سیّد سبطِ علی صبا کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔ ان کا یہ شعر بہت مقبول ہے:
دیوار کیا گِری مِرے کَچُے مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رَستے بنا لیے
منتخب اشعار:
جلتے جلتے بجھ گئی اک موم بتی رات کو
مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچی رات کو
جب چلی ٹھنڈی ہَوا بچّہ ٹِھٹَھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لعل کی تختی جلا دی رات کو
حریص آنکھیں شکار کی جستجو میں ہر اک کو گھورتی ہیں
سنبھل کے چلنا غریب جائی، ہَوَس کا کیچڑ جگہ جگہ ہے
جو سُوت کاتنے میں رات بھر رہی مصروف
اسی کو سر کے لیے اوڑھنی نہیں ملتی
تنگ آ کے ہم جو بیچنے نکلے وفا صبا
بازار نے خلوص کے بھاؤ گرا دیے
شہر والوں سے حقارت کے سوا کچھ نہ ملا
زندگی آ تجھے لے جاؤب کسی گاؤ ں میں
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے
آندھی چلی تو گرد سے ہر چیز اٹ گئی
دیوار سے لگی تری تصویر پھٹ گئی
سورج کی برچھیوں سے مرا جسم چھد گیا
زخموں کی سولیوں پہ مری رات کٹ گئی
احساس کی کرن سے لہو گرم ہو گیا
سوچوں کے دائروں میں تری یاد بٹ گئی
یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں
عجیب سوچ ہے اس شہر کے مکینوں کی
مکاں نئے ہیں مگر کھڑکیاں پرانی ہیں
پلٹ کے گاؤں میں میں اس لیے نہیں آیا
مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ہیں
سفر پسند طبیعت کو خوفِ صحرا کیا
صباؔ ہوا کی وہی سیٹیاں پرانی ہیں
اس شہر میں اب شورِ سگاں کیوں نہیں اٹھتا
آبـاد مکـاں ہیـں تو دھـواں کیـوں نہیں اٹھـتا