Wednesday, June 26, 2019

پیپرلیس نئی دنیا، پاکستانی لکھاری اور پبلشر

ناچیز خود بھی معمولی سا مترجم ہے۔ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ جب دنیا ڈیجیٹل اور پیپرلیس ہو رہی ہے، ہم اپنے بچوں کو صدیوں پرانی اور جلد کاملاً متروک ہو جانے والی ٹیکنولوجی یعنی پیپر پرنٹنگ تک ہی محدود رکھ رہے ہیں۔

افسوس ہمارے پبلشر عصری رجحانات سے واقف ہونے کے لیے اپنے ٹریڈ ہی کی کتابیں اور جرائد تک نہیں پڑھتے ۔۔۔۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم مترجموں، ادیبوں، شاعروں، نقادوں، پروفیسر و غیر پروفیسر دانشوروں، اینکروں، کالم نویسوں، ایڈیٹروں اور رپورٹروں وغیرہ میں سے بھی بہت کم عصری #رجحانات سے آگاہ رہنے کے لیے تازہ ترین کتابیں اور جرائد پڑھتے ہیں ۔۔۔۔ اس لیے پاکستان میں پبلشنگ کا کاروبار اور لکھنے کا شعبہ عصری رجحانات سے ہم آہنگ نہیں۔

احباب سے گذارش ہے کہ حقیقی زندگی میں اپنے دوستوں اور سوشل میڈیا ۔۔۔۔ فیس ںک،بٹوئٹر، واٹس ایپ وغیرہ ۔۔۔۔ پر اپنے فرینڈز میں شامل پبلشروں، ادیبوں، شاعروں، اینکروں، کالم نویسوں، ایڈیٹروں، رپورٹروں، پروفیسروں/ اساتذہ غرض پیشہ ور اور غیر پیشہ ور ہر دو انواع کے لکھنے والوں کو عصری رجحانات سے واقف رہنے کی تحریک دیجیے۔

خاص طور سے اپنے بچوں کو ہم آج عصری رجحانات سے نا واقف رکھیں گے تو ہمارا ملک، معاشرہ اور افرادِ معاشرہ یعنی میں اور آپ اپنے بچوں سمیت دنیا میں اسی طرح بہت پیچھے رہ جائیں گے جیسے کئی سو سال سے چلے آ رہے ہیں۔

Sunday, June 23, 2019

مافیائی نظام میں مثبت انداز سے جینے کا واحد طریقہ

پوری دنیا میں چالاک لوگ گروپ، لابیاں، جتھے، ٹولے یا سادہ الفاظ میں مافیا بنا کر انتہائی سفاکی اور بے حسی سے ایک دوسرے کا استحصال کر رہے ہیں۔ جو سادہ فطرت کے انسان گروپوں، لابیوں، جتھوں اور مافیا میں شامل نہیں ہوتے انھیں تو زندہ در گور کر دیا جاتا ہے۔

ہم سب کو اس پر غور کرنا چاہیے۔

میرے عاجزانہ خیال میں ہم ایک خیال کے لوگوں کو اپنے خیالات کے مطابق عمل کی دنیا میں بھی متحد ہونا چاہیے۔

جن عذابوں میں اس نظام اور چالاک لوگوں نے سادہ فطرت کے لوگوں کو ڈالا ہوا ہے، ان سے بچ کر زندگی بسر کرنے کے لیے متحد ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔

یہ سادہ سی بات ہے جسے بعض لوگ احمقانہ بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن سفاک نظام اور انتہائی بے حس لوگوں کے معاشرے میں مثبت ذہن، مثبت سوچ، مثبت فطرت والے، ساری نوعِ انسان کی بھلائی پر یقین رکھنے والے سیدھے سادے انسانوں اور ان کی فیملیوں کو زندہ در گور ہونے سے بچانا میرے عاجزانہ خیال میں سب سے اہم، ضروری بلکہ لازمی ہے اور ایسا صرف مقامی سطح پر یعنی اپنے گلی محلے میں متحد ہو کر ہی ممکن ہے۔

Thursday, June 20, 2019

اُس نے جب چاہنے والوں سے اِطاعت چاہی

اُس نے جب چاہنے والوں سے اِطاعت چاہی
ہم نے آداب کہا اور اِجازت چاہی

یونہی بے کار میں کب تک کوئی بیٹھا رہتا
اس کو فُرصت جو نہ تھی ہم نے بھی رُخصت چاہی

شِکوہ ناقَدریِ دُنیا کا کریں کیا کہ ہمیں
کچھ زیادہ ہی ملی جتنی مُحبت چاہی

رات جب جمع تھے دُکھ دِل میں زَمانے بھر کے
آنکھ جَھپکا کے غمِ یار نے خلوت چاہی

ہم جو پامالِ زمانہ ہیں تو حَیرت کیوں ہے
ہم نے آبا کے حوالے سے فَضِیلت چاہی

میں تو لے آیا وہی پیرہنِ چاک اپنا
اُس نے جب خلعت و دستار کی قیمت چاہی

حُسن کا اپنا ہی شیوہ تھا تعلق میں فراز
عشق نے اپنے ہی انداز کی چاہت چاہی

شاعر: احمد فراز

Wednesday, June 19, 2019

آف یا اَو ۔۔۔۔۔ of کا درست تلفظ کیا ہے؟

لفظ of کو "آف" بولنا نادرست ہے۔

لفظ of کا تلفظ ہے "اَو"۔

شاید لکھا ہوا تلفظ بعض دوستوں کو سمجھ نہ آئے۔ وہ یوٹیوب پر سن سکتے ہیں۔

"آف" اس لفظ کا تلفظ ہے: off

اسے بھی دوست یوٹیوب پر سن سکتے ہیں۔

پلیز جو جانیے، اپنے بچوں کو بھی بتائیے اور دوستوں کو بھی۔ اور اپنے اس ناچیز دوست کو دعاؤں میں یاد رکھیے، جس کا روزی کمانے کا ہر وسیلہ چھین لیا گیا ہے اور روزی کمانے کا ہر دروازہ ظالموں نے بند کر دیا ہے۔ خدا سب اچھے دل والے انسانوں کو اپنی امان میں رکھے۔

Friday, June 14, 2019

اردو میں تُرک ادیبوں کے غلط نام اور ٹی وی پر جہالت کے خنجر سے تاریخ کا قتل

موجودہ ترکی زبان لاطینی حروفِ تہجی میں لکھی جاتی ہے۔ اس میں پرانے تُرکی الفاظ کے ہجے بدلے ہوئے ہیں۔

ترک نام Orhan کو ہمارے ہاں "اورحان" لکھا جا رہا ہے۔

یہ دراصل دو نام ہیں۔ ایک "اور" جسے "اُر" بھی لکھا جاتا ہے۔ دوسرا خان۔

خان تو ہمارے ہاں دسیوں لاکھ لوگوں کے ناموں کا حصہ ہے۔

"اور خان" قدیم ترکی کی ایک عظیم شخصیت کا نام تھا۔ اردو کی پرانی تاریخ کی کتابوں اور پرانے تاریخی ناولوں میں اس شخصیت کا ذکر ملتا ہے۔

جس تُرک ادیب کا نام ہمارے ہاں "اورحان" غلط لکھا جا رہا ہے، یہ ان کا پورا نام نہیں۔ "اور خان" سے پہلے بھی ایک لفظ ہے۔ یہ نام بھی ہمارے ہاں لاکھوں لوگوں کا نام ہے لیکن موجودہ تُرکی میں جس طرح لکھا جاتا ہے، یقیناً غلط نام "اورحان" لکھنے والے اسے بھی غلط لکھتے۔

ترک ادیبہ الف شفق کا نام بھی ہمارے ہاں غلط لکھا جا رہا ہے۔

مجھے جیو ٹی وی کے لیے ایک تُرکی سوپ کی چند ابتدائی اقساط انگریزی سے اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ کراچی گیا تو دیکھا کہ جیو ٹی وی کے شعبے "ایڈیپٹیشنز" میں سب لوگ اس ترکی سوپ کا عنوان تک غلط بول رہے تھے۔ درست عنوان تھا "گُمُش۔" اس کے معنی ہیں چاندی۔

ترکی سوپ کے ذکر سے ایک نہایت لرزہ خیز واقعہ یاد آ گیا، جو ثبوت ہے کہ ٹی وی چینل تاریخی و تہذیبی حقائق برباد کرنے والے چالاک اجہلوں کو تو لاکھوں روپے تنخواہیں دے رہے ہیں مگر باعلم، محنتی اور دیانت دار ٹرانسلیٹروں کو کنٹریکٹ پر بھی رکھیں تو ان کی محنت کی اجرت نہیں دیتے۔ یہ الم ناک واقعہ ایک معروف ترین/ بڑے ٹی وی چینل کے ٹرانسلیٹر نے خود سنایا تھا۔ اس نے بتایا کہ "میں نے ڈرامے کے عثمانی ترک کردار سے نعرۂ حیدری لگوایا۔"

یہ تاریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ تھا۔

یہ تاریخی حقیقت سب جانتے ہیں کہ عثمانی تُرکوں کی افواج کا نعرہ "نعرۂ حیدری" کبھی نہیں رہا۔

یوں اس ٹی وی چینل سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ لینے والے ٹرانسلیٹر نے جہالت کے خنجر سے تاریخ کو قتل کر دیا تھا۔

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...