Wednesday, November 28, 2018

انگریزی گرامر سیکھنے کا سب سے آسان اور دل چسپ طریقہ

ہمارے ہاں بھی پوری دنیا کی طرح بہت سارے لوگ خصوصاً نوجوان انگریزی سیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

اس سلسلے میں انھیں گرامر سیکھنا سب سے مشکل لگتا ہے۔ وہ اس کے لیے کتابیں پڑھتے ہیں اور مختلف اکیڈمیوں میں بھاری فیس ادا کر کے پڑھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ انگریزی گرامر سیکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

گرامر کے بارے میں یہ حقیقت یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اسے کسی بھی کتاب کے پڑھنے سے یا اکیڈمی کے لیکچروں اور نوٹس سے سیکھنا بہت مشکل ہے۔

ہر زبان کی طرح انگریزی زبان کی گرامر بھی عملی مشق سے بآسانی سیکھی جا سکتی ہے یعنی یا تو انگریزی سنیں اور بولیں یا پڑھیں اور لکھیں۔

آپ کو خبروں سے دل چسپی ہے یا سپورٹس یا فلموں سے تو ٹی وی یا یوٹیوب پر انھیں دیکھیں۔ پڑھنے کا شوق ہے تو اپنی پسند کی صنف (جینر) کی کتابیں پڑھیے۔

ان کے ساتھ اپنے شہر کی نصابی کتابوں کی کسی بھی دکان سے میٹرک یا ایف اے کی انگریزی گرامر کی کتاب خرید لیں۔ یہ بھی کافی یقینی ہے کہ یہ کتاب پہلے ہی آپ کے گھر میں موجود ہو۔ بعض پبلشروں نے الگ سے بھی گرامر کے کتابچے/ بک لیٹس پبلش کیے ہوئے ہیں۔

گرامر بُک روزانہ تھوڑا تھوڑا پڑھیں۔ اپنی پسند کے ٹی وی پروگرام یا فلمیں یا یوٹیوب ویڈیوز دیکھنا لازمی ہے۔

یاد رکھیے انسان کا ذہن خود ہر چیز جذب کر لیتا ہے۔ بات آپ کے ارادے کی ہے کہ ذہن کو کس چیز پر مرتکز/ فوکسڈ رکھنا ہے۔ پریپوزیشن پر فوکس کریں گے تو ٹی وی، فلم، یو ٹیوب ویڈیوز دیکھتے ہوئے حیران ہو جائیں گے کہ آپ کا ذہن تو خودکار انداز میں پریوزیشنز کو نوٹس کر رہا ہے۔

جب ایسا ہو گا تو آپ کو سب سے پہلے بہت خوشی محسوس ہو گی اور اعتماد پیدا ہو گا جس سے مزید سیکھنے میں آسانی ہو گی۔

Tuesday, November 27, 2018

تخلیقی اور سائنسی یا فلسفیانہ رجحانات والے لڑکے لڑکیوں کے ساتھ کیا کِیا جائے

جینوئن شاعر، ادیب، فن کار شعور اور احساس کے ایسے منطقوں میں جی رہے ہوتے ہیں جس کا ادراک ٹھوس اور سطحی حقائق کی دنیا کے لوگ نہیں کر سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ کے ہر دور میں حکم راں طبقے نیز عوام الناس نے یکساں طور سے اپنے شاعروں، ادیبوں، فن کاروں حتیٰ کہ ان کے ملک اور پوری نوعِ انسان کی بہتری کے لیے ایجادات کرنے والے موجدوں، سائنس دانوں کے علاوہ اعلیٰ ترین تصورات و نظریات پیش کرنے والے فلسفیوں اور مفکرین تک کو ایذا دی اور بعض کو تو ہلاک کر دیا گیا۔

مجھے یقین ہے آپ اتفاق کریں گے کہ ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے گھرانے، برادری، قبیلے اور محلے پڑوس میں جس لڑکے، لڑکی میں تخلیقی اور سائنسی یا فلسفیانہ رجحانات ہوں، ان کی تضحیک و تذلیل کرنے کی بجائے حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

Monday, November 26, 2018

962 لڑکیاں: سپر پاور سے بھی آگے کی پاور امریکا میں ایسا کیوں ہے؟

امریکی اداروں کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار سے پتا چلا ہے کہ ہر سال 962 امریکی لڑکیوں/ عورتوں کو ان کے قریبی مرد دوست، بوائے فرینڈ/ عاشق یا خاوند قتل کر دیتے ہیں۔

حیرت ہے کہ امریکا جیسے مثالی ترقی یافتہ و تہذیب یافتہ ملک و معاشرے میں ایسا کیوں ہے؟

کیا یہ واقعی یونی ورسٹی کی سطح کے طالبِ علم ہیں؟

لاہور کی ایک بڑی اور بہت معروف پرائیویٹ یونی ورسٹی پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کے اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں قائم کردہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کے نزدیک واقع ہے۔
اس یونی ورسٹی میں ہمارے معاشرے کے ہر سماجی و معاشی طبقے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ واضح بات ہے کہ دوسری یونی ورسٹیوں کے کامیاب طلبا سمیت ان طلبا میں سے بہت سارے نوجوان لڑکے لڑکیاں عملی زندگی میں سرکاری اور نجی شعبے میں کام کرتے ہوئے مستقبل کے پاکستان کو سنوارنے ۔۔۔۔۔ یا مزید برباد کرنے ۔۔۔۔۔ میں اپنے کردار ادا کریں گے۔
میں پَوزِیٹِو سوچنے اور برے سے برے شخص سے بھی اچھی توقع رکھنے والا انسان ہوں۔ ان طلبا سے بھی اچھی توقع رکھتا ہوں لیکن جس اہم ترین ایشو پر یہ نوجوان سٹوڈینٹس توجہ نہیں دے رہے،  آپ بھی اگلے پیراگراف میں اس ایشو کے بارے میں پڑھنے کے بعد تائید کریں گے کہ یہ ان کے مستقبل کے عملی کردار کے بارے میں سوال ضرور پیدا کرتا ہے۔
وہ اہم ترہن ایشو یہ ہے کہ اِن نوجوان لڑکے، لڑکیوں کی یونی ورسٹی کے بالکل سامنے اور ارد گرد انتہائی گندگی ہے۔ یونی ورسٹی کی سطح کے یہ لڑکے لڑکیاں گندگی پر ذرا بھی فکر مند نہیں۔ یہ سب جراثیم سے بھرے سیوریج کے کیچڑ نما پانی میں سے روزانہ گزرتے ہیں۔
یہ سٹوڈینٹس جن ہوٹلوں میں کھانا کھاتے، جن روڈ سائیڈ یعنی فٹ پاتھوں پر بنائے گئے چائے خانوں میں چائے پیتے، جن برگر اور چپس کی شاپس اور ٹھیلوں سے برگر اور چپس کھاتے اور جن پان، سگریٹ، جوس کی شاپس سے پان، سگریٹ، جوس لے کر کھاتے پیتے ہیں وہ انتہائی گندی ہیں اور آپ سب جانتے ہیں کہ جس جگہ گندگی ہو وہ جگہ کھربوں ہلاکت خیز جراثیم سے بھری ہوتی ہے۔
لاہور بلکہ ملک کی بڑی پرائیویٹ یونی ورسٹیوں میں سے ایک معروف پرائیویٹ یونی ورسٹی میں پڑھنے والے یہ لڑکے، لڑکیاں جن پرائیویٹ ہوسٹلوں یا ہوسٹل نما عمارتوں میں رہتے ہیں وہ بھی انھی گندگی سے بھری گلیوں میں واقع ہیں۔ ان عمارتوں/ ہوسٹلوں کے اندرونی حصے اور سارے کمرے بھی گندگی یعنی کھربوں ہلاکت خیز جراثیم سے اٹے ہوئے ہیں۔
اب آپ ہی بتائیے جن لڑکوں، لڑکیوں کو یونی ورسٹی میں پہنچ کر بھی اور سامنے واقع شوکت خانم کینسر ہسپتال کے انتہائی درد ناک حالت والے مریض (بچے، بوڑھے، جوان مریض) دیکھ کر بھی ہلاکت خیز جراثیم والے ماحول، کھانوں، چائے، برگر، چپس، جوس، پان، سگریٹ وغیرہ سے گِھن نہ آئے اور وہ موت پھیلانے والے کھانوں، چائے، برگر، جوس وغیرہ اور رہائشی کمروں سے نجات پانے کے لیے بات تک نہ کریں، معاشرے میں ان کے مستقبل کے عملی کردار سے ہم کیا توقع لگا سکتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟

 یونی ورسٹی کی سطح کے طلبا تو خود بھی اپنی خامیوں کے ذمہ دار ہیں لیکن یہ بڑی افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہم اپنے بچوں کو گھر میں ذرا بھی تربیت نہیں دے رہے۔

ہمارے ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ پرائمری سے ہائر سیکنڈری سکولوں اور کالجوں میں اساتذہ کی اکثریت نہایت پست ذہنیت، منفی مائنڈ سیٹ اور اخلاق باختہ، مجرمانہ ذہن کے لوگوں کی ہے۔ جو ایسے نہیں ہیں ان میں سے اکثر اساتذہ جانوروں کی طرح ہیں، بے حس ہیں۔ یہ اساتذہ خود بہتر انسان نہیں، سماجی شعور سے عاری ہیں، اس لیے طلبا کو بھی ابتدا ہی سے اخلاق و آداب کی تربیت نہیں ملتی، سماجی شعور نہیں ملتا، آج کل کے معیاراتِ زندگی نہیں سکھائے جاتے۔

میں نے ایسے پرنسپل، پروفیسر اور بیوروکریٹ دیکھے ہیں جنھیں کھانے تک کی تمیز نہیں، گفت گو اور نشست و #رخاست کا سلیقہ نہیں۔

بڑی الم ناک صورتِ حال ہے۔

پاکستانی معاشرے کا بنیادی مسئلہ سیاسی نہیں اخلاقی ہے، تہذیبی ہے۔

Sunday, November 25, 2018

کمال یہ ہے

خزاں کی رُت میں گلاب لہجہ بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے

ہَوا کی زَد پہ دِیا جلانا، جَلا کے رکھنا، کمال یہ ہے

ذرا سی لَغزِش پہ توڑ دیتے ہیں سب تعلُّق زمانے والے

سو ایسے ویسوں سے بھی تعلق بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے

کسی کو دینا یہ مشورہ کہ وہ دکھ بچھڑنے کا بھول جائے

اور ایسے لمحے میں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا، کمال یہ ہے

خیال اپنا، مزاج اپنا، پسند اپنی، کمال کیا ہے؟

جو یار چاہے، وہ حال اپنا بنا کے رکھنا، کمال یہ ہے

کسی کی رہ سے خدا کی خاطر، اٹھا کے کانٹے، ہٹا کے پتھر

پھر اس کے آگے نگاہ اپنی جھکا کے رکھنا، کمال یہ ہے

وہ جس کو دیکھے تو دکھ کا لشکر بھی لڑکھڑائے، شکست کھائے

لبوں پہ اپنے وہ مسکراہٹ سجا کے رکھنا، کمال یہ ہے

ہزارطاقت ہو، سو دلیلیں ہوں پھر بھی لہجے میں عاجزی سے

ادب کی لذّت، دعا کی خوش بو، بسا کے رکھنا ، کمال یہ ہے

شاعر: مُبارَک صدیقی

امریکا کے سپر پاور سے بھی آگے کی پاور بننے کا راز

ویت نام میں خوف ناک واقعات اور شکست کے باوجود امریکا سپر پاور بنا۔ اب سپر پاور سے بھی زیادہ پُر قوت پاور بن چکا ہے اور اگلے لامحدود عرصے تک وہی واحد سپر پاور سے زیادہ پُر قوت پاور رہے گا۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں فرقہ واریت نہیں ہے۔ وہاں کوئی فرقوں کی اساس پر زندگی بسر نہیں کرتا۔

یہ بات ہر با شعور شخص جانتا، سمجھتا ہے کہ جب ہم اپنے آپ کو کائنات کی عظیم ترین نوع یعنی نوعِ انسان سے الگ تھلگ کر کے محض اپنے فرقے تک محدود کر لیتے ہیں تو یہ کس قدر خوف ناک نتائج پیدا کرنے والا عمل ہے۔

امریکا نے ایسا نہیں کیا۔ وہ ابتدا ہی سے مسیحیت کی فرقہ پرستی سے نکل گیا۔ بچوں کو فرقہ پرستی سے آزاد تعلیم دی گئی۔

وہاں دنیا کے ہر مذہب، نسل، صنف اور علاقے کے ذہین لوگوں کو بلا کر سکول سے یونی ورسٹی تک استاد کے منصب پر فائز کیا گیا تاکہ علم جہاں بھی ہے امریکی بچوں تک پہنچے۔

ناسا جیسے اہم ترین سرکاری سائنسی تحقیقی اداروں میں دنیا کے ہر مذہب، نسل، صنف اور علاقے کے سائنس داں کام کر رہے ہیں اور ان کی ذہانت سے استفادہ کر کے امریکا سپر پاور کے درجے سے بھی آگے جا چکا ہے اور دوسرے سیاروں پر آباد کاری کا کام شروع کر چکا ہے۔

فرقہ واریت سے آزاد ہونے کی وجہ سے آج امریکا ایسا ملک ہے جہاں ساری دنیا کے لوگ آباد ہونا چاہتے ہیں۔

اسی طرح جن ملکوں نے امریکا کے مانند فرقہ پرستی سے نجات پا کر پوری نوعِ انسانی کو ایک سمجھا، وہاں بھی معاشرے بہت بہتر ہیں اور پوری دنیا کے لوگ اپنے آبائی ملک چھوڑ کر وہاں آباد ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

مسافرِ وقت - ٹائم ٹریولر: مستقبل سے 2018ء میں آنے والا نوآ اور امریکا کی پہلی کم عمر ترین خاتون صدر

ایکسپریس ڈوٹ کو ڈوٹ یو کے کی 24 نومبر 2018ء کی ایک خبر کے مطابق مستقبل کی دنیا سے ایک "مسافرِ وقت" ۔۔۔۔ ٹائم ٹریولر ۔۔۔۔ نوآ Noah آج کی ۔۔۔۔ 2018ء کی ۔۔۔۔۔ دنیا میں آیا ہے۔ اس نے ماورائی اور معمول سے مختلف ۔۔۔۔ پیرانارمل ۔۔۔۔ واقعات سے متعلق یوٹیوب کے دو ویڈیو چینلوں ایپیکس ٹی وی اور پیرانارمل ایلیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی بتایا ہے کہ مستقبل میں امریکا کیسا ہو گا۔

مسافرِ وقت ۔۔۔۔۔ ٹائم ٹریولر ۔۔۔۔ نوآ نے بتایا ہے کہ امریکا کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار صدارت کے انتخابات میں کامیاب ہو کر ایک بار پھر امریکا کے صدر بن جائیں گے۔

مسافرِ وقت ۔۔۔۔ ٹائم ٹریولر ۔۔۔۔ نوآ نے امریکا کی صدارت ہی کے متعلق دوسری اہم اور دل چسپ بات یہ بتائی ہے کہ بیسویں صدی کے امریکا کے شہری حقوق کے معروف ترین مقتول راہ نما ۔۔۔۔ لیڈر ۔۔۔۔ ریورینڈ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی پوتی یولانڈا رینی کنگ 2030ء میں 21 سال کی عمر میں امریکا کی صدر منتخب ہو جائیں گی۔ وہ امریکا کی پہلی خاتون اور پہلی سب سے کم عمر صدر ہوں گی۔

یولانڈا رینی کنگ کی عمر اِس وقت 10 سال ہے۔ انھوں نے امریکا کے ایک سب سے بڑے سماجی مسئلے "ہتھیاروں پر کنٹرول" ۔۔۔۔۔ گن کنٹرول ۔۔۔۔ کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں میں شرکت کر کے سیاست کے لیے اپنے طبعی رجحان کا اظہار کیا ہے۔

یولانڈا رینی کنگ کا 21 سال کی عمر میں امریکا کی صدر منتخب ہونا اس طرح ممکن ہو گا کہ انتخابات سے پہلے کانگریس امریکا کے آئین میں ترمیم کر کے صدرارت کے لیے عمر کی حد کم کر چکی ہو گی۔

اس وقت تک امریکا کے آئین کے مطابق امریکا کی صدارت کے منصب کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والے شخص کا اِن شرائط پر پورا اترنا لازمی ہے:

1۔ ایسا شخص ۔۔۔۔۔ مرد یا عورت ۔۔۔۔ امریکا کے منصبِ صدارت کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل ہے جس کی عمر 35 سال یا اس سے زیادہ ہو۔

2۔ اگر وہ کسی دوسرے ملک سے آ کر امریکا کے شہری بننے والے والدین کی اولاد ہو تو لازمی ہے کہ وہ امریکا میں پیدا ہوا ہو۔

3۔ امریکا کی صدارت کے منصب کے امیدوار کے لیے لازمی ہے کہ وہ 14 سال سے مسلسل امریکا میں مقیم ہو۔

Saturday, November 24, 2018

ہم حرام خوروں کا سماجی بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟

آج میں نے لاہور میں ایک ریڑھی والے کے ساتھ اس کا دو تین سالہ بیٹا دیکھا جو کینسر کا مریض ہے اور جس کا علاج وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کے اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں قائم کردہ"شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال" میں ہو رہا ہے۔

میں حیرت اور کرب سے سوچ رہا ہوں کہ انتہائی زہریلی، جراثیم سے بھری کھانے پینے کی چیزیں اور جعلی دوائیاں بیچنے والے مجرموں کو انسانیت دشمن جرائم کر کے بچے بچے کو کینسر اور دوسری ہلاکت انگیز بیماریاں پھیلانے کے مواقع دینے والے حرام خوروں، رشوت خوروں اور شیطانوں کا سماجی بائیکاٹ ہم سب کیوں نہیں کرتے؟

مینٹر کی تلاش: نوجوان نسل کو مزید بے وقوف بنانے اورلُوٹنے کا نیا حربہ

آج کل بہت سارے لوگ پیسہ کمانے کا ایک نیا حربہ استعمال کر رپے ہیں۔

وہ نوجوانوں کو مزید بے وقوف بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو کسی کو "مینٹر" بناؤ۔ پھر وہ مینٹر انھیں خوب لُوٹتا ہے۔

ایک تو دولت مندوں کی ہوسِ زر کی تکمیل کے لیے بنایا گیا ہمارا نظامِ تعلیم طلبا کے ذہن مسخ و معذور کر رہا ہے اوپر سے ان لوگوں نے ان کے ذہن مزید سُن کر دیے ہیں۔

ابھی فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھی جس میں کہا گیا تھا کہ "آپ کسے اپنا مینٹر بنانا چاہتے ہیں اور کس موضوع پر راہ نمائی چاہتے ہیں، کومینٹس میں لکھیں۔"

دوستو آپ کے اس عاجز دوست نے جو لکھا آپ کی بصیرت کی نذر کر رہا ہوں:

"بھائی جو لڑکا، لڑکی/ آدمی، عورت ٹین ایج میں یا ٹین ایج کے بعد کی عمر میں سمجھ دار نہیں ہو سکا، با شعور نہیں ہو سکا وہ مینٹر کے انتخاب کا فیصلہ کیسے درست کر سکتا ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟"

آئیے دعا کریں کہ خدا ہماری نوجوان نسل کو نت نئے حربوں سے پیسہ لوٹنے والوں سے محفوظ رکھے۔

Friday, November 23, 2018

تم مجھے چھوڑ گئے ہو یہ تمہاری مرضی

تم مجھے چھوڑ گئے ہو یہ تمہاری مرضی

میں تمہیں دل سے نکالوں، یہ نہیں ہو سکتا

شاعر: مسود منور، ناروے

ہم لوگ تِرے شہر میں خُوش بُو کی طرح ہیں

ہم لوگ تِرے شہر میں خُوش بُو کی طرح ہیں

محسوس تو ہوتے ہیں دِکھائی نہیں دیتے

یہ معروف شعر تسنیم کوثر کا ہے۔

Sunday, November 18, 2018

مستور شدت پسند

دوسری عالمی جنگ کے بعد نیشن سٹیٹس زیادہ بنائی گئیں۔ نیشن سٹیٹس پر استوار عالمی نظام بنایا گیا۔

سوویت روس اور کمیونسٹ ملکوں کا نظام مختلف تھا۔ دونوں نظاموں کی کش مکش میں پوری دنیا کے پس ماندہ معاشروں کو بالخصوص وحشی و غیر مہذب رکھا گیا، ہر طرح کی کرپشن عام کی گئی تاکہ اپنے مقاصد کے لیے انسانیت سے محروم آلۂ کار آسانی سے کثیر تعداد میں ملیں ۔۔۔۔۔ افسوس ان میں اساتذہ، صحافی، پبلشر، ادیب، شاعر، مصور، فلمساز و ہدایت کاری جیسے انسانیت و اخلاق کے ستون شعبوں کے لوگ بھی تھے۔ اس خطے کی ساری نیشن سٹیٹس کے معاشروں کی طرح ہمارا معاشرہ بھی ایسا ہی ہے ۔۔۔۔ وحشی، انسانیت سے عاری۔

ہم خود بھی مستور شدت پسند ہیں۔ شدت پسند ہمیشہ دوسروں کو برا مانتا ہے۔ انھیں رد کرتا ہے۔ انھیں فنا کرنا فرض سمجھتا ہے۔ اپنی اصلاح کا تو سوچتا تک نہیں۔

Thursday, November 15, 2018

شعور کی غربت

افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا موجودہ غالب نظام صرف امیروں اور زیادہ سے زیادہ قیمت والی چیزیں خریدنے والے لوگوں کے لیے زیادہ دوستانہ نظام ہے۔

ہمارے جیسے پس ماندہ معاشروں کے اکثر لوگ پیسوں کی غربت کے شکار تو ہیں ہی "شعور کی غربت" کے شکار بھی ہیں، جس کی وجہ سے سڑک جیسی انتہائی خطرناک جگہ پر بھی اپنی جان جیسی دنیا کی سب سے قیمتی شے کی حفاظت خود کرنے پر ذرا بھی توجہ نہیں دیتے۔

Wednesday, November 14, 2018

ایسا قانون جس کے بارے میں آج تک کسی نے عوام کو بتایا ہی نہیں

ہمارے ملک کے ٹریفک قوانین میں سڑک پر پیدل چلنے والوں کی حفاظت کے لیے ایک سادہ مگر نہایت اہم قانون بھی شامل⁦ ہے۔

وہ قانون یہ ہے کہ جس سڑک پر پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ نہیں ہو، وہاں پیدل چلنے والوں کو سڑک کی دائیں جانب چلنا چاہیے تا کہ پیچھے سے آنے والی گاڑیاں سڑک کی بائیں جانب سے گزرتی چلی جائیں جب کہ وہ سامنے سے آنے والی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بے فکری سے گام زن رہیں اور کسی ناگہانی صورتِ حال میں اپنے آپ کو حادثے سے بچا سکیں۔

یہ بلاگ پوسٹ پڑھنے والے باشعور اور ہم درد انسانوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے سارے عزیزوں اور احباب کو اس قانون کے بارے میں بتائیں تا کہ زیادہ لوگ اس قانون پر عمل کر کے حادثوں سے بچ سکیں۔

Monday, November 12, 2018

دکھ ۔۔۔۔۔۔ کسی نامعلوم مصنف کی دل گداز تحریر

---- ﺩﮐﻫ ----

'' ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺎﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﻫﺮ ﺳﮯ ﻣﺎﺭ
ﮐﮭﺎ ﮐﮯ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮ
ﺭﻫﯽ ﻫﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺍُﺱ ﮐﻮ
ﮔﮭﻮﺭ ﺭﻫﺎ ﻫﻮ ﮔﺎ.

-- ﺩﮐﻫ ---
ﮐﺴﯽ ﻣﺪﺭﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ
ﺑﭽﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ
ﮐﺮ ﺭﻫﺎ ﮬﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻫﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﯿﺘﮯ ﺭﻭ ﺭﻫﺎ ﻫﻮ
ﮔﺎ.

-- ﺩﮐﻫ ---
ﮐﺴﯽ ﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﯽ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ
ﺳﮑﻮﻝ ﻓﯿﺲ ﻧﮧ ﻫﻮﻧﮯ ﺳﺒﺐ ﮐﻼﺱ ﺳﮯ
ﺑﺎﻫﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﻫﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺍُﺱ
ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﻣﯿﮟ ﺟﺬﺏ ﻫﻮ ﺭﻫﮯ ﻫﻮﮞ ﮔﮯ.

-- ﺩﮐﻫ ----
ﮐﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﮐﺎ
ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﮬﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﻟﭙﭧ ﮐﮯ
ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻ ﺭﻫﺎ ﻫﻮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﻫﮯ.

-- ﺩﮐﻫ ---
ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﯾﺖ ﭘﮧ
ﺯﺑﺎﻥ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﮯ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﻟﮍ ﺭﻫﺎ ﮬﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ
ﺳﻮﭺ ﺭﻫﺎ ﻫﻮ ﮔﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍُﺱ ﮐﮯ
ﺣﺎﻝ ﮐﻮ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮬﻮ ﮔﺎ.

--- ﺩﮐﻫ ---
ﮐﮩﯿﮟ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﺩﯾﺴﯽ ﮐﺴﯽ ﻧﺎﮐﺮﺩﮦ
ﺟﺮﻡ ﻣﯿﮟ ﺳﺴﮑﺘﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ
ﮐﻮ ﮈﮬﻮﻧﮉ ﺭﻫﺎ ﻫﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭺ ﺭﻫﺎ ﻫﻮ ﮔﺎ
ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻓﺎﺗﺤﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻫﻮ ﮔﯽ.

-- ﺩﮐﻫ ----
ﮐﮩﯿﮟ ﺩﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﻤﺮﺟﻨﺴﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ
ﺳﺮﻫﺎﻧﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﺑﭽﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻔﻘﺖ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﺳﺮ
ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﻫﺎ ﻫﻮ ﮔﺎ.

-- ﺩﮐﻫ ---
ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺴﯽ ﮔﺎﻭُﮞ ﮐﯽ ﮈﺳﭙﻨﺴﺮﯼ
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺨﺖ ﺟﮕﺮ ﮐﺎ ﺳﺮ ﮔﻮﺩ
ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﮔﻦ
ﺭﻫﯽ ﻫﻮ ﮔﯽ.

-- ﺩﮐﻫ ---
ﮐﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺳﮯ ﺑﻠﮏ ﺭﻫﺎ ﮬﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ
ﮐﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﭼﯿﺦ ﺭﻫﺎ ﻫﻮ ﮔﺎ.
ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﺑﮭﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﻫﮯ
ﮐﮧ ﺍﺳﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻧﺼﯿﺐ ﻫﮯ.

-- ﺩﮐﻫ ---
ﺩﮐﮫ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﺲ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﮔﮩﺮﺍ ﻫﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ، ﮐﮧ
ﮐﻨﮑﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﮭﯿﻨﮑﻮ ﺗﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺑﺎﻫﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ
ﺑﻠﮑﮧ ﺳﻨﺎﭨﺎ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ.

#مصنف: #نامعلوم

Sunday, November 11, 2018

خوشی محمد ناظر کی شاہ کار نظم "جوگی" (مکمل)

خوشی محمد ناظر کی نظم "جوگی" کا شمار اردو کلاسکس میں ہوتا ہے۔ یہ خوب صورت طویل نظم، جو دو حصوں "نغمۂ حقیقت" اور "ترانۂ وحدت" پر مشتمل ہے، خوشی محمد ناظر کے دیوان “نغمۂ فردوس” سے لی گئی ہے۔

جوگی

نغمۂ حقیقت

کل صبح کے مطلعِ تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی
ہر وادی وادیٔ ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوۂ طور ہوا
جب بادِ صبا مضراب بنی، ہر شاخِ نہال رباب بنی
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو و سمن طنبور ہوا
سب طائر مل کر گانے لگے، مستانہ وہ تانیں اُڑانے لگے
اشجار بھی وجد میں آنے لگے، گلزار بھی بزمِ سرُور ہوا
سبزے نے بساط بچھائی تھی اور بزمِ نشاط سجائی تھی
بَن میں، گلشن میں، آنگن میں، فرشِ سنجاب و سمور ہوا

تھا دل کش منظرِ باغِ جہاں اور چال صبا کی مستانہ
اس حال میں ایک پہاڑی پر جا نکلا ناظر دیوانہ

چِیلوں نے جھنڈے گاڑے تھے، پربت پر چھاؤنی چھائی تھی
تھے خیمے ڈیرے بادل کے، کُہرے نے قنات لگائی تھی
یاں برف کے تودے گلتے تھے، چاندی کے فوارے چلتے تھے
چشمے سیماب اگلتے تھے، نالوں نے دھوم مچائی تھی
اک مست قلندر جوگی نے پربت پر ڈیرا ڈالا تھا
تھی راکھ جٹا میں جوگی کی اور انگ بھبوت رمائی تھی
تھا راکھ کا جوگی کا بستر، اور راکھ کا پیراہن تن پر
تھی ایک لنگوٹی زیبِ کمر جو گھٹنوں تک لٹکائی تھی
سب خلقِ خدا سے بیگانہ، وہ مست قلندر دیوانہ
بیٹھا تھا جوگی مستانہ، آنکھوں میں مستی چھائی تھی

جوگی سے آنکھیں چار ہوئیں اور جھک کر ہم نے سلام کیا
تیکھے چتون سے جوگی نے تب ناظر سے یہ کلام کیا

کیوں بابا ناحق جوگی کو تم کس لیے آ کے ستاتے ہو؟
ہیں پنکھ پکھیرو بَن باسی، تم جال میں ان کو پھنساتے ہو؟
کوئی جگھڑا دال چپاتی کا، کوئی دعویٰ گھوڑے ہاتھی کا
کوئی شکوہ سنگی ساتھی کا، تم ہم کو سنانے آتے ہو؟
ہم حرص ہوا کو چھوڑ چکے، اِس نگری سے منہ موڑ چکے
ہم جو زنجیریں توڑ چکے، تم لا کے وہی پہناتے ہو؟
تم پُوجا کرتے ہو دھن کی، ہم سیوا کرتے ہیں ساجن کی
ہم جوت لگاتے ہیں مَن کی، تم اُس کو آ کے بجھاتے ہو؟
سنسار سے یاں مُکھ پھیرا ہے، مَن میں ساجن کا ڈیرا ہے
یاں آنکھ لڑی ہے پیتم سے، تم کس سے آنکھ ملاتے ہو؟

یوں ڈانٹ ڈپٹ کر جوگی نے جب ہم سے یہ ارشاد کیا
سر اُس کے جھکا کر چرنوں پر، جوگی کو ہم نے جواب دیا

ہیں ہم پردیسی سیلانی، یوں آنکھ نہ ہم سے چُرا جوگی
ہم آئے ہیں تیرے درشن کو، چِتون پر میل نہ لا جوگی
آبادی سے منہ پھیرا کیوں؟ جنگل میں کِیا ہے ڈیرا کیوں؟
ہر محفل میں، ہر منزل میں، ہر دل میں ہے نورِ خدا جوگی
کیا مسجد میں، کیا مندر میں، سب جلوہ ہے “وجہُ اللہ” کا
پربت میں، نگر میں، ساگر میں، ہر اُترا ہے ہر جا جوگی
جی شہر میں خوب بہلتا ہے، واں حسن پہ عشق مچلتا ہے
واں پریم کا ساگر چلتا ہے، چل دل کی پیاس بجھا جوگی
واں دل کا غنچہ کِھلتا ہے، گلیوں میں موہن ملتا ہے
چل شہر میں سنکھ بجا جوگی، بازار میں دھونی رما جوگی

پھر جوگی جی بیدار ہوئے، اس چھیڑ نے اتنا کام کیا
پھر عشق کے اِس متوالے نے، یہ وحدت کا اِک جام دیا

اِن چکنی چپڑی باتوں سے مت جوگی کو پھسلا بابا
جو آگ بجھائی جتنوں سے پھر اس پہ نہ تیل گرا بابا
ہے شہروں میں غل شور بہت اور کام کرودھ کا زور بہت
بستے ہیں نگر میں چور بہت، سادھوں کی ہے بَن میں جا بابا
ہے شہر میں شورشِ نفسانی، جنگل میں ہے جلوہء روحانی
ہے نگری ڈگری کثرت کی، بَن وحدت کا دریا بابا
ہم جنگل کے پھل کھاتے ہیں، چشموں سے پیاس بجھاتے ہیں
راجہ کے نہ دوارے جاتے ہیں، پرجا کی نہیں پروا بابا
سر پر آکاش کا منڈل ہے، دھرتی پہ سہانی مخمل ہے
دن کو سورج کی محفل ہے، شب کو تاروں کی سبھا بابا
جب جھوم کے یاں گھن آتے ہیں، مستی کا رنگ جماتے ہیں
چشمے طنبور بجاتے ہیں، گاتی ہے ملار ہوا بابا
جب پنچھی مل کر گاتے ہیں، پیتم کی سندیس سناتے ہیں
سب بَن کے برچھ جھک جاتے ہیں، تھم جاتے ہیں دریا بابا
ہے حرص و ہوا کا دھیان تمھیں، اور یاد نہیں بھگوان تمھیں
سِل، پتھر، اینٹ، مکان تمھیں دیتے ہیں یہ راہ بھلا بابا
پرماتما کی وہ چاہ نہیں، اور روح کو دل میں راہ نہیں
ہر بات میں اپنے مطلب کے تم گھڑ لیتے ہو خدا بابا
تَن من کو دھن میں لگاتے ہو، ہرنام کو دل سے بھلاتے ہو
ماٹی میں لعل گنواتے ہو، تم بندۂ حرص و ہوا بابا
دھن دولت آنی جانی ہے، یہ دنیا رام کہانی ہے
یہ عالَم، عالَمِ فانی ہے، باقی ہے ذاتِ خدا بابا

ترانۂ وحدت

جب سے مستانے جوگی کا مشہورِ جہاں افسانہ ہوا
اُس روز سے بندۂ ناظر بھی، پھر بزم میں نغمہ سرا نہ ہوا
کبھی منصب و جاہ کی چاٹ رہی، کبھی پیٹ کی پوجا پاٹ رہی
لیکن یہ دل کا کنول نہ کِھلا، اور غنچۂ خاطر وا نہ ہوا
کہیں لاگ رہی، کہیں پیت رہی، کبھی ہار رہی، کبھی جیت رہی
اِس کلجگ کی یہی ریت رہی، کوئی بند سے غم کے رہا نہ ہوا
یوں تیس برس جب تیر ہوئے، ہم کارِ جہاں سے سیر ہوئے
تھا عہدِ شباب سرابِ نظر، وہ چشمۂ آبِ بقا نہ ہوا
پھر شہر سے جی اکتانے لگا، پھر شوق مہار اٹھانے لگا
پھر جوگی جی کے درشن کو ناظر اک روز روانہ ہوا

کچھ روز میں ناظر جا پہنچا، پھر ہوش رُبا نظّاروں میں
پنجاب کے گرد غباروں سے، کشمیر کے باغ بہاروں میں
پھر بَن باسی بیراگی کا ہر سمت سراغ لگانے لگا
بنہال کے بھیانک غاروں میں، پنجال کی کالی دھاروں میں
اپنا تو زمانہ بیت گیا، سرکاروں میں، درباروں میں
پر جوگی میرا شیر رہا، پربت کی سونی غاروں میں
وہ دن کو ٹہلتا پھرتا تھا، ان قدرت کے گلزاروں میں
اور رات کو محوِ تماشہ تھا، انبر کے چمکتے تاروں میں
برفاب کا تھا اک تال یہاں، یا چاندی کا تھا تھال یہاں
الماس جڑا تھا زمُرّد میں، یہ تال نہ تھا کہساروں میں
تالاب کے ایک کنارے پر یہ بَن کا راجہ بیٹھا تھا
تھی فوج کھڑی دیوداروں کی، ہر سمت بلند حصاروں میں
یاں سبزہ و گل کا نظارہ تھا، اور منظر پیارا پیارا تھا
پھولوں کا تخت اتارا تھا، پریوں نے ان کہساروں میں
یاں بادِ سحر جب آتی تھی، بھیروں کا ٹھاٹھ جماتی تھی
تالاب رباب بجاتا تھا، لہروں کے تڑپتے تاروں میں
کیا مستِ الست نوائیں تھیں، ان قدرت کے مِزماروں میں
ملہار کا روپ تھا چشموں میں، سارنگ کا رنگ فواروں میں
جب جوگی جوشِ وحدت میں، ہرنام کی ضرب لگاتا تھا
اک گونج سی چکّر کھاتی تھی، کہساروں کی دیواروں میں

اس عشق و ہوا کی مستی سے، جب جوگی کچھ ہشیار ہوا
اُس خاک نشیں کی خدمت میں، یوں ناظر عرض گزار ہوا

کل رشکِ چمن تھی خاکِ وطن، ہے آج وہ دشتِ بلا جوگی
وہ رشتۂ اُلفت ٹوٹ گیا، کوئی تسمہ لگا نہ رہا جوگی
برباد بہت سے گھرانے ہوئے، آباد ہیں بندی خانے ہوئے
شہروں میں ہے شور بپا جوگی، گاؤں میں ہے آہ و بکا جوگی
وہ جوشِ جنوں کے زور ہوئے، انسان بھی ڈنگر ڈھور ہوئے
بچوں کا ہے قتل روا جوگی، بوڑھوں کا ہے خون ہَبا جوگی
یہ مسجد میں اور مندر میں، ہر روز تنازع کیسا ہے؟
پرمیشر ہے جو ہندو کا، مسلم کا وہی ہے خدا جوگی
کاشی کا وہ چاہنے والا ہے، یہ مکّے کا متوالا ہے
چھاتی سے تو بھارت ماتا کی، دونوں نے ہے دودھ پیا جوگی
ہے دیس میں ایسی پھوٹ پڑی، اک قہر کی بجلی ٹوٹ پڑی
روٹھے متروں کو منا جوگی، بچھڑے بِیروں کو ملا جوگی
کوئی گرتا ہے، کوئی چلتا ہے، گرتوں کو کوئی کچلتا ہے
سب کو اک چال چلا جوگی، اور ایک ڈگر پر لا جوگی
وہ میکدہ ہی باقی نہ رہا، وہ خم نہ رہا، ساقی نہ رہا
پھر عشق کا جام پلا جوگی، یہ لاگ کی آگ بجھا جوگی
پربت کے نہ سوکھے روکھوں کو یہ پریم کے گیت سنا جوگی
یہ مست ترانہ وحدت کا چل دیس کی دھن میں گا جوگی
بھگتوں کے قدم جب آتے ہیں، کلجُگ کے کلیش مٹاتے ہیں
تھم جاتا ہے سیلِ بلا جوگی، رک جاتا ہے تیرِ قضا جوگی

ناظر نے جو یہ افسانۂ غم رُودادِ وطن کا یاد کیا
جوگی نے ٹھنڈی سانس بھری اور ناظر سے ارشاد کیا

بابا ہم جوگی بن باسی، جنگل کے رہنے والے ہیں
اس بن میں ڈیرے ڈالے ہیں، جب تک یہ بن ہریالے ہیں
اس کام کرودھ کے دھارے سے ہم ناؤ بچا کر چلتے ہیں
جاتے یاں منہ میں مگر مچھ کے، دریا کے نہانے والے ہیں
ہے دیس میں شور پکار بہت اور جھوٹ کا ہے پرچار بہت
واں راہ دکھانے والے بھی بے راہ چلانے والے ہیں
کچھ لالچ لوبھ کے بندے ہیں، کچھ مکر فریب کے پھندے ہیں
مورکھ کو پھنسانے والے ہیں، یہ سب مکڑی کے جالے ہیں
جو دیس میں آگ لگاتے ہیں، پھر اُس پر تیل گراتے ہیں
یہ سب دوزخ کا ایندھن ہیں اور نرگ کے سب یہ نوالے ہیں
بھارت کے پیارے پُوتوں کا جو خون بہانے والے ہیں
کل چھاؤں میں جس کی بیٹھیں گے، وہی پیڑ گرانے والے ہیں
جو خون خرابا کرتے ہیں، آپس میں کٹ کٹ مرتے ہیں
یہ بیر بہادر بھارت کو، غیروں سے چھڑانے والے ہیں؟
جو دھرم کی جڑ کو کھودیں گے، بھارت کی ناؤ ڈبو دیں گے
یہ دیس کو ڈسنے والے ہیں، جو سانپ بغل میں پالے ہیں
جو جیو کی رکھشا کرتے ہیں اور خوفِ خدا سے ڈرتے ہیں
بھگوان کو بھانے والے ہیں، ایشور کو رجھانے والے ہیں
دنیا کا ہے سُرجن ہار وہی، معبود وہی، مختار وہی
یہ کعبہ، کلیسا، بت خانہ، سب ڈول اسی نے ڈالے ہیں
وہ سب کا پالن ہارا ہے، یہ کنبہ اسی کا سارا ہے
یہ پیلے ہیں یا کالے ہیں، سب پیار سے اس نے پالے ہیں
کوئی ہندی ہو کہ حجازی ہو، کوئی ترکی ہو یا تازی ہو
جب نیر پیا اک ماتا کا، سب ایک گھرانے والے ہیں
سب ایک ہی گت پر ناچیں گے، سب ایک ہی راگ الاپں گے
کل شام کھنّیا پھر بن میں مرلی کو بجانے والے ہیں
آکاش کے نیلے گنبد سے یہ گونج سنائی دیتی ہے
اپنوں کے مٹانے والوں کو کل غیر مٹانے والے ہیں
یہ پریم سندیسہ جوگی کا پہنچا دو ان مہاپرشوں کو
سودے میں جو بھارت ماتا کے تن من کے لگانے والے ہیں
پرماتما کے وہ پیارے ہیں اور دیس کے چاند ستارے ہیں
اندھیر نگر میں وحدت کی جو جوت جگانے والے ہیں
ناظر یہیں تم بھی آ بیٹھو اور بن میں دھونی رما بیٹھو
شہروں میں گُرو پھر چیلوں کو کوئی ناچ نچانے والے ہیں

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...