Friday, December 14, 2018

ہم اکیسویں صدی کے اردو والے کیا پڑھیں؟

اکیسویں صدی کا پہلا ربع ختم ہونے کے آخری برس ہیں۔ یہ نئی دنیا ہے۔ ہم نوعِ انسان کی بڑی ہی خوش نصیب نسل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نئی دنیا میں جی رہے ہیں۔

بہتر ہے کہ اب ہم اردو والے زمانۂ حاضر کا ۔۔۔۔ آج اور اب کا ۔۔۔۔ ادب پڑھیں۔ جو لوگ افسانوں، ناولوں اور شاعری کے علاوہ نان فکشن پڑھ سکتے ہیں وہ آج کا نان فکشن پڑھیں۔

اس طرح ہم اردو والے اپنے آپ کو، اپنے بچوں کو اور معاشرے کو آج کا اپنا آپ، آج کے بچے اور آج کا معاشرہ بنانے میں اپنا کردار مثبت اورتعمیری انداز سے ادا کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

Wednesday, December 12, 2018

آپ ظالمانہ، استحصالی نظام تبدیل کر سکتے ہیں

سب کہتے ہیں نظام خراب ہے۔ سب کہتے ہیں نظام اتنا خراب ہے کہ اسے تبدیل کرنا ہو گا۔

نظام کیسے تبدیل ہو گا؟

علاقائی منظر نامہ:

ہم دیکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلوانے والے اور علاقائی سپر پاور بننے کےجنون میں مبتلا ملک بھارت کے عوام کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ہندو جنونی اپنے ہی ملک کے شہریوں کو گاؤ رکھشا اور نفرت و وحشت پر مبنی دوسرے لایعنی بہانوں سے سرِ عام تشدد کر کے قتل کر رہے ہیں، بھارت کا عدالتوں، پولیس، تعلیم اور صحت کا نظام امیر بھارتیوں کے لیے بہترین جب کہ عوام کے لیے بد ترین ہے۔

بھارت میں تو کمیونسٹ پارٹیاں 1947ء ہی سے کافی طاقت ور رہی ہیں۔ اس کے باوجود بھارت کا نظام، جو پاکستان سے ہزار ہا گنا ظالمانہ و عوام دشمن ہے۔ بھارت جیسے ملک میں تبدیلی نہیں آ سکی (نہ ہی اگلے ہزار سال تک آئے گی)۔

ہمارے ملک کا خراب نظام:

ہمارے ملک میں تو چند ایک حقیقی انقلابی اہلِ علم و فکر کے سوا سارے انقلابی شاعر، ادیب، صحافی، کالم ںویس، اینکر، پروفیسر و غیر پروفیسر دانشور اور سیاست دان وغیرہ جعلی تھے اور ہیں۔ اس لیے یہاں نظام تبدیل ہونا ممکن ہی نہیں۔

وہ حقیقت جس کا علم ہمارے کسی بھی پروفیسر و غیر پروفیسر دانشور، کالم نویس، اینکر، اینالسٹ، سیاست دان اور جعلی انقلابی کو پتا ہی نہیں:

ہم عوام کو یہ تلخ ترین حقیقت مان لینا چاہیے کہ یہ نظام تبدیل نہیں ہو سکتا کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد تاریخ کے ذہین ترین لوگوں نے یہ نظام چلایا۔

اب جب کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا کا سیاسی، سماجی اور معاشی نظام تبدیل کیا جا رہا ہے تو ہمارے سارے دانش وروں، اینکروں، کالم نویسوں اور جعلی انقلابیوں کو اس کا پتا ہی نہیں۔ اس کا ثبوت ان کے ٹی وی پروگرام، کالم، کتابیں وغیرہ ہیں۔

اس نظام کی ایک ماننے والا پہلو:

بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اسی نظام کے مطابق چلنے والے بہت سے ملکوں میں طبقۂ اشرافیہ ۔۔۔۔۔ بورژوا ۔۔۔۔۔ کے علاوہ عوام ۔۔۔۔ پرولتاریہ ۔۔۔۔ کے حالات بھی بہتر ہیں۔ کیسے ہیں؟ یہ ہمیں جاننے کی کوشش کرنا چاہیے اور اپنے ملک میں مثبت کام کرنا چاہیئیں۔

پاکستان میں ظالمانہ، استحصالی نظام تبدیل کرنے کا طریقہ:

سب سے آسان اور قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے خاندان، برادری، پڑوس اور حلقۂ احباب یعنی دوستوں میں موجود بیواؤں، یتیموں، غریبوں، بیماروں، معذوروں، بے روزگاروں اور کسی بھی اعتبار سے مصیبت زدہ لوگوں کی ۔۔۔۔۔ جو ہمارے ہی جیسے انسان ہیں ۔۔۔۔۔ مدد کریں۔

اپنے محلے کے دکان داروں کو مہذب انداز میں سمجھائیں کہ ملاوٹ والی اور درجہ دوم یعنی سب سٹینڈرڈ چیزیں نہ بیچیں۔

محلے کے میڈیکل سٹور والوں سے کہیں کہ جعلی اور غیر معیاری کمپنیوں کی دوائیاں نہ بیچیں۔

ہر گلی میں ایک لائیبریری بنائیں جہاں کتابوں کے ساتھ سائنسی ڈی وی ڈیز بھی ہوں، معلوماتی ڈوکیومینٹری فلموں کی ڈی وی ڈیز بھی ہوں، کھیلوں کی ڈی وی ڈیز ہوں جن میں سائنسی، علمی تھیوریز کھیل کھیل میں سکھائی گئی ہیں۔

ایک اہم کام:

ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں، بچیوں کو انتہائی غیر معیاری سرکاری و نجی سکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم دلوانے کے نام پر اپنی محنت کی ۔۔۔۔۔ یا حرام کی ۔۔۔۔۔ کمائی ضائع کرنے کی بجائے انھیں معیاری تعلیم دلوائیں۔

اس سے بھی اہم کام:

ہمارے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ اپنے بیٹے، بیٹی کو ہنر ضرور سکھائیں۔ یہ ہنر کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ہنر سیکھنا نہایت آسان ہوتا ہے۔

ہم بچوں کو ہنر سکھانا لازمی کیوں کہ رہے ہیں:

یہ عاجز اس لیے ہنر سکھانے کو لازمی قرار دے رہا ہے کہ ہنر مند لڑکے، لڑکیاں بڑے ہو کر نا صرف بے روزگاری سے بچ جاتے ہیں بل کہ اپنے گھر، محلے اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔

ہنر مند انسان مسائل پیدا کرنے یا انھیں پیچیدہ بنانے کی بجائے مسائل حل کرنے والا انسان ہوتا ہے۔ آپ اپنے گر و پیش دیکھیے۔ آپ جان لیں گے کہ ہم نے حقیقت بیان کی ہے۔

Wednesday, December 5, 2018

دنیا کے سب سے بڑے سیاسی سکینڈل اور ترقی یافتہ ملک

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی تاریخ پڑھی یا سنجیدہ فلموں اور ڈوکیومینٹری فلموں میں دیکھی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان ملکوں کی پس ماندگی کے زمانے میں وہاں بھی اسی طرح کے حالات تھے جیسے پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر معاشروں کے ہیں۔

میں نے لاہور کے تخلیقات پبلشرز کے لیے ایک کتاب World's Greatest Political Scandals کا ترجمہ "دنیا کے سب سے بڑے سیاسی سکینڈل" کے عنوان سے کیا تھا۔ اس کتاب میں  امریکا اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ترین اور جمہوریت کے سب سے پرانے مراکز کے سیاست دانوں کے جرائم کے نہایت حیران کن واقعات بیان کیے گئے ہیں۔

اسی طرح دوسرے جرائم بھی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں نا صرف ماضی میں بہت زیادہ ہوتے تھے بلکہ آج بھی ان ملکوں میں ہر طرح کے جرائم ہو رہے ہیں۔

لفظ مافیا اٹلی کی زبان ۔۔۔۔۔ اطالوی زبان ۔۔۔۔۔ سے انگریزی میں شامل ہوا ہے لیکن دنیا کی خطرناک ترین مافیا امریکا میں تھیں اور آج بھی ہیں۔

پاکستانی معاشرہ بھی دھیرے دھیرے بہتر ہو رہا ہے۔ ہم عوام خصوصاً صحافیوں، وکیلوں، ڈاکٹروں، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹوں، بینکاروں، ٹیکس سے متعلق پیشہ وروں، آئی ٹی کے ماہروں اور دوسرے پیشہ وروں کو لازماً اپنے مفادات قربان کر کے دیانت داری سے زندگی بسر کرنا ہو گی۔ اس طرح ہمارے معاشرے میں شر کے مقابل خیر طاقت ور ہو گا اور ایک وقت آئے گا کہ خیر غالب و حاوی ہو جائے گا اور شر مغلوب و مستور ہو جائے گا۔

Tuesday, December 4, 2018

ہار جیت کا مستقبل

اپنی جیت اور دوسرے کی ہار کے اصول کے مطابق زندگی بسر کرنا اب متروک ہو چکا ہے۔

موجودہ زمانے میں زندگی کی ایک بنیادی قدر یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں شریک سارے فریقوں کی جیت اور فتح ہو۔

اسے اصطلاح میں"وِن-وِن پرنسپل" کہا جاتا ہے۔

موجودہ زمانے میں دھیرے دھیرے ہر شعبے میں یہ اصول اپنایا جا رہا ہے۔

یقیناً آنے والی نسلیں پرانی نسلوں کی طرح ہر قیمت پر اپنی جیت/ فتح اور دوسرے کی ہار/ شکست کی بجائے اپنی جیت اور دوسرے کی بھی جیت کے خوب صورت اصول کے مطابق زندگی بسر کریں گی۔

تصور کیجیے کہ جب سب اپنی جیت کے ساتھ دوسرے کی بھی جیت کی نیت اور ارادے سے کام کریں گے تو معاشرے کے ہر شعبے میں کتنا سکون، کتنا امن اور کتنی خوشی ہو گی!

Sunday, December 2, 2018

کتابیں نہ پڑھنا کوئی عیب نہیں

پاکستان کے ہر علاقے کے شہری کتابیں بہت کم پڑھتے ہیں خصوصاً علمی کتابیں۔

یہ کوئی عیب بھی نہیں۔

اضطراب انگیز بات یہ ہے کہ کتابیں نہ پڑھنے والے شہریوں میں سے اکثر کسی دوسرے ذریعۂ حصولِ علم و شعور سے بھی استفادہ نہیں کرتے جیسے کہ سنجیدہ فلمیں، ڈرامے، تھیئٹر، دستاویزی/ ڈوکیومینٹری فلمیں اور یوٹیوب پر موجود سائنسی ویڈیوز۔

ریڈیو بھی ایک اہم ذریعۂ حصولِ علم ہے لیکن افسوس پی ٹی وی کی طرح ریڈیو پاکستان پر بھی بہروپیے فن کاروں نے قبضہ جما لیا اور عوام نے بھی ان کی بکواس سننا چھوڑ دیا۔

سپر پاور امریکا اور "سپر پاوری" میں اس کا سب سے وفادار ساتھی برطانیہ سمیت سارے ترقی یافتہ ملکوں میں ریڈیو آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ان ملکوں کے ریڈیو پروگرام علم اور فن کے خزانے ہوتے ہیں۔

اب اکیسویں صدی کا پہلا ربع ختم ہونے کو ہے تو پاکستان کے جینوئن شاعروں، ادیبوں اور علم و کتاب سے محبت رکھنے والے شہریوں پر لازم  ہے کہ علم اور فنونِ لطیفہ سے محبت کا کلچر زندہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں کیوں کہ آفاقی حقیقت ہے کہ شاعر، ادیب اور علم و کتاب سے محبت رکھنے والے ہی یہ فریضہ ادا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

کیا یہ واقعی انارکلی کا مقبرہ ہے؟

یہ تصویر جس عمارت کی ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انارکلی کا مقبرہ ہے۔

لاہور کے سِوِل سیکریٹری ایٹ (civil secretariat) میں اہم دستاویزات محفوظ رکھنے کی جگہ، جسے سیکریٹری ایٹ والے "محافظ خانہ" کہتے ہیں، یعنی آرکائیوز archives اسی عمارت میں ہے.

Saturday, December 1, 2018

مِلیَنیئر ریڑھی والے

ہم پاکستانیوں میں سے صرف 72  ہزار افراد نے سرکاری دستاویزات میں اپنی سالانہ آمدنی دو لاکھ روپے سے زیادہ بتائی ہے۔ باقی کروڑوں پاکستانیوں نے اپنی آمدنی دو لاکھ روپے سالانہ سے کم ظاہر کی ہے۔

جب شہریوں کی دیانت داری اور وطن سے محبت کا یہ حال ہو تو ملک کی معیشت زوالِ مسلسل کی شکار نہ ہو تو کیا ہو؟

یہ بات ہم سب نہیں تو ہم  میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ کئی شہروں اور قصبوں کے ریڑھی پر چیزیں بیچنے والے لاکھ دو لاکھ روزانہ سے زیادہ کماتے ہیں۔

لاہور میں مال پر ایک شخص ریڑھی پر دال چاول بیچتا تھا۔ اب وہ کئی دکانیں خرید چکا ہے اور اندازاً کئی لاکھ روپے روزانہ کما رہا ہے۔

لاہور ہی کے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے اردگرد موجود انتہائی گندے کھانے کے ہوٹل کینسر کے مجبور مریضوں کو کروڑوں جراثیم والا زہریلا کھانا بیچ کر 50 ہزار سے ڈیڑھ دو لاکھ روپے روزانہ کما رہے ہیں۔

شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال ہی کے سامنے نئے پل کے قریب چوک میں رکشا پر چاول بیچنے والا دو لاکھ روپے سالانہ سے کئی گنا زیادہ کما رہا ہے۔

چند مہینے پہلے ڈان اخبار میں کراچی کے ایک چائے والے پر فیچر چھپا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ ہر مہینے دس لاکھ روپے سے زیادہ کماتا ہے۔

پس ماندہ کہلانے والے جنوبی پنجاب میں میرے شہر لیہ میں ریڑھی پر پھل وغیرہ بیچنے والے بعض لوگ دسیوں لاکھ پتی یعنی مِلیَنئیر millionaire بن چکے ہیں۔

جب ہم شہری ہی اپنے وطن کو دھوکا دیں گے اور ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو ہمارا وطن کیسے ترقی کرے گا؟

افسوس تو یہ ہے کہ کوئی بھی ان وطن دشمنوں اور عوام دشمنوں کا سماجی بائیکاٹ نہیں کرتا حتیٰ کہ ٹیکس چوروں کے سارے جرائم سے واقف صحافی، کالم نویس اور اینکر بھی ان قومی مجرموں سے تعلقات بڑے فخر سے قائم کرتے ہیں۔

جنرل بپن کے پاکستان سے سیکولر سٹیٹ بننے کے مطالبے سے بھارت کا سب سے اہم راز فاش

بھارت کی فوج کے سربراہ کا مطالبہ مضحکہ خیز تو ہے ہی، اس مطالبے سے بھارتی سیاست کا سب سے اہم راز بھی فاش ہو گیا ہے۔

بھارت مقبوضہ کشمیر میں بد ترین مظالم کر رہا ہے اور پوری دنیا اسے برا اور ظالم مانتی ہے۔ اسے اپنے اس انتہائی منفی تاثر کی وجہ سے دنیا کے ترقی یافتہ غالب ملکوں سے اپنے مفادات کے حصول کے لیے غیر معمولی سفارتی محنت کرنا پڑتی ہے اور کچھ لینے کے لیے بہت کچھ دینا پڑتا ہے۔

اس وقت بھی مقبوضہ کشمیر اور دوسرے علاقوں میں جبر و استبداد اور مظالم نیز اقلیتوں کا جینا نا ممکن بنا دینے کی وجہ سے بھارت انتہائی زیادہ عالمی دباؤ میں ہے۔

بھارت کے نام نہاد منتخب وزیرِ اعظم کی بجائے بھارتی فوج کے سربراہ کا پاکستان سے اس طرح مطالبہ کرنے سے بھارت کا سب سے پوشیدہ راز فاش ہو گیا ہے اور اُس بھونڈے ناٹک کا اختتام ہو گیا ہے، جو ہمارے ملک کے اجہل اور کاذب پروفیسر و غیر پروفیسر دانش وَروں، کالم نویسوں اور اینکروں وغیرہ نے بھی رچایا ہوا تھا، یعنی یہ کہ بھارت میں سویلین سیاست دانوں کا غلبہ ہے، ملک چلانے میں بھارتی افواج اور بھارتی افواج کے جرنیل کوئی کردار ادا نہیں کرتے اور بھارتی سیاست داں آزادانہ فیصلے کرتے ہیں۔

جنرل بپن نے اپنے انٹرویو میں پاکستان سے مطالبہ کر کے یہ راز فاش کر دیا کہ حقیقت میں بھارت پر بھارتی افواج اور جرنیلوں کا راج ہے۔

سرکاری محکموں میں سیاسی مداخلت ضروری ہے

ہمارے ملک کے سرکاری محکموں کے افسروں اور ماتحتوں کی اکثریت میرٹ پامال کر کے بھرتی ہوئی ہے۔ یہ لوگ حرام کھانے والے ہیں، فرض نا شناس، کام چور اور ہڈ حرام ہیں۔

حکومت کسی بھی پارٹی اور شخصیت کی ہو، ان مجرموں نے ملک و معاشرے کو برباد کر دیا ہے۔

سیاست دان عوام کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں اور پس ماندہ ملکوں کے سرکاری محکموں کے افسروں اور ماتحتوں سے عوام کے مسائل حل کروانے کے لیے سیاست دان بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

سرکاری محکموں میں سیاست دانوں کی مداخلت کے ایشو کو اس زاویے سے دیکھنا بھی ضروری ہے۔

ہر معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی توازن ضروری ہے اور سیاست دانوں کو "مثبت" انداز سے "مداخلت" کرنا چاہیے تاکہ مسائل حل ہوں اور عوام، ملک اور معاشرے کو فائدہ ہو۔

گھریلو روزگار: وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کی تقریر کا مذاق اڑانے والے

میں حیران ہوں اپنے ہم وطنوں کی "عقل مندی" پر.

ہر شہر، ہر گاؤں کی ہر گلی میں سیورِج کے گندے پانی، کچرے نے ہر گھر کو کھربوں جراثیم سے بھر دیا ہے،  ملاوٹ والی کھانے پینے کی چیزوں اور جعلی دوائیوں نے کروڑوں پاکستانیوں کو ہلاکت خیز بیماروں میں مبتلا کیا ہوا ہے، میڈیکل سٹور، لیبارٹریاں اور کلینک گلی گلی کھل رہے ہیں مگر اکثر لوگ صحت سے محروم ہیں۔

اس قیامت جیسی صورتِ حال میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو اِن مسائل بلکہ عذابوں پر فکر مندی کا اظہار کرتا ہو اور ان سے نجات پانے کے لیے لکھتا، بولتا ہو۔

کتنے عجیب لوگ ہیں جنھوں نے ساری زندگی ان عذابوں پر ایک لفظ نہیں لکھا، بولا اور وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کی گھریلو روزگار کی بہترین تجویز کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

کتنے عجیب لوگ ہیں!

ہمارے ملک کے 90 فی صد سے زیادہ شہری ایسے ہی چھوٹے  چھوٹے کام کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

جو وگ آج خوش حال، امیر اور بہت امیر ہیں ان میں سے بھی بہت سے لوگوں کے ماں باپ نے غربت میں یا غربت کی لکیر سے نیچے چھعوٹے چھوٹے کام کر کے زندگی بسر کی۔

بہت سے پاکستانی دولت مندوں کی تو اپنی ابتدائی زندگی غربت میں یا غربت کی لکیر سے نیچے چھوٹے چھوٹے کاموں سے گزر بسر کرتے گزری ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کی تجویز کا ایک زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ مغرب اور دنیا کے دوسرے برِاعظموں کے ترقی یافتہ ملک اب آرگینک یعنی دیسی غذائی اشیا استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ چناں چہ پاکستان کے متوسط اور امیر طبقوں کے لوگ بھی دیسی غذائی اشیا میں سرمایہ کاری کریں تو ان اشیا کو ایکسپورٹ کر کے لاکھوں نہیں بلکہ ملینز آف ڈالرز کما سکتے ہیں۔

یہ بات ہمیں سب کو بتانا چاہیے۔ میں تو بہت سال سے اپنے دوستوں کو دیسی غذائی اشیا کے شعبے میں سرمایہ کاری کا مشورہ دے رہا ہوں۔

Wednesday, November 28, 2018

انگریزی گرامر سیکھنے کا سب سے آسان اور دل چسپ طریقہ

ہمارے ہاں بھی پوری دنیا کی طرح بہت سارے لوگ خصوصاً نوجوان انگریزی سیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

اس سلسلے میں انھیں گرامر سیکھنا سب سے مشکل لگتا ہے۔ وہ اس کے لیے کتابیں پڑھتے ہیں اور مختلف اکیڈمیوں میں بھاری فیس ادا کر کے پڑھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ انگریزی گرامر سیکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

گرامر کے بارے میں یہ حقیقت یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اسے کسی بھی کتاب کے پڑھنے سے یا اکیڈمی کے لیکچروں اور نوٹس سے سیکھنا بہت مشکل ہے۔

ہر زبان کی طرح انگریزی زبان کی گرامر بھی عملی مشق سے بآسانی سیکھی جا سکتی ہے یعنی یا تو انگریزی سنیں اور بولیں یا پڑھیں اور لکھیں۔

آپ کو خبروں سے دل چسپی ہے یا سپورٹس یا فلموں سے تو ٹی وی یا یوٹیوب پر انھیں دیکھیں۔ پڑھنے کا شوق ہے تو اپنی پسند کی صنف (جینر) کی کتابیں پڑھیے۔

ان کے ساتھ اپنے شہر کی نصابی کتابوں کی کسی بھی دکان سے میٹرک یا ایف اے کی انگریزی گرامر کی کتاب خرید لیں۔ یہ بھی کافی یقینی ہے کہ یہ کتاب پہلے ہی آپ کے گھر میں موجود ہو۔ بعض پبلشروں نے الگ سے بھی گرامر کے کتابچے/ بک لیٹس پبلش کیے ہوئے ہیں۔

گرامر بُک روزانہ تھوڑا تھوڑا پڑھیں۔ اپنی پسند کے ٹی وی پروگرام یا فلمیں یا یوٹیوب ویڈیوز دیکھنا لازمی ہے۔

یاد رکھیے انسان کا ذہن خود ہر چیز جذب کر لیتا ہے۔ بات آپ کے ارادے کی ہے کہ ذہن کو کس چیز پر مرتکز/ فوکسڈ رکھنا ہے۔ پریپوزیشن پر فوکس کریں گے تو ٹی وی، فلم، یو ٹیوب ویڈیوز دیکھتے ہوئے حیران ہو جائیں گے کہ آپ کا ذہن تو خودکار انداز میں پریوزیشنز کو نوٹس کر رہا ہے۔

جب ایسا ہو گا تو آپ کو سب سے پہلے بہت خوشی محسوس ہو گی اور اعتماد پیدا ہو گا جس سے مزید سیکھنے میں آسانی ہو گی۔

Tuesday, November 27, 2018

تخلیقی اور سائنسی یا فلسفیانہ رجحانات والے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ کیا کِیا جائے

جینوئن شاعر، ادیب، فن کار شعور اور احساس کے ایسے منطقوں میں جی رہے ہوتے ہیں جس کا ادراک ٹھوس اور سطحی حقائق کی دنیا کے لوگ نہیں کر سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ کے ہر دور میں حکم راں طبقے نیز عوام الناس نے یکساں طور سے اپنے شاعروں، ادیبوں، فن کاروں حتیٰ کہ ان کے ملک اور پوری نوعِ انسان کی بہتری کے لیے ایجادات کرنے والے موجدوں، سائنس دانوں کے علاوہ اعلیٰ ترین تصورات و نظریات پیش کرنے والے فلسفیوں اور مفکرین تک کو ایذا دی اور بعض کو تو ہلاک کر دیا گیا۔

مجھے یقین ہے آپ اتفاق کریں گے کہ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے گھرانے، برادری، قبیلے اور محلے پڑوس میں جس لڑکے، لڑکی میں تخلیقی اور سائنسی یا فلسفیانہ رجحانات ہوں، ان کی تضحیک و تذلیل کرنے کی بجائے حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

Monday, November 26, 2018

962 لڑکیاں: سپر پاور سے بھی آگے کی پاور امریکا میں ایسا کیوں ہے؟

امریکی اداروں کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ ہر سال 962 امریکی لڑکیوں/ عورتوں کو ان کے قریبی مرد دوست، بوائے فرینڈ/ عاشق یا خاوند قتل کر دیتے ہیں۔

حیرت ہے کہ امریکا جیسے مثالی ترقی یافتہ و تہذیب یافتہ ملک و معاشرے میں ایسا کیوں ہے؟

کیا یہ واقعی یونی ورسٹی کی سطح کے طالبِ علم ہیں؟

لاہور کی ایک بڑی اور بہت معروف پرائیویٹ یونی ورسٹی پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کے اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں قائم کردہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے نزدیک واقع ہے۔
اس یونی ورسٹی میں ہمارے معاشرے کے ہر سماجی و معاشی طبقے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ واضح بات ہے کہ دوسری یونی ورسٹیوں کے کامیاب طلبا سمیت ان طلبا میں سے بہت سارے نوجوان لڑکے لڑکیاں عملی زندگی میں سرکاری اور نجی شعبے میں کام کرتے ہوئے مستقبل کے پاکستان کو سنوارنے ۔۔۔۔۔ یا مزید برباد کرنے ۔۔۔۔۔ میں اپنے کردار ادا کریں گے۔
میں پَوزِیٹِو سوچنے اور برے سے برے شخص سے بھی اچھی توقع رکھنے والا انسان ہوں۔ ان طلبا سے بھی اچھی توقع رکھتا ہوں لیکن جس اہم ترین ایشو پر یہ نوجوان سٹوڈینٹس توجہ نہیں دے رہے،  آپ بھی اگلے پیراگراف میں اس ایشو کے بارے میں پڑھنے کے بعد تائید کریں گے کہ یہ ان کے مستقبل کے عملی کردار کے بارے میں سوال ضرور پیدا کرتا ہے۔
وہ اہم ترہن ایشو یہ ہے کہ اِن نوجوان لڑکے، لڑکیوں کی یونی ورسٹی کے بالکل سامنے اور ارد گرد انتہائی گندگی ہے۔ یونی ورسٹی کی سطح کے یہ لڑکے لڑکیاں گندگی پر ذرا بھی فکر مند نہیں۔ یہ سب جراثیم سے بھرے سیوریج کے کیچڑ نما پانی میں سے روزانہ گزرتے ہیں۔
یہ سٹوڈینٹس جن ہوٹلوں میں کھانا کھاتے، جن روڈ سائیڈ یعنی فٹ پاتھوں پر بنائے گئے چائے خانوں میں چائے پیتے، جن برگر اور چپس کی شاپس اور ٹھیلوں سے برگر اور چپس کھاتے اور جن پان، سگریٹ، جوس کی شاپس سے پان، سگریٹ، جوس لے کر کھاتے پیتے ہیں وہ انتہائی گندی ہیں اور آپ سب جانتے ہیں کہ جس جگہ گندگی ہو وہ جگہ کھربوں ہلاکت خیز جراثیم سے بھری ہوتی ہے۔
لاہور بلکہ ملک کی بڑی پرائیویٹ یونی ورسٹیوں میں سے ایک معروف پرائیویٹ یونی ورسٹی میں پڑھنے والے یہ لڑکے، لڑکیاں جن پرائیویٹ ہوسٹلوں یا ہوسٹل نما عمارتوں میں رہتے ہیں وہ بھی انھی گندگی سے بھری گلیوں میں واقع ہیں۔ ان عمارتوں/ ہوسٹلوں کے اندرونی حصے اور سارے کمرے بھی گندگی یعنی کھربوں ہلاکت خیز جراثیم سے اٹے ہوئے ہیں۔
اب آپ ہی بتائیے جن لڑکوں، لڑکیوں کو یونی ورسٹی میں پہنچ کر بھی اور سامنے واقع شوکت خانم کینسر ہسپتال کے انتہائی درد ناک حالت والے مریض (بچے، بوڑھے، جوان مریض) دیکھ کر بھی ہلاکت خیز جراثیم والے ماحول، کھانوں، چائے، برگر، چپس، جوس، پان، سگریٹ وغیرہ سے گِھن نہ آئے اور وہ موت پھیلانے والے کھانوں، چائے، برگر، جوس وغیرہ اور رہائشی کمروں سے نجات پانے کے لیے بات تک نہ کریں، معاشرے میں ان کے مستقبل کے عملی کردار سے ہم کیا توقع لگا سکتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟

 یونی ورسٹی کی سطح کے طلبا تو خود بھی اپنی خامیوں کے ذمہ دار ہیں لیکن یہ بڑی افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو گھر میں ذرا بھی تربیت نہیں دے رہے۔

ہمارے ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ پرائمری سے ہائر سیکنڈری سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی اکثریت نہایت پست ذہنیت، منفی مائنڈ سیٹ اور اخلاق باختہ، مجرمانہ ذہن کے لوگوں کی ہے۔ جو ایسے نہیں ہیں ان میں سے اکثر اساتذہ جانوروں کی طرح ہیں، بے حس ہیں۔ یہ اساتذہ خود بہتر انسان نہیں، سماجی شعور سے عاری ہیں، اس لیے طلبا کو بھی ابتدا ہی سے اخلاق و آداب کی تربیت نہیں ملتی، سماجی شعور نہیں ملتا، آج کل کے معیاراتِ زندگی نہیں سکھائے جاتے۔

میں نے ایسے پرنسپل، پروفیسر اور بیوروکریٹ دیکھے ہیں جنھیں کھانے تک کی تمیز نہیں، گفت گو اور نشست و #رخاست کا سلیقہ نہیں۔

بڑی الم ناک صورتِ حال ہے۔

پاکستانی معاشرے کا بنیادی مسئلہ سیاسی نہیں اخلاقی ہے، تہذیبی ہے۔

Sunday, November 25, 2018

کمال یہ ہے

خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے

ہَوا کی زَد پہ دِیا جلانا، جَلا کے رکھنا، کمال یہ ہے

ذرا سی لَغزِش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلُّق زمانے والے

سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے

کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے

اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے

خیال اپنا، مزاج اپنا، پسند اپنی، کمال کیا ہے؟

جو یار چاہے، وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے

کسی کی رہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر

پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے

وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے، شکست کھائے

لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے

ہزارطاقت ہو، سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے

ادب کی لذّت، دعا کی خوش بو، بسا کے رکھنا ، کمال یہ ہے

شاعر: مُبارَک صدیقی

امریکا کے سپر پاور سے بھی آگے کی پاور بننے کا راز

ویت نام میں خوف ناک واقعات اور شکست کے باوجود امریکا سپر پاور بنا۔ اب سپر پاور سے بھی زیادہ پُر قوت پاور بن چکا ہے اور اگلے لامحدود عرصے تک وہی واحد سپر پاور سے زیادہ پُر قوت پاور رہے گا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں فرقہ واریت نہیں ہے۔ وہاں کوئی فرقوں کی اساس پر زندگی بسر نہیں کرتا۔

یہ بات ہر با شعور شخص جانتا، سمجھتا ہے کہ جب ہم اپنے آپ کو کائنات کی عظیم ترین نوع یعنی نوعِ انسان سے الگ تھلگ کر کے محض اپنے فرقے تک محدود کر لیتے ہیں تو یہ کس قدر خوف ناک نتائج پیدا کرنے والا عمل ہے۔

امریکا نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ابتدا ہی سے مسیحیت کی فرقہ پرستی سے نکل گیا۔ بچوں کو فرقہ پرستی سے آزاد تعلیم دی گئی۔

وہاں دنیا کے ہر مذہب، نسل، صنف اور علاقے کے ذہین لوگوں کو بلا کر سکول سے یونی ورسٹی تک استاد کے منصب پر فائز کیا گیا تاکہ علم جہاں بھی ہے امریکی بچوں تک پہنچے۔

ناسا جیسے اہم ترین سرکاری سائنسی تحقیقی اداروں میں دنیا کے ہر مذہب، نسل، صنف اور علاقے کے سائنس داں کام کر رہے ہیں اور ان کی ذہانت سے استفادہ کر کے امریکا سپر پاور کے درجے سے بھی آگے جا چکا ہے اور دوسرے سیاروں پر آباد کاری کا کام شروع کر چکا ہے۔

فرقہ واریت سے آزاد ہونے کی وجہ سے آج امریکا ایسا ملک ہے جہاں ساری دنیا کے لوگ آباد ہونا چاہتے ہیں۔

اسی طرح جن ملکوں نے امریکا کے مانند فرقہ پرستی سے نجات پا کر پوری نوعِ انسانی کو ایک سمجھا، وہاں بھی معاشرے بہت بہتر ہیں اور پوری دنیا کے لوگ اپنے آبائی ملک چھوڑ کر وہاں آباد ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

مسافرِ وقت - ٹائم ٹریولر: مستقبل سے 2018ء میں آنے والا نوآ اور امریکا کی پہلی کم عمر ترین خاتون صدر

ایکسپریس ڈوٹ کو ڈوٹ یو کے کی 24 نومبر 2018ء کی ایک خبر کے مطابق مستقبل کی دنیا سے ایک "مسافرِ وقت" ۔۔۔۔ ٹائم ٹریولر ۔۔۔۔ نوآ Noah آج کی ۔۔۔۔ 2018ء کی ۔۔۔۔۔ دنیا میں آیا ہے۔ اس نے ماورائی اور معمول سے مختلف ۔۔۔۔ پیرانارمل ۔۔۔۔ واقعات سے متعلق یوٹیوب کے دو ویڈیو چینلوں ایپیکس ٹی وی اور پیرانارمل ایلیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی بتایا ہے کہ مستقبل میں امریکا کیسا ہو گا۔

مسافرِ وقت ۔۔۔۔۔ ٹائم ٹریولر ۔۔۔۔ نوآ نے بتایا ہے کہ امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار صدارت کے انتخابات میں کامیاب ہو کر ایک بار پھر امریکا کے صدر بن جائیں گے۔

مسافرِ وقت ۔۔۔۔ ٹائم ٹریولر ۔۔۔۔ نوآ نے امریکا کی صدارت ہی کے متعلق دوسری اہم اور دل چسپ بات یہ بتائی ہے کہ بیسویں صدی کے امریکا کے شہری حقوق کے معروف ترین مقتول راہ نما ۔۔۔۔ لیڈر ۔۔۔۔ ریورینڈ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی پوتی یولانڈا رینی کنگ 2030ء میں 21 سال کی عمر میں امریکا کی صدر منتخب ہو جائیں گی۔ وہ امریکا کی پہلی خاتون اور پہلی سب سے کم عمر صدر ہوں گی۔

یولانڈا رینی کنگ کی عمر اِس وقت 10 سال ہے۔ انھوں نے امریکا کے ایک سب سے بڑے سماجی مسئلے "ہتھیاروں پر کنٹرول" ۔۔۔۔۔ گن کنٹرول ۔۔۔۔ کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں میں شرکت کر کے سیاست کے لیے اپنے طبعی رجحان کا اظہار کیا ہے۔

یولانڈا رینی کنگ کا 21 سال کی عمر میں امریکا کی صدر منتخب ہونا اس طرح ممکن ہو گا کہ انتخابات سے پہلے کانگریس امریکا کے آئین میں ترمیم کر کے صدرارت کے لیے عمر کی حد کم کر چکی ہو گی۔

اس وقت تک امریکا کے آئین کے مطابق امریکا کی صدارت کے منصب کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والے شخص کا اِن شرائط پر پورا اترنا لازمی ہے:

1۔ ایسا شخص ۔۔۔۔۔ مرد یا عورت ۔۔۔۔ امریکا کے منصبِ صدارت کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہے جس کی عمر 35 سال یا اس سے زیادہ ہو۔

2۔ اگر وہ کسی دوسرے ملک سے آ کر امریکا کے شہری بننے والے والدین کی اولاد ہو تو لازمی ہے کہ وہ امریکا میں پیدا ہوا ہو۔

3۔ امریکا کی صدارت کے منصب کے امیدوار کے لیے لازمی ہے کہ وہ 14 سال سے مسلسل امریکا میں مقیم ہو۔

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...