موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں
تب کہیں جا کر رضا تھوڑا سُکُوں پاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں بھی کب سُکُوں پاتی ہے ماں
جب پریشانی میں ہوں بچّے، تڑپ جاتی ہے ماں
جاتے جاتے پھر گلے بچّے سے ملنے کے لیے
توڑ کر بندِ کفن باہوں کو پھیلاتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گہرائیاں تو دیکھیے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چِلّاتی ہے ماں
بھوکا سونے ہی نہیں دیتی یتیموں کو کبھی
جانے کس کس سے کہاں سے مانگ کر لاتی ہے ماں
ہَڈّیوں کا رَس پِلا کر اپنے دل کے چَین کو
کتنی ہی راتوں کو خالی پیٹ سو جاتی ہے ماں
جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسووں کے ساز پر بچے کو بہلاتی ہے ماں
مار دیتی ہے تمان٘چہ گر کبھی جذبات میں
چومتی ہے لب کبھی رخسار سہلاتی ہے ماں
کب ضرورت ہو مِری بچے کو اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہے ممتا اور سو جاتی ہے ماں
گھر سے جب پردیس کو جاتا ہے گودی کا پلا
ہاتھ میں قرآں لیے آنگن میں آ جاتی ہے ماں
دے کے بچے کو ضمانت میں رضائے پاک کی
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں
ایسا لگتا ہے کہ جیسے آ گئے فردوس میں
کھینچ کر باہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں
دیر ہو جاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں
ریت پہ مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں
مرتے دَم بچہ نہ آئے گھر اگر پردیس سے
اپنی دونوں پُتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں
سامنے آنکھوں کے نکلے گر جواں بیٹے کا دَم
زندگی بھر سر کو دِیواروں سے ٹکراتی ہے ماں
شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اُس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں
شاعر: رضا سرسوی