پاکستان کے ہر علاقے کے شہری کتابیں بہت کم پڑھتے ہیں خصوصاً علمی کتابیں۔
یہ کوئی عیب بھی نہیں۔
اضطراب انگیز بات یہ ہے کہ کتابیں نہ پڑھنے والے شہریوں میں سے اکثر کسی دوسرے ذریعۂ حصولِ علم و شعور سے بھی استفادہ نہیں کرتے جیسے کہ سنجیدہ فلمیں، ڈرامے، تھیئٹر، دستاویزی/ ڈوکیومینٹری فلمیں اور یوٹیوب پر موجود سائنسی ویڈیوز۔
ریڈیو بھی ایک اہم ذریعۂ حصولِ علم ہے لیکن افسوس پی ٹی وی کی طرح ریڈیو پاکستان پر بھی بہروپیے فن کاروں نے قبضہ جما لیا اور عوام نے بھی ان کی بکواس سننا چھوڑ دیا۔
سپر پاور امریکا اور "سپر پاوری" میں اس کا سب سے وفادار ساتھی برطانیہ سمیت سارے ترقی یافتہ ملکوں میں ریڈیو آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ ان ملکوں کے ریڈیو پروگرام علم اور فن کے خزانے ہوتے ہیں۔
اب اکیسویں صدی کا پہلا ربع ختم ہونے کو ہے تو پاکستان کے جینوئن شاعروں، ادیبوں اور علم و کتاب سے محبت رکھنے والے شہریوں پر لازم ہے کہ علم اور فنونِ لطیفہ سے محبت کا کلچر زندہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں کیوں کہ آفاقی حقیقت ہے کہ شاعر، ادیب اور علم و کتاب سے محبت رکھنے والے ہی یہ فریضہ ادا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔