سب کہتے ہیں نظام خراب ہے۔ سب کہتے ہیں نظام اتنا خراب ہے کہ اسے تبدیل کرنا ہو گا۔
نظام کیسے تبدیل ہو گا؟
علاقائی منظر نامہ:
ہم دیکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کہلوانے والے اور علاقائی سپر پاور بننے کےجنون میں مبتلا ملک بھارت کے عوام کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ہندو جنونی اپنے ہی ملک کے شہریوں کو گاؤ رکھشا اور نفرت و وحشت پر مبنی دوسرے لایعنی بہانوں سے سرِ عام تشدد کر کے قتل کر رہے ہیں، بھارت کا عدالتوں، پولیس، تعلیم اور صحت کا نظام امیر بھارتیوں کے لیے بہترین جب کہ عوام کے لیے بد ترین ہے۔
بھارت میں تو کمیونسٹ پارٹیاں 1947ء ہی سے کافی طاقت ور رہی ہیں۔ اس کے باوجود بھارت کا نظام، جو پاکستان سے ہزار ہا گنا ظالمانہ و عوام دشمن ہے۔ بھارت جیسے ملک میں تبدیلی نہیں آ سکی (نہ ہی اگلے ہزار سال تک آئے گی)۔
ہمارے ملک کا خراب نظام:
ہمارے ملک میں تو چند ایک حقیقی انقلابی اہلِ علم و فکر کے سوا سارے انقلابی شاعر، ادیب، صحافی، کالم ںویس، اینکر، پروفیسر و غیر پروفیسر دانشور اور سیاست دان وغیرہ جعلی تھے اور ہیں۔ اس لیے یہاں نظام تبدیل ہونا ممکن ہی نہیں۔
وہ حقیقت جس کا علم ہمارے کسی بھی پروفیسر و غیر پروفیسر دانشور، کالم نویس، اینکر، اینالسٹ، سیاست دان اور جعلی انقلابی کو پتا ہی نہیں:
ہم عوام کو یہ تلخ ترین حقیقت مان لینا چاہیے کہ یہ نظام تبدیل نہیں ہو سکتا کیوں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد تاریخ کے ذہین ترین لوگوں نے یہ نظام چلایا۔
اب جب کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا کا سیاسی، سماجی اور معاشی نظام تبدیل کیا جا رہا ہے تو ہمارے سارے دانش وروں، اینکروں، کالم نویسوں اور جعلی انقلابیوں کو اس کا پتا ہی نہیں۔ اس کا ثبوت ان کے ٹی وی پروگرام، کالم، کتابیں وغیرہ ہیں۔
اس نظام کی ایک ماننے والا پہلو:
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اسی نظام کے مطابق چلنے والے بہت سے ملکوں میں طبقۂ اشرافیہ ۔۔۔۔۔ بورژوا ۔۔۔۔۔ کے علاوہ عوام ۔۔۔۔ پرولتاریہ ۔۔۔۔ کے حالات بھی بہتر ہیں۔ کیسے ہیں؟ یہ ہمیں جاننے کی کوشش کرنا چاہیے اور اپنے ملک میں مثبت کام کرنا چاہیئیں۔
پاکستان میں ظالمانہ، استحصالی نظام تبدیل کرنے کا طریقہ:
سب سے آسان اور قابلِ عمل طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے خاندان، برادری، پڑوس اور حلقۂ احباب یعنی دوستوں میں موجود بیواؤں، یتیموں، غریبوں، بیماروں، معذوروں، بے روزگاروں اور کسی بھی اعتبار سے مصیبت زدہ لوگوں کی ۔۔۔۔۔ جو ہمارے ہی جیسے انسان ہیں ۔۔۔۔۔ مدد کریں۔
اپنے محلے کے دکان داروں کو مہذب انداز میں سمجھائیں کہ ملاوٹ والی اور درجہ دوم یعنی سب سٹینڈرڈ چیزیں نہ بیچیں۔
محلے کے میڈیکل سٹور والوں سے کہیں کہ جعلی اور غیر معیاری کمپنیوں کی دوائیاں نہ بیچیں۔
ہر گلی میں ایک لائیبریری بنائیں جہاں کتابوں کے ساتھ سائنسی ڈی وی ڈیز بھی ہوں، معلوماتی ڈوکیومینٹری فلموں کی ڈی وی ڈیز بھی ہوں، کھیلوں کی ڈی وی ڈیز ہوں جن میں سائنسی، علمی تھیوریز کھیل کھیل میں سکھائی گئی ہیں۔
ایک اہم کام:
ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں، بچیوں کو انتہائی غیر معیاری سرکاری و نجی سکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں تعلیم دلوانے کے نام پر اپنی محنت کی ۔۔۔۔۔ یا حرام کی ۔۔۔۔۔ کمائی ضائع کرنے کی بجائے انھیں معیاری تعلیم دلوائیں۔
اس سے بھی اہم کام:
ہمارے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ اپنے بیٹے، بیٹی کو ہنر ضرور سکھائیں۔ یہ ہنر کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ہنر سیکھنا نہایت آسان ہوتا ہے۔
ہم بچوں کو ہنر سکھانا لازمی کیوں کہ رہے ہیں:
یہ عاجز اس لیے ہنر سکھانے کو لازمی قرار دے رہا ہے کہ ہنر مند لڑکے، لڑکیاں بڑے ہو کر نا صرف بے روزگاری سے بچ جاتے ہیں بل کہ اپنے گھر، محلے اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔
ہنر مند انسان مسائل پیدا کرنے یا انھیں پیچیدہ بنانے کی بجائے مسائل حل کرنے والا انسان ہوتا ہے۔ آپ اپنے گر و پیش دیکھیے۔ آپ جان لیں گے کہ ہم نے حقیقت بیان کی ہے۔