مصنف: راجیش جین
بھارت میں 2014ء کے انتخابات میں کانگریس پارٹی کو پارلیمان کی 44نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اب جب کہ اگلے پارلیمانی انتخابات نزدیک ہیں تو سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا کانگریس اس مرتبہ زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکے گی؟ نیز کیا اس کے راہنما راہول گاندھی بھارت کے اگلے وزیرِ اعظم بن سکیں گے؟ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو اس کا اولین ہدف یہ ہے کہ نریندرا مودی کو دوسری مرتبہ وزیرِ اعظم نہ بننے دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کانگریس بی جے پی کو 230 سے کم نشستوں پر کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ فرض کیا 543 ارکان پر مشتمل لوک سبھا کی مجموعی طور پر تقریباً 330نشستوں پر کانگریس اور بی جے پی کامیابی حاصل کریں تو کانگریس کو کم از کم 100نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔ باقی نشستیں علاقائی سیاسی جماعتوں کو حاصل ہوں گی جو دونوں قومی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ اتحادبنا سکتی ہیں۔ کانگریس کا دوسرا ہدف یہ ہے کہ ایسی حکومت کا قیام عمل میں آئے جس میں بی جے پی شامل نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کو 200 سے کم نشستوں پر کامیابی حاصل ہونا چاہیے۔ اس صورت میں کانگریس کو 130 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنا ہو گی۔ کانگریس کا تیسرا ہدف، جسے اس مضمون میں زیرِ بحث لایا جائے گا، یہ ہے کہ وہ 150 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کو 180 کے لگ بھگ نشستیں حاصل ہونا چاہئیں۔ اگر راہول گاندھی بھارت پر کانگریس کی حکومت قائم کرنا اور اگلے وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں تو ایسا صرف مذکورہ بالا صورت ہی میں ممکن ہے۔ راہول گاندھی کو بھارت کا اگلا وزیرِ اعظم منتخب کروانے کے لیے کانگریس کے پاس 11سیاسی کارڈ ہیں۔ آئیے کانگریس کے ان 11 سیاسی کارڈوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ آزادی کارڈ: کانگریس کے ضروری ہے کہ وہ اپنے لیے ایک نیا سیاسی موقف وضع کرے۔ پچھلے تین برسوں میں بی جے پی نے منظم انداز سے کانگریس کے وفادار ووٹروں یعنی بھارت کے غریب شہریوں، دلتوں اور قبائلیوں کا ووٹ بینک حاصل کرنے کی کوششیں کی ہیں، جن میں وہ کامیاب رہی ہے۔ بی جے پی آج کی ’’نئی کانگریس‘‘ ہے۔ کانگریس کو ایک نئے آئیڈیا کی ضرورت ہے۔ یہ آئیڈیا تیس صفحات پر مشتمل منشور کی توضیح پر مبنی کتابچوں کی صورت میں سامنے نہیں لانا چاہیے جیسا کہ گجرات میں کیا گیا تھا۔اب بھارت کی سیاسی جماعتوں کو لازماً یہ جان لینا چاہیے کہ منشور کی پروا کوئی بھی نہیں کرتا، سوائے حزبِ اختلاف کے۔ اس کے علاوہ کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کرپشن کے الزام سے اپنے آپ کو نجات دلائے، جو بی جے پی نے اس پر چسپاں کر دیا ہے۔ انتخابات ایک یا دو بڑے تصورات کی بنیاد پرجیتے جاتے ہیں۔ کانگریس کو دوسری سیاسی جماعتوں سے ممتازبنانے والے جس آئیڈیا کی ضرورت ہے، وہ ہے جامع آزادی۔ اسے فرد کی آزادی، سماجی آزادی اور معاشی آزادی کو اپنا سیاسی موقف بنانا ہو گا اور ووٹروں کو باور کروانا ہو گا کہ یہ آزادیاں ملازمتوں اور خوش حالی کی اساس ہیں۔ وہ اس آئیڈیا کو 1947ء میں آزادی کی جدوجہد میں اپنے کردار سے جوڑ سکتی ہے لیکن ا س مقصد کے حصول کے لیے اسے اپنا سوشلزم کا چولا اتارنا ہو گا (جو اَب بی جے پی اوڑھ چکی ہے)۔ شاید کانگریس کے لیے ایسا کرنا سب سے دشوار ہو گا لیکن وہ ’’فی صد کی سیاست‘‘ کر کے جیت نہیں سکتی۔
2۔ چناؤ کارڈ: کانگریس کو لوک سبھا کی 543نشستوں میں سے 200 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوں گے، جن پراس کی جیت کے امکانات سب سے زیادہ ہوں۔ اعدادوشمار سے ایسی نشستوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایسا تب ممکن ہے جب وہ پوری توجہ اوروسائل ان نشستوں کے حصول پر مرتکز کر دے۔ کانگریس کو ہر نشست کے لیے ’’مائیکرو‘‘ حکمتِ عملی بنانا ہو گی۔ اسے ان 200 میں سے 150سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کو ہدف بنانا ہو گا۔
3۔ علامت کارڈ: اترپردیش اسمبلی کے انتخابات میں 60 فی صدووٹروں نے بی جے پی کو ووٹ نہیں دیے۔ پیغام واضح ہے: کانگریس کو نریندرا مودی کی بی جے پی کے ساتھ وہی کچھ کرنا جو 1977ء میں جنتا پارٹی نے اندرا گاندھی کی کانگریس کے ساتھ کیا تھا۔ کانگریس کو ہر ایک نشست پر بی جے پی کے امیدوار کے مقابل اپنا امیدوار کھڑا کرنا ہو گا۔ بلاشبہ کہنا آسان اور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بی جے پی اس حکمتِ عملی کو بھانپ کر اس کا تدارک کرنے کا منصوبہ بنائے گی لیکن یہ حقیقت ذہن میں رکھنا چاہیے کہ بہت سی علاقائی سیاسی جماعتیں بی جے پی کے پھیلاؤ سے مضطرب ہیں کیوں کہ اس سے ان کے مقامی مفادات کو براہِ راست زَک پہنچ رہی ہے۔ کانگریس کے لیے یہ امر ممکن ہے کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ایک انتخاب کے لیے اپنے اپنے اختلافات پرے رکھ دینے پر قائل کرے۔ کانگرس کے لیے ایسا کرنا ممکن ہے۔ اگر نریندرا مودی بی جے پی کے سربراہ نہ رہیں تو کانگریس اور علاقائی سیاسی جماعتیں بی جے پی کا مقابلہ زیادہ آسانی سے کر سکتی ہیں۔
4۔ ایس پی +بی ایس پی کارڈ: بھارت کی کوئی بھی ریاست اترپردیش س زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔ بی جے پی جتنی نشستیں حاصل کرے گی وہ اس کے مخالفوں کی حاصل کردہ نشستوں کے راست متناسب ہو ں گی۔ کانگریس گزشتہ اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے ساتھ اتحادبنا چکی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سماج وادی پارٹی کے علاوہ بہوجن سماج وادی پارٹی (بی ایس پی)کے ساتھ بھی اتحاد قائم کرے۔ اگر بی جے پی کو کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج وادی پارٹی کے اتحاد کا مقابلہ کرنا پڑا تو وہ لوک سبھا کی زیادہ سے زیادہ 30 سے 80 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکے گی۔ اگر بہوجن سماج وادی پارٹی نے اپنے امیدوار کھڑے کیے تو بی جے پی 25 مزیدنشستیں آسانی سے حاصل کر لے گی۔ اگر سماج وادی پارٹی نے بھی اپنے امیدوار کھڑنے کا فیصلہ کیا تو بی جے پی 2014ء کی طرح 71 کے لگ بھگ نشستیں حاصل کر لے گی (اس کے اتحادی کی 2 نشستیں مزید شامل ہوں گی)۔ بلاشبہ یہ حقیقت سب جانتے ہیں۔ چناں چہ کانگریس کا کام واضح ہے۔
5۔ بی جے پی کو ریاستی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے سے روکنے کا کارڈ: کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بی جے پی کو ریاستی اسمبلیوں میں مسلسل حاصل ہونے والی کامیابیوں کی راہ مسدود کرے۔ کرناٹک میں اس کا موقع دستیاب ہے۔ وہاں نہ صرف اگلے انتخابات میں جیتنا کانگریس کے لیے ضروری ہے بلکہ اسے اسی سال آگے چل کر دو بڑی ریاستوں ..... راجستھان اور مدھیا پردیش ..... میں سے کم از کم ایک ریاست کے انتخابات میں لازماً جیتنا چاہیے (بہ شرطے کہ لوک سبھا کے انتخابات وقت سے پہلے منعقد نہ کیے جائیں)۔ انجامِ کار جیت ہی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے جب کہ ریاستی انتخابات میں کانگریس کا ریکارڈ 2014ء سے بہت برا رہا ہے۔ حقیقی جیت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ وزرائے اعلیٰ منتخب کروائے جائیں اور اس کے لیے کانگریس کے ضروری ہے کہ وہ ’’بی جے پی مشین‘‘ کو روکے۔
6۔ ’’چھ لاکھ‘‘ والا کارڈ: انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں جہاں راہنما اور پیغام کی اہمیت ہوتی ہے وہاں تنظیم بھی بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ اگر کانگریس بی جے پی کو پولنگ بوتھ، انتخابی نشستوں اور مجموعی طور پر انتخابات میں شکست دینا چاہتی ہے تو اسے میدانِ عمل میں فعال کارکنوں کو اولین اہمیت دینا ہو گی۔ کانگریس کو اس سوال کا جواب لازماً ڈھونڈنا چاہیے کہ وہ دس کروڑ ووٹر کہاں ہیں جنھوں نے اسے 2014ء کے انتخابات میں ووٹ دیے تھے ..... جسے اس کی بدترین کارکردگی قرار دیا گیا تھا۔سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہی ہے کہ انھیں اپنے ’’گاہکوں‘‘ (ووٹروں) کا پتا نہیں ہوتا۔کانگریس کو ہرپولنگ بوتھ میں اپنے کارکنوں کی موجودگی یقینی بنانے کے علاوہ رکنیت سازی کی مہم اُسی طرح شروع کرنا ہو گی جس طرح بی جے پی نے 2014-15ء میں کی تھی۔ 200نشستوں کو مدِ نظر رکھنے کا مطلب ہے تین لاکھ پولنگ بوتھ۔ ہر بوتھ کے لیے کم از کم دو مخلص کارکنوں کی ضرورت ہو گی جو 250 خاندانوں کے ووٹروں کے ووٹ ڈلوا سکیں۔ اس کے لیے پورے بھارت میں پارٹی کے چھ لاکھ کارکنوں کا ہونا ضروری ہے، جو ووٹروں کو قائل کرنے اور زیادہ سے زیادہ ووٹ اپنے حق میں ڈلوانے کے لیے اعدادوشمار اور ٹیکنولوجی سے لیس ہوں۔
7۔ سپن کارڈ: مودی کو شکست دینے کے لیے کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’’مشن موہ بھنگ‘‘ (عوام کو سحر سے نکالنے)پر توجہ مرتکز کرے۔ کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ قوم کی توجہ نریندر مودی سے ہٹا دے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ مودی نے جس انتخاب میں بھی حصہ لیا، اس میں شکست نہیں کھائی۔ شاید بھارت نے آزادی کے بعد نہیں تو گذشتہ دو نسلوں بعد مودی کی شخصیت میں اپنا سب سے ذہین اور سب سے تیز طرار سیاست داں پا لیا ہے۔ مودی میں بھی خامیاں موجود ہیں، جن کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن وہ ہر عظیم سیاست داں کی طرح ’’سپن کے ماسٹر‘‘ ہیں یعنی دیکھی بھالی حقیقتوں کو اپنی مرضی کا رنگ دے کر عوام سے منوانے کے ماہرِ کامل ہیں۔ کانگریس کو مودی کی بجائے ان کے الفاظ اور اعمال و افعال پر توجہ مرتکز کرنا چاہیے۔ مودی پر تنقید کرنا ایسا ہی ہے جیسے ویرات کوہلی کو نیچی فل ٹاس گیندیں کروانا۔ انھیں پچھلے پندرہ برسوں میں یہ بات جان لینا چاہیے تھی! اس کے لیے کانگریس کو ’’چانکیہ‘‘ کی ضرورت ہے۔مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ جو باتیں کہنے سے ڈرتے ہیں، سماجی ذرائع ابلاغ پر وہ باتیں بلا خوف کہی جا سکتی ہیں۔ بہرحال جو بات بھی کہی جائے اسے حالات و واقعات کے فہم کے ساتھ پُر اثر انداز میں کہنا حقیقی اہمیت رکھتا ہے۔
8۔ سکور کارڈ: بی جے پی حقائق کو اپنی مرضی سے پیش کرنے اور عوام سے انھیں منوانے میں مہارت رکھتی ہے، اس کا توڑ کرنے کے لیے ایک سکور کارڈ شائع کرنا ضروری ہے جس میں بتایا جائے کہ بی جے پی نے انتخابی منشور میں سے کون کون سے وعدے پورے نہیں کیے۔ اس کے علاوہ اس کے پیش کردہ پانچ بجٹوں میں جو وعدے کیے گئے، ان کا جائزہ بھی پیش کیا جائے۔ وزیرِ اعظم مودی اور دوسرے وزراء نے اپنی تقریروں میں جو وعدے کیے ان کا جائزہ بھی مذکورہ سکور کارڈ میں لیا جانا ضروری ہے۔ یہ کام ہر چھ ماہ بعد کیا جانا چاہیے تھا ..... یعنی بی جے پی حکومت کی کارکردگی پرنظر رکھنا چاہیے تھی۔ اب بھی زیادہ دیرنہیں ہوئی۔ لوگ اور حکومتیں ماضی میں کی جانے والی باتیں بھول جایا کرتے ہیں ..... یہ حزبِ مخالف کا کام ہوتا ہے کہ انھیں ساری باتیں یاد دلائے۔
9۔ سٹریٹ کارڈ: کانگریس کونسبتاً چھوٹی سیاسی جماعتوں کے علاوہ علاقائی سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنا چاہیے لیکن ایسا تب تک وقوع پذیرنہیں ہو گا جب تک وہ طاقتور دکھائی نہیں دے گی۔ چناں چہ ضروری ہے کہ وہ طاقتور ہونے کا تاثر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کلیدی مسائل و معاملات پر بی جے پی کی مخالفت کرنے میں حزبِ مخالف کی قیادت کی جائے۔ سماجی ذرائع ابلاغ محض آغاز ہو سکتے ہیں ..... اسے جنگ کو سڑکوں اور گلیوں میں لے جانا ہو گا۔ روزمرہ کے مسائل (جو بہت زیادہ ہیں) کے خلاف واضح احتجاج کیے بغیر مومینٹم بنانا مشکل ہو گا۔ اس کے لیے میدانِ عمل میں موجود کارکنوں کو حرکت میں لانے سے فائدہ ہو گا۔ کانگریس کو اس کی بہت ضرورت ہے۔
10۔ خاموشی کارڈ: بظاہر ایسا کرنا آسان لگتا ہے لیکن انتخابی مہم کی گرما گرمی میں غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ بی جے پی دام بچھانے میں بہت ماہر ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ پیغام پر توجہ مرتکز رکھی جائے اور باقی ساری آوازوں اور تبصروں کو خاموش کر دیا جائے۔ ایک دوست نے ایک دفعہ مجھے بتایا تھا کہ برطانوی سیاست دان کس طرح سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس بات کرنے لکے دو یا تین نکات ہوتے ہیں اور وہ جواب کو گھما پھرا انھی نکات کی طرف لے آتے ہیں خواہ ان سے کوئی بھی سوال پوچھا گیا ہو۔کانگریس کی انتخابی مہم دو تین نکات پر مبنی ہونا چاہیے۔ پارٹی قیادت کو چاہیے کہ سب سے پہلے خود اس عمل کرے۔
11۔ ٹرمپ کارڈ: میرے خیال میں کانگریس کے لیے ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ یہ ہے کہ وہ بلا تاخیر اعلان کرے کہ راہول گاندھی اس کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ بھارت میں انتخابات ہمیشہ کی نسبت صدارتی انتخابات جیسے زیادہ ہو چکے ہیں۔ چہرے اور شخصیتیں اہم ہوتی ہیں۔ یہ قیادت کی ساعت ہے۔ایسا جتنی جلد ہو گا، کانگریس کے لیے اتنا اچھا ہے۔ کانگریس کا 150 نشستوں پر کامیابی حاصل کر لینا امکان سے باہر نہیں ہے لیکن اس کے لیے کانگریس کو بہت سی چیزیں درست کرنا ہوں گی۔ کانگریس کے لیے ضروری ہے کہ بی جے پی پر دباؤ بڑھائے تاکہ اس سے غلطیاں سرزد ہوں۔ اس مرحلے میں انتخابات کو کھلا تصور کیا جا رہا ہے کیوں کہ بی جے پی سے اپنے اقتدار کے پہلے 200 دنوں میں غلطیاں سرزد ہوئی تھیں یعنی اس نے نئے ٹیلنٹ کو سامنے آنے کا موقع نہیں دیا اور نظام میں تبدیلیوں کا جو وعدہ ووٹروں سے کیا تھا، وہ وعدہ وفا نہیں کیا۔ اس وقت کانگریس کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایک نئے شروع کیے جانے والے کاروبار جیسا تصور کرے اور انٹریپرینئیر جیسی بن جائے، بالکل اُسی طرح جیسے مودی نے 2014ء کے انتخابات سے پہلے کیا تھا۔
(بشکریہ ایشیا ٹائمز آن لائن؛ ترجمہ: محمد احسن بٹ)