ملک کے ممتاز کرپشن مخالف بے باک رپورٹر، کالم نویس اور اینکر اینالسٹ رؤف کلاسرا صاحب نے حق گوئی کی اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی خاتون وفاقی وزیر زبیدہ جلال صاحبہ کی سابقہ وزارت کے دوران مبینہ کرپشن اور اس کے نتائج کے بارے میں اپنے مخصوص درد بھرے اسلوب میں عمدہ کالم لکھا ہے۔
ہمارے ملک میں اکثر لوگ کرپٹ ہیں حتیٰ کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے لوگ بھی مبینہ طور پر کرپٹ ہیں۔
اِس کالم میں جو درد ناک واقعات بیان کیے گئے، اُن سے تو واضح سبق ملتا ہے کہ جب کرپٹ وزیر اپنی وزارت کے افسروں اور کلرکوں سے خلافِ قانون بِلوں پر دست خط کروائیں تو باضمیر سرکاری ملازموں کو ایسے بِلوں پر دست خط نہیں کرنا چاہیئیں ورنہ اس کالم کے دُکھی کردار کلرک جیسا حشر بھی ہوسکتا ہے.
افسوس تو یہ ہے کہ اِس دُکھی کردار کی اِبتلا سے سبق کوئی بھی نہیں لے گا کیوں کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سرکاری محکموں اور نجی کاروباروں تک ہر جگہ کرپٹ لوگوں کی اکثریت سزا سے محفوظ بھی ہے اور مسلسل کرپشن بھی کر رہی ہے۔
لیجیے رؤف کلاسرا صاحب کا مذکورہ کالم ملاحظہ فرمائیے، جو اُنھوں نے فیس بک پر اپنی ٹائم لائن پر پبلش کیا تھا۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
میر ا کالم
آخر کیوں؟
رئوف کلاسرا
راج نیتی کا کھیل
زبیدہ جلال کو وفاقی وزیر کا حلف اٹھاتے دیکھ کر بہت پرانی یادیں حملہ آور ہوئیں۔
پھر خیال آیا‘ عمران خان کو اب سمجھ آرہی ہوگی کہ اپوزیشن کرنا کتنا آسان ہے۔ جب‘ جو جی چاہا کہہ دیا۔ نہ کوئی مجبوری‘ نہ مصلحت۔ عمران خان کواب وہ سب کام کرنے پڑ رہے ہیں‘ جن کے خلاف وہ بائیس سال لڑتے رہے۔ انہیں وہی کچھ کرنا پڑ رہا ہے جو راج نیتی میں کرنا پڑتا ہے۔ اقتدار چاہیے تو پھر اقتدار کی شرائط بھی پوری کرو۔ اچھی تقریر تھی‘ لیکن یہ بات عمران خان کو بھی معلوم ہے کہ کچھ دن باتوں کا اثر رہے گا۔ ہم سب ان کی واہ واہ کریں گے لیکن پھر زمینی حقائق ان پر ناگن کی طرح حملہ آور ہوں گے۔
عمران کی کابینہ کے نام دیکھ کر ہی پتہ چل جانا چاہیے کہ راج نیتی میں کیسے کیسے کمپرومائز کرنے پڑتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سارا جہاں کسی کو نہیں ملتا۔ اس کابینہ میں جتنے لوگ ہیں‘ ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی چہروں پر نظر ڈالیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ وہ عمران خان کے ایجنڈے سے نہ تو متفق ہیں نہ انہیں پاکستان کو بدلنے میں دلچسپی ہے۔ ان کے چہرے بتا رہے ہیں کہ وہ یہاں ویسا انقلاب لانے نہیں آئے جس کا وعدہ عمران خان نے کررکھا ہے۔ وہ کچھ ماہ یقینا انتظار کریں گے‘ پھر اپنے پر پرزے نکالنے شروع کر دیں گے۔ وزرا میں سے اکثریت وہی ہے جو پچھلے کئی ادوار میں وزیر رہ چکے ہیں۔ انہیں پتہ ہے ہر وزیراعظم اس نئے مسلمان کی طرح ہوتا ہے جو تمام مذہبی فرائض ادا کرتا ہے۔ وہ نوے دن کا پلان دیتا ہے۔ وہ بڑی بڑی باتیں کرتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے چراغوں میں روشنی نہیں رہتی‘ اگرچہ عمران خان کے حامی یہ کہہ سکتے ہیں: جس نے بائیس برس یہ سب وعدے دعوے کیے ہیں وہ آسانی سے نہیں بھولنے دے گا۔
لوگ کہتے ہیں: نئی حکومت آئی ہے‘ کچھ دن تو اسے دیں۔ تو کیا دودھ میں پڑی مکھی کو بندہ آنکھیں بند کرکے نگل جائے؟ باقی وزرا کو چھوڑیں دو کو ہی لے لیں۔ فہمیدہ مرزا اور زبیدہ جلال۔ جب فہمیدہ مرزا کو پہلی خاتون سپیکر بنایا گیا‘ تو سب خوش ہوئے تھے کہ سندھ میں بینظیر بھٹو کے بعد کسی خاتون کو اہم عہدہ ملا ہے‘ سندھ کی عورت اب مزید مضبوط ہو گی۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا‘ پاکستانی سیاست میں عام لوگ یا عورت مضبوط نہیں ہوتی بلکہ وہ سیاسی گھرانے مضبوط اور امیر ہوتے ہیں جو اہم عہدوں پر فائز ہوں۔ ہمارے سرائیکی علاقوں میں یہی کچھ ہوا۔ ان علاقوں میں صدر‘ وزیراعظم یا گورنر اور وزرا کے عہدے دے کر سیاسی گھرانوں کو ہی مضبوط کیا گیا ہے۔ معاشی طاقت اسلام آباد اور لاہور میں رکھ کر سیاسی عہدے ان سرائیکیوں میں بانٹ دیے گئے۔ وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے۔
یہی کچھ فہمیدہ مرزا کے کیس میں ہوا۔ سپیکر کی کرسی پر بیٹھتے ہی انہیں اپنے ذاتی کام یاد آ گئے۔ انہوں نے پانچ برسوں میں مختلف بینکوں سے چوراسی کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرایا۔ اپنے امریکہ میں علاج پر تیس لاکھ روپے بھی اسمبلی کے بجٹ سے خرچ کیے۔ سپیکرشپ کے آخری روز مراعات کا ایک پیکیج اپنے لیے تاحیات خود منظور کیا۔ اب وہ وفاقی وزیر ہیں۔ کبھی خان صاحب فرماتے تھے: وہ بینک لوٹنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی پر الطاف حسین کو چھ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کے الزامات کی ایف آئی اے تحقیقات کر رہی ہے۔ وہ بھی وزیر ہیں۔ باقی ہمارے دوست انور منصور اور فروغ نسیم ہمیں بتائیں گے کہ جب سندھ میں ایم کیو ایم کے 35 قاتل جنرل مشرف دور میں پے رول پر رہا کیے گئے تھے تو اس میں کس کا کیا ہاتھ تھا۔ بہت کچھ سامنے آجائے گا۔
لیکن میرے لیے حیران کن زبیدہ جلال کا وزیر بننا ہے۔ جب زبیدہ جلال بلوچستان سے ایم این اے بن کر اسلام آباد آئیں تو جنرل مشرف نے انہیں دنیا کے سامنے روشن خیال چہرہ بنا کر پیش کیا۔ امریکن وائٹ ہائوس تک میں پروٹوکول دیا گیا‘ لیکن کچھ عرصے بعد ایک خوفناک سکینڈل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ سکینڈل تھا: ''توانا پاکستان‘‘۔ بلوچستان کے سکول جاتے بچوں کے لیے ایک پروجیکٹ شروع کیا گیا‘ جس کے مطابق غذائی قلت کے شکار بچوں کو سکول میں دودھ بسکٹ دیے جانے تھے‘ اور ساتھ میں والدین کی حوصلہ افزائی کی جانی تھی کہ وہ بچوں کو سکول بھیجیں۔ بات یہیں تک نہیں رکی بلکہ وہ اپنے صوبے سے ایک افسر کو اپنے ساتھ لائیں‘ جس نے کھل کر مال بنایا۔ وزیر اعظم انکوائری کمیشن رپورٹ میں بھی زبیدہ جلال پر سنگین الزامات لگے کہ وہ فنڈز کھا گئی تھیں۔ اس وقت کے سینیٹر انور بیگ کو انکوائری کا سربراہ بنایا گیا۔ وہ انکوائری رپورٹ پڑھ کر انسان کے کانوں سے دھواں نکل آئے۔ زبیدہ جلال نے بلوچستان کے بچوں کے دودھ بسکٹ کے لئے مختص فنڈز اپنی رہائش گاہ کی آرائش پر خرچ کر دیے تھے۔ وزیراعظم معائنہ کمیشن رپورٹ میں زبیدہ جلال پر توانا پاکستان سکینڈل کے مرکزی ملزم عرفان اللہ خان کی پشت پناہی کا الزام تھا۔ عرفان اللہ کو اس پروجیکٹ سے علیحدہ کیا گیا تو زبیدہ جلال نے دوسرا پروجیکٹ دلوا دیا۔ توانا پاکستان سکینڈل میں کمپنیوں کو غیرقانونی ادائیگیاں کی گئیں۔ اکتوبر دو ہزار آٹھ میں سینیٹ کی کمیٹی کی جانب سے سفارش کی گئی کہ توانا پاکستان سکینڈل میں زبیدہ جلال کے کردار پر تحقیقات کی جائیں۔ انکوائری سے پتہ چلا کہ زبیدہ جلال اور عرفان اللہ پر توانا پاکستان فنڈز سے ملائیشیا میں کاروبار کرنے کا الزام بھی تھا۔ انور بیگ کی رپورٹ میں اور بھی متعدد اہم انکشافات کیے گئے تھے۔
اس دوران نیب نے ایکشن لیا۔ اس محکمے کے تمام چھوٹے ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا۔ انہیں نیب نے پانچ سے دس برس تک کی سزائیں سنا دیں۔ ایک دن نیشنل بینک گیا تو خاتون منیجر‘ جو میرے ایک دوست کی بیوی تھیں‘ بیٹھی رو رہی تھیں۔ مجھے دیکھا تو پھٹ پڑیں۔ پوچھا: کیا ہوا؟ بولیں: آج اس غریب ڈرائیور کی بیوی اور بچے بینک آئے تھے اور روتے رہے کہ اسے نیب نے پانچ برس کی سزا سنا دی ہے۔ جرم کیا تھا؟ وہ زبیدہ جلال کی وزرات سے سکینڈل میں ملوث افسران کے چیک بینک لے کر آتا تھا‘ اور جمع کراتا تھا۔ اب ڈرائیور کو کیا پتہ کس کو اور کیوں ادائیگی کی جا رہی ہے۔ وہ بولیں: انہیں بھی نیب نے بلایا تھا‘ انہوں نے سب ریکارڈ پیش کیا‘ ان بے چارے اہلکاروں کا کیا قصور؟ وہ تو چیک جمع کرانے یا کیش کرانے آتے تھے‘ انہیں کیا پتہ تھا‘ زبیدہ جلال اور ان کے افسران کیا کھیل کھیل رہے تھے۔
کچھ دنوں بعد ایک بوڑھا آدمی میرے دفتر آیا۔ اپنا نام ظہور بتایا۔ وہ بھی وزرات میں کلرک تھا۔ اس کو پکڑ لیا گیا تھا کہ دفتر میں اجلاس کے شرکا کے لیے منگوائے گئے کھانوں کے بل کی تم منظوری دیتے تھے‘ تم نے ٹی اے ڈی اے بھی لیا۔ اسے پانچ برس سزا دلوائی گئی تھی۔ ڈیڑھ سال جیل گزارنے کے بعد وہ ضمانت پر تھا‘ تو نیب نے اسے اس وقت پکڑ لیا جب وہ لال مسجد سے اپنے چھوٹے پوتے کے ساتھ نماز پڑھ کر نکل رہا تھا۔ نیب نے کہا: تم دو لاکھ روپے دے کر معاملہ سیٹل کرائو۔ تیسری دفعہ مجھے ایک ماہ پہلے اس کا میسیج آیا کہ نیب نے دوبارہ بلایا ہے۔ اب اس کے بیٹے کا میسیج آیا ہے کہ اس کے بوڑھے باپ کو ہارٹ اٹیک ہو گیا ہے۔
جب دو ہزار آٹھ میں‘ سکینڈل میں زبیدہ جلال کے خلاف ایکشن ہونے لگا تھا تو زرداری نے بچا لیا تھا۔ نیب کے ایک خان افسر نے‘ جو ایف آئی اے سے ڈیپوٹیشن سے آیا ہوا تھا‘ اپنے قبیلے کے سب افسران کو بچا لیا کیونکہ زرداری کو زبیدہ جلال کے صدارتی ووٹ کی ضرورت تھی۔
اب عمران خان نے زبیدہ جلال کو ووٹ کے لیے وزیر بنا لیا ہے۔
زبیدہ جلال پر نہ کوئی آسمان ٹوٹا‘ نہ سزا ہوئی۔ سزا ملی تو ڈرائیور کو جو چیک بینک لے کر جاتا تھا یا اس بوڑھے کلرک کو جو ان افسران کے لیے منگوائے گئے کھانوں کے بل پر دستخط کرتا تھا۔ اس سکینڈل میں ملوث فیڈرل سیکرٹری، پروجیکٹ ڈائریکٹر اور وزیر تک‘ سب بچ گئے۔ سزائیں ملیں تو ڈرائیور اور کلرک کو۔ عمران نے اس خاتون کو وزیر بنایا‘ جس پر بلوچستان کے بچوں کے دودھ اور بسکٹ کے پیسے کھانے کا الزام تھا‘ اور خود بچوں کے دماغوں کی تصویریں قوم کو خطاب میں دکھا رہے تھے کہ انہیں دودھ اور غذا نہیں ملی۔
ڈرائیور جیل میں ہے۔ کلرک ہارٹ اٹیک کی وجہ سے بسترِ مرگ پر ہے جبکہ سکینڈل کی ذمہ دار خاتون اب عمران خان کی کابینہ کی وزیر ہے۔
یہ ہے راج نیتی کا کھیل۔