دُکھ سُکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا
اِک وہ بھی تھا زمانا، اک یہ بھی ہے زمانا
دادا حیات تھے جب، مٹّی کا ایک گھر تھا
چوروں کا کوئی کھٹکا نہ ڈاکووں کا ڈر تھا
کھاتے تھے رُوکھی سُوکھی، سوتے تھے نیند گہری
شامیں بھری بھری تھیں، آباد تھی دوپہری
سنتوش تھا دلوں کو، ماتھے پہ بل نہیں تھا
دل میں کَپَٹ نہیں تھا، آنکھوں میں چَھل نہیں تھا
تھے لوگ بھولے بھالے لیکن تھے پیار والے
دنیا سے کتنی جلدی سب ہو گئے روانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا
اک وہ بھی تھا زمانا، اک یہ بھی ہے زمانا
اَبّا کا وقت آیا، تعلیم گھر میں آئی
تعلیم ساتھ اپنے تازہ وِچار لائی
آگے روایتوں سے بڑھنے کا دھیان آیا
مٹی کا گھر ہٹا تو پَکّا مکان آیا
دفتر کی نوکری تھی تنخواہ کا سہارا
مالک پہ تھا بھروسا، ہو جاتا تھا گزارا
پَیسا اگرچہ کم تھا، پھر بھی نہ کوئی غم تھا
کَیسا بھرا پُرا تھا اپنا غریب خانہ
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا
اک وہ بھی تھا زمانا، اک یہ بھی ہے زمانا
اب میرا دور ہے یہ، کوئی نہیں کسی کا
ہر آدمی اکیلا، ہر چہرہ اجنبی سا
آنسو نہ مسکراہٹ، جِیون کا حال ایسا
اپنی خبر نہیں ہے مایا کا جال ایسا
پَیسا ہے مرتبہ ہے، عزت وقار بھی ہے
نوکر ہیں اور چاکر، بنگلہ ہے کار بھی ہے
زر پاس ہے زمیں ہے لیکن سُکُوں نہیں ہے
پانے کے واسطے کچھ کیا کیا پڑا گنوانا
دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا
اک وہ بھی تھا زمانا، اک یہ بھی ہے زمانا
اَے آنے والی نسلو، اے آنے والے لوگو
بھوگا ہے ہم نے جو کچھ وہ تم کبھی نہ بھوگو
جو دکھ تھا ساتھ اپنے تم سے قریب نہ ہو
پِیڑا جو ہم نے جھیلی تم کو نصیب نہ ہو
جس طرح بھیڑ میں ہم زندہ رہے اکیلے
وہ زندگی کی محفل تم سے نہ کوئی لے لے
تم جس طرف سے گزرو میلہ ہو روشنی کا
راس آئے تم کو موسم اکیسویں صدی کا
ہم تو سُکُوں کو ترسے تم پر سُکُون برسے
آنند ہو دلوں میں، جیون لگے سہانا
شاعر: ظفر گورکھپوری