ناچیز خود بھی معمولی سا مترجم ہے۔ عرض کرنے کی جسارت کروں گا کہ جب دنیا ڈیجیٹل اور پیپرلیس ہو رہی ہے، ہم اپنے بچوں کو صدیوں پرانی اور جلد کاملاً متروک ہو جانے والی ٹیکنولوجی یعنی پیپر پرنٹنگ تک ہی محدود رکھ رہے ہیں۔
افسوس ہمارے پبلشر عصری رجحانات سے واقف ہونے کے لیے اپنے ٹریڈ ہی کی کتابیں اور جرائد تک نہیں پڑھتے ۔۔۔۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم مترجموں، ادیبوں، شاعروں، نقادوں، پروفیسر و غیر پروفیسر دانشوروں، اینکروں، کالم نویسوں، ایڈیٹروں اور رپورٹروں وغیرہ میں سے بھی بہت کم عصری #رجحانات سے آگاہ رہنے کے لیے تازہ ترین کتابیں اور جرائد پڑھتے ہیں ۔۔۔۔ اس لیے پاکستان میں پبلشنگ کا کاروبار اور لکھنے کا شعبہ عصری رجحانات سے ہم آہنگ نہیں۔
احباب سے گذارش ہے کہ حقیقی زندگی میں اپنے دوستوں اور سوشل میڈیا ۔۔۔۔ فیس ںک،بٹوئٹر، واٹس ایپ وغیرہ ۔۔۔۔ پر اپنے فرینڈز میں شامل پبلشروں، ادیبوں، شاعروں، اینکروں، کالم نویسوں، ایڈیٹروں، رپورٹروں، پروفیسروں/ اساتذہ غرض پیشہ ور اور غیر پیشہ ور ہر دو انواع کے لکھنے والوں کو عصری رجحانات سے واقف رہنے کی تحریک دیجیے۔
خاص طور سے اپنے بچوں کو ہم آج عصری رجحانات سے نا واقف رکھیں گے تو ہمارا ملک، معاشرہ اور افرادِ معاشرہ یعنی میں اور آپ اپنے بچوں سمیت دنیا میں اسی طرح بہت پیچھے رہ جائیں گے جیسے کئی سو سال سے چلے آ رہے ہیں۔