آج بروز اتوار مؤرخہ 30 ستمبر 2018ء کو معروف شاعر اور کالم ںویس محمد اظہار الحق صاحب نے اپنا تازہ کالم فیس بک پر اپنی ٹائم لائن پر پبلش کیا ہے۔
یہ طالبِ علم کالج کے پہلے سال سے ان کی منفرد شاعری کا گرویدہ چلا آتا ہے۔ انھوں نے کالم ںویسی میں بھی منفرد انداز و اسلوب برقرار رکھتے ہوئے سنگین ترین مسائل پر نہایت جرأت سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور لاکھوں عام پاکستانیوں کے دل کی آواز بن چکے ہیں۔ یہ طالبِ علم، پاکستان کا یہ عام شہری بھی ان کے کالم پسند کرنے اور دل کی آنکھوں سے پڑھنے والے لاکھوں قارئین میں شامل ہے۔
ان کی شاعری اور کالم نویسی کے دل دادہ اس طالبِ علم نے ان کا آج کا کالم پڑھ کر اپنے عاجزانہ خیالات کا اظہار کیا ہے جو احباب کی نذر ہے:
بہت اہم موضوع پر نہایت بصیرت افروز اور دل و ذہن پر اثر کرنے، غور و فکر و اصلاح کی تحریک دینے والا کالم لکھا ہے۔ جزاک اللہ۔
اس طالبِ علم کے عاجزانہ خیال میں برِ صغیر کی تاریخ پیشِ نظر رکھی جائے تو قوانین و ضوابط پامال کر کے اپنے کام لینے کے لیے با اثر یا کسی بھی اعتبار سے کار آمد لوگوں کو "خریدنے" کا کام ایسٹ انڈیا کمپنی نے "جدید" انداز میں شروع کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، سکھا شاہی، سندھ اور جنوبی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں اور ریاستوں/ رجواڑوں وغیرہ کے حکم رانوں کو شکست دینے کے لیے لوگوں کو خریدنے کا حربہ استعمال کیا تھا۔
تاجِ برطانیہ اور برطانیہ کی نام نہاد جمہوری حکومتوں کے ہندوستان پر استعماری اقتدار کے زمانے میں مال و زر، پلاٹوں، پرمٹوں، لائسینسوں اور خطابات وغیرہ کی صورت رشوت دینے، نوازنے کی باقاعدہ روایت شروع کی گئی۔ اس کرپشن پر برطانیہ کے بعض ارکانِ پارلیمان، اہلِ دانش اور صحافیوں نے تنقید بھی کی تھی۔ بعد میں عصرِ حاضر تک کے برطانیہ کے بعض با ضمیر مصنفین اور دیانت دار صحافیوں نے کتابیں، مضامین لکھے۔ اہم بات یہ ہے کہ اُس زمانے میں بھی مثالی دیانت دار اور نا قابلِ فروخت افراد برٹش انڈین معاشرے کے ہر شعبے میں موجود تھے، ویسے ہی لوگ جیسے لوگوں کی مثال آپ نے بیسویں صدی کے چھٹے اور ساتویں عشرے کے پاکستان کے حکم راں طبقے سے دی ہے۔ بہ ہر حال یہ حقیقت آپ بھی جانتے ہیں کہ 1971ء کے بعد بننے والی ہر حکومت کے اعلیٰ ترین منصب داروں سے لے کر ادنیٰ ترین اہل کاروں نے اقربا پروری، سفارش اور دوسرے کئی طریقوں سے "کرپشن" ضرور کی تھی۔ اس میں مالی کرپشن بھی شامل ہے۔
جہاں تک ضیاء الحق کے دور کی بات ہے تو یہ حقیقت ضرور پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ وہ زمانہ صرف ہمارے ملک اور خِطّے نہییں بل کہ انسانی تاریخ کا خطرناک ترین زمانہ تھا۔ اس زمانے میں دنیا کی دو سپر پاورز تاریخ کی پہلی ایسی جنگ لڑ رہی تھیں جس میں اصل فریق/ حریف ایک دوسرے کے سامنے میدانِ جنگ میں موجود نہیں تھے۔ میرے محدود مطالعے کے مطابق "کیپٹلسٹ سپر پاور" امریکا کی قیادت میں دنیا کے چالیس سے زیادہ ملک اپنے سارے حربی و مالی وسائل کے ساتھ دوسری سپر پاور سوویت روس کے خلاف معرکہ آرا تھے لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی میدانِ جنگ میں سوویت روس کے مقابل موجود نہیں تھا۔
اس عاجز کے خیال میں شاید یہ انسانی تاریخ کی اس نوعیت کی پہلی جنگ تھی۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس جنگ میں ہمارے وطن پاکستان نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
ہم تصور کر سکتے ہیں کہ اُس وقت جو لوگ پاکستان کا کاروبارِ حکومت اور نظم و نسق چلا رہے تھے ان کے سامنے کیسے کیسے چیلنج ہر لمحہ آتے ہوں گے۔ آپ سینیئر موسٹ بیوروکریٹس میں سے ہیں۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ معمول کے حالات اور معمول کی عام کھلی جنگ میں کسی ملک کے نظامِ حکومت اور معاشرے پر کیسے خوف ناک اثرات پڑتے ہیں، وہ تو تاریخ کی سب سے انوکھی اور یچیدہ جنگ تھی، سو اس وقت کے حکم راںوں اور بیوروکریسی کو کیسی کیسی پیچیدگیوں کا سامنا ہو گا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اس زماںے میں اپنے آپ کو مارکسی، لیفٹسٹ اور ترقی پسند کہلوانے والوں میں سے اکثر لوگ "سرمایہ دار" ملکوں کو بھاگ گئے تھے اور آج بھی وہ اور ان کی اولادیں انھی سرمایہ دار ملکوں میں آباد ہیں۔ صرف بابائے سوشلزم مشرقی یورپ کے کسی ملک گئے تھے۔
آپ یہ اہم ترین حقیقت بھی دوسروں سے بہتر جانتے ہیں کہ سرد جنگ کے دوران جہاں بھی ڈکٹیٹرشپ قائم کی گئی وہاں کتنے خوف ناک مظالم کیے گئے جب کہ تاریخ کی اس سب سے پیچیدہ جنگ کے دوران ۔۔۔۔ جو سپر پاورز کی اعلانیہ جںگ نہیں تھی ۔۔۔۔ پاکستان کے حکم رانوں نے پاکستان کے مرکزی اور اںتہائی مشکل کردار ادا کرنے کے دوران بھی اتنے مظالم نہیں کیے جتنے سرد جنگ کے معمول کے برسوں میں دنیا کے دوسرے ڈکٹیٹروں نے کیے تھے۔ ان مظالم کی تفصیل نیٹ پر دست یاب ہے۔ جاننے کے خواہش مند احباب ذرا سی کوشش سے اُن ڈکٹیٹرشپس اور پاکستان کی ڈکٹیٹرشپ کا موازنہ و تقابل کر سکتے ہیں۔
یہ حقیقت سب جانتے ہیں اور آپ جیسے سینیئر بیوروکریٹ تو عام لوگوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ محمد خان جونیجو کے زمانے سے جس جمہوری دور کا آغاز ہوا اس میں جن سیاست دانوں کو اقتدار ملا ان کی اکثریت نے بلند کرداری سے ملک کی خدمت کرنے کی بجائے اخلاقی گراوٹ کی انتہا کر دی۔ جن خطرناک حالات سے پاکستان ذرا پہلے گزرا تھا اور ہنوز گزر رہا تھا ان کا انھیں پورا علم تھا لیکن انھوں نے "اسٹیبلشمینٹ" کو مجبور پا کر بد ترین خود غرضی، بے حسی اور بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اختیارات کا ناقابلِ تصور ناجائز فائدہ اٹھایا اور ہر قانون، ہر ضابطہ، ہر اخلاقی قدرپامال کر ڈالی۔ یہ حقائق آپ ایسے اہم عہدوں پر متمکن رہنے والے بیوروکریٹ سے پوشیدہ نہیں بل کہ یقیناً آپ عام شہریوں سے زیادہ معلومات رکھتے ہوں گے۔
مجھے یقین ہے آپ اتفاق کریں گے کہ اگر محمد خان جونیجو کی حکومت کے زمانے سے سیاست دان اور بیوروکریٹ دیانت دارانہ حکم رانی کی بنیاد رکھتے تو آج کسی سیاست دان اور بیوروکریٹ کو کسی بھی قسم کی قانون شکنی اور کرپشن کی جرأت نہ ہوتی۔ تاریخ کی سب سے پیچیدہ اور خوف ناک جنگ کے بعد پاکستان میں جمہوری نظام کی "خِشتِ اوّل" رکھنے والے اُن "معماروں" کے نام آج اتنی ہی عقیدت سے لیے جاتے جتنی عقیدت سے امریکی اپنے "فاونڈنگ فادرز" کے نام لیتے ہیں۔
اب پُر امن اصلاح کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سیاست دان، بیوروکریٹ اور عام شہری دوسروں پر الزام لگانے کی بجائے خود قانون پر عمل کرنا شروع کریں۔
چوں کہ آج کے جمہوری زمانے میں ہر ملک کے عام شہری ہی اصل طاقت ہیں، عام شہری ہی ملک اور معاشرے کی اساس و بنیاد ہیں اس لیے ہم عام شہریوں کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ ہے۔
چناں چہ ہم عام شہریوں کو خاص طور سے چاہیے کہ اپنی گلی، اپنے محلے کے مسائل مل جل کر حل کریں۔ اتفاق و اتحاد کے ساتھ قانون اور اخلاقی اقدار کی پابندی کرتے ہوئے پُر امن طریقے سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ سے مقامی مسائل حل کرنا آج کے زمانے کا سب سے معروف اور پسندیدہ طریقہ ہے۔
ہم عام شہری اپنی بیٹی، بیٹے بھائی، کزن وغیرہ کو میرٹ کے بر خلاف نہ جاب پر لگوائیں نہ کوئی پلاٹ، فلیٹ، قرض لیں۔
ہم عام شہری کاروبار کرتے ہیں تو جعلی اور ملاوٹ والی چیزیں نہ بیچیں۔
جب ہم سب شہری قانون پر عمل کریں گے تو آہستہ آہستہ پورا معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔
دنیا میں مثالیں موجود ہیں۔ یورپ اور امریکا کے معاشرے ہمارے معاشرے سے بھی زیادہ خراب و زوال یافتہ تھے۔ وہاں بھی سیاست دانوں، بیوروکریٹوں، کاروباری طبقے کے لوگوں، اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلا اور ہر طرح کے پروفیشنلز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں نے اپنی اور اپنی اولاد کی بہتری کا مقصد سامنے رکھتے ہوئے خود قوانین و ضوابط اور اخلاقی اقدار پر عمل شروع کیا تو ان معاشروں میں آہستہ آہستہ مثبت تبدیلی آ گئی۔