی طور پر تسلیم کیے جانے کے لیے نئی جنگ نہیں چاہتے۔ ہم سفارت کاری چاہتے ہیں لیکن صدر ٹرمپ نفسیاتی اعتبار سے اس کی اہلیت نہیں رکھتے کیوں کہ ان کا مزاج سمجھوتے کرنے والا نہیں بلکہ حملہ کرنے والا ہے۔ امن کی عالمی طاقتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مزاحمت کریں۔

(بینڈی ایکس لی ییل سکول آف میڈیسن میں قانون اور نفسیات کی پروفیسر ہیں۔ جیفری ڈی ساکس کولمبیا یونیورسٹی میں ہیلتھ اینڈ مینجمنٹ کے پروفیسر، اقوامِ متحدہ کے’’ سسٹین ایبل ڈیویلپ مینٹ سولوشنز نیٹ ورک‘‘ کے ڈائریکٹر اور چار کتابوں کے مصنف ہیں۔)


ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...