کرونا وائرس پھیلنا شروع ہوا تو حسبِ معمول کسی نے فلم، کسی نے کتاب اور کسی نے پرانے پیش گووں کی پیش گوئیوں کے حوالے دے کر اس دہشت ناک معاملے کی سنگینی اور لوگوں کے خوف و اضطراب میں اضافہ کر دیا۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق اس وبا جیسے دہشت ناک اور ناقابلِ فہم واقعات کے بارے میں انسان قدیم زمانوں سے اس طرح کے اندازے لگاتا آیا ہے۔ تاہم امریکی ایسی قیاس آرائیوں کو "کَنس پی رے سی تھیوری" conspiracy theory کہتے ہیں۔ چوں کہ یہاں تفصیل سے لکھنے کی گنجائش نہیں اس لیے اس موضوع پر اپنا حاصلِ مطالعہ الگ مضمون کی صورت اپنے بلاگ پر پبلش کروں گا۔ یہاں ایک اہم بات عرض کرتا چلوں کہ بعض لوگوں نے دوسری بہت سی انگریزی/ امریکی اصطلاحات، الفاظ اور محاورات کی طرح اس اصطلاح کا بھی اردو میں محض لفظی ترجمہ کیا ہوا ہے۔ دوست جانتے ہیں کہ لفظی ترجمے عموماً غلط ہوتے ہیں اور اصل معانی سمجھنے میں بالکل مدد نہیں کرتے۔ اس موضوع پر بھی الگ مضمون اپنے بلاگ پر پبلش کروں گا۔
کووِڈ نائنٹِین کی وبا دنیا بھر میں پھیلنے لگی تو عالمی ادارۂ صحت/ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، گوگل، فیس بک، واٹس ایپ اور دوسری سوشل میڈیا کمپنیوں کے اعلیٰ ترین عہدہ داروں نے خصوصی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ کرونا وائرس کے بارے میں عالمی ادارۂ صحت اور دوسرے مستند اداروں کے سِوا کسی بھی ادارے یا فرد کی تحریر یا آڈیو ویڈیو کلپ انٹرنیٹ پر پھیلانے نہیں دیے جائیں گے۔ راقم نے یہ سٹوری فیس بک پر اپنی ٹائم لائن پر اُسی دن شیئر کی تھی۔ اس کے علاوہ ترقی یافتہ ملکوں کی ہر شعبے کی ویب سائٹ پر کرونا وائرس اور کووِڈ نائنٹِن کے بارے میں مستند معلومات مفت مہیا کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔ جو ویب سائٹیں عام حالات میں ایک سٹوری بھی مفت پڑھنے نہیں دیتی تھیں وہ بھی اس وبا سے متعلق معلومات مفت مہیا کرنے لگیں۔
اس سلسلے کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ افواہوں کے ساتھ ساتھ ایسی سنجیدہ سٹوریاں بھی پبلش ہونے لگیں جن میں بتایا گیا تھا کہ اہلِ علم و دانش، تھنک ٹینک یعنی علمی تحقیقی ادارے اور اہم سرکاری ادارے خصوصاََ جاسوس ادارے بھی ایک عالم گیر وبا کے بارے میں بہت پہلے سے خبردار کرتے آ رہے ہیں۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں بھی راقم کی نظر سے گزری ہیں، جن میں سے چند ایک فیس بک پر اپنی ٹائم لائن پر شیئر بھی کی تھیں۔ ان کتابوں میں جو امکانات و خدشات بیان کیے گئے تھے، ان کا خلاصہ بھی الگ مضمون کی صورت اپنے بلاگ پر پبلش کروں گا۔
چند دن پہلے ایک مؤقر امریکی نیوز سائٹ اے بی سی نیوز پر ایک سٹوری چھپی جس میں بتایا گیا تھا کہ امریکا کے ایک جاسوس ادارے "نیشنل سینٹر فار میڈیکل اِنٹَیلی جَینس (این سی ایم آئی)" نے نومبر 2019ء میں امریکا کے صدر ٹرمپ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں انھیں اطلاع دی گئی تھی کہ جلد ہی ایک عالم گیر وبا پھیلنے کا خدشہ ہے۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سٹوری میں بتایا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کو یہ اطلاعات مسلسل فراہم کی جاتی رہیں حتیٰ کہ جنوری 2020ء کے شروع میں صدر کو جاسوس اداروں کی اطلاعات پر مبنی روزانہ دی جانے والی بریفنگ "پریزیڈینٹس ڈیلی بریف" President's Daily Brief میں تفصیل سے اس مسئلے کے بارے میں بتایا گیا۔
ان تفصیلات کے بعد اے بی سی نیوز کی سٹوری میں این سی ایم آئی کے ڈائریکٹر کرنل رے شین ڈے کا یہ بیان بھی شامل کیا گیا ہے کہ این سی ایم آئی نے نومبر 2019ء میں ایسی کوئی رپورٹ تیار نہیں کی تھی۔ بہ ہر کیف اب تو صرف میڈیا ہی کے لوگ اس نوع کے تردیدی بیانوں کی حقیقت نہیں جانتے بلکہ سوشل میڈیا کے توسط بیش تر لوگ ایسے تردیدی بیانات کی اصلیت سمجھنے لگے ہیں۔
اگرچہ این سی ایم آئی کے ڈائریکٹر نے اس بات کی تردید کی لیکن اس سے پہلے اَیمے زَن ڈَوٹ کَوم نامی دنیا کے سب سے بڑے آن لائن بازار کے مالک اور ڈالروں میں تاریخ کے پہلے کھرب پتی جیف بے زس Jeff Bezos کے ملکیتی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی اسی موضوع پر ایک خصوصی سٹوری شائع کی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی سٹوری میں خبر دی تھی کہ امریکی جاسوس اداروں نے چین اور دوسرے ملکوں میں کرونا وائرس کے پھیلنے کا مسلسل جائزہ لینے سے حاصل ہونے والی اطلاعات کی روشنی میں صدر ٹرمپ کو جنوری اور فروری میں آگاہ کر دیا تھا کہ یہ وبا امریکا تک بھی پہنچنے والی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ صدر ٹرمپ نے عالم گیر وبا کے خدشات پر مبنی ان اطلاعات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ برطانیہ کے مؤقر اخبار دی گارڈیئن نے بھی واشنگٹن پوسٹ کی اس سٹوری کی بنیاد پر ایک سٹوری پںلش کی۔
دو دن پہلے "عالمی آراء کا صفحہ" کے مَوٹو کی حامل معروف نیوز سائٹ "پروجیکٹ سنڈیکیٹ" اور یورپی یونین کے ڈی فَیکٹو دارالحکومت برسلز سے شائع ہونے والے اخبار "نیو یورپ" کی سائٹ پر ایک اہم سٹوری شائع ہوئی۔ اسے سی آئی اے کے سابق سینیئر تجزیہ کار اور ڈائریکٹر آف پبلک افیئرز کینٹ ہَیرِنگٹَن نے لکھا تھا، جو نیشنل انٹیلی جینس آفیسر برائے مشرقی ایشیا کے علاوہ ایشیا میں سی آئی اے کے چیف آف سٹیشن کے عہدوں پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
کینٹ ہیرنگٹن نے بھی واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کی محولہ بالا سٹوریوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ صدر ٹرمپ نے وبا کے بارے میں پیشگی دی جانے والی خفیہ رپورٹوں پر کوئی توجہ نہیں دی تھی، جس کے نتیجے میں امریکا میں کووِڈ نائنٹِین سے بہت زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور حفظانِ صحت کے نظام پر بہت زیادہ بوجھ پڑا۔
کینٹ ہیرنگٹن نے مزید انکشافات کیے کہ امریکا کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جینس نے کانگریس کو دی جانے والی سالانہ "تھریٹ بریفنگ" میں ایک عالم گیر وبا کے خطرے سے آگاہ کیا تھا۔ انھوں نے مزید انکشاف کرتے ہوئے لکھا کہ جنوری 2009ء میں صدر اوباما کے منصبِ صدارت سنبھالنے کے فوری بعد پہلی مرتبہ اس وقت کے ڈائریکٹر آف انٹیلی جینس ڈینس بلیئر نے سینیٹ سیلیکٹ کمیٹی آن انٹیلی جینس کو پیش کردہ "سالانہ تھریٹ اسیسمینٹ آف دی انٹیلی جینس کمیونٹی" میں خبردار کیا تھا کہ ایک خطرناک وبا امریکا میں پھیلنے کا خدشہ ہے، جس کے بارے میں پختہ امکان ہے کہ یہ وبا انتہائی ہلاکت خیز انفلوئنزا وائرس سے پھیلے گی۔ سوائن فلو کی وبا پھیلنے کے بعد ڈائریکٹر آف انٹیلی جینس ڈینس بلیئر نے 2010ء میں ایک بار پھر ایک ایسی وبا پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جو امریکا کی معیشت کو تباہ کر دے گی۔ انھوں نے کہا تھا، "جانوروں کی بیماریوں پر مستقل نظر رکھنے اور ان کی تشخیص کے فقدان کی وجہ سے" امریکا وبا پھیلنے سے پہلے انھیں روکنے کی اہلیت سے قاصر ہے۔ ان کے بعد ڈائریکٹر آف انٹیلی جینس کا عہدہ سنبھالنے والے جیمز کلیپر نے مارچ 2013ء میں وبا کی درست تفصیل بیان کی تھی۔ انھوں نے جانوروں سے انسانوں کو لگنے والی بیماری کے خطرے سے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا، "سانس کی بیماری کا باعث بننے والے اور ایک انسان سے دوسرے انسانوں کو بآسانی متاثر کرنے والے نئے/ ناول جرثومے کا پھیلنا سب سے زیادہ تباہ کن امکانی خطرات میں سے ایک ہے۔" یہ جرثومہ جن انسانوں کو متاثر کرے گا ان میں سے ایک فی صد سے زیادہ ہلاک یا معذور ہو سکتے ہیں۔ "یہ جرثومہ عالم گیر وبا کا باعث بن سکتا ہے۔" کینٹ ہیرنگٹن نے لکھا ہے کہ ڈائریکٹر آف انٹیلی جینس جیمز کلیئر نے کووِڈ نائنٹین کی ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کرتے ہوئے صراحت کی تھی، "یہ محض مفروضہ خطرہ نہیں ہے۔"
انھوں نے مزید انکشاف کرتے ہوئے لکھا کہ مئی 2017ء میں صدر ٹرمپ کو بھی ڈائریکٹر آف انٹیلی جینسں ڈینیئل کوٹس نے عالمی بینک کی اس پیش گوئی سے آگاہ کیا تھا کہ ایک وبا پھیلنے کا خدشہ ہے جس سے دنیا کو عالمی جی ڈی پی کے پانچ فی صد کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے بعد ڈینیئل کوٹس ہی نے 2019ء میں سینیٹ کو بتایا، "امریکا اور دنیا بھر میں فلو یا کوئی چھوت کی بیماری پھیلنے کا خدشہ ہے، جو بڑے پیمانے پر ہلاکتوں اور معذوری کا سبب بن سکتی ہے اور عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔"
کینٹ ہیرنگٹن لکھتے ہیں کہ ڈائریکٹر آف انٹیلی جینس کا سالانہ جائزہ ہی ایسی واحد غیر خفیہ بریفنگ نہیں تھی جس میں وبا کے خطرے سے خبردار کیا گیا ہو لیکن صدر ٹرمپ نے ان پر توجہ نہیں دی۔
مضمون کے الفاظ کی تعداد پوری ہو رہی ہے۔ یہ بہت اہم اور وسیع موضوع ہے۔ امریکی جاسوس اداروں کی محولہ بالا غیر خفیہ پیش گوئیوں کے مطابق عالم گیر وبا پھیل چکی ہے تو عالمی معیشت، معاشرت، سیاست اور انسانی نفسیات پر اس کے امکانی اثرات کے بارے میں راقم اپنا حاصلِ مطالعہ آئندہ اپنے بلاگ پر مضامین کی صورت پبلش کرتا رہے گا۔