ہم پاکستانیوں میں سے صرف 72 ہزار افراد نے سرکاری دستاویزات میں اپنی سالانہ آمدنی دو لاکھ روپے سے زیادہ بتائی ہے۔ باقی کروڑوں پاکستانیوں نے اپنی آمدنی دو لاکھ روپے سالانہ سے کم ظاہر کی ہے۔
جب شہریوں کی دیانت داری اور وطن سے محبت کا یہ حال ہو تو ملک کی معیشت زوالِ مسلسل کی شکار نہ ہو تو کیا ہو؟
یہ بات ہم سب نہیں تو ہم میں سے بہت سے لوگ جانتے ہیں کہ کئی شہروں اور قصبوں کے ریڑھی پر چیزیں بیچنے والے لاکھ دو لاکھ روزانہ سے زیادہ کماتے ہیں۔
لاہور میں مال پر ایک شخص ریڑھی پر دال چاول بیچتا تھا۔ اب وہ کئی دکانیں خرید چکا ہے اور اندازاً کئی لاکھ روپے روزانہ کما رہا ہے۔
لاہور ہی کے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے اردگرد موجود انتہائی گندے کھانے کے ہوٹل کینسر کے مجبور مریضوں کو کروڑوں جراثیم والا زہریلا کھانا بیچ کر 50 ہزار سے ڈیڑھ دو لاکھ روپے روزانہ کما رہے ہیں۔
شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال ہی کے سامنے نئے پل کے قریب چوک میں رکشا پر چاول بیچنے والا دو لاکھ روپے سالانہ سے کئی گنا زیادہ کما رہا ہے۔
چند مہینے پہلے ڈان اخبار میں کراچی کے ایک چائے والے پر فیچر چھپا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ ہر مہینے دس لاکھ روپے سے زیادہ کماتا ہے۔
پس ماندہ کہلانے والے جنوبی پنجاب میں میرے شہر لیہ میں ریڑھی پر پھل وغیرہ بیچنے والے بعض لوگ دسیوں لاکھ پتی یعنی مِلیَنئیر millionaire بن چکے ہیں۔
جب ہم شہری ہی اپنے وطن کو دھوکا دیں گے اور ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو ہمارا وطن کیسے ترقی کرے گا؟
افسوس تو یہ ہے کہ کوئی بھی ان وطن دشمنوں اور عوام دشمنوں کا سماجی بائیکاٹ نہیں کرتا حتیٰ کہ ٹیکس چوروں کے سارے جرائم سے واقف صحافی، کالم نویس اور اینکر بھی ان قومی مجرموں سے تعلقات بڑے فخر سے قائم کرتے ہیں۔