خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہَوا کی زَد پہ دِیا جلانا، جَلا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ذرا سی لَغزِش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلُّق زمانے والے
سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے
اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے
خیال اپنا، مزاج اپنا، پسند اپنی، کمال کیا ہے؟
جو یار چاہے، وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے
کسی کی رہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر
پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے
وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے، شکست کھائے
لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے
ہزارطاقت ہو، سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے
ادب کی لذّت، دعا کی خوش بو، بسا کے رکھنا ، کمال یہ ہے
شاعر: مُبارَک صدیقی