لاہور کی ایک بڑی اور بہت معروف پرائیویٹ یونی ورسٹی پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کے اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں قائم کردہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے نزدیک واقع ہے۔
اس یونی ورسٹی میں ہمارے معاشرے کے ہر سماجی و معاشی طبقے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ واضح بات ہے کہ دوسری یونی ورسٹیوں کے کامیاب طلبا سمیت ان طلبا میں سے بہت سارے نوجوان لڑکے لڑکیاں عملی زندگی میں سرکاری اور نجی شعبے میں کام کرتے ہوئے مستقبل کے پاکستان کو سنوارنے ۔۔۔۔۔ یا مزید برباد کرنے ۔۔۔۔۔ میں اپنے کردار ادا کریں گے۔
میں پَوزِیٹِو سوچنے اور برے سے برے شخص سے بھی اچھی توقع رکھنے والا انسان ہوں۔ ان طلبا سے بھی اچھی توقع رکھتا ہوں لیکن جس اہم ترین ایشو پر یہ نوجوان سٹوڈینٹس توجہ نہیں دے رہے، آپ بھی اگلے پیراگراف میں اس ایشو کے بارے میں پڑھنے کے بعد تائید کریں گے کہ یہ ان کے مستقبل کے عملی کردار کے بارے میں سوال ضرور پیدا کرتا ہے۔
وہ اہم ترہن ایشو یہ ہے کہ اِن نوجوان لڑکے، لڑکیوں کی یونی ورسٹی کے بالکل سامنے اور ارد گرد انتہائی گندگی ہے۔ یونی ورسٹی کی سطح کے یہ لڑکے لڑکیاں گندگی پر ذرا بھی فکر مند نہیں۔ یہ سب جراثیم سے بھرے سیوریج کے کیچڑ نما پانی میں سے روزانہ گزرتے ہیں۔
یہ سٹوڈینٹس جن ہوٹلوں میں کھانا کھاتے، جن روڈ سائیڈ یعنی فٹ پاتھوں پر بنائے گئے چائے خانوں میں چائے پیتے، جن برگر اور چپس کی شاپس اور ٹھیلوں سے برگر اور چپس کھاتے اور جن پان، سگریٹ، جوس کی شاپس سے پان، سگریٹ، جوس لے کر کھاتے پیتے ہیں وہ انتہائی گندی ہیں اور آپ سب جانتے ہیں کہ جس جگہ گندگی ہو وہ جگہ کھربوں ہلاکت خیز جراثیم سے بھری ہوتی ہے۔
لاہور بلکہ ملک کی بڑی پرائیویٹ یونی ورسٹیوں میں سے ایک معروف پرائیویٹ یونی ورسٹی میں پڑھنے والے یہ لڑکے، لڑکیاں جن پرائیویٹ ہوسٹلوں یا ہوسٹل نما عمارتوں میں رہتے ہیں وہ بھی انھی گندگی سے بھری گلیوں میں واقع ہیں۔ ان عمارتوں/ ہوسٹلوں کے اندرونی حصے اور سارے کمرے بھی گندگی یعنی کھربوں ہلاکت خیز جراثیم سے اٹے ہوئے ہیں۔
اب آپ ہی بتائیے جن لڑکوں، لڑکیوں کو یونی ورسٹی میں پہنچ کر بھی اور سامنے واقع شوکت خانم کینسر ہسپتال کے انتہائی درد ناک حالت والے مریض (بچے، بوڑھے، جوان مریض) دیکھ کر بھی ہلاکت خیز جراثیم والے ماحول، کھانوں، چائے، برگر، چپس، جوس، پان، سگریٹ وغیرہ سے گِھن نہ آئے اور وہ موت پھیلانے والے کھانوں، چائے، برگر، جوس وغیرہ اور رہائشی کمروں سے نجات پانے کے لیے بات تک نہ کریں، معاشرے میں ان کے مستقبل کے عملی کردار سے ہم کیا توقع لگا سکتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
یونی ورسٹی کی سطح کے طلبا تو خود بھی اپنی خامیوں کے ذمہ دار ہیں لیکن یہ بڑی افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو گھر میں ذرا بھی تربیت نہیں دے رہے۔
ہمارے ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ پرائمری سے ہائر سیکنڈری سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی اکثریت نہایت پست ذہنیت، منفی مائنڈ سیٹ اور اخلاق باختہ، مجرمانہ ذہن کے لوگوں کی ہے۔ جو ایسے نہیں ہیں ان میں سے اکثر اساتذہ جانوروں کی طرح ہیں، بے حس ہیں۔ یہ اساتذہ خود بہتر انسان نہیں، سماجی شعور سے عاری ہیں، اس لیے طلبا کو بھی ابتدا ہی سے اخلاق و آداب کی تربیت نہیں ملتی، سماجی شعور نہیں ملتا، آج کل کے معیاراتِ زندگی نہیں سکھائے جاتے۔
میں نے ایسے پرنسپل، پروفیسر اور بیوروکریٹ دیکھے ہیں جنھیں کھانے تک کی تمیز نہیں، گفت گو اور نشست و #رخاست کا سلیقہ نہیں۔
بڑی الم ناک صورتِ حال ہے۔
پاکستانی معاشرے کا بنیادی مسئلہ سیاسی نہیں اخلاقی ہے، تہذیبی ہے۔