اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہم سائے کے آنگن میں بھی سایا جائے
یہ بھی ممکن ہے بتا دے وہ کوئی کام کی بات
اک نجومی کو چلو ہاتھ دکھایا جائے
دیکھنا یہ ہے کہ کون آتا ہے سایا بن کر
دھوپ میں بیٹھ کے لوگوں کو بلایا جائے
یا مری زیست کے آثار نمایاں کر دے
یا بتا دے کہ تجھے کیسے بھلایا جائے
اس کے احسان سے انکار نہیں ہے لیکن
نقش پانی پہ ظفرؔ کیسے بنایا جائے