میں حیران ہوں اپنے ہم وطنوں کی "عقل مندی" پر.
ہر شہر، ہر گاؤں کی ہر گلی میں سیورِج کے گندے پانی، کچرے نے ہر گھر کو کھربوں جراثیم سے بھر دیا ہے، ملاوٹ والی کھانے پینے کی چیزوں اور جعلی دوائیوں نے کروڑوں پاکستانیوں کو ہلاکت خیز بیماروں میں مبتلا کیا ہوا ہے، میڈیکل سٹور، لیبارٹریاں اور کلینک گلی گلی کھل رہے ہیں مگر اکثر لوگ صحت سے محروم ہیں۔
اس قیامت جیسی صورتِ حال میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو اِن مسائل بلکہ عذابوں پر فکر مندی کا اظہار کرتا ہو اور ان سے نجات پانے کے لیے لکھتا، بولتا ہو۔
کتنے عجیب لوگ ہیں جنھوں نے ساری زندگی ان عذابوں پر ایک لفظ نہیں لکھا، بولا اور وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کی گھریلو روزگار کی بہترین تجویز کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
کتنے عجیب لوگ ہیں!
ہمارے ملک کے 90 فی صد سے زیادہ شہری ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جو وگ آج خوش حال، امیر اور بہت امیر ہیں ان میں سے بھی بہت سے لوگوں کے ماں باپ نے غربت میں یا غربت کی لکیر سے نیچے چھعوٹے چھوٹے کام کر کے زندگی بسر کی۔
بہت سے پاکستانی دولت مندوں کی تو اپنی ابتدائی زندگی غربت میں یا غربت کی لکیر سے نیچے چھوٹے چھوٹے کاموں سے گزر بسر کرتے گزری ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کی تجویز کا ایک زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ مغرب اور دنیا کے دوسرے برِاعظموں کے ترقی یافتہ ملک اب آرگینک یعنی دیسی غذائی اشیا استعمال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ چناں چہ پاکستان کے متوسط اور امیر طبقوں کے لوگ بھی دیسی غذائی اشیا میں سرمایہ کاری کریں تو ان اشیا کو ایکسپورٹ کر کے لاکھوں نہیں بلکہ ملینز آف ڈالرز کما سکتے ہیں۔
یہ بات ہمیں سب کو بتانا چاہیے۔ میں تو بہت سال سے اپنے دوستوں کو دیسی غذائی اشیا کے شعبے میں سرمایہ کاری کا مشورہ دے رہا ہوں۔