Wednesday, January 23, 2019

بے بس مریضوں کے "قاتلوں" سے فخر کے ساتھ تعلق کیوں رکھتے ہیں ہم؟

آپ سب کی طرح میرے ذہن میں بھی ہمیشہ یہ خیال ابھرتا ہے کہ ہمارے ہاں انسانوں کی دیکھ بھال کا، حفظانِ صحت کا نظام کیوں بہتر نہیں؟

ہمارے سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے ڈاکٹر، نرسیں، پیرامیڈکس، ہسپتال کی لیبارٹری، بلڈ بینک اور دوسرے شعبوں کے ملازم اپنا پیشہ ورانہ حلف پامال کر کے بے بس مریضوں کو "قتل" کیوں کرتے ہیں؟

میں نے کسی دور افتادہ صحرائی گاؤں، پہاڑوں میں گھری بستی نہیں بلکہ اپنے شہر لیہ میں، ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں آج سے 30 سال پہلے اپنے صحافتی کریئر کے آغاز میں اور لاہور، ملتان اور کراچی جیسے شہروں کے بڑے سرکاری ہسپتالوں میں خود دیکھا کہ ڈاکٹر، نرسیں، پیرامیڈکس، ہسپتال کی لیبارٹری، بلڈ بینک اور دوسرے شعبوں کے ملازم حتیٰ کہ ایمرجنسی میں متعین ڈاکٹر، نرسیں، پیرامیڈکس، ہسپتال کی لیبارٹری، بلڈ بینک اور دوسرے شعبوں کے ملازم شعوری طور سے، ارادتاً، جان بُوجھ کر بے بس مریضوں کو "قتل" کرتے ہیں۔

اس خِطّے یعنی جنوبی ایشیا کے پاکستان سے بہت بڑے اور بے پناہ وسائل والے ملک بھارت سمیت سارے دوسرے ملکوں کے سرکاری و نجی ہسپتالوں کے ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈکس، ہسپتال کی لیبارٹری، بلڈ بینک اور دوسرے شعبوں کے ملازموں کا یہی حال ہے، جس کے بارے میں اخبارات اور کتابیں پڑھنے نیز فلمیں/ مُووِیاں دیکھنے والے سب لوگ جانتے ہیں۔

حَسّاس انسان سوچتا ہے کہ ان معاشروں کے لوگ مثبت سوچ کے ساتھ اپنے اپنے دائرے یعنی اپنی گلی، اپنے محلّے میں دوسرے مثبت ذہن کے لوگوں کے ساتھ مل کر حالات کی بہتری کے کام کیوں نہیں کرتے؟

ہم لوگ بے بس مریضوں کے "قاتلوں" سے فخر کے ساتھ تعلق رکھنے کی بجائے ان کے ساتھ مراسم ختم کرنے کا مثبت، دلیرانہ اور باضمیر فیصلہ کیوں نہیں کرتے، قاتلوں کا سماجی مقاطعہ/ سوشل بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟

Tuesday, January 22, 2019

تمام دُکھ ہے

گوتم کا آخری وعظ

مَيں دُکھ اُٹھا کر

مِرے عزيزو! مَيں دکھ اٹھا کر

حيات کی رمزِ آخريں کو سمجھ گيا ہوں: تمام دکھ ہے

وجود دکھ ہے، وجود کی يہ نمود دکھ ہے

حيات دکھ ہے، مَمَات دکھ ہے

يہ ساری موہوم و بے نشاں کائنات دکھ ہے

شعور کيا ہے ؟ اک اِلتِزامِ وجود ہے، اور وجود کا التزام دکھ ہے

جدائی تو خير آپ دکھ ہے، مِلاپ دکھ ہے

کہ ملنے والے جدائی کی رات ميں ملے ہيں، يہ رات دکھ ہے

يہ زندہ رہنے کا، باقی رہنے کا شوق، يہ اہتمام دکھ ہے

سکوت دکھ ہے، کہ اس کے کربِ عظيم کو کون سہہ سکا ہے

کلام دکھ ہے، کہ کون دنيا ميں کہہ سکا ہے جو ماورائے کلام دکھ ہے

يہ ہونا دکھ ہے، نہ ہونا دکھ ہے، ثبات دکھ ہے، دوام دکھ ہے

مِرے عزيزو! تمام دکھ ہے!

مِرے عزيزو! تمام دکھ ہے!

شاعر: اسلم انصاری، مُلتان

Monday, January 14, 2019

دُکھ سُکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا

دُکھ سُکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا

اِک وہ بھی تھا زمانا، اک یہ بھی ہے زمانا

دادا حیات تھے جب، مٹّی کا ایک گھر تھا

چوروں کا کوئی کھٹکا نہ ڈاکووں کا ڈر تھا

کھاتے تھے رُوکھی سُوکھی، سوتے تھے نیند گہری

شامیں بھری بھری تھیں، آباد تھی دوپہری

سنتوش تھا دلوں کو، ماتھے پہ بل نہیں تھا

دل میں کَپَٹ نہیں تھا، آنکھوں میں چَھل نہیں تھا

تھے لوگ بھولے بھالے لیکن تھے پیار والے

دنیا سے کتنی جلدی سب ہو گئے روانہ

دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا

اک وہ بھی تھا زمانا، اک یہ بھی ہے زمانا

اَبّا کا وقت آیا، تعلیم گھر میں آئی

تعلیم ساتھ اپنے تازہ وِچار لائی

آگے روایتوں سے بڑھنے کا دھیان آیا

مٹی کا گھر ہٹا تو پَکّا مکان آیا

دفتر کی نوکری تھی تنخواہ کا سہارا

مالک پہ تھا بھروسا، ہو جاتا تھا گزارا

پَیسا اگرچہ کم تھا، پھر بھی نہ کوئی غم تھا

کَیسا بھرا پُرا تھا اپنا غریب خانہ

دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا

اک وہ بھی تھا زمانا، اک یہ بھی ہے زمانا

اب میرا دور ہے یہ، کوئی نہیں کسی کا

ہر آدمی اکیلا، ہر چہرہ اجنبی سا

آنسو نہ مسکراہٹ، جِیون کا حال ایسا

اپنی خبر نہیں ہے مایا کا جال ایسا

پَیسا ہے مرتبہ ہے، عزت وقار بھی ہے

نوکر ہیں اور چاکر، بنگلہ ہے کار بھی ہے

زر پاس ہے زمیں ہے لیکن سُکُوں نہیں ہے

پانے کے واسطے کچھ کیا کیا پڑا گنوانا

دکھ سکھ تھا ایک سب کا اپنا ہو یا بیگانا

اک وہ بھی تھا زمانا، اک یہ بھی ہے زمانا

اَے آنے والی نسلو، اے آنے والے لوگو

بھوگا ہے ہم نے جو کچھ وہ تم کبھی نہ بھوگو

جو دکھ تھا ساتھ اپنے تم سے قریب نہ ہو

پِیڑا جو ہم نے جھیلی تم کو نصیب نہ ہو

جس طرح بھیڑ میں ہم زندہ رہے اکیلے

وہ زندگی کی محفل تم سے نہ کوئی لے لے

تم جس طرف سے گزرو میلہ ہو روشنی کا

راس آئے تم کو موسم اکیسویں صدی کا

ہم تو سُکُوں کو ترسے تم پر سُکُون برسے

آنند ہو دلوں میں، جیون لگے سہانا

شاعر: ظفر گورکھپوری

راہ بَر لُوٹ نہ لیں مجھ کو اکیلا پا کر

راہ بَر لُوٹ نہ لیں مجھ کو اکیلا پا کر

رہ زَنو دُور نہ جاؤ مجھے ڈر لگتا ہے

شاعر: قتیل شفائی

Thursday, January 10, 2019

ناموں کا اک ہجوم سہی میرے آس پاس

ناموں کا اک ہجوم سہی میرے آس پاس

دل سن کے ایک نام دھڑکتا ضرور ہے

یہ بہت مشہور شعر ہے۔ یقیناً آپ نے بھی کبھی نہ کبھی اسے پڑھا یا سنا ہو گا۔

یہ مقبول شعر اردو کے معروف شاعر ساقی فاروقی کا ہے۔

Tuesday, January 1, 2019

تاج محل ثانی کی مختصر تاریخ

فیض الحسن قادری کیسر کلاں، ضلع بلند شہر، اتر پردیش، بھارت کے ریٹائرڈ پوسٹ ماسٹر تھے۔

انھیں اپنی بیوی تَجَمُّلی بیگم سے بہت محبت تھی۔ تجملی بیگم گلے کے کینسر کی وجہ سے دسمبر 2010ء میں فوت ہو گئیں۔

فیض الحسن قادری نے اپنی محبوب بیوی سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے ان کی قبر پر "تاج محل ثانی" بنوایا۔ یہ تاج محل ثانی انھوں نے بستی میں اپنی زمین پر بنوایا۔

بیوی کی محبت میں انھوں نے اپنی زمین کا باقی حصہ بستی کی بچیوں کو تعلیم دینے کے لیے سکول تعمیر کرنے کی غرض سے وقف کر دیا۔

بچیوں کا یہ سکول "تاج محل ثانی" کے پاس ہی تعمیر ہو چکا ہے۔

تاج محل ثانی اور بچیوں کے سکول کی تعمیر کے لیے زمین وقف کرنے کی وجہ سے معروف و مشہور ہو جانے والے فیض الحسن 8 نومبر 2018ء کو اپنے گھر کے پاس چہل قدمی کر رہے تھے کہ کسی نا معلوم شخص نے انھیں موٹر بائیک سے ٹکر مار دی۔ وہ شدید زخمی ہو گئے۔ انھیں پہلے بستی میں طبی امداد دی گئی اور بعد میں بہتر علاج کے لیے علی گڑھ کے ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ صحت یاب نہیں ہو سکے اور 9 نومبر 2018ء کو وفات پا گئے۔

2014ء میں تاج محل ثانی کی تعمیر کے دوران فیض الحسن قادری کے پاس پیسے ختم ہو گئے تھے۔ وہ تاج محل ثانی تعمیر کروانے کی وجہ سے بہت مشہور ہو چکے تھے۔ ان کی شہرت کی وجہ سے وزیرِ اعلیٰ اکھیلیش یادو نے انھیں ملاقات کے لیے لکھنؤ بلایا اور تاج محل ثانی کی تعمیر مکمل کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے مالی مدد کی پیش کش کی۔

فیض الحسن قادری نے ان کی پیش کش قبول نہیں کی۔ انھوں نے کہا وہ چاہتے ہیں کہ حکومت اس رقم سے گاؤں کی بچیوں کے لیے سکول تعمیر کروا دے جس کے لیے وہ چار بیگھہ زمین بِلا قیمت دیں گے۔

اس کے بعد تاج محل ثانی کی تعمیر اس طرح مکمل ہوئی کہ انھوں نے اپنی پینشن کی رقم اس کارِ محبت پر خرچ کر دی۔

ایک واٹس ایپ اکاؤنٹ پانچ موبائل فونوں پر استعمال کرنے کا طریقہ How to Use A WhatsApp Account on multiple Mobile Phones

 You can now use the same WhatsApp account on multiple phones at the same time, using your primary phone to link up to four devices. You’ll ...